ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
8 مئی 2025
عہد حاضر میں کئی ایسے مسائل ہیں جن پر ارباب فکر و نظر اور اصحاب حل و عقد کو سوچنے اور اس پر سنجیدہ تدبر کرنے کی سخت ترین ضرورت ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ جن پر اس کالم میں گفتگو کی جائے گی ان سب کا تعلق سماج و معاشرے سے وابستہ ہے ۔
پہلی بات یہ ہے کہ آج ہمارے سماج میں یوں تو مطالعہ کا شوق بہت حد تک مفقود ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ مدارس و جامعات ہوں یا دیگر علم و ادب کے مراکز ہوں سب کی صورت حال یکساں ہے۔ مطالعہ کی حالت ہرجگہ بہت پتلی ہے، حتی کہ یہ کہا جاتا ہے کہ کتابوں سے وابستگی اور محبت کی یہ آخری صدی ہے ۔ مطالعہ کسی بھی علم کا کیا جائے اس سے سماج میں تازگی اور روحانی قوت کے ساتھ ساتھ فکری و نظریاتی سطح بھی بڑی مستحکم ہوتی ہے ۔ اب جو صورتحال ہے اس میں محدود موضوعات پر مطالعہ کا شوق بچا ہے جو ہم سب کے لیے اور حساس معاشروں کے لیے ایک المیہ ہے ۔ رہا سوال ان علوم وفنون کے مطالعہ کا جو قوموں کے اندر تہذیب و تمدن اور حسن اخلاق کے فروغ کا ذریعہ ہیں ان کا مطالعہ تو بالکل بھی نہیں کیا جارہا ہے ۔ ان علوم میں ایک نمایاں ترین علم اور مضمون "تاریخ" کا مطالعہ ہے۔
آج عالمی سطح پر کتنے ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں جو تاریخ کا علم نہ ہونے کی بنیاد پر واقع ہوتے ہیں ۔ تاریخ کے متعلق پوری معلومات حاصل کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ تاریخ کی غلط بیانی سے معاشرے کا توازن اور اعتدال بگڑنے کا خطرہ رہتا ہے ۔ یہ واضح رہے کہ تاریخ اپنے دامن میں اچھے اور برے دونوں طرح کے واقعات رکھتی ہے اس لیے تاریخ نگار کی یہ ذمہ داری کہ تاریخ میں مذکور دونوں طرح کی باتوں کو بڑی دیانت اور امانت کے ساتھ پیش کرے ۔ مذہب و مسلک اور فکر و نظر کی بنیاد پر تاریخ نگار کسی واقعہ کو کوئی رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے تو وہ صرف تاریخ کی شفاف پیشانی پر ہی بد نما داغ نہیں لگا رہا ہے بلکہ وہ اپنے اس غیر سنجیدہ عمل سے معاشرے کے امن و امان اور سالمیت کے لیے خطرہ پیدا کررہا ہے ۔
تاریخ میں مذکور حقائق کا تجزیہ انصاف کی بنیاد پر ہونا چاہیے ۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایک طرف سازش اور منظم منصوبہ بندی کے تحت تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جارہاہے اور اس سے جو فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ جگ ظاہر ہے ۔ البتہ ہماری خامی یہ ہے کہ ہم نے تاریخ کا مطالعہ کرنا خود چھوڑدیا ہے ۔ ہمیں دیگر ضروری مضامین کے مطالعہ اور تحقیق کے ساتھ ساتھ تاریخ کے مطالعہ پر بھی توجہ دینی ہوگی ۔
اس تناظر میں جب ہم مدارسِ دینیہ کی بابت نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا کہ مدرسہ کا ایک طالب علم ایک طویل مدت مدرسہ کی چہار دیواری میں گزارنے کے باوجود وہ تاریخ کی موٹی موٹی باتوں سے واقفیت پیدا نہیں کر پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کے سامنے کوئی تاریخ کا واقعہ خلط ملط کرکے پیش کیا جاتاہے تو وہ اس کا جواب دینے کے بجائے خود اس سے متاثر ہوتا نظر آتا ہے ۔
چنانچہ ارباب مدارسِ دینیہ کو چاہیے کہ وہ درسیات کے ساتھ ساتھ طلباء کے اندر لازمی طور پر تاریخ کے مطالعہ کو یقینی بنائیں ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کیوں کیا جائے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ تاریخ سے وابستگی اس لیے بھی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ اسلام اور تاریخ مسلم میں عدل و انصاف ہے ، رواداری ہے اور نوع انسانی کے جملہ حقوق و فرائض کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے ۔ تاریخ جہاں معاشروں کی تہذیب و تمدن اور ان کے مزاج سے واقفیت کا ذریعہ ہے تو وہیں تاریخ کے مطالعہ سے سماج عبرت و موعظت بھی حاصل کرتاہے ۔ تاریخ کے مطالعہ کے بے شمار فوائد ہیں جو اپنی انفرادیت اور اہمیت کے لیے جانے جاتے ہیں ۔ تاریخ کے ایک طالب علم کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر سماج میں کوئی مسئلہ ایسا الجھا ہوا ہے جو تاریخی نوعیت سے غلط ہے تو وہ اس کی مکمل وضاحت کرے اور سماج کو حقیقت سے آشنا کرے ۔ آج بھارت جیسے تکثیری سماج میں جو اپنی ایک خوبصورت تاریخ رکھتا ہے ۔ یہاں کی تاریخ کو جس نظریہ اور جن مقاصد کی تکمیل کے لیے الٹے سیدھے طور پیش کیا جارہاہے یہ بھی بہت افسوسناک ہے ۔ عصری منظر نامہ میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ تاریخ کو پیش کرنے کی جو روایت چل پڑی ہے اس سے یقینی طور پر سماجی ہم آہنگی اور قومی یکجہتی کو شدید خطرہ ہے ۔ کیونکہ یہاں تاریخ کا صرف ایک رخ یعنی منفی رخ کو پیش کیا جارہاہے اور عوام کو اسی بنیاد پر مسلم کمیونٹی سے گمراہ اور بد ظن کیا جارہاہے جب کہ حقیقت کچھ اور ہے یہ سب جانتے ہیں ۔ تاریخ سے ان تمام واقعات کو عمدا معدوم کیا جارہا ہے جن میں اثبات ہے اور جو اپنے دامن میں ایجابی پہلو رکھتے ہیں ۔
جو لوگ آج تاریخ کے نام پر سماج و معاشرے میں غلط فہمی پھیلا رہے ہیں انہیں سوچنا ہوگا کہ اس سے معاشرے میں جو پیغام جائے گا اس سے صرف موجودہ معاشرہ ہی متاثر نہیں ہوگا بلکہ آنے والی نسلیں بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پائیں گی ۔ نئی نسلوں کو علم و فضل اور حقیقی واقعات سے روشناس کرانے کی بالآخر ذمہ داری ہماری ہی ہے ۔ جب بھی سماج میں کوئی واقعہ یا تاریخ کے حوالے سے بے بنیاد بات کہی گئی ہے اس کا نتیجہ مایوس کن ہی نکلا ہے ۔
سوال تاریخ کے نام پر کسی کمیونٹی کو داغدار کرنے کا نہیں ہے، اس سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم سماجیات کے اہم شعبہ یعنی تاریخ کو نفرت اور تعصب کی بنیاد پر اپنے بچوں کو غلط پڑھارہے ہیں، ہمیں اور ان تمام افراد کو اس جانب بھی توجہ دینی ہوگی ۔ سوچنا ہو گا کہ جو تاریخ رقم کی جارہی ہے وہ حقیقت ہے ہی نہیں، جب یہ بات ہماری نسلوں کو پتہ چلے گی کہ تاریخ کے نام پر واٹسپ یونیورسٹی اور مفاد پرست عناصر نے جو ہمیں پڑھایا ہے وہ تو تاریخ کا حصہ ہی نہیں ہےاس وقت ہم کیا کریں گے ؟ یہ سچ ہے کہ تاریخیں نشیب و فراز سے ہم آہنگ ہوتی ہے لیکن وہ تاریخ کا اپنا حصہ ہوتا ہے، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اسی بنیاد پر سماج میں نفرت و عداوت کا فروغ کیا جائے ۔ کائنات میں موجود تمام قوموں کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ تاریخ کا براہ راست رشتہ سماج سے ہی ہوتا ہے۔ کوئی بھی سماج تاریخ کے بغیر ادھورا ہے ۔ جس قوم کی تاریخ نہیں اس کو کوئی بھی یاد نہیں رکھتا ہے ۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/promoting-hatred-history-tragedy/d/135469
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism