نصیر احمد،
نیو ایج اسلام
20 مئی 2022
قرآن میں لفظ نفس استعمال کیا گیا
ہے اور تصور اور معنی کے لحاظ سے اس کے قریب ترین لفظ ’’خود شناسی‘‘ ہے۔ نفس کیا ہے؟
یہ ہماری خود آگاہی، احساس اور سوچ و فکر کی قوت ہے جو ہمیں ہمارے اعمال میں منفرد
بناتا ہے۔
مادی جسم کے علاوہ ہمارے پاس اور
کیا ہے؟
• ہمارے پاس جبلتیں ہیں مثلا درد سے بچنے اور
خوشی حاصل کرنے کی جبلت
• ضروریات مثلا تحفظ کی ضرورت، تعلق، تعریف،
اور احترام کی ضرورت
• ہمارے پاس اپنی زندگی کے تجربات یادوں، معلومات،
طرز فکر، معتقدات، تعصبات، فکری قیاس آرائی، عمومی فہم و فراست کی شکل میں موجود ہوتے
ہیں
• ہمارے پاس جذبات، احساسات، پسند اور ناپسند،
حالات کے تابع عادات اور معمولات ہیں
• ہم اپنا نصب العین یا اپنی زندگی کا مقصد
بھی متعین کرتے ہیں
• ہمارے پاس ایک حاصل شدہ اخلاقی ضابطہ یا صحیح
اور غلط کا معیار اور مندرجہ بالا تمام چیزوں میں فیصلہ کرنے کے لیے استدلال کی طاقت،
جبلت، حالات، عادت، پسند اور ناپسند کو ختم کر کے جو درست ہے اس کا انتخاب کرنے اور
جو غلط ہے اسے ترک کر کے اپنی زندگی کے مطلوبہ مقاصد کو حاصل کرنے کی قوت ہے.
یہ سب ہمارے نفس کے عناصر ہیں۔
یہ ہمارے حقیقی نفس کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن جسم سے باہر ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔
نفس کا ترجمہ اکثر روح کیا جاتا ہے۔ تاہم، قرآن ایک لافانی روح کے تصور کی حمایت نہیں
کرتا جس کا وجود ہمارے زندہ، بیدار، اور باشعور جسم سے باہر ہے۔ انگریزی لفظ soul کا استعمال ایک انسان، نفس، باطنی نفس، باطن وجود،
ضمیر اور شعور کے لیے بھی ہوتا ہے۔ جب اس معنی میں استعمال کیا جائے تو اس کا مطلب
ہے نفس لیکن اس وقت نہیں جب اس سے مطلوب ایک لافانی غیر مادی روح ہو۔
نفس جامد نہیں ہے اور یہ ہمارے
تجربات اور فیصلوں کی بنیاد پر ہمیشہ بدلتا رہتا ہے۔ نیکیاں اسے پاک کرتی ہیں اور اسے
مضبوط کرتی ہیں اور برے کام اسے کمزور کر دیتے ہیں۔
نفس بمعنی احساس
وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ
إِلَى بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُواْ بَالِغِيهِ إِلاَّ بِشِقِّ الأَنفُسِ إِنَّ رَبَّكُمْ
لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ
16:7 اور وہ تمہارے بوجھ اٹھا
کر لے جاتے ہیں ایسے شہر کی طرف کہ اس تک نہ پہنچتے مگر ادھ مرے ہوکر، بیشک تمہارا
رب نہایت مہربان رحم والا ہے۔
نفس ہم سے ہمارے احساسِ ذمہ داری
کا تقاضا کرتا ہے
وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ
أَمَرَهُمْ أَبُوهُم مَّا كَانَ يُغْنِي عَنْهُم مِّنَ اللَّهِ مِن شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً
فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا ۚ
وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِّمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
12:68 اور جب وہ داخل ہوئے جہاں سے ان کے باپ نے حکم دیا
تھا وہ کچھ انہیں کچھ انہیں اللہ سے بچا نہ سکتا ہاں یعقوب کے جی کی ایک خواہش تھی
جو اس نے پوری کرلی، اور بیشک وہ صاحب علم ہے ہمارے سکھائے سے مگر اکثر لوگ نہیں جانتے۔
نفس الامارہ
بالسو یا برائی کا حکم دینے والا نفس
حواس فتنوں کا شکار ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، یوسف (علیہ السلام) کو عزیز مصر کی اس بیوی نے بالغ ہونے پر بہکانے
کی کوشش کی تھی جس نے بچپن میں انہیں گود لیا تھا. یوسف (علیہ السلام) کہتے ہیں کہ
میں انسان ہونے کے الزام سے خود کو بری نہیں کرتا۔ میرے حواس بھی خواہش کے فتنے کا
شکار ہو سکتے ہیں اکرچہ وہ خواہش ناجائز ہوں۔ خدا کی رحمت ہی سے میں خود کو ان فتنوں
سے بچا سکتا ہوں جو مجھے کسی برے کام کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
(12:53) "اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا بیشک نفس تو
برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بیشک میرا رب بخشنے والا
مہربان ہے۔"
20:96 قَالَ بَصُرْتُ بِمَا
لَمْ يَبْصُرُوا بِهِ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ أَثَرِ الرَّسُولِ فَنَبَذْتُهَا وَكَذَلِكَ
سَوَّلَتْ لِي نَفْسِي۔
"بولا میں نے وہ دیکھا
جو لوگوں نے نہ دیکھا تو ایک مٹھی بھر لی فرشتے کے نشان سے پھر اسے ڈال دیا اور میرے
جی کو یہی بھلا لگا۔"
وَأُحْضِرَتِ الأَنفُسُ الشُّحَّ
4:128 اور انفس لالچ میں ڈوبے
ہوئے ہیں
فَطَوَّعَتْ لَهُ نَفْسُهُ
قَتْلَ أَخِيهِ فَقَتَلَهُ فَأَصْبَحَ مِنَ الْخَاسِرِينَ
پس اس کے نفس نے اسے اپنے بھائی
کو قتل کرنے پر مجبور کیا تو اس نے اسے قتل کر دیا تو وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے
ہو گیا۔
5:30 تو اسکے نفس نے اسے بھائی
کے قتل کا چاؤ دلایا تو اسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔
یہاں نفسہ سے مراد اس کا حواس اور
اس کے میلان، لالچ، حسد، خوف وغیرہ کا "احساس" ہے
نفس لوامہ یا ملامت کرنے والا
ضمیر
(75:1) روزِ قیامت کی قسم!
یاد فرماتا ہوں،
2 اور اس جان کی قسم! جو اپنے اوپر ملامت کرے
3 کیا آدمی یہ سمجھتا ہے کہ ہم ہرگز اس کی ہڈیاں جمع نہ فرمائیں گے،
4 کیوں نہیں ہم قادر ہیں کہ اس کے پور ٹھیک بنادیں
5 بلکہ آدمی چاہتا ہے کہ اس کی نگاہ کے سامنے بدی کرے
نفس لوامہ کو نفس کا وہ حصہ قرار
دیا جا سکتا ہے جو اس وقت شعوری اختلاف کا باعث بنتا ہے جب ہم جو کچھ عمل کرتے ہیں
اور وہ اس کے خلاف ہوتا ہے جسے ہم درست سمجھتے ہیں۔ ہمارا صحیح اور غلط کا احساس یا
ہمارے معاشرے کی اقدار اسی طرح سیکھی جاتی ہیں جس طرح ہم اپنی مادری زبان سیکھتے ہیں۔
ہم بات چیت سیکھتے وقت اپنی اقدار اور صحیح اور غلط کے احساس کو جذب کرتے ہیں کیونکہ
ہم اپنے تعامل کے ذریعے جو کچھ سیکھتے ہیں وہ صرف زبان ہی نہیں بلکہ معاشرے کی اقدار
بھی ہوتی ہیں جن کے ساتھ ہمارا معاملہ ہوتا ہے۔ اخلاقی زندگی گزارنے کے لیے جو علوم
ضروری ہیں ان کے حصول میں ہماری کوششوں کی بنیاد پر یہ مزید بہتر ہوتا جاتا ہے۔ حسی
اختلاف کو ایمانداری سے نمٹا جا سکتا ہے تاکہ ہم اپنے اعمال کو حق کے مطابق انجام دیں
یا ہم اپنے نفس کے فتنوں کا شکار ہو کر برے کام کر سکتے ہیں۔ ہم اس طرح کے رویے کو
معقول بھی بنا سکتے ہیں۔
حسی اختلاف کو ضمیر کی آواز بھی
کہا جاتا ہے اور اخلاقی اقدار رکھنے والے تمام افراد اس کا تجربہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ
جو اخلاقی اور نفسیاتی مریض ہیں وہ حسی اختلاف کا تجربہ نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے
انجام اسباب کا جواز ہوتے ہیں اور ان کا انجام نفس کی تسکین ہے۔ ایسے لوگوں کو جھوٹ
اور دھوکے بازی میں مہارت ہوتی ہے کیونکہ انہیں حسی اختلاف کا سامنا نہیں کرنا پڑتا
ہے اور نہ ہی ان کے اندر احساس ندامت اور نہ ہی احساس جرم ہوتا ہے اور اس لیے ان میں
کوئی شکوہ نہیں ہوتا۔ وہ دھوکہ دینے کے لیے گرگٹ کی طرح کوئی بھی رنگ بدل سکتے ہیں۔
جو لوگ ان کی اس ظاہری دلکشی کے چکر میں پڑاکر ان کے جال میں پھنستے چلے جاتے ہیں،
وہی ان کا شکار بنتے ہیں۔ چونکہ وہ ضمیر کی تکلیف سے پریشان نہیں ہوتے ہیں، اس لیے
بد اخلاق آپنا مطلب نکالنے کے لیے کسی بھی کردار میں آسانی کے ساتھ ڈھل سکتے ہیں۔ بد
اخلاقوں کی خصلت یہ ہے کہ وہ خودی کے طمطراق، دائمی جھوٹ، ہیرا پھیری، بےرحمی اور جذباتی پن میں ڈوبے ہوئے ہوتے ہیں.
نفس لوامہ نفس امارہ بسو پر
ایک نگہبان ہے
وَأَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ
وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوَىٰ
(79:40) اور وہ جو اپنے رب
کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا
نیکیاں نفس کو مضبوط کرتی ہیں اور
برائیاں اسے کمزور کر دیتی ہیں
کسی بھی شکل میں صدقہ، بخشش اور
ہر نیکی اسے پاک اور مضبوط کرتی ہے اور ہر برائی اسے نقصان پہنچاتی ہے۔
نفس کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے
کے لیے استغفار کرنا
(3:135) اور وہ کہ جب کوئی
بے حیائی یا اپنی جانوں پر ظلم کریں اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی چاہیں اور
گناہ کون بخشے سوا اللہ کے، اور اپنے کیے پر جان بوجھ کر اڑ نہ جائیں۔
(136) ایسوں کو بدلہ ان کے
رب کی بخشش اور جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اور کامیوں (نیک
لوگوں) کا اچھا نیگ (انعام، حصہ) ہے۔
نفس مطمئنہ یا وہ نفس جو اطمینان
پا چکی ہو
وہ لوگ جو آخرت میں کامیاب ہوں
گے انہیں نفس المطمئنہ کہا گیا ہے یا وہ لوگ جن کا ضمیر نفس پر اطمینان حاصل کر چکا
ہے۔
(89:27) اے اطمینان والی جان
28 اپنے رب کی طرف واپس ہو یوں کہ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی،
29 پھر میرے خاص بندوں میں داخل ہو،
30 اور میری جنت میں آ
کس کا نفس مکمل طور پر مطمئن اور
سکون میں ہوگا؟ وہ لوگ جنہوں نے اپنے حسی اختلاف کو ایمانداری سے نپٹایا اور جس چیز
کو وہ حق مانتے تھے اسی کے مطابق عمل کیا اور جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ ان کی حقیقی
اور مثالی ذات میں کوئی فرق ہے تو انہوں نے اس خلاء کو پر کرنے کی مخلصانہ کوشش کی۔
امن میں رہنے والے نفس وہ ہوں گے جو جانتے ہیں کہ انہوں نے بہترین نیت کے ساتھ اپنی
پوری کوشش کی اور اپنی ذات اور معتقدات اور اپنے بہترین علم کے ساتھ ایماندار رہے،
اور حالات کے پیش نظر بہترین کارکردگی کے لیے وہ ہر موقع کو استعمال کیا جو انہیں میسر
تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی سے ہر اعتبار سے مطمئن ہیں اور لالچ، حسد، نفرت،
غصہ اور نفسانی خواہشات کے آگے نہیں جھکے اور جو کچھ بھی ملا اس پر اللہ کے شکر گزار
رہے۔
خدا/مذہب کا منکر بھی ایک روحانی
شخص ہو سکتا ہے اور نیکی کی طرف مائل ہو سکتا ہے اور اپنے اور اپنی دنیا کے ساتھ امن
میں رہ سکتا ہے۔ ایسے شخص کو دوسروں پر ان کے عقائد کی بنیاد پر حملہ کرنے یا مذہب
کے خلاف صلیبی جنگ میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی ہے۔
ایسے لوگ جو اپنے نفس اور
اللہ کے ساتھ امن میں ہوں گے وہ سورہ 89 کے مطابق جنت میں داخل ہوں گے۔ اور یہ حالت
اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے بغیر ممکن نہیں جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا۔
نفس جو خود سے مطمئن نہیں ہے
خدا پر یقین کے بغیر، لوگ عقل کا
استعمال کر کے اپنے حسی اختلاف کو دبانے کی کوشش کریں گے، اپنی حقیر خواہشات کے سامنے
جھک جائیں گے، ہر چیز کے لیے زیادہ لالچی ہوں گے، ان لوگوں سے حسد کریں گے جو بہتر
ہیں، دوسروں سے نفرت کریں گے، اور خود کو غیر محفوظ محسوس کریں گے اور اپنی غلطیوں/خطاؤں
کا دفاع کریں گے۔ غیر مطمئن نفس وہ ہیں جو زیادہ جینے کی خواہش میں مر جاتے ہیں، جو
کچھ میسر ہے اس سے مطمئن نہیں ہوتے یا کسی لحاظ سے ادھورا محسوس کرتے ہیں۔
وہ نفس جس کا توازن نہیں پایا جاتا
اور وہ مسلسل اشتعال کی حالت میں رہتا ہے وہ بے ہنگم افراد کا نفس ہے۔ جو نفس ایمان
یا کفر کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہے اور اپنی غیر یقینی حالت سے بے چین ہے، وہ ہمیشہ اپنے
کفر کے اسباب کو ثابت کرنے کے فراق میں لگا رہتا ہے۔ ایسے لوگ لایعنی بحث کرتے ہیں
اور اپنے خیالات کا دفاع اس انداز میں کرتے ہیں گویا ان کی زندگی کا انحصار اسی پر
ہے۔ وہ اپنی ذات کی خدمت پر مامور "جبری فقہ" کی مدد سے اپنے موقف کا دفاع
کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور خدا کے بارے میں صرف اپنے ہی تصور کو حق اور قرآنی تصور
کو باطل مانتے ہیں، کیونکہ انہیں ان آیتوں سے ذاتی طور پریشانی ہے۔ وہ نہ تو دین کو
