پروفیسر سید عطا ء اللہ حسینی
14 جون، 2013
تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر اسلامی ریاست کی خشت اول ہی مسجد و مدرسہ سے رکھی گئی ۔ مسجد نبوی ایک عبادت گاہ ہی نہیں ، بلکہ ایک عظیم درسگاہ بھی تھی ۔ اس مسجد کا ‘‘صفہ’’ نامی چبوترہ ، گویا طلبہ کا رہائشی ہاسٹل تھا ۔ اس درسگاہ میں 70 تا 80 طالب بالعموم رہتے تھے ۔ اس درسگاہ میں جلیل القدر صحابہ کرام تعلیم و تدریس کے فرائض انجام دیتے تھے اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گویا اس درسگاہ کے صدر مدرس یا پرنسپل تھے ۔ اس رہائشی ہاسٹل کا ملی انتظام و انصرام حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد تھا ۔ گویا وہ اس کے ناظم مالیہ تھے ۔ پھر یہاں سے جو طالب علم فارغ التحصیل ہوکر نکلتے ، وہ اسٹیٹ کی مختلف خدمات پر مامور کئے جاتے۔ اسی ٹریننگ کالج کے فارغ اساتذہ معاشرہ کے چھوٹے چھوٹے حلقوں اور دور دراز علاقوں میں تعلیم و تبلیغ کی غرض سے بھیجے جاتے ۔ ان میں سے بیشتر طلبہ کے مصارف لوگوں کے عطیات سے پورے ہوتے تھے ۔ اس طرح اس درسگاہ کے قیام سے اسلامی ریاست کا اولین فرض بھی قوم کی تعلیم کا انتظام و انصرام قرار پایا۔ نیز اس درسگاہ کے قیام سے اسلامی معاشرے میں مندرجہ ذیل امور کی طرح پڑی :
اولین چیز دینی تعلیم ، قرآن و سنت کو مسلمانوں کے نصاب تعلیم کا مرکز و محور ہونا چاہیئے ۔ (2) مقصد تعلیم میں دو باتیں سامنے آتی ہیں: ( الف) یہ کہ اچھا مسلمان اور داعی الی الحق بنانا (ب) یہ کہ مسلم معاشرہ کی تمام ضروریات کو پورا کرنا (3) مسجد او رمدرسہ میں باہم گہرا تعلق ہے، اس طرح یہی ادارے ، دینی محور، سیاسی مرکز اور درسگاہ قرار پائے (4) متعلمین کے لئے اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے خو د محنت مزدوری کرنا، مختلف حرفتوں کو سیکھنا اور ان سے وابستہ ہونا اچھا اور پسندیدہ قرار پایا (5) تعلیم کے انتظام و نصرام کی ذمہ داری مسلم معاشرہ اور اسلامی ریاست پر عائد ہوئی کہ اسے اس مقصد کے لئے اپنے ذرائع اور وسائل استعمال کرنے چاہیئے ۔ مسلمانوں کی قومی آمدنی اور بیت المال پر اولین حق زیر تعلیم طلبہ اور ان پر ہونے والے مصارف کا ہے۔ یہ وہ رہنما خطوط ہیں ، جو اسلام کے تعلیمی نظام کے لئے عہد رسالت میں کھینچے گئے ۔ یہ وہ بنیادیں ہیں جو فروغ تعلیم کے لئے عہد رسالت میں رکھ دی گئیں۔ بعد میں ان ہی خطوط اور ان ہی بنیادوں پر اسلام کے نظام تعلیم کا ارتقا ء ہوا ۔ مسجد یں تعلیم کا مرکز بن گئیں ، ہر جگہ درس قرآن و حدیث کے حلقے قائم ہوئے ۔ ایک ایک مسجد میں کئی کئی حلقے بنے ، ایک ایک حلقے میں طلبہ کی تعداد ہزاروں ہوتی تھی ۔ جو اساتذہ متمول ہوتے، وہ اپنی کفالت خود کرتے ، لیکن جو ضرورت مند ہوتے ان کی کفالت بیت المال ( سرکاری خزانے) سے کی جاتی ۔
خلفائے راشدین نے باقاعدہ تنخواہیں اور وظیفے مقرر فرمائے ۔ ہر مسجد، ایک مکتب اور ہر میدان ایک درسگاہ بن گیا ۔ یہ نظام تاریخ اسلام کی ابتدائی چار صدیوں تک رائج رہا ۔ ان حلقہ ہائے درس کی شکل موجود ہ عام مدارس جیسی نہ ہونے کے باوجود ان کی افادیت اور مقصدیت تعلیمی اداروں سے کہیں زیادہ تھیں ۔ یہ نظام اس قدر مستحکم تھا کہ گھر گھر تعلیم عام ہوئی اور ایسی عام ہوئی کہ ایک غریب گھر کا نادار لڑکا جو دھوبی کے پاس حومیہ تنخواہ پر کام کرتا تھا ، دنیا کاپہلا چیف جسٹس بنا اور اس نے جو کتاب لکھی، دنیا کی کوئی عدالت آج تک اس سے بے نیاز نہیں ہوسکی ۔ ہماری مراد ‘‘ کتاب الخراج’’ کے مصنف حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ ہیں، جو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے خاص شاگرد تھے اور ہارون رشید کے عہد میں چیف جسٹس (قاضی القضاۃ) بنائے گئے تھے ۔ اسما ء الرجال کی کتابوں میں اس زمانے کے پانچ لاکھ علماء کے مفصل حالات ملتے ہیں ۔ تعلیمی اداروں میں مرکزی حیثیت مسجد کو حاصل تھی ۔ اساتذہ کے گھر بھی اس مقصد کے لئے استعمال ہوتے تھے ۔ ان اساتذہ کے جاہ و جلال اور عز و وقار کا یہ عالم تھا کہ بادشاہ کے محل میں جاکر شہزادوں کو تعلیم دینا ان کے لئے باعث ننگ و عار تھا ۔
بادشاہ اور شہزادے ان اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے ۔ مساجد اور اساتذہ کے گھروں کے علاوہ کھلے میدان بھی تعلیم و تدریس کے لئے استعمال ہوتےتھے ۔ خانقاہیں تو مستقل طو رپر رہائشی ہاسٹل تھیں، جہاں سینکڑوں طلبہ شب و روز تعلیم و تربیت حاصل کرتے تھے ۔ یہ ابتدائی صدیوں کا حال تھا، اس کے بعد تعلیم کا جوار تقا ء ہوا، اس کے بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ۔ اب ہمیں اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ وہ بنیادیں کیا ہیں ؟ جو تعلیمی نظام کے لئے اسلام تجویز کرتا ہے اور جو اس کے نظریہ تعلیم کی امتیازی خصوصیات ہیں ۔ اسلام نے جو تصور علم دیا ہے، اس کی تین خصو صیات ہیں: (1) ایک تو یہ کہ علم کا سر چشمہ ذات خداوندی ہے۔ حواس، عقل اور تجر بہ بڑے اہم ذرائع علم ہیں، لیکن ان سب سے بڑا اور یقینی ذریعہ علم ‘‘وحی’’ ہے ، جو ایک طرف انسانی زندگی کے بنیادی مسائل کو یقینی طور پر حل کرتا ہے اور دوسری طرف انسانیت کے لئے فطری اور آسان شاہراہ کا تعین کرتاہے (2) دوسرے یہ کہ اس تصور علم میں ، علم کا تعلق محض ‘‘ لوازم حیات ’’ سے نہیں ،بلکہ اس کا پہلا تعلق ‘‘ مقاصد حیات’’ سے ہے۔ یہاں لوازم حیات، مقاصد حیات کے تابع ہوتے ہیں (3) تیسرے یہ کہ اس تصور علم میں تعلیم کے ساتھ تربیت بھی نتھی ہے اور دونوں کو یکساں اہمیت حاصل ہے،اتنی کہ دونوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔ تعلیم کتاب و حکمت کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس ( تربیت) بھی معلم کے فرائض میں شامل ہے۔
تعلیم منزل نہیں،بلکہ نشان منزل ہے۔ حقیق منزل ان لوگوں کا نظریہ حیات اور تمدن و ثقافت ہے، جن کی خدمت اسے کرتی ہے ۔ علامہ اقبال نے اسی نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے خواجہ غلام السیدین کو ایک خط لکھا تھا کہ ‘‘ علم سے میری مراد وہ علم ہے، جس کا دار مدار حواس پر ہو ۔ عام طور پر میں نے علم کالفظ ان ہی معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس علم سے وہ طبعی قوت ہاتھ آتی ہے ، جس کو دین کے ماتحت رہنا چاہئے ۔ اگر یہ دین کے تحت نہ رہے تو محض شیطانیت ہے۔ مسلمان کے لئے لازم ہے کہ علم کو مسلمان کرے۔ ‘‘ بو لہب راحید ر کرارکن ’’۔ اگر یہ بولہب حیدر کرار بن جائے یا یوں کہئے کہ اس کی قوت دین کے تابع ہوجائے تو نوع انسان کے لئے سراپا رحمت ہے’’۔
14 جون، 2013 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/education-during-prophet’s-lifetime-/d/12176