New Age Islam
Sun Jan 26 2025, 01:10 PM

Urdu Section ( 8 Dec 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Holy Qur'an Is The Greatest Divine Blessing Of God قرآن کریم کائنات کی عظیم ترین نعمت ِ الٰہی نیز زندہ و جاوید اور دائمی معجزۂ خداوندی ہے


پروفیسر سید مسعود احمد

4 دسمبر 2020

 قرآن کریم تہذیب ِ انسانی کے اس دور میں نازل ہوا جب کہ نوعِ انسانی نے اپنے مادی اور سائنسی عروج و ارتقاءکے لئےاپنے بازو وا کردیئے تھے اور رب کریم نے اپنے دین قیم کی تکمیل کا فیصلہ فرمالیا تھا۔ یہ کتاب الٰہی تمام دنیائے انسانیت کی ہدایت اور رہتی دُنیا تک بنی نوع آدم کو ایک کامل و مکمل شاہ راہ حق دکھانے کے لئے جزیرۃ العرب کے ایک صادق و امین بندےکے قلب پر جستہ جستہ نازل کی گئی، تاکہ خدا ترس لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں۔ یہ کائنات کی عظیم ترین نعمتِ الٰہی نیز زندہ و جاوید اور دائمی معجزۂ خداوندی ہے۔ اس کے اعجاز و عجائبات کا انکشاف ایک مسلسل عمل ہے جو زمانۂ نزول قرآن سے جاری ہے اور قیامِ قیامت تک مشیتِ الٰہی میں طے ہے۔

قرآن مجید سے مطلوبہ استفادہ کے لئے بھی اُسی کی رہنمائی کو اولیت حاصل ہونی چاہئے اور اسی اجمال کی تفصیل سنت رسول اللہ ﷺ سے معلوم کرنی چاہئے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا کلام براہِ راست تمام انسانوں کو نہیں پہنچایا بلکہ قرآن مجید کو نبی خاتم محمد رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایا تاکہ آپ ﷺ اس کلام کی تلاوت بھی کریں اور اس کی توضیح و تشریح بھی کریں۔ جیسا کہ اسی کتابِ ہدایت میں ارشاد ربانی ہے کہ:  ’’ہم نے آپ کے پاس یہ یاددہانی اس لئےبھیجی ہے تاکہ انسانوں کی طرف جو بھیجا گیا ہے، آپ ؐاس کی وضاحت کردیںاور تا کہ وہ (اس کی روشنی میں) غور و فکر کرسکیں۔‘‘ (النحل: ۴۴)

قرآن مجید کے ذریعے حصولِ ہدایت کی شرائط

قرآن مجید سے مطلوبہ استفادہ کی غرض سے جب ہم اس کتاب کی رہنمائی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کتاب کو کھولتے ہی سورۃ الفاتحہ ہمیں اپنے پروردگار سے مانگنے کا ادب اور انسان کی سب سے بڑی احتیاج یعنی صراط مستقیم کی ہدایت مانگنے کی طرف متوجہ کرتی ہے۔ اور ٹھیک اس کے بعد سورہ البقرہ کی ابتدائی آیات میں ان سات بنیادی شرائط کا ذکر مل جاتا ہے جو اس کتاب سے استفادہ کرنے کے لئےضروری ہیں۔

یہ شرائط درج ذیل ہیں:

قرآن کریم سے مطلوبہ استفادہ کرنے کے لئےپہلی شرط یہ ہے کہ انسان میں خدا ترسی، خشیت الٰہی اور خوف خداوندی کا جذبہ قائم و دائم ہو اور وہ اپنی زندگی میں طہارت و پاکیزگی اور توازن و تناسب کا متمنی ہو۔

وہ اَن دیکھی حقیقتوں کو بِن دیکھے مان لینے کا حوصلہ رکھتا ہو یعنی وہ نہ صرف یہ مانتا ہو کہ کائنات کے اس ظاہر کے پیچھے بے شمار غیبی اور انسانی حواس و آلات کی گرفت سے ماوراء حقائق ہیں، بلکہ اس کا یہ ا صرار بھی نہ ہو کہ مجھے جب تک ان کا ادراک نہ ہو جائے، میں انہیں کیوں مانوں۔ ایسا خام خیال رکھنے والا اور کم عقل شخص قرآن مجید کے غیبی حقائق پر ایمان نہیں لا سکتا۔ قرآن مجید ہدایت الٰہی کے دروازے ان لوگوں پر کھولنے کا وعدہ کرتا ہے جو چشم بصیرت اور عقل و وجدان جیسی اعلیٰ صفات کے حامل ہیں۔ اور جو حیوانوں کے حواسِ خمسہ سے آگے علم و آگہی کے اعلیٰ ذرائع کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ علم کی گہرائیاں اور گیرائیاں عقل و وجدان کے اعلیٰ معیار کے ایقان کی طالب ہیں۔

وہ اگر ہدایت حق کے لئےقرآن مجید سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تویہی قرآن یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ کی تیسری شرط اس پر عائد کرتا ہے کیونکہ اُسے قرآن سے مطلوبہ استفادہ کے لئے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ رب العالمین کے حضور جبینِ  نیاز پورے خلوص اور پابندی سے خم کرتا ہے او راگر ایسا نہیں ہے تو قرآن کریم کے ذریعے خدا سے اس کی  ہدایت طلبی سچی نہیں مانی جاسکتی۔

قرآنی ہدایت کے حصول میں ایک مخلص شخص اپنے مال کو راہ خدا میں لٹا دینے کا جذبہ بھی ضرور رکھے گا۔ قرآن مجید ہدایت طلبی کے لئےاس شرط کو ضروری ٹھہرا کر اس کے اخلاص نیت کا امتحان بھی لیتا ہے اور یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ کوئی بھی قیمتی چیز بغیر ایثار و قربانی کے حاصل نہیں ہوتی۔

قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لئےپانچویں شرط یہ ہے کہ قاری ٔ قرآن اس تصور کا قائل ہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے سلسلہ کو اس دنیا میں کتب الٰہی، توریت، انجیل، زبور اور صحف سابقہ کے ذریعے قائم کیا ہے اور قرآن مجید اسی سلسلۂ ہدایت کی آخری کڑی ہے۔

جب تک قرآن مجید کے بارے میں یہ یقین نہ ہو کہ یہ رب العالمین ہی کا نازل کردہ ہدایت نامہ ہے اور یہ وہی آخری کتاب ہے جس کی پیشین گوئی انبیاء و رسل اور کتب سابقہ کے فرمودات میں موجود ہے، اس وقت تک اس کتاب سے پوری ہدایت کا حصول ممکن نہیں۔

اس کتاب سے مطلوبہ ہدایت کا حصول اس وقت تک عملاً ناممکن ہے جب تک انسان  اپنے رب کے حضور جوابدہی کا یقین نہ رکھتا ہو۔ یہ تو ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص تعلیماتِ قرآنی کو اس لئے  اختیار کرلے کیوں کہ اس کے نزدیک یہ اچھے اعمال کی تعلیمات ہیں لیکن جب تک اس کا یہ یقین نہیں ہوگا تب تک حقیقی فائدہ اسے نہیں مل سکتا کہ میرے رب نے مجھ پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ میں نیک اعمال پر زندگی بھر کار بند رہوں اور رب العالمین میرے ہر عمل کا ایک روز حساب لے گا اور اگر میں اس روز کامیاب ہوگیا تو میرے لئےجنت ہے ورنہ جہنم کے عذاب کا بھی پورا پورا اندیشہ ہے نیز اس دن کوئی سفارش بھی مالک یوم الدین کے حضور کام نہیں آئے گی اِلاَّ یہ کہ وہی کسی کے حق میں کرم و فضل کا فیصلہ کردے۔ جب تک آخرت کا عقیدہ جس کا قرآن میں سیکڑوں بار ذکر آیا ہے، قاریٔ قرآن کے قلب میں جاگزیں نہیں ہوجاتا اور اس عقیدہ پر اس کا یقین کامل نہیں ہوجاتا، اس شخص کا قرآن کریم سے مخلصانہ ہدایت طلبی کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ جب کسی کو نیکیوں کے کرنے اور گناہوں سے بچنے کی فکر ہی نہیں ہے تو اس کو کون سی ہدایت مطلوب ہے!

