پروفیسر طاہر محمود
‘‘آج میری دادی کا ‘عرفہ’ ہے سر، میں آپ کا ای ۔میل نہیں پڑھ سکوں گا’’ ۔ یہ پیغام شب برأت سے ایک دن قبل ہمارے موبائل پر آگرہ سے ایک طلب علم نے ہمیں بھیجا ،جنہیں ہم نے اسی دن ان کی تعلیم کے سلسلہ میں ایک ای ۔میل بھیج کر فون پر انہیں اس کی خبردی تھی۔ ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیسی تقریب ہوگی، کیونکہ ہم نے یہ لفظ پہلے کبھی نہیں سنا تھا ۔ڈکشنری دیکھی تووہاں تو اس کے وہی ایک معنی لکھے ہوئے تھے ، جو ہم پہلے سے جانتے ہیں تھے ،یعنی ماہ ذی الحجہ کی نویں تاریخ جو مکہ مکرمہ میں مناسب حج کی ادائیگی کا خاص دن ہے ، کیونکہ مہینہ ذی الحجہ کا نہیں، بلکہ شعبان کا چل رہا ہے، اس لئے ہم یہ بھی نہیں سوچ سکے کہ شاید صاحبزادے کی دادی مکہ مکرمہ میں ‘وقوف عرفہ’ میں شامل ہوں اور ان کے گھر ا س سعادت کی خوشی منائی جارہی ہو۔چاہتے تھے کہ پیغام بھیجنے والے کو اخلاقاً جواب دیں اور موقع خوشی کا ہوتو تہنیت پیش کریں، رنج کا ہوتو ہمدردی کریں۔ اسی شش وپنج میں آگرہ میں اپنے ایک دوست کو فون کرکے پوچھا تو انہوں نے تعجب کا اظہار کیا کہ ہم جیسے ‘‘اردوداں’’ کو یہ اصطلاح نہیں معلوم اور بتایا کہ یہ اس رسم کا نام ہے، جس کے تحت خاندان میں کسی کی موت ہوجائے تو آئندہ ایک دوسال تک آنے والے ہر تہوار سے ایک دن پہلے اس کی فاتحہ کی تقریب کی جاتی ہے۔ اس دریافت پر ہمیں آگرہ میں جنمے اردو کے سب سے بڑے فلسفی شاعر اسد اللہ خاں غالب کا ، جن کے دیوان کو ایک برے تبصرہ نگار نے ‘‘وید مقدس کے بعد ہندوستان کی دوسری الہامی کتاب’’ سے تعبیر کیا ہے، مصرع ی یاد آیا کہ ‘‘ ہم مؤجد ہیں ہماری کیش ہے ترک رسوم’’۔مگر یہ تووہ شہر ہے ، جہاں آج تک دھوم دھام سے تاج محل کے خالق شہنشاہ شاہجہاں کا عرس بھی منعقد کیا جاتا ہے اور پھر اس قسم کی رنگ برنگی رسوم ملک بھر میں بڑی عقیدت سے کہا ں نہیں جاتیں ۔ الطاف حسین حالی نے مسلمانوں میں مروجہ فضول رسومات کی تصویر کشی پر مسدس کے صفحات سیاہ کرڈالے تھے اور دوسروں کو کافرومشرک کہنے والوں کی خود اپنے لیے ہر قسم کے رسم ورواج کو روارکھنے کی روش پر ‘‘مگر مومنوں پر کشادہ ہیں راہیں’’کا طنز کیا تھا، مگر قوم کو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ، اس کے پاس تو جواب کے لئے حالی کے استاذ محترم کا یہ مصرح موجود ہے کہ ‘‘نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب’’۔
رسم ‘‘عرفہ’’ کی طرف ہمیں متوجہ کرنے والے آگرہ کے طالب علم سے ہمارا تعارف گزشتہ ہفتے وہاں ‘‘عصری تناظر میں مسلمان اور میڈیا کا رول’’ کے موضوع پر مرزا غالب ریسرچ اکیڈمی کی طرف سے منعقد ہ ورکشاپ میں ہوا تھا ۔ انہوں نے ہمیں اپنی تعلیمی دلچسپیوں سے واقف کراتے ہوئے ہم سے مشورہ چاہا تو واپس آکر ہم نے انہیں وہ ای۔میل بھیجا جسے پرھنے سےانہوں نے گھر میں ‘رسم عرفہ’ کے باعث معذرت کی۔ مطلب یہ کہ بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہو یا ان کا مستقبل سنوار نے کی بات، خاندانوں میں سال بھر چلنے والی رسومات میں گھر کے بڑوں اور بچوں سب کی بھرپور شمولیت اور ہمہ وقت مشغولیت دیگر تمام ا مور پر بھاری ہے۔ اپنی تعلیمی پسماندگی کی شکایت کرتے رہنا ،مگر اس سلسلہ میں خود اپنی غفلتوں پر بالکل نظر نہ کرنا قوم کا شعار بن چکا ہے ۔ میڈیا پر ملت کی منفی عکاسی کا الزمام لگایا جاتا ہے، مگر اس کی بات کی فکر نہیں ہوتی کہ اس کے پیچھے کہیں اپنی کوتاہیاں بھی تو نہیں ہیں۔کسی ملّی مسئلہ میں خود اپنی خامیوں کی طرف توجہ دلانا بغاوت پر محمول کیا جاتا ہے اور ہم اس عادت بد کی بدولت معتوب ہوتے ہی رہتے ہیں لیکن ہم اسے اپنا فریضہ سمجھ کر اس سے دستبردار نہیں ہو نا چاہتے ۔آگرہ کے ورکشاپ میں بھی ہم نے یہ فرض ادا کیا ، کیونکہ ہمارے نزدیک ہندوستان میں ملت اسلامیہ کا بنیادی مسئلہ تعلیمی اور معاشرتی پسماندگی ہی ہے، جو میڈیا میں اسلام کی غلط امیج بنانے میں ایک بڑا رول ادا کرتی ہے۔ ورکشاپ میں میڈیا والوں کی کثیر تعداد تھی اور انہوں نے ہم سے جو سوالات کیے ،ان سے میڈیا میں مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیوں اور ان کی وجوہات کا قدر ے ا ندازہ ہوتا ہے۔ بہر حال وہاں ہم نے جن خیالات کا اظہار کرنے کی جرأت کا اظہار کرنے کی جرأت کی تھی، ان میں سے کچھ کا یہاں اعادہ کررہے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ذرائع ابلاغ میں کہیں اہل اسلام کے خلاف کسی قسم کا تعصب پایا ہی نہ جاتا ہو اور اس پیشہ سے تعلق رکھنے والے سبھی حضرات کھلے ذہن سے مسلم مسائل پر رپورٹنگ کرتے ہوں۔ سچائی یہ ہے کہ کچھ خود غرض سیاسی نیم سیاسی جماعتوں کی بدولت یہ تعصب تو پورے سماج میں رچ بس گیا ہے اور میڈیا والے بہر حال کسی دوسری دنیا کی مخلوق نہیں اسی سماج کا حصہ ہیں، لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ میڈیا میں اس تعصب کی افزائش میں ہم لوگوں کا اپنا عمل بھی شامل ہے۔ ہم لاکھ قرآن وسنت کے حوالے دے کر اپنے دین کی برتری اور اس کی تعلیمات کی تنقید سے بالا تر ی ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں، میڈیا والے تو ہمارے روز مرہ کے عمل پر خبریں بناتے ہیں جب کہ اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا کہ یہ عمل اکثر کتاب وسنت سے مطابقت نہیں رکھتا اور اگرملت کا کوئی سرپھرا درد مند میڈیا میں اس طرح ابھرتی ہوئی اسلام کی غلط امیج کو سدھارنے کی کوشش کرے تو لوگ اسی کے پیچھے پڑجاتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ نہیں میڈیا جو سمجھ رہا ہے ہم وہی ہیں اور یہ جو دینی ودنیاوی معاملہ میں فتوے صادر ہوتے ہیں ، یہ بھی چٹ پٹی خبروں کے متلاشی میڈیا کو مسالافراہم کرتے ہیں۔ آگرہ کے ورکشاپ میں ایک صحافی نے ہم سے سوال کیا کہ ایک ہی مسئلہ پر متضاد فتوے آجائیں تو ہم ان میں سے کون سا فتویٰ استعمال کریں؟ان سے تو خیر ہم نے یہی عرض کیا کہ آخر آپ کوئی سا بھی فتویٰ شائع ہی کیوں کریں، کیونکہ فتوے کی حیثیت تو دینی نوعیت کے اختیار ی مشورے کی ہوتی ہے نہ کہ واجب العمل قانون کی کہ اس طور پر مار کھڑا کیا جائے، لیکن بہر حال اس معاملہ پر بھی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہمارے ذاتی تجربہ میں میڈیا میں مسلمانوں کی غلط عکاسی تعصب سے کہیں زیادہ رپورٹروں کی کم علمی کے باعث ہوتی ہے۔ مسلم معاملات کی خبریں مرتب کرنے والوں کی اسلام سے واقفیت عموماً واجبی ہوتی ہے اور وہ اکثر کم علم لوگوں سےبات کر کے ا سی حساب سے خبروں کا متن تیار کرتے ہیں اور اگر خبر کسی قدر صحیح بھی لکھی گئی ہوتو سرخی لگانے والے اس پرکوئی ایسی چٹ پٹی سرخی لگادیتے ہیں ، جو قارئین کو گمراہ کردیتی ہے۔ میڈیا میں تو یہ سب چل ہی رہا ہے ، لیکن ہمارے اپنے لوگ بھی اسلام سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ۔ کسی اخبار میں بس کوئی گمراہ کن سرخی پڑھ کر یا اس کے بارے میں دوسروں سے سن کر افواہیں نہ پھیلانے کی مقدس قرآنی تعلیم کے حاملین مطلق کوئی تصدیق کیے بغیر قوم کے بہی خواہوں پر بے تکلف لعن طعن کرنے اور ان کے اسلام سے خارج ہونے کا فرمان سنانے لگتے ہیں ،جیسے میڈیا نمک مرچ لگا کر استعمال کرتا ہے۔ اخبار، ٹی وی والے کسی کے پاس بھی پہنچ جائیں ،وہ خود کو اپنی لیاقت اور قد سے بے نیاز ہوکر پیچیدہ قانونی یا مذہبی مسائل پر رائے زنی کا اہل سمجھتے ہیں ۔سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ پرسنل لا سے متعلق تنظیموں کی میڈیا میں ترجمانی وہ لوگ کرتے ہیں، جونہ پرسنل لا کے ماہر ہوتے ہیں، نہ ملکی قانون کے ۔میڈیا میں مسلمانوں کی منفی عکاسی ایک ایسا خطرناک مرض ہے، جس کی دوا بڑی حد تک خود ہمارے ہی پاس ہے۔ میڈیا میں مسلمانوں کی منفی عکاسی ایک ایسا خطرناک مرض ہے، جس کی دوا بڑی حد تک خود ہمارے ہی پاس ہے۔ یہ حالات اگر بدلنے ہیں تو میڈیا والوں کی تو بے شک اپنا ہوم ورک صحیح طریقہ سے کرنے کا خود کو پابند کرنا ہی ہوگا، لیکن ہمیں خود بھی یقیناً اپنے گھر کی خبر لینی ہوگی ۔علامہ اقبال کے اس تشخیص پر کہ ‘‘اس دور میں تعلیم ہے امراض ملت کی دوا’’کوقبول کرتے ہوئے تعلیم کو دیگر تمام امور پر فوقیت اور اوّلیت دینی ہوگی ،میڈیا سے ہر کس ناکس کے بات کرنے کے اختیار کو محدود کرنا ہوگا اور خبروں کی تصدیق کیے بغیر ان کے حوالے سے اخبارات میں اپنوں کو برا بھلا کہنے کی روش چھوڑنی ہوگی کہ اس سب سے میڈیا کی منفی سوچ کو اور تقویت ملتی ہے ۔ اگر ہم ان سب باتوں پر مطلق دھیان نہ دے کرمیڈیا میں اپنے دین وملت کی غلط عکاسی میں یوں ہی اپنی بھر پور شرکت درج کراتے رہے تو پھر اس کے لئے بس میڈیا کو کوستے رہنا بے معنی اور لاحاصل ہوگا۔
syedtahirmahmood@hotmail.com
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/seminar-muslims-media-/d/1638