رد کرنے اور دور ہونے اور نہ ہی اسے قبول کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ انہیں آیت ’’دین
میں کوئی جبر نہیں‘‘ سے بھی سکون نہیں مل سکتا اور اس لیے دور ہو جاتے ہیں کہ اللہ
کے دین سے منحرف ہونے کے نتائج آخرت میں ہیں۔ وہ یہ ماننے سے قاصر ہیں کہ مذہب خدا
کی طرف سے ہے اور نہ ہی انہیں یقین ہے کہ یہ انسان کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا، وہ نہ تو
مانیں گے اور نہ ہی اپنے انسان ساختہ مذہب، خودساختہ خدا اور اپنے جبری فقہ پر شروع
کریں گے۔ یقیناً، اللہ کی پناہ مانگ کر اور ان کے خود ساختہ خدا اور جبری فقہ کو ترک
کر کے حل کی طرف بڑھنے اور امن حاصل کرنے کا ایک راستہ ہے۔ بصورت دیگر ان کی جدوجہد،
بدامنی اور تخریب کاری جاری رہے گی۔
اگرچہ ہر چیز پر شک کرنا اور ہر
چیز پر سوال کرنا سائنس میں ترقی حاصل کرنے کا ایک صحیح اصول ہے، لیکن صحیفوں پر عمل
کرنے میں یہ اصول کسی کام کا نہیں ہے۔ لہٰذا سوال کریں، اپنے جوابات تلاش کریں، اور
کسی نہ کسی راستے پر آگے بڑھیں۔
وہ نفس جو مومنین اور ان کے مذہب
سے نفرت پیدا کرتا ہے اور دین کا دشمن ہے، نفس شیطانی ہے۔ ایسے لوگوں سے پرہیز کریں۔
(3:118) اے ایمان والو! غیروں
کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کرتے ان کی آرزو ہے، جتنی ایذا
پہنچے بیَر ان کی باتوں سے جھلک اٹھا اور وہ جو سینے میں چھپائے ہیں اور بڑا ہے، ہم
نے نشانیاں تمہیں کھول کر سنادیں اگر تمہیں عقل ہو۔
م میں سے ہر ایک جانتا ہے
کہ ہم نے کس حد تک نفس المطمئنہ کا درجہ حاصل کیا ہے۔ ایسا نفس نڈر، پرامید، نفرت سے
پاک ہوتا ہے اور بزدل تو قطعی نہیں ہوتا۔ بے حسی نفس کی ایک علامت ہے جو خود سے اور
اپنے اردگرد کے ماحول سے بیمار ہے۔
اخلاقی راستہ اختیار کر کے
اس ایک مدت تک عمل پیرا ہونے کے بعد نفس مطمئنہ حاصل کرنے والا فطری طور پر اللہ کی
خوشنودی حاصل کرنے اور اللہ کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
نفس مرتا
بھی ہے
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ
ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے
(29:57، 21:35، 3:185)
اس مضمون میں ہم نے دیکھا ہے کہ
نفس کا مطلب ہے ہمارا احساس، سوچ، سمجھداری، فتنوں کا شکار ہونا، اپنے آپ کو عقلمند
بنانا اور اپنی ملامت کرنا، اصلاح کرنا، ضمیر پر قابو رکھنا جو ہمیں ان باتوں میں ملوث
ہونے سے روکتا ہے جنہیں ہم بیدارئ شعور کی حالت میں غیر اخلاقی یا بد اخلاقی مانتے
ہیں۔ یہ وہی ہے جو ہمیں منفرد بناتا ہے یا ہمارے وجود کی تشکیل کرتا ہے، جو زندہ رہتا
ہے اور بالآخر مر جاتا ہے۔ موت جسم اور نفس دونوں کے لیے ہے۔ مقصد نفس المطمئنہ کا
درجہ حاصل کرنا ہے۔
English Article: The Quran and the Psychology of Human Behaviour -
Nafs
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism