New Age Islam
Mon Oct 14 2024, 11:00 AM

Urdu Section ( 27 May 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Raja Rammohan Roy Was a Great Reformer and Thinker of Bengal راجہ رام موہن رائے:ایک عظیم سماجی مصلح اور مفکر

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

27 مئی،2022

راجہ رام موہن رائے انیسویں صدی میں بنگال کے ایک عظیم سماجی اور مذہبی مصلح گزرے ہیں۔ وہ بنگلہ اور سنسکرت کے علاوہ عربی اردو اور فارسی پر بھی دسترس رکھتے تھے۔ انہوں نے ہندو مذہب کے علاوہ اسلام اور عیسائیت کا بھی گہرا مطالعہ کیا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ وحدانیت تمام مذاہب کی روح ہے ۔ انہوں نے ہندو مذہب میں داخل ہوجانے والے مشرکانہ عقائد کو دور کرنے کیلئے اپنشدوں کو بنگلہ زبان میں منتقل کیاتاکہ بنگال کے ہندوؤں کو انکی اصل مذہبی روایات سے آگاہ کیا جاسکے۔ راجہ رام موہن رائے کی ویدانت یا اپنشد میں خاص دلچسپی تھی ۔اپنشدوں کے مطالعے کے بعد وہ اس حقیقت سے واقف ہوئے کہ اپنشد کا مرکزی پیغام توحید  ہے ۔ اپنشد یا ویدوں میں بت پرستی کی تعلیم نہیں دی گئی ہے لیکن انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ہندو سماج میں بت پرستی جڑ پکڑ چکی ہے ۔ اور توحید میں ایمان رکھنے کی بجائے وہ دیوی دیوتاؤں میں ایمان رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ایسے رسم ورواج ایجاد کر لئے ہیں جن کا ذکر ویدوں یا اپنشدوں میں نہیں ہے ۔ لہذا رام موہن رائے نے ہندو مذہب کو مشرکانہ عقائد سے پاک کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے انہوں نے نظریاتی اور عملی دونوں سطحوں پر تحریک چلائی۔

نیو یارک میں اپنے قیام کے دوران راجہ رام موہن رائےنے 1793 میں ویدانت سینٹر قائم کیا۔ وطن واپس ہونے کے بعد انہوں نےویدانت کالج قائم کیا۔ جہاں طلبہ ویدانت کا تفصیلی مطالعہ کرتے تھے اور یہاں سے فارغ ہونے کے بعد وہ خالص ویدانتی یعنی توحید پرست ہوجاتے تھے۔

اس دور میں اپنشد یا ویدانت بنگلہ زبان میں آسانی سے دستیاب نہیں تھے۔راجہ رام موہن دائے نے اپنشدوں کا ترجمہ بنگلہ زبان میں کیا۔ بعد میں ان کا ترجمہ انگریزی زبان میں بھی ہوا۔ چونکہ اس زمانے میں فارسی نہ صرف دفتری زبان تھی بلکہ عوامی زبان بھی تھی چنانچہ اپنشد کی تعلیمات اور اس کے فلسفے کو عام ہندوؤں تک پہنچانے کے لئے انہوں نے فارسی میں تحفتہ الموحدین نامی کتاب لکھی۔ اس کا پیش لفظ انہوں نے عربی میں لکھا۔اس کتاب کا بھی بعد میں انگریزی میں ترجمہ ہوا۔اس کتاب میں راجہ رام نے اس حقیقت کوواضح کرنے کی کوشش کی کہ ہندوؤں کی بنیادی مذہبی کتاب وید میں بت پرستی کی تعلیم نہیں دی گئی ہے۔ اس وقت ہندوؤں کے ایک طبقے نے ان پر الزام لگایا کہ وہ اسلام سے متاثر ہوکر بت پرستی کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ حقیقت یہ تھی کہ وہ ویدوں اور اپنشدوں کے فلسفے کی بنیاد پر بت پرستی کا رد کررہے تھے۔ وہ مسلمان نہیں تھے بلکہ ویدانتی ہندو تھے۔

اگرچہ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں نگال میں سنسکرت پاٹھ شالائیں موجود تھیں مگر ان پاٹھ شالاؤں میں ویدانت اور ویدوں کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی۔ ان کی جگہ نیائے، گرامر اور کاویہ پڑھائے جاتے تھے۔ اسی لئے رام موہن رائے نے کین اپنشد، منڈک اپنشد ، کٹھ اپنشد اور ایش اپنشد کا ترجمہ بنگلہ میں کیا۔ ان ترجموں کے ذریعے سے بنگال کے ہندوؤں میں ویدانت کے نظریہء توحید میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی راجہ رائے کی ایک فارسی کتاب ہندو خدا پرستی کے دفاع میں تھی جو 1817 میں لکھی گئی۔ اس کتاب میں انہوں نے اس حقیقت پر زور دیا کہ ویدانت خدا پرستی کی وکالت کرتا ھے نہ کہ بت پرست کی۔ انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ویدانت کی خدا پرستی ہی اصل ہندو مت ہے۔ اسی سال انہوں نے ویدوں کے نظام توحید کا دفاع نامی کتاب بھی لکھی۔ اس کتاب میں انہوں نے ویدانت کے فلسفہ توحید پر روشنی ڈالی۔

راجہ رام موہن رائے نے ہندو مذہب میں مشرکانہ عقائد کی جڑ کو بھی تلاش کرنے کوشش کی کیونکہ جب تک کسی بیماری کے اسباب کا پتہ نہ لگایا جائے تب تک اس کا علاج نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے ایش اپنشد کے پیش لفظ میں لکھا:

۔" بہت سے اہل علم برہمن بت پرستی کی لایعنیت سے آگاہ ہیں اور خالص عبادت اور بندگی کی نوعیت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں لیکن چونکہ بت پرستی پر مبنی رسم ورواج ، مذہبی تقریبات اور تہواروں میں انکی آمدنی۔ اور مادی خوشحالی کا راز پنہاں ہوتا ہے اس لئے وہ نہ صرف یہ کہ بت پرستی کو ہر طرح کے حملوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ اپنی طاقت بھر س کو فروغ دیتے ہیں اور اس طرح سے عوام سے انکے مذہبی صحیفوں کے علم کو پوشیدہ رکھتے ہیں"۔

بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ صرف برہمنوں نے ہی نہیں بلکہ کچھ ہندو مفکرین اور ویدانت کے عالموں نے بھی بت پرستی کی وکالت کی۔ مثال کے طور پر اٹھارہویں صدی کے عظیم ہندو سنت شری رام کرشن پرم ہنس نے ایک موقع پر فرمایا تھا

۔۔"۔بت پرستی میں غلط کیا ہے ۔ ویدانت میں کہا گیا ہے کہ جہاں بھی وجود، نور اور محبت ہے وہاں برہما جلوہ فگن ہے ۔ لہذا برہمن کے سوا کسی چیز کا ۔وجود نہیں۔"۔۔

شری رام کرشنا نے بت پرستی کا جواز اپنشد سے ہی پیش کیا۔ ہندو مذہب کے دیگر عالموں کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ مورتی خدا پر دھیان یا مراقبے میں مرتاض کی مدد کرتی ہے ۔ ۔اور یی ارتکاز بعد میں اسے نرگن برہمن یعنی وجود حقیقی کی طرف رہنمائی کرتی ہے ۔

ویدانت کے بہت سے علما ہستیء مطلق اور فرد کی روح کے مابین رشتے کی نوعیت پر اختلاف رائے رکھتے ہیں۔ ان میں ثنویت پرست بھی ہیں اور غیر ثنویت پرست بھی۔ ہندو مت کے عظیم مفکر و مفسر شنکرآچاریہ کا ایمان ہے کہ وجود ایک ہے اور ماسوا سب فریب اور طلسم ہے ۔ اور وہ اپنے اس عقیدے کی لئے جواز یدانت سے ہی لاتے ہیں۔ دوسری طرف جو لوگ ثنویت میں یقین رکھتے ہیں یعنی جو لوگ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہستیء مطلق ایک ھے اور تمام کائنات اس کی تخلیق ھے وہ بھی اپنے عقیدے کے لئے ویدانت کو ہی بنیاد بناتے ہیں۔

غیر ثنویت پرستوں کا عقیدہ ہے کہ عشق حقیقی اور مراقبے کے ذریعے سے فرد کی ذات ذات حقیقی کا اتصال حاصل کرسکتی ہے جبکہ ثنویت پرستوں کا عقیدہ ہے کہ فرد کی ذات بندے کی حیثیت سے اپنے وجود کو برقرار رکھتے ہوئے عبادت اور مکمل خودسپردگی کے ذریعے سے بجات یا نروان حاصل کر سکتی ہے ۔ تیسرا طبقہ ان ویدانتیوں کا ہے جو

یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کسی دیوی یا دیوتا کو ذات حقیقی کی محض علامت مان کر اس کی پوجا کرکے وہ نجات یا ذات حقیقی سے اتصال حاصل کرسکتے ہیں۔ اس عقیدے کو وشسٹ ادویت واد کہتے ہیں۔یہ تینوں طبقے اپنے اپنے عقیدے کیلئے جواز ویدانت سے ہی لاتے ہیں۔

راجہ رام موہن رائے نے ان عقائد کو سرے سے مسترد کردیا اور کہا کی ذات حقیقی بے ہئیت ھے اور اسی لئے اس سے کسی ہئیت کو منسوب کرنا یدانت کی روح کے منافی ہے ۔ ان کا ایمان تھا کہ اس کائنات کا خالق و مالک ایک غیر مخلوق ذات حکیم ہے ۔انہوں نے شنکرآچاریہ اور دیگر غیر ثنویت پرستوں یعنی وحدت الوجود کے پیروکاروں کے اس عقیدے کا بھی رد کیا کہ یہ کائنات غیرحقیقی یا ایک طلسم ھے۔قرآن نے پہلے ہی واضح کردیا ہے کہ یہ کائنات حقیقی اور ٹھوس وجود رکھتی ہے ۔یہ طلسم یا فریب نظر نہیں ہے ۔

اپنے نظریہ توحید کو فروغ دینے کی لئے راجہ رام موہن رائے نے 1828 میں برہمو سماج کی بنیاد ڈالی جو ویدانت کے فلسفے پر مبنی تھا۔ انہوں نے اس مذہب کے لئے باقاعدہ حمدوثنا کا صحیفہ تصنیف کیا۔ برہمو سماج ایک خدا میں یقین رکھتا ہے اور عشق، مکلمل خود سپردگی اور بندگی کے ذریعے سے نجات کی راہ دکھاتا ہے ۔

انہوں نے ہندو سماج سے ستی کی رسم کو بھی ختم کرنے کے لئے تحریک چلائی ۔انہوں نے ہندوؤں میں جدید تعلیم کے فروغ کے لئے پریسیڈنسی کالج اور اسکاٹش چرچ کے قیام میں بھی تعاون دیا۔ مختصر یہ کہ راجہ رام موہن رائے نے ہندو معاشرے میں مذہبی اور سماجی اصلاح کی راہ ہموار کی۔ اس طرح انہوں نے بنگال میں ہندو نشاة ثانیہ کی شمع روشن کی۔

URL: https://newageislam.com/urdu-section/raja-rammohan-roy-reformer-thinker-bengal/d/127100

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..