قیوم نظامی
30 جنوری، 2013
ربیع الاول کا مہینہ ہر انسان اور ہر مسلمان کے لیے مقدس، متبرک اور محترم مہینہ ہے جس کی بارہ تاریخ کو محسن انسانیت رحمة لالعالمین حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ ابن کثیر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت بھی سوموار کے دن، بعثت بھی سوموار کے دن، مکہ سے ہجرت بھی سوموار کے دن، مدینہ میں تشریف آوری بھی سوموار کے دن اور رحلت بھی سومورار کے دن ہوئی۔بعض سیرت نگاروں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے مبارک موقع پر رونما ہونے والے معجزات کا ذکر کیا ہے۔ ایوان کسریٰ کے چودہ کنگرے گر پڑے۔ آتش کدے بجھ گئے۔ بحیرہ ساوہ (طبریہ) خشک ہوگیا۔(ابن ہشام، ابن الجوزی) کسریٰ نے اپنی حکومت کی بربادی کا خواب دیکھا۔ ایران میں زلزلہ آیا جس سے قصر شاہی کے کنگرے گر گئے۔ صدیوں سے جلتا آتشکدہ بجھ گیا۔ ایک جھیل سوکھ گئی۔ صحرا میں ایک ندی نمودار ہوگئی۔(ابن ہشام) ایک گمنام شاعر کا یہ شعر انہی معجزات کو یوں بیان کرتا ہے۔
گم صُم تھی دو جہاں کی حقیقت مرے بغیر
میں آ گیا تو ارض و سما بولنے لگے
جسٹس خلجی عارف حسین نے اوگرا عملدرآمد کیس کی سماعت کے دوران درست فرمایا کہ ‘‘ ہم عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چراغاں تو کرتے ہیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل نہیں کرتے’’۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ مسلمان ماشاءاللہ عبادات میں کسی قوم سے پیچھے نہیں ہیں وہ نماز خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھتے ہیں، بڑے اہتمام سے روزے رکھتے ہیں، ذوق و شوق کے ساتھ حج پر جاتے ہیں، باقاعدگی سے زکوٰة ادا کرتے ہیں مگر ان عبادات کا عکس ہمارے سماج پر نظر نہیں آتا۔ ہمارے سماج میں اس قدر برائیاں پیدا ہوچکی ہیں کہ اسے شاید قرآن و سنت کی روشنی میں صالح سماج کہنا بھی موزوں نہ ہو۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے معاملات کو نظر انداز کردیا۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے اشتراک سے ہی قرآن کی منشا کے مطابق صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔ قرآن پاک کے ہر دوسرے صفحہ پر نماز اور زکوٰة کے ساتھ عملُوالصٰلحت ‘‘ نیک عمل’’ کرنے کا حکم آیا ہے۔ افسوس ہم نماز پڑھتے ہیں مگر نیک عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں یہی ہمارے معاشرے کا بنیادی تضاد ہے۔
ہم اپنے نوکروں سے غیر انسانی اور غیر اخلاقی سلوک کے مرتکب ہوتے ہیں اور یہ بھی نہیں سوچتے کہ جس عظیم ہستی کے ہم نام لیوا ہیں انہوں نے اپنے غلام زیدبن حارثہ سے اس قدر مثالی سلوک کیا کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر اپنے والد کے ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلام کو اپنا بیٹا بنا لیا اور اسے بلند اعزازات اور مناصب سے نوازا۔ تعمیر کعبہ کے وقت حجر اسود نصب کرنے کا وقت آیا تو قبائل یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے جنگ پر آمادہ ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قابل رشک ثالثی کر کے جنگ کے خطرے کو ٹال دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملے میں عدل اور انصاف کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مثالی تاجر تھے ان کی دیانت اور صداقت سے متاثر ہوکر مکہ کی سب سے امیر خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے شادی کا پیغام بھیجا۔ آج پاکستان میں انتہا پسندی اور دہشت گردی عروج پر ہے۔ آئیے ذرا رحمت الالعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے رویے ملاحظہ فرمائیے۔
ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے کہ زید بن سعد یہودی عالم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گریبان پکڑ کر بڑی سختی سے کھینچا اور درشت لہجے میں کہنے لگا ‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو قرض تم نے مجھ سے لے رکھا ہے ادا کرو تم بنو ہاشم کے لوگ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لیتے ہو’’۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس یہودی سے چند درہم بطور قرض لے رکھے تھے مگر ادائیگی کا وقت باقی تھا۔ یہودی کی گستاخی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور اپنی تلوار لہراتے ہوئے کہا ‘‘اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ مجھے اجازت فرمائیں کہ میں اس گستاخ کی گردن اُڑادوں’’۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے فرمایا ‘‘عمر اس یہودی سے کہو کہ وہ بہتر طریقے سے اپنا قرض طلب کرے اور مجھے حسن ادائیگی کے لیے کہو’’۔ یہودی یہ سن کر کہنے لگا ‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق سے نوازکر مبعوث فرمایا میں اپنا قرض وصول کرنے نہیں آیا بلکہ اس لیے آیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا امتحان لوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ میں اپنا قرض مسلمانوں پر صدقہ و خیرات کرتا ہوں’’۔(سنن بیہقی)
ایک مرتبہ ایک عورت مکہ کی ایک گلی سے گزر رہی تھی اس کے سر پر اتنا بوجھ تھا کہ وہ بڑی مشکل سے قدم اُٹھا رہی تھی اور لوگ اس کا تمسخر اُڑا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس عورت کو مشکل میں دیکھ کر اس کے قریب تشریف لائے اور اس کا بوجھ اُٹھا کر اسے منزل پر پہنچادیا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے اسی خوبی کی بناءپر کہا تھا ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے سہاروں کا سہارا ہیں’’۔(ترمذی) ایک مرتبہ ایک سفر کے دوران صحابہ کرام نے بکری ذبح کرنے کا ارادہ کیا اور سب نے کوئی نہ کوئی کام اپنے ذمے لے لیا۔ بکری ذبح کرنے، کھال اُتارنے، گوشت کاٹنے اورپکانے کی ذمے داریاں تقسیم ہوگئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گوشت پکانے کے لیے لکڑیاں جمع کرنا میرے ذمے ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کی حضور یہ کام ہم خود کرلیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‘‘ مجھے معلوم ہے کہ تم یہ کام بھی کرلوگے مگر حق تعالیٰ کو پسند نہیں کہ میں تم میں ممتاز بن کر بیٹھا رہوں۔ مجھے اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔(شمائل ترمذی) ایک دفعہ دعوتِ طعام کے موقع پر جگہ تنگ تھی اور لوگ زیادہ آگئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اکڑوں بیٹھ گئے تاکہ جگہ نکل آئے۔ ایک بدو بھی مجلس میں شریک تھا۔ اس کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرح بیٹھنے کا طریقہ بہت عجیب معلوم ہوا اور اس نے کہا ۔ ‘‘ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھنے کا یہ کیا طریقہ ہے؟’’۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے صاحبِ اخلاق بندہ بنایا ہے، سرکش اور متکبر نہیں بنایا۔(ابوداؤد)
ایک روز بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا جذباتی ماحول تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا استعمال شدہ پانی لے کر اپنے جسموں پر مل رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا تم ایسا کیوں کررہے ہو انہوں نے کہا بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں ایسا کررہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو یہ چاہت ہو کہ اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت حاصل ہوتو وہ ان تین باتوں کا اہتمام کرے۔(1) بات کرے تو سچی کرے۔(2) امانت میں خیانت نہ کرے۔ (3)اپنے ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(معجم کبیر ،طبرانی)
عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ درحقیقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اطاعت ہی اصلی اور حقیقی عشق ہے۔ عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم مفکر اسلام محمد اقبال لکھتے ہیں۔‘‘ ہماری آبرو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نامِ نامی کی بدولت ہے۔ مسلمان کے دل میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جاگزیں ہوتی ہے۔ وہ ذات گرامی جس نے خود بوریے پر لیٹ کر زندگی گزاری مگر اپنی اُمت کو وہ فروغ بخشا کہ تاجِ کسریٰ ان کے قدموں تلے روندا گیا۔ انہوں نے غار حرا میں تنہائی میں راتیں بسر کیں اور اس طرح ایک قوم، ایک آئین، ایک حکومت دنیا کے سامنے پیش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی راتیں شب بیداری میں گزریں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تختِ خسروی پر متمکن ہو۔ میدان جنگ ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار لوہے کے ٹکڑے کردے مگر خود نماز میں کھڑے ہو کر اپنے معبود کے سامنے اشک ریز رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں ایک نئے نظام اور نئے آئین کو رواج دیا اور تمام پرانی قوموں کی بساط اُلٹ دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ دین کی کنجی سے دنیا کا دروازہ کھولو تو راہِ راست پاؤ گے۔ سچ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی جیسا دوسرا کوئی فرزند مادرگیتی کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں پست و بلند سب برابر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غلام کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا تناول فرماتے تھے’’۔
30 جنوری، 2013 بشکریہ : روز نامہ نوائے وقت ، پاکستان
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/humility-prophet-muhammad-(pbuh)-/d/10223