یہ تمام شرائط خود منبع ہدایت اور پروردگارحقیقی نے اپنی کتاب ہدایت کے ا بتدائی اور تعارفی کلمات ہی میں واضح کردی ہیں (ملاحظہ ہوں سورہ البقرہ کی ابتدائی چار آیات)۔ ان شرائط کو پورا کرتے ہوئے جب قرآن کریم کے ذریعے رب العالمین کی بارگاہ عالی سے مخلصانہ ہدایت طلب کی جائے گی تو نہ صرف ہدایت حق ملنے کا وعدہ ہے بلکہ ایسے مخلص افراد کو فلاح و کامرانی کی بشارت بھی وہیں دے دی گئی ہے(البقرہ:۵)۔

کلام اللہ کی تلاوت، سماعت اور مطالعہ کے آداب

مندرجہ بالا شرائط تو وہ ہیں جو قرآن مجید کے ذریعے ہدایت خداوندی کے حصول میں مطلوب ہیں ا ور جن کے بغیر اللہ تعالیٰ اس کتاب کی معرفت اور ہدایت کے دروازے انسانی قلوب پر نہیں کھولتا۔ اگلی سطور میں وہ آداب و شرائط پیش کیے جائیںگے جن کا التزام ایک طالب علم کو قرآن مجید کی تلاوت کے وقت تنہائی یا مجمع میں کرنا چاہئے تاکہ اس کا قرآنِ کریم سے مطلوبہ اور اس کتاب کے شایان شان تعلق قائم ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو۔ یہ آداب خود پروردگار عالم نے اپنے کلام اور اپنے رسولِ خاتم ﷺ کے ذریعے اپنے بندوں تک پہنچائے ہیں۔ یہ سات آداب و شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

(۱) طہارت قبل ِ تلاوت (۲) تعوذ قبل ِ قرأت  (۳) تسمیہ قبل ِ قرأت (۴) عظمت ِ قرآن کا استحضار (۵) ترتیلِ تلاوت (۶) استماع و انصاتِ قرأت، اور (۷) تدبر فی القرآن۔

تلاوت قرآن میں پہلا ادب یعنی طہارت قبل ِ تلاوتِ قرآن کو ہادی ٔبرحق نے غالباً اس لئےپسند فرمایا ہے کہ اس کلام عالی مقام کو پڑھنے سے پہلے قاریٔ قرآن اور مطالعۂ قرآن کرنے والے کو خود کو شعوری طور پر جسمانی و روحانی، حقیقی و معنوی، ظاہری اور باطنی تمام نجاستوں کو دور کرکے بالکلیہ پاک و صاف ہوجانا چاہئے۔کیوں کہ یہ کلام الٰہی بہت ہی پاکیزہ ہے لہٰذا بندہ کا جسم بھی پاک ہو اور اس کی روح بھی دنیوی متعلقات و آلائش سے کم از کم مطالعہ قرآن کے وقت تنفر اور دوری اختیار کرے۔ مزید برآں اس کے خیالات بھی پاکیزہ ہوں اور اس کی نیت بھی بالکل پاک ہو یعنی وہ ہدایتِ حق اپنی دنیوی اور اخروی کامیابیوں ا ور رضائے الٰہی کے حصول کی خاطر ہی طلب کررہا ہو اور اس کا یقین ہو کہ ہدایتِ حق صرف اللہ رب العالمین ہی سے مل سکتی ہے اور قرآن مجید اسی اللہ کا ہدایت نامہ ہے۔

تلاوت کے آداب میں دوسری شرط تعوذ باللہ من الشیطان ا لرجیم ہے۔ قرآن کریم میں ہی باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’قرآن پڑھنے کے وقت راندۂ درگاہ شیطان کے خلاف اللہ کی پناہ طلب کرو۔‘‘ (النحل: ۹۸) اس سے استعاذہ یا تعوذ کی یہ حکمت معلوم ہوتی ہے کہ شیطان، قرآن عظیم کی تلاوت و مطالعہ میں سب سے زیادہ ذہن بھٹکانے کا کام کرے گا۔ وہ قرآن کریم کی تعلیمات کے خلاف ہر ممکن حربہ اختیار کرے گا، وسوسہ اندازی کرے گا، جس کاحل و علاج صرف یہی ہے کہ ہم اللہ قادر مطلق کی پناہ شیطان لعین کے ہر وسوسہ و حربہ کے خلاف مانگ لیں۔ کیونکہ ہمارا رب ہماری ہر پرخلوص اور جائز دعا قبول کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں یہ یقین بھی ہونا چاہئے اور اُمید بھی کہ ابلیس لعین کے ہر وسوسہ اور حربہ کے خلاف اللہ رب العزت کا دست قدرت ہی ہماری دست گیری کرے گا۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم کا زبان سے پڑھنا جس میں معنی کا استحضار اور اخلاص دونوں شامل ہوں، در اصل ہماری اس کیفیت کی عکاسی ہے جس میں ہم تمام محرکات شر کے خلاف اللہ تعالیٰ عزیز و قدیر ہی کی پناہ گاہ میں امن و سکون ڈھونڈتے ہیں۔

قرآن سے مطلوبہ استفادہ کرنے کے لئےیہ بھی ایک ادب ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت و مطالعہ کا آغاز اللہ ہی کے نام سے کرنا چاہئے۔ اس کے لئےخود اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام ذی وقار میں ہر سورت کی ابتدا ء میں بجز سورہ التوبہ کے بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ بحیثیت ایک مستقل آیت کے شامل کرائی۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ ہی اپنے کلام کا آغاز بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ سے کرتا ہے تو ہمارے لئےیہی زیب دیتا ہے کہ تلاوت و مطالعہ قرآن کی ابتداء اللہ کے نام سے کریں اور اس کا بہترین طریقہ وہی ہوگا جو اس نے اپنے کلام میں پسند فرمایا۔ یہ کلمات تسمیہ ہمیں نبی خاتمؐ پر پہلی وحی کے کلمہ ’اقرأ‘ کا جواب بھی معلوم ہوتے ہیں یعنی جب ہمارے آقا اور ہادی اعظم ﷺ کو رب کائنات کا حکم ہوا کہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ  تو اسی خالق و مالک نے ان کلماتِ تسمیہ کے ذریعے اپنے حبیب ﷺ کی تعلیم و تربیت شروع کردی۔ البتہ ہمیں یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ رسول وقت کو جو کچھ سکھایا جاتا ہے وہ در اصل امت کے لئےحکم خداوندی ہوتا ہے کیوں کہ رسول تو نمائندۂ خدا ہی ہوتا ہے لہٰذا رسول خاتم ﷺ کو دی گئی خدا کی ہر تعلیم بغرض تعلیم و تزکیۂ امتِ مسلمہ ہوتی ہے۔ اس بحث کو سمیٹنے سے پہلے اس حقیقت کی یاددہانی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ قرآن حکیم میں ۱۱۴؍ بار بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘کی تکرار و موجودگی اس کلمہ کی رب ذو ا لجلال و الاکرام کے نزدیک اہمیت کی غماز بھی ہے اور اس کتابِ الٰہی اور رسولِ خاتم ﷺ کی مخصوص علامت و پہچان بھی جو کتب سابقہ توریت، انجیل میں بتائی گئی ہے۔ ان کلمات میں اللہ تعالیٰ کی بے انتہا رحمت کا حوالہ بھی موجود ہے اور آپؐ  کی ختم نبوت اور رحمۃ للعالمینی کا اشارہ بھی۔ (جاری)

4 دسمبر 2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-holy-qur-greatest/d/123692


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..