پروفیسر سید رئیس احمد
26 فروری ، 2016
سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں بہترین معاشرہ قائم کیجئے
دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ نت نئی ایجادات نے عقل انسانی کو متحیر کردیا ہے اور انسان ‘‘ستاروں پر کمندڈال کر نئی بستیاں آباد کررہا ہے’’۔ لیکن ترقی اور سائنسی ایجادات کے باوجود مغربی دنیا کے باسی اپنی روحانی تشفی کےلئے سرگرداں ہیں اور مسلم تہذیب کی یلغار سے ( جو بالخصوص مغرب کے نوجوانوں میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کررہی ہے) سخت پریشان ہیں۔ جب کہ مسلمان مِن حیث الامت اپنی اس کیفیت و قوت سے منہ چھپائے ہوئے ہیں اور آج بھی اپنے مسائل کا حل ناکام مغربی فلسفے اور سیاست میں تلاش کررہے ہیں ۔ وہ یہ حقیقت فراموش کرچکے ہیں کہ خالق اَرض و سماء نے انہیں اپنے کلام برحق میں بہترین امت قرار دے کر قیامت تک انسانوں کی رہبری کا فریضہ سونپا ہے چنانچہ ارشاد ہے : ‘‘تم بہترین امت ہو اور تمہیں لوگوں کے درمیان اس لئے پیدا کیا گیا تاکہ تم نیکیوں کا حکم دو اور برائی سے روکو ’’۔ ( سورہ آل عمران)
یہی نہیں بلکہ اس پسندیدہ امت سے ان کی کامیابی اور سرفرازی کے وعدے کو مومن ہونے سے مشروط فر ما دیا :‘‘ اگر تم سچے مومن ہو تو تم ہی غالب رہو گے’’۔( سورہ آل عمران) اور کامل بننے کے لئے حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ( بلکہ اس سے بڑھ کر) اتباع کامل کو لازمِ اور ضروری ٹھہرایا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ‘‘( اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) آپ فر ما دیجئے کہ اگر تم اللہ سےمحبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ تم سے محبت کرے گا۔’’ ( سورہ آل عمران) اس آیت مبارک میں یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ جب انسان اللہ کا محبوب بندہ بن جائے گا تو نہ کفار اور طاغوتی قوتیں اس پر غالب آسکیں گی اور نہ اُن کی سازشیں مومن کی فراست سے پوشیدہ رہ سکیں گی کیونکہ ایک حدیث قدسی کے بقول اس کے جملہ اعضاء (آنکھ، ناک، ہاتھ ، پاؤں) اللہ اعضا ء بن جائیں گے۔
دور جدید میں درپیش مسائل کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں ایک انبوہ کثیر نظر آئے گا لیکن ان میں سے اہم فکری، اخلاقی اور روحانی مسائل ہیں۔ فقہائے متقدمین کا بھی یہی طریقہ کار رہا تھا لیکن ہم نے اجتہاد کا دروازہ بند کردیا جس کی بنا ء پر اسلامی افکار جمود کا شکار ہوگئے اور فقہی اور گروہی اختلافات نشو و نما پاکر ملت کی خرابی اور تباہی کے اسباب بن گئے ہیں ۔ اگر چہ انفرادی طور پر ہم اخلاقی اعتبار سے دنیا کی مختلف اقوام کے لوگوں سے بر تر نظر آتے ہیں لیکن اجتماعی طور پر ہمارا شمار کرپٹ اقوام میں کیا جاتا ہے کیونکہ ہم نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جسےام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے قرآن قرار دیا ہے، سے منہ موڑ لیا ہے اور دو عملی کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ہم انفرادی معاملات کی فکر کر کے کسی حد تک انہیں سدھارتے ہیں لیکن اپنے اجتماعی معاملات ایسے قائدین کے سپرد کردیئے ہیں جو صورت حال بہتر بنانے کے لئے انقلاب آفریں خیالات اور واضح نصب العین سے عاری ہیں۔ جب کہ قرآن میں ہمیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اعلیٰ ترین اخلاق کاحامل بتایا گیا ہے : ‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق بڑے اعلیٰ ہیں۔’’ پھر خود شارح کتاب الہٰی نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا: ‘‘مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے۔’’ قرآن حکیم کی سورۂ آل عمران میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مناصب بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ‘‘ جو انہیں ہماری آیات سناتا ہے ، ان کے نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ ‘‘ پھر اسلام کی فضیلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ‘‘وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام مذہبوں پر غالب کردے۔’’( سورۃ التوبہ)
یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ اوصاف ہی تھے جن کی بناء پر قرآن نے اعلان کیا : ‘‘ یہ رسول ہیں جن میں سے کچھ کو کچھ پر فضیلت دی گئی ہے۔’’( سورۃ البقرہ) کےمصداق دیگر انبیاء پر فضیلت بخشی جس کا ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ کرام کی اس کثیر تعداد سے ہوتا ہے جو 23 سال کے قلیل عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ کےفیض سے حلقہ بہ گوش اسلام ہوئی اور ان کے اعلیٰ اوصاف کی وجہ سے اسلام دنیا کے بیشتر حصوں میں پھیل گیا تھا ۔ ان کا کردار انفرادی طور پر ہی بہتر نہ تھا بلکہ وہ معاشرتی اور اجتماعی معاملات میں بھی حق و انصاف کےعلمبردار تھے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آج بھی اپنی اخلاق برتری کا سکہ جمائیں لیکن اس مقصد کا حصول آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لئے ہمیں سیرت مصطفیٰ کی روشنی میں ایک جدید فلاحی معاشرہ قائم کرنا ہوگا۔
ہماری اخلاقی پستی روحانی عوامل کی وجہ سے جس کی جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا : ‘‘ جان لو تمہارےجسم میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست ہے تو سارا جسم درست ہوتا ہے اگر وہ بگڑ جائے تو سارا بدن بگڑ جاتاہے۔ آگاہ ہو ، وہ دل ہے ۔’’ ( صحیح مسلم) گویا ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہمارے فکر ی ، اخلاقی اور وحانی مسائل کا حل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل اطاعت و اتباع میں مضمر ہے، اس کے لئے ہمیں اپنے تمام نظام ( تعلیمی، معاشی، معاشرتی ، سیاسی وغیرہ) بدلنے ہوں گے اور حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو کامل نمونہ سمجھنا ہوگا۔ ‘‘یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عمدہ نمونہ (موجود) ہے۔’’ (سورہ احزاب) اور اس اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نیتجے میں ہمیں اپنی سوچ کے دھارے بدل کر اپنے اندر نظم و ضبط اور قوت برداشت کرنی ہوگی۔ روح کی بالیدگی کے نظام میں انقلابی تبدیلی لانی ہوگی تب ہی ہمیں فکری، اخلاقی، اور روحانی یکجہتی حاصل ہوسکے گی۔ قرآن کریم میں قوموں کی حالت کی تبدیلی کےلئے تحریک پیدا ہونے کو لازم قرار دیا گیا ‘‘ بے شک اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنے آپ کو نہ بدلے’’۔( سورۂ الرعد)
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنا سیاسی حالات کو بدلنے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سےترغیب حاصل کریں۔ اس سلسلے میں امن و امان کے قیام کی اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں اسلامی ریاست کے قیام کے فوراً بعد داخلی امن کی جانب ترجیحی طور پر توجہ دی اور میثاق مدینہ کے ذریعے مدینے میں آباد طبقات (یہود ، انصار اور مہاجر ین وغیرہ) کے نہ صرف حقوق و فرائض متعین فرمائے بلکہ فساد پھیلانے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا طریقہ کار متعین کیا ۔امن و امان کے لئے یہ لاز م ہے کہ نہ صرف عوام کو اعلیٰ اخلاقی اوصاف سے مزین کیا جائے بلکہ بے لاگ انصاف مہیا کرتے ہوئے عدلیہ کی بالادستی قائم کی جائے۔ آج اگر اسلامی حکومتیں بے لاگ انصاف اور عدلیہ کی بالادستی قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو اسلامی ممالک میں بھی امن کی صورت حال قابل رشک ہوسکتی ہے۔
بد قسمتی سے اکثر ملکوں میں بے چینی ، قتل وغارت گری، نسلی، لسانی و گروہی تصادم کا دور دورہ ہے۔ ان کی وجوہات تلاش کی جائیں تو مذکورہ بالا دو عناصر کار فرما نظر آتے ہیں اور اسی کے باعث اسلامی معاشروں میں عدل و انصاف کے بجائے ظلم و جبر، زیادتی و بے انصافی عام ہے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ‘‘ملک کفر کے ساتھ تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کے ساتھ باقی نہیں رہ سکتا۔’’
ایک اور اہم مسئلہ معاشرے کےساتھ اداروں کی اصلاح ہے۔ نبی ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں تمام اداروں (زکوٰۃ، بیت المال، احتساب، قضاء برائے انصاف وغیرہ) درست انداز سےچلانے کااہتمام بھی فرمایا۔ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ سےاہم اصول حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ ‘‘حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ‘‘ جو کوئی مسلمانوں کا حاکم یا سربراہ مقرر ہوا اور وہ کسی کواہلیت اور استحقاق کے بغیر کسی عہدے پر فائز کرے اس پر اللہ کی لعنت ہو، اللہ اس کا کوئی عذر اور فدیہ قبول نہیں کرے گا۔’’ (مسند احمد بن حنبل) معاشرے سے سفارش اور اقرباء پروری کے عناصر کا قلع قمع کیا جائے۔ سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ‘‘ جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس (کےثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بُری بات کی سفارش کرے تو اسے اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا۔’’
26 فروری، 2016 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/closed-doors-ijtihad-got-islamic/d/106468