رام جیٹھملانی
21 اکتوبر، 2013
یہ وقت کا ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ دہشت گرد مسلسل اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اپنے عظیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام کی خدمت کر رہے ہیں ۔
بن لادینیت کا سیاہ دور کا مہذب دنیا پر حاوی ہونا جاری ہے، دنیا بھر میں دہشت گردی کئی جماعتوں کا ایک مسلمہ نظریہ بن گئی ہے جنہیں اقوام متحدہ کی اصطلاح میں " غیر ریاستی عناصر " کے طور پر جانا جاتا ہے ، یہ کئی ریاستوں کے اسلوب حکومت میں ایک لازمی حکمت عملی بن چکی ہے مثلاً ہمارے پڑوسی ملک پاکستان کو ہی دیکھ لیں اور یہ ایسے لوگوں کے لئے ایک نظام حیات بن چکی ہے جن کی منفی ذہن سازی کی گئی ہے اور جو گمراہیت کا شکار ہو گئے ہیں اور اقتدار کے نشے میں مخمور قرون وسطی کے ان کے رہنماؤں کے لئے بھی یہ ایک نظام حیات بن چکا ہے جو عوام ، پیسہ اور اسلحہ کو کنٹرول کرنے کے لئے بن لادینیت کو ایک بہترین آلہ کار پاتے ہیں اور دنیا پر اپنا تسلط جمانے کے وہم و گمان میں پڑے ہوئے ہیں ۔ ان کا نظریہ اور اس پر ان کا عمل جس کی وکالت معصوم لوگوں کے خلاف دہشت گردی کے ذریعے کے کی گئی ہے سیموئیل ہنٹنگٹن کے مقالہ تہذیب کا تصادم کو آسان اور معمولی بناتا ہے ۔ اس لئے کہ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں تہذیبوں کا تصادم نہیں ہے بلکہ یہ دنیا کی اجتماعی تہذیبوں کے درمیان ایک تصادم اور دہشت گردی کی بربریت ہے ۔ یہ تصادم عصر حاضر کے لئے ایک سنگین چیلنج بن گیا ہے جس کا ابھی تک بین الاقوامی برادری یا متاثرہ ممالک کے ذریعہ کوئی حل نہیں تلاش کیا گیا ہے ۔
میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران دہشت گردی کے ارتقاء کا نقشہ کھینچنے کی تجویز نہیں پیش کر رہا ہو ں جو کہ تضادات سے گھری ہوئی ایک پیچیدہ داستان ہے۔ (کیونکہ)اس کے لئے ضخیم کتابوں کی ضرورت پیش آئے گی ۔ لیکن اس بات کا پس منظر جاننے سے کہ اس مدت میں بن لادنیت دہشت گردی کیسے فروغ پائی ان واقعات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کچھ بصیرت حاصل ہو سکتی ہے جو اس کی تشکیل و ترویج کے لئے اہم تھے۔
مجاہدین اور اسامہ بن لادن کا جنم 1979 ء میں افغانستان پر روسی قبضے اور کثیر قومی " غیر ریاستی عناصر " خاص طور پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہتھیاروں کے اندھا دھند اور بغیر کسی تفریق کے پھیلاؤ کے بطن سے ہوا جس نے فروغ پاکر طالبان کی شکل اختیار کر لیا ۔ طالبان کی پرورش جس نے (1989) میں افغانستان سے روسیوں کو باہر نکالنے کے امریکی مفاد کو عملی شکل دیا انہیں دونوں ممالک میں ہوئی۔ لیکن اس کے بعد شاید امریکہ کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا اور یقینی طور پر ان کے پاس اس کا کوئی منصوبہ نہیں تھا کہ ان کو کس طرح غیر مسلح کیا جائے ۔ ہندوستان گزشتہ چند دہائیوں سے طالبان کو فنڈنگ فراہم کئے جانے اور انہیں مسلح کئے جانے کا سب سے بڑا شکار رہا ہے۔ پھر امریکہ کی مکمل مخالفت میں 1991 میں کویت میں صدام کی مصیبت نے سر ابھارا۔ یہ سعود کے محلوں اور امریکہ کے تیل کے مفادات کو درپیش سب سے بڑا خطرہ تھا ۔ اسامہ نے سعودی عرب میں امریکی فوج کی مقدس مزار کے اتنے قریب موجودگی پر کہ اس نے اسے اپنے زہریلے معتقدات کی توہین سمجھا سعودی عرب کے ساتھ جنگ کیا ۔ سعودیوں نے اسے نکال دیا لیکن حقیقت میں نہیں ۔ اس نے کچھ دنوں سوڈان میں قیام کیا اور اس کے بعد افغانستان منتقل ہو گیا اور اس تمام مدت میں اس نے منصوبہ بند بم حملوں کے ذریعے امریکہ کے خلاف متشدد جہاد کی تیاریاں کی ۔ اب تک مجاہدین غیر معذرت خواہ جنونی دہشت گرد بن چکے تھے ۔ 1988 میں اس نے مجاہدین کی بندوقوں اور بموں کا رخ مغرب کی طرف کرتے ہوئے القاعدہ کی بنیاد رکھی ۔ اگست 1996 ء میں اس نے ان کے خلاف محتاط دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے ساتھ ہی امریکہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جس کا نتیجہ 11 ستمبر 2001 کو امریکہ کے دل پر شدید زخم کی صورت میں ظاہر ہوا ۔
یہ انتہائی اہم موڑ تھا۔ امریکہ نے اکتوبر 2001 میں افغانستان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا خود امریکی پیداوار اسامہ اب اسی کا ایک مہلک دشمن بن چکا تھا جس کے سر پر انعام رکھا گیا تھا ، جس نے نادانستہ طور پر گاندھی جی کے اس یقین کو درست ثابت کر دیا کہ برائی کا مطلب اچھے مقاصد میں فساد پیدا ہونا ہے ۔
11 ستمبر کو اس نے مغرب کو وہ موقع فراہم کیا کہ عراق کے خلاف جنگ چھیڑنے کے لئے وہ جس کا شدت کے ساتھ انتظار کر رہا تھا ۔ انہوں نے مارچ 2003 میں " بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں " کے امکان کی ایک من گھڑت جنگ کی وجہ تلاش کرتے ہوئے ایسا کر دکھایا جسے بعد میں انہیں برطانوی اور امریکی رہنماؤں نے مکمل طور پر من گھڑت تسلیم کیا جنہوں اس کا استعمال کیا تھا ۔
لیکن اس وقت مسلم دنیا غصے سے بے قابو تھی اور اسامہ کے اس گھٹیا پیشے کو طاقت اور رفتار حاصل ہو گئی ۔ اور مغربی کو اس بات کا پتہ بھی نہیں چلا کہ انہوں نے کس چیز کو آزاد چھوڑ دیا ہے ۔
اس کے بعد سے دہشت گردی صرف پھلی پھولی اور وسیع ہوئی ہے ، انہوں نے ناموں ، تدبیروں اور حکمت عملی میں تبدیلیاں جاری رکھیں تاکہ رونما ہونے والے حالات پر وہ اپنا نشانہ بنائے رکھیں ، زیادہ قاتلانہ دھمکیاں دیں اور جب بھی انہیں موقع میسر ہو ا نہوں نے ضرب کاری بھی لگائے ۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ دہشت گرد مسلسل یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلام کی خدمت کر رہے ہیں ۔ ان کے لقب "اسلامی " کا غلط فائدہ اٹھانے کے لئے ان کے ذریعہ غلط استعمال کیا گیا ہے۔ یہ المیہ اور بھی زیادہ پر آشوب ہے اس لئے کہ ہمارے روشن خیال اور امن پسند مسلم دوستوں کو پیسے اور مدارس کی طاقت کے ذریعہ خاموش کر دیا جا رہا ہے اور ایک عظیم مذہب کی ایسی توہین سے رضامند ہونے پر مجبور کیا جا رہا ہے ۔
بلکہ آج جو تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے وہ زیادہ متناقص اور متضاد ہے۔ عوامی حلقوں میں دستیاب معلومات کے مطابق مسلم معاشرے میں بنیاد پرستی کی بیج بونے، مدارس، ذہنی تربیت ، دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں اور جہادی گروپوں کے لئے ہتھیاروں کی فنڈ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور خلیجی ممالک سے آتے ہیں ۔ یہ واضح ہے کہ تیل کی وجوہات کی بنا پر امریکہ کی سعودی عرب کے ساتھ ایک دوستانہ اور حربی شراکت داری ہے۔ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کی تربیت یافتہ جہادی جنہیں سعودی عرب اسلحہ فراہم کرتا ہے اور جنہیں سعودی دولت کے ذریعے فنڈ فراہم کی جاتی ہے وہ اب امریکہ اور مغرب کو ہدف بناتے ہیں ۔ اور ابھی تک امریکہ کا سعودی عرب کے ساتھ حربی پارٹنرشپ جاری ہے، تیل کے لئے اس کی ہوس اس کے سلامتی کے مفادات کو زیر کر رہا ہے ۔
جب سے روسیوں نے افغانستان میں انہیں امریکہ کے لئے اہم بنایا ہے تب سے پاکستان ایک بڑی تعداد میں امریکہ کے الطاف و عنایات حاصل کر رہا ہے۔ یہ اچھی طرح سے واضح ہے کہ پاکستان میں جہادی عناصر آئی ایس آئی میں اچھی طرح سے ملے ہوئے ہیں اور وہ نہ صرف کشمیر میں بلکہ باقی تمام ہندوستان میں وسیع پیمانے پر دہشت گردی کے ذریعے ہندوستان کو نشانہ بنا رہے ہیں ۔ ہندوستان میں القاعدہ اور طالبان کے آفاقی خیمے کے تحت مختلف ناموں سے جا ری ملکی پیداور مثالوں کی بہتات ہے جن کی بڑے پیمانے پر سعودیوں کے ذریعہ مالی امداد فرہم کی جا رہی ہے اور مبینہ طور پر اسی امریکی فنڈ کے ذریعہ جو پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے دیا جاتا ہے ۔ دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور تقریبا ہر وہ تمام مشتبہ لوگ جو امریکہ اور برطانیہ میں دہشت گرد سرگرمیوں میں گرفتار کئے گئے ہیں پاکستان میں دہشت گردی کے تربیتی کیمپ میں ایک مدت گزار چکے ہیں۔ اور ابھی تک امریکی مال پاکستان کو حاصل ہو رہا ہے۔
امریکہ کے ساتھ مفادات کے یہ سنگین تضادات اور تنازعات ختم نہیں ہو سکتے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ کافی اسودہ خاطر رہنے والے ہیں ۔
سیکولر جمہوریت کے ایک عالمی رہنما کے طور پر امریکہ کو ان پیش رفت کو ساری دنیا میں سیکولر جمہوریت کے وجود کے لئے ایک سنگین خطرہ سمجھنا چاہیے تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوا ۔ یہاں تک کہ جیسے ہی ان کے ڈرون نے دہشت گردی کو ختم کرنے کی کوشش تو اوباما کی حکومت شدید مالی پریشانی سے دوچار ہو گئی ، اس کے ذریعہ بغیر سوچے سمجھے امریکی ٹیکس دہندگان کی دولت پاکستانی فوج کی جیب میں جا رہی ہے اور ان کے ذریعے ان کے دہشت گرد اتحادیوں تک پہنچ رہی ہے جن کا اعلان ہے کہ دشمن امریکہ اور ادا کنندہ ہندوستان ، اسرائیل اور مغربی ممالک ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی کی بھی طرف سے کئے گئے ہر ڈرون حملے کچھ اسلحہ فراہم کرنے والوں کے لئے مسرت کا باعث ہیں بالکل سکہ کی ایک کھنک پر تیتزیل کی روح جنت میں جانے کی طرح یا اس طرح کہ جہادیوں کو جنت کا پروانہ حاصل ہو رہا ہے ۔ جارحانہ اور دفاعی طاقت کا استعمال دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے ضروری ہے ، لیکن صرف اسے ہی ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرنا کافی نہیں ہے ۔ دہشت گردی ایک خطرناک اژدہا ہے۔ اس لئے کہ ہر دہشت گرد کی موت پر دہشت گردی کی کان سے اس روئے زمین پران کے مختلف متبادل کا ظہور ہو جائے گا ۔ میں اپنی تحریر کے اس اختتامی مرحلے میں یہ سپر قرطاس کرنا چاہوں گا کہ میرا یہ ماننا ہے کہ یہ دنیا اور ہندوستان امن پسند مسلمانوں کی خاموش اکثریت کو باعزم اور پرجوش آواز بخشنے میں اہم کرداد ادا کر سکتا ہے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ نیو ایج اسلام)
رام جیٹھملانی ایک سینئر سیاستدان اور نامور وکیل ہے۔
ماخذ: http://www.sunday-guardian.com/analysis/when-civilisation-clashes-with-terror
URL for English article: https://newageislam.com/radical-islamism-jihad/when-civilisation-clashes-with-terror/d/14061
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/when-civilisation-clashes-with-terror/d/14191