وی۔ اے۔ محمد اشرف، نیو ایج اسلام
) حصہ اول (
23 جنوری 2024
قرآن نے 'اسلام' اور 'مسلمان' جیسے اصطلاحات کو ایسے معانی کے ساتھ وضع کیا ہے، جو ایک واحد مذہبی روایت کے افق سے ماوراء ہیں۔ عام طور پر اسلام کے نام سے پہچانے جانے والے مذہب میں محدود ہونے کے بجائے، یہ اصطلاحات خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے عالمگیر رجحان کی علامت ہیں، جو کہ ایک ایسا اصول ہے جو قرآنی نظریہ کے بالکل موافق ہے۔ اس مضمون میں اس معنی میں ایک مسلم کے قرآنی تصور پر روشنی ڈالی گئی ہے جو خدا کی مرضی کے تابع ہوتا ہے، اور اس کی لازوال اور جامع فطرت کو اجاگر کیا گیا ہے۔
علم لسانیات اور اسلام کی قرآنی بنیادیں
لفظ اسلام عربی کے مادہ س۔ل۔م سے مشتق ہے، جس کے "امن"، "تسلیم" اور "حفاظت" جیسے معانی بنتے ہیں۔ قرآن میں، اسلام سے مراد رضامندی کے ساتھ خدا کے آگے سر تسلیم خم کرنا، اور خود کو اس کے احکام و ہدایات کے حوالے کر دینا ہے۔ یہ تفہیم خدا کی وحدانیت کے اقرار، اس کے احکام کی اطاعت، اور اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے پر محیط ہے۔
قرآن 3:83 تمام مخلوقات کے اندر فطری طور پر تسلیم و رضا کے جذبے کو بیان کرتا ہے:
’’تو کیا اللہ کے دین کے سوا اور دین چاہتے ہیں اور اسی کے حضور گردن رکھے ہیں جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے یا مجبوری سے‘‘۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا محض کوئی ایمانی کام نہیں، بلکہ وجود کا ایک فطری جز ہے، جس کے مطابق تمام مخلوقات قوانین الہیہ کے سامنے سرتسلیم خم کیے ہوئے ہیں۔
رضا و تسلیم، مسلمان ہونے کی بنیاد
ایک مسلمان، قرآنی اصطلاح میں، ہر اس شخص کو کہتے ہیں جو خدا کی مرضی کے تابع ہو۔ یہ تسلیم و رضا کئی شکلوں میں سامنے آتی ہے، مثال کے طور پر، خدا کی وحدانیت کو تسلیم کرنا، خدا کو کائنات کا بے مثال معمار، سب کا خالق اور رازق تسلیم کرنا، جیسا کہ آیات قرآنیہ 21:25 اور 39:6 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں خدا کی مرضی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، ذاتی خواہشات اور اعمال کو احکامِ الہیہ کے تابع کرنا، اور "فیکون" (قرآن 3:19، 22:78) کے جذبات کا عملی مظاہرہ بھی شامل ہے۔ مزید برآں، احکامِ الہیہ کی اطاعت ضروری ہے، اور وحی الہی میں بیان کردہ اخلاقی اور معنوی اصولوں پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، جو کہ صالح زندگی گزارنے کے لیے ایک رہنما اصول فراہم کرتے ہیں (قرآن 6:153)۔ آخر میں، عاجزی اور شکرگزاری بہت ضروری ہے، خدا پر اعتماد اور اس کے رزق کے لیے دلی شکرگزاری کا اظہار بھی انتہائی ضروری ہے، اور اسے آیات قرآنیہ 7:206 اور 27:40 میں خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔
اسلامی سہ ماہی مجلہ کے سابق ایڈیٹر گائ ایٹن کہتے ہیں:
انگریزی میں کیپٹل لیٹر کے ساتھ "Muslim مسلم" کی اصطلاح کا اطلاق صرف ان لوگوں پر ہوتا ہے جو قرآن کے پیغام کو مانتے ہیں، لیکن جب اسے چھوٹے حرف کے ساتھ یوں muslim لکھا جائے، تو اس سے ایک انتہائی آفاقی معنی حاصل ہوتا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر کوئی اور ہر چیز اس لحاظ سے مسلمان ہے کہ سب، دانستہ یا نادانستہ، رضائے الٰہی کے تابع ہیں اور اس سے بچ نہیں سکتے۔ قوّت ثقل سے گرنے والی چٹان مسلمان ہے، اور یہی حال پرندوں اور حیوانات اور ساری کائنات کا ہے۔ سب اپنے خالق کی مرضی کے تابع ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا میں سے جو ہدایتِ الہیہ کی اطاعت کرتے ہیں، وہ اعلیٰ معنوں میں مسلمان ہیں۔ جب، قرآن میں، عیسیٰ کے پیروکار یہ کہتے ہیں، "ہم مسلمان ہیں"، تو ان کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہو سکتا کہ وہ ایسے رسول کی اطاعت کرتے ہیں جو ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوا ہے۔ لہٰذا، اسلام ایک مذہب ہے جسے قبول کیا جاتا ہے، ایک اسلام ان تمام لوگوں کے عقیدے اور عمل کا نام بھی ہے جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں، اور آخر میں، ایک اسلام تمام مخلوقات کا ہے۔ کوئی بھی چیز جو وجود کے دائرے کے اندر ہے وہ خود کفیل نہیں ہے۔ ہر چیز کا انحصار اس مبداء پر ہے جہاں سے وہ نکلی ہے، اور جس کی طرف وہ واپس لوٹے گی جب کائنات سمیٹ لی جائے گی اور اپنے انجام کو پہنچے گی۔ (ایٹن، صفحہ 5)
قرآن میں آفاقی تسلیم و رضا
قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ دین اسلام کا وجود، محمد صلے اللہ علیہ وسلم سے پہلے ہے، اور یہ ان سے بھی پہلے کے انبیاء اور ان کے پیروکاروں کی زندگیوں میں موجود تھا۔ ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ جیسے انبیاء کو داعی و مبلغ قرار دیا گیا ہے، جن کی زندگی دین اسلام کی عملی تصویر تھی۔ مثال کے طور پر، ابراہیم علیہ السلام نے کہا:
’’میں نے گردن رکھی اس کے لئے جو رب ہے سارے جہان کا‘‘ (قرآن 2:131)۔
اسی طرح موسیٰ علیہ السلام نے بھی اعلان کیا:
"اور موسیٰ نے کہا اے میری قوم اگر تم اللہ پر ایمان لائے تو اسی پر بھروسہ کرو اگر تم اسلام رکھتے ہو۔" (قرآن 10:84)
قرآن ان اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کو بھی مسلم تسلیم کرتا ہے، جو اپنے صحیفوں کو صحیح معنوں میں مانتے ہیں:
جن کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی وہ اس پر ایمان لاتے ہیں، اور جب ان پر یہ آیتیں پڑھی جاتی ہیں کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، بیشک یہی حق ہے ہمارے رب کے پا س سے ہم اس سے پہلے ہی گردن رکھ چکے تھے۔'' (قرآن 28:52-53)۔
مزید برآں، تابعداری کو فرشتوں (قرآن 21:19-20) اور یہاں تک کہ جنوں کے گروہوں (قرآن 72:14) کے لیے بھی بیان کیا گیا ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ایک آفاقی تصور ہے جو تمام مخلوقات میں موجود ہے۔
اسلام کی دائمی فطرت
قرآن نے اسلام کو کسی ایک امت تک محدود مذہب کے طور پر نہیں، بلکہ زندگی کے ایک لازوال اور آفاقی چارٹر کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ انسانیت کو "دین ابراہیمی" (قرآن 22:78) سے جوڑتا ہے، اسلام اور اس سے پہلے کے ابراہیمی مذاہب کے درمیان مشترکہ بنیاد پر زور دیتا ہے۔ قرآن 5:48 اس عالمگیریت پر یوں زور دیتا ہے:
"ہم نے تم سب کے لیے ایک ایک شریعت اور راستہ رکھا اور اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک ہی امت کردیتا مگر منظور یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں دیا اس میں تمہیں آزمائے تو بھلائیوں کی طرف سبقت چاہو۔ "
یہ آیت مختلف ادیان و مذاہب کی بات کرتی ہے، اور خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی ان کی مشترکہ بنیاد کی تصدیق کرتی ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن پہلے کے صحیفوں کی تصدیق کرنا اور ان کی غلط تشریحات کو اجاگر کرنا دونوں تھا (قرآن 3:3، 5:48)۔ یہ دوہرا کردار اسلام کی اس فطرت کو تقویت دیتا ہے، کہ اسلام سابقہ ادیان سے انحراف کے بجائے الٰہی ہدایات کا مرکزی محور ہے۔
مزید برآں، قرآن 7:172 خدا کے ساتھ انسانوں کے عالم ارواح کے عہد کو بیان کرتا ہے:
"اور اے محبوب! یاد کرو جب تمہارے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی نسل نکالی اور انہیں خود ان پر گواہ کیا، کیا میں تمہارا رب نہیں سب بولے کیوں نہیں ہم گواہ ہوئے کہ کہیں قیامت کے دن کہو کہ ہمیں اس کی خبر نہ تھی"۔
یہ آیت انسانیت کو ایک فطری اطاعت و فرمانبرداری کی یاد دلاتی ہے، جو کہ عالم ارواح کی بات ہے، جس سے خالق کی شکر گزاری واجب ہے۔
ایک مسلم کے قرآنی تصور کے مضمرات
ایک قرآنی مسلمان فرقہ واریت کی تنگ حدود سے ماورا ہے، جو خدا پر یقین رکھنے والوں کے درمیان ایک وحدت کا تصور پیش کرتا ہے۔ یہ مذہبی شناخت پر مبنی تشریحات کو رد کرتا ہے، اور ایک وسیع تر نظریہ پیش کرتا ہے، جس کی بنیاد مشترکہ طور پر آسمانی ہدایات پر سر تسلیم خم کرنا ہے۔
پیغمبروں، سابقہ صحیفوں اور ان کے پیروکاروں کو اسلام کے آفاقی پیغام میں شریک تسلیم کرتے ہوئے، قرآن موجودہ مسلمانوں کو انہیں اُمم سابقہ کا تسلسل قرار دیتا ہے، کوئی نئی اُمت نہیں۔ یہ نقطہ نظر جامعیت اور باہمی احترام کو فروغ دیتا ہے، اور انسانوں سے تقسیم کرنے والے لیبلوں کے بجائے، مشترکہ اقدار پر توجہ مرکوز کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔
اسلام کا ماقبل کے صحیفوں سے تعلق
قرآن خود کو پہلے کے صحیفوں کے لیے آئینہ اور ان کے پیغامات کا تسلسل قرار دیتا ہے، اور ان کی تحریفات کو واضح کرتے ہوئے ان کی حقانیت کی تصدیق کرتا ہے۔ قرآن میں واضح طور پر تورات، زبور اور انجیل کا ذکر ملتا ہے جو بالترتیب موسیٰ، داؤد اور عیسیٰ کو عطا کی گئی آسمانی کتابیں ہیں (قرآن 2:97، 4:163، 5:43، 17:55)۔ اس میں ابراہیم اور موسیٰ کو عطا کیے جانے والے صحیفوں کا بھی حوالہ ملتا ہے (قرآن 87:19، 53:36-37)، جس سے وسیع ابراہیمی روایت سے اسلام کا تعلق مزید مضبوط ہوتا ہے۔
بنیادی عقائد جیسے توحید، قیامت، حشر و نشر، جنت اور جہنم کی قرآن میں مسلسل تصدیق کی گئی ہے۔ نماز، روزہ، اور خیرات و صدقات جیسے ضروری معمولات بھی پچھلی امتوں کے معمولات سے ہم آہنگ ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبیوں کے سنہرے تسلسل کے اندر رکھ کر، قرآن یہ واضح کرتا ہے کہ ان سب کا مشن ایک ہی تھا۔
فرقہ واریت سے ماورا
اسلام اور مسلمان کا قرآنی تصور وحدت اور مشترکہ انسانی اقدار کا گہرا تصور پیش کرتا ہے۔ اس نقطہ نظر کی بنیاد اس تاریخی سیاق و سباق کی ایک محتاط تفہیم پر مبنی ہے، جس میں اسلام کا ظہور ہوا۔ مشرق قریب میں مذہبی کے ارتقاء پر غور کرنے سے، جیسا کہ کینیڈا کے ایک اسلامسٹ، ہارورڈ یونیورسٹی کے سنٹر فار دی اسٹڈی آف ورلڈ ریلیجنز کے ڈائریکٹر ولفرڈ کینٹ ویل اسمتھ، (2000-1916) نے لکھا ہے، ہمیں ایک الگ لیکن جامع مذہبی نظام کے طور پر، اسلام کے ظہور کی اہمیت معلوم ہو سکتی ہے۔ بالآخر، اسلام کا قرآنی نظریہ انسانیت کو فرقہ وارانہ حدود سے بالاتر ہو کر انصاف، اخلاقیات اور امن کے مشترکہ مقصد کے لیے مل کر کام کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
وہ لکھتے ہیں:
"اسلام کا ظہور کم و بیش ایک 'مکمل' مذہبی نظام کے طور پر - مثلاً، اس کے اپنے خود ساختہ نام 'اسلام' کے ساتھ، ایک ایسے صحیفے کے ساتھ جو خود کو 'صحیفہ' کے طور پر بیان کرتا ہے، اور خود کو متعدد ادیان میں ایک دین قرار دیتا (اگرچہ وہ خود کو سب سے بہتر دین مانتا ہے، لیکن یہ 'اپنے جیسوں' میں سب سے بہتر ہے) - اس تسلسل کی انتہا اور ماحصل تھا جسے سمتھ نے مذہبی خود شناسی میں ’نظام سازی‘ اور ’تجدید‘ قرار دیا ہے، جو کہ اسلام کی آمد سے پہلے صدیوں سے مشرق قریب میں جاری تھا۔ (اسمتھ، صفحہ 81-106)۔
اسلام اور مسلمان کا قرآنی نظریہ ایک آفاقی فریم ورک پیش کرتا ہے، جو مختلف مذاہب کے درمیان کی دیواروں کو منہدم کر دیتا ہے۔ اسلام کو خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے عبارت قرار دیکر اور اسے ہدایتِ الہٰیہ کے تسلسل میں رکھ کر، قرآن جامعیت، تسلسل اور مشترکہ اقدار کو زندہ کرتا ہے۔ یہ آفاقی نظریہ فرقہ واریت کو چیلنج کرتا ہے، اور انسانیت پر زور دیتا ہے کہ وہ بھائی چارے کے بندھن کو مضبوط کرے، اور الہٰی اصولوں، انصاف، اخلاقیات اور امن کو پروان چڑھانے میں اپنی اجتماعی ذمہ داری کو تسلیم کرے۔
حوالہ جات:
ایٹن، گائی، Remembering God: Reflections on Islam، کیمبرج: دی اسلامک ٹیکسٹس سوسائٹی، 2000
اسمتھ، ولفریڈ کینٹ ویل، The Meaning and End of Religion، نیو یارک: ہارپر اینڈ رو، 1962
-------
English Article: The Quranic Concept of ‘Islam’ and ‘Muslim’ as a Universal Vision - Part One
URL: https://newageislam.com/urdu-section/quranic-concept-muslim-universal-vision-quran-part-one/d/134475
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism