پروفیسر مشتاق احمد
17 اکتوبر،2021
اولین نوبل انعام یافتہ
برائے ادب سلی پرید ہم ایک دانشور، مفکر اور مصلح کی حیثیت سے بھی اپنی مستحکم
شناخت رکھتے ہیں۔ پریدہم کو 1901ء میں یہ انعام ملا تھا۔ انعام حاصل کرتے وقت
انہوں نے اپنے تاثرات میں ایک اہم بات یہ کہی تھی کہ”عام فرد بھی خاص لوگوں کی طرح
ہی سوچتا ہے لیکن عام لوگ اپنی فکر و نظر کی اشاعت میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور
خاص لوگ اس معاملے میں سنجیدہ ہوتے ہیں“۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
-----
بلاشبہ دنیا کی جتنی بھی
عظیم المرتبت شخصیات ہیں، ان کی سوانح کے مطالعے سے یہ عقد ہ اجاگر ہوتا ہے کہ
انہوں نے اپنے افکار و نظریات سے نہ صرف عام و خاص کو روشناس کرایا بلکہ ایک حکمت
عملی کے تحت اس کی معنویت کی قبولیت کے لئے جدوجہد بھی کی۔ سرسید احمد خاں کی حیات
مبارکہ کاایک سرسری جائزہ لینے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے کہ انیسویں صدی کے جن
عظیم دانشوروں او رمصلحین ومفکرین نے اپنے عہد کے بے شمار مسائل کے حل نکالے اور
اصلاحی تحریکات کو جلا بخشی، ان میں سرسید احمد خاں کی حیثیت نمایاں ہے۔ انہوں نے
اپنے علم و حکمت، شعور وآگہی، بصیرت وبصارت اور دور اندیشی سے کسی خاص طبقے یا خطے
کی زندگی میں انقلاب پیدا نہیں کیابلکہ ایک عہد کی تاریخ بدل دی۔ 1857ء سے پہلے کے
سرسید او ربعد کے سرسید میں نمایاں فرق ہے۔ وہ پہلے حکومت برطانیہ کے حامیوں میں
تھے او ران کی فکر و نظرکا دائرہ صرف علم وادب تھا۔ ”جام جم“ (1840ء) سے
”تفسیرالسموات“(1897ء) اور اس کے بعد تراجم کی فہرست بھی طویل ہے۔ ان کی 40
/تصانیت وتالیفات کے مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہوجاتاہے کہ اس دور میں
سرسید صرف اور صرف ادب اور تاریخ پر توجہ دے رہے تھے۔ ماضی کی بازیافت ان کے لئے
ایک فکری اثاثہ تھا اور ”آثار الصنادید“(1847ء) اس کی غمّاز ہے۔
سرسید کے تمام علمی و
ادبی کارناموں کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلا دور 1840ء سے 1846 ء تک کا
ہے جس میں انہوں نے علمی اور مذہبی کارنامے انجام دیئے ہیں۔ دوسرا دور 1847ء سے 1885ء
تک کا ہے جس میں ان کی توجہ تاریخ نویسی کی طرف ہوئی ہے اور تیسرا دور 1858ء سے
1898 ء تک کا ہے اوراس دور میں انہوں نے تمام علوم و فنون کو اپنے مطالعے کا محور
ومرکز بنایا ہے۔ انہوں نے بعد کے دنوں میں مغربی تعلیم پر خاصی توجہ دی۔ ان کی فکر
ونظر میں جو تغیر پیدا ہوا، وہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کی تابناکی کی مثال ہے۔ واضح
ہوکہ وہ اب بھی حکومت برطانیہ کے بہی خواہ تھے لیکن قوم و ملّت کے درد و غم میں
نڈھال بھی رہے۔ ان کی فکر میں قوم کی تقدیر بدلنے کا واحد نسخہ علم ہے اور بالخصوص
جدید علوم سے نو نہال قوم کی آراستگی ان کی فکر کا حصہ بن جاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ
وہ مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ دیگر علوم وفنون کی طرف قوم کو متوجہ کرتے ہیں۔ سائنس
اور طب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں۔ صنعت وزراعت کی باریکیوں سے قوم کو آگاہ کرتے
ہیں۔ مغربی تہذیب و تمدن سے آشنائی کی وکالت کرتے ہیں اور محدود ذہنیت وتنگ نظری
سے پاک ہونے کی تحریک بھی چلاتے ہیں۔ میرے خیال میں سرسید برصغیر کے ایسے پہلے
مسلم دانشور تھے جنہوں نے قوم کی تقدیر اور تصویر دونوں کو بدلنے کی ٹھانی تھی اور
اس کے لئے تعلیم کونسخہ کیمیا جانا تھا۔
میرے علم کے مطابق سرسید
احمد خاں پہلے شخص تھے جنہوں نے عالم اسلام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ مغربی
علم و فنون سے استفادہ کے بغیر ہم جہانِ علم وہنر میں اپنی شناخت قائم نہیں
کرسکتے۔ علی گڑھ میں اسکول کا قیام اور پھر علی گڑھ تحریک کا آغاز اس حقیقت کا
بیّن ثبوت ہے۔علامہ شبلی نعمانی نے ’مقالات شبلی‘ میں یہ اعتراف کیا ہے کہ
”سرسیدکے جس قدر کارنامے ہیں اگر چہ فارمیشن اور اصلاح کی حیثیت ہرجگہ نظر آتی ہے
لیکن جو چیز خصوصیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی بدولت ذرہ سے آفتاب بن گئی، ان میں ایک
اردو لٹریچر بھی ہے۔ سرسید ہی کی بدولت اردو اس قابل ہوئی کہ عشق وعاشقی کے دائرے
سے نکل کر ملکی، سیاسی، اخلاقی، تاریخی ہر قسم کے مضامین اس زور واثر، وسعت و
جامعیت، سادگی اور صفائی سے ادا کرسکتی ہے کہ خود اس کے استاد یعنی فارسی زبان کو
آج تک یہ بات نہیں ہوئی“۔
مگر افسوس کہ سرسید کے اس
ابدی نسخے کو ہم نے فراموش کردیا۔ ان کے مشن کو آگے نہیں بڑھا یا جاسکا۔ نتیجہ
سامنے ہے کہ وطن عزیز ہندوستان کا مسلمان دور ترقی میں کس قدر پسماندگی کا شکار
ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی تصو یر کتنی بھیانک ہے اس کی عکاسی
سچر کمیٹی اوررنگ ناتھ مشرا کمیشن کی رپورٹ میں موجود ہے۔
بہر کیف! اس وقت میرا
موضوع سرسید احمد خاں کا نظریہ بین العلومی مطالعہ ہے۔ سرسید احمد خاں علی گڑھ آنے
سے قبل ہی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ جب تک ہم بین العلومی مطالعے کو اپنا وطیرہ
نہیں بنائیں گے، اس وقت تک ہماری فکری ونظری دنیا میں انقلاب نہیں آسکتا۔ بالخصوص
سائنسی ایجادات سے استفادہ کئے بغیر ذہنی وسعت حاصل نہیں ہوسکتی۔ اسی مقصد سے وہ
غازی پور میں 15 /اگست،1863ء جو سائنٹفک سوسائٹی کی داغ بیل ڈالتے ہیں اور اس کی
پہلی میٹنگ کی روداد نمبر 6 میں درج کرتے ہیں کہ ”یہ بات سچ ہے کہ ہندوستان کی
زمین کثرت پیداواری ملکوں میں مشہور ہے لیکن اگر اس عمدہ زمین میں کاشتکاری قاعدے
سے ہوتو اور زیادہ ترقی ممکن ہے۔ بہت سی اجناس ہندوستان کی پیداوار کی ایسی ہیں جو
اور ملکوں کی اجناس کے مقابلے میں ناقص او ربری ہیں۔ اگر یہاں کے کاشتکار علم
فلاحت کی تمام شاخوں سے واقف ہوں تو بلاشبہ یہاں کے اجناس پیداوار بھی او رملکوں
کی اجناس پر سبقت لے جاوے ورنہ ان کی مثال تو ضرورہوجاتی۔“
مذکورہ اقتبا س پر غور
کیجئے تو خود بھی یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ سرسید احمد خاں نے علم زراعت کے مطالعے
کے بغیر یہ باتنہیں کہی ہے۔ انہوں نے زراعت کے شعبے میں مغربی دنیا میں جو انقلاب
آیا تھا اس کا مطالعہ کیا تھا اور پھر وہ چاہتے تھے کہ زراعت کے شعبے میں بھی
ہماری پوزیشن مستحکم ہو۔ ہماری آزادی کے 70 / سال بعد بھی ہم زراعت کے شعبے میں وہ
مقام حاصل نہیں کرسکے ہیں جہاں مغربی دنیا پہنچ چکی ہے۔ ہمارے سائنس داں سوامی
ناتھن نے بھی بارہا اس طرف اشارہ کیا تھا کہ ہمیں اپنی زراعت کو نئی سائنسی تکنیک
سے آراستہ و پیرا کرنا ہوگا۔کاش! انیسویں صدی کے آغاز میں ہی ہم سرسید کی اس فکر
کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیتے یہاں یہ ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ سرسید نے اپنے
ایک انگریز دوست ’اسمتھ ایلدرس‘ کو ایک خط لکھا تھا او راس میں اس خواہش کا اظہار
کیا تھا کہ ایک ایسی کتاب لکھوائی جائے جو زراعت کے جدید طریقوں پر مبنی ہو۔جب
’تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا تو اس وقت بھی انہوں نے اپنے رفقاء سے یہ
گزارش کی تھی کہ اس میں صرف ادبی مضامین ہی نہ ہوں بلکہ دیگر علوم وفنون پر مبنی
مضامین کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تہذیب الاخلاق
نے نہ صرف اردو میں معیاری صحافت کی بنیاد ڈالی بلکہ مستقبل میں اردو صحافت کا جو
معیار و وقار بلند ہوا اس میں ”تہذیب الاخلاق“ کا مثالی کردار رہا ہے۔ انہوں نے مذہب،
سیاست، تاریخ، فلسفہ، علم کلام، تبصرہ اور تنقید سب کی دنیا بدل ڈالی۔
پروفیسر خلیق احمد نظامی
نے اپنے ایک مضمون میں بجا لکھا ہے کہ ”سر سید میں آدم گری کا حوصلہ بھی تھا اور
شیشہ گری کی صلاحیت بھی“۔ سرسید چاہتے تھے کہ ہماری نسل صرف شعر و شاعری کی دنیا
تک محدود نہ رہے بلکہ وہ اپنے خطبات ومقالات کے ذریعہ اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ
طلباء اپنے تاریخی شعور کو بلند و پختہ کریں۔ اپنے لئے نئی راہیں تلاش کریں۔ کٹھن
مسائل سے مقابلہ کرنے کی ہمت پیدا کریں اور اس کے لئے بین العلومی مطالعے کی وکالت
کرتے تھے۔ سرسید یہ سب ایک پر آشوب دور میں کہہ رہے تھے۔ ایک طرف مسلمانوں کے اندر
حوصلہ بخشنے کا کام کررہے تھے تو دوسری طرف ان کی ترقی کی واحد کنجی تعلیم سے
آراستہ کرنے کی کوشش بھی کررہے تھے۔ وہ اس وقت کے دیگر سماجی مصلح کے افکار و
نظریات کے مطالعے کی بھی وکالت کرتے تھے۔ راجہ رام موہن رائے، دیانند سرسوتی، ہریش
چندر بھارتندو اور کشیپ چند سین جیسے مذہبی اور سماجی مصلح کے افکار ونظریات تک
رسائی حاصل کرنے کی اپیل بھی کرتے تھے۔ سرسید نے اپنے ایک مضمون ’رائے درباب
تعلیم‘ مشمولہ مقالات سرسید میں لکھتے ہیں کہ ”ہمیشہ تعلیم سے یہ مقصود رہا ہے کہ
انسان میں ایک ملکہ اور اس کی عقل او رذہن میں حدت پیدا ہوتا کہ جو امورپیش آئیں
ان کے سمجھنے کی، برائی،بھلائی جاننے کی اور عجائب قدرت الہٰی پر فکر کرنے کی طاقت
ہو“۔
سرسید نے ایم اے او کالج
کے بنیادی مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے بھی یہ بات کہی تھی کہ ”یہ ادارہ مسلمانان ہند
کی تعلیم، تہذیب وثقافت اور دانشورانہ قیادت کا مرکز بن جائے۔ یہاں ایسے تربیت
یافتہ ذہن تیار ہوں جو آئندہ ملک و قوم کے لئے سرمایہ فلاح ثابت ہوں۔“
سرسید مسلمانوں کو سائنسی
تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے ایک مہم چلاتے ہیں اور اپنے رفقاء کو یہ تلقین کرتے
ہیں کہ سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ آخر مسلمانوں کے اندر سائنس کے تئیں ذہنی
خدشات و تحفظات کیا ہیں پھر اس کا ازالہ کیا جائے اور اس کے لئے 1870ء میں ’کمیٹی
خواستگارِ ترقی تعلیم مسلمانان‘ کی تشکیل کرتے ہیں او رمسلمانوں کے نظام تعلیم میں
تبدیلی کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ 1872 ء میں علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ میں ایک اشتہار
شائع کیا جاتاہے اور مدرستہ العلوم یعنی محمڈن اینگلو اور ینٹل کالج کے قیام کی
اطلاع دی جاتی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے قیام کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ
مسلمانوں کو مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جائے۔ سرسید کے اس مشن کو
اس وقت بھی شک و شبہات کی نگاہوں سے دیکھا گیا اور ان کی شخصیت کو مجروح کرنے کی
کوشش کی گئی۔ اکبر الہٰ آبادی جیسے شاعر نے بھی انہیں طنز کانشانہ بنایا اور سرسید
مخالف اخباروں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے جس میں سرسید کے تعلیمی نظریات پرلعن طعن
کئے جاتے تھے۔ ان اخباروں میں‘ اسٹریچی گزٹ‘ (مرادآباد)، ’نورالانوار‘
(کانپور)،’نجم الاخبار‘(مرادآباد)، اور’نیومیموریل گزٹ‘ (دہلی) شامل تھے لیکن
سرسید اپنی دھن کے پکے تھے۔ ان کی نگاہوں میں قوم کامستقبل تھا، اس لئے اپنے اوپر
لگائے جارہے مبینہ تمام بہتان تراشی سے بے پرواہ آگے بڑھتے رہے۔
انہوں نے بین العلومی
مطالعے کی اہمیت و افادیت کی نہ صرف تحریری وکالت کی بلکہ عملی طور پر بھی فعال
رہے۔انہوں نے اس وقت سائنٹفک سو سائٹی کے زیر اہتمام مختلف موضوعات کی کتابوں کا
ترجمہ کرایا اور خود بھی کیا۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ سر سید
احمد خاں کسی یونیورسٹی کے سند یافتہ نہیں تھے۔ انہوں نے درس نظامیہ سے تعلیم حاصل
کی تھی۔ باضابطہ انگریزی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، اس لئے بعض لوگ یہ اعتراض بھی
کرتے ہیں کہ سرسید کو انگریزی پر عبور حاصل نہیں تھامگر سچائی یہ ہے کہ سرسید ایک
نابغہ روزگار شخصیت تھے اور علم و ہنر کے سیکھنے میں انہوں نے اپنی عمر گزاردی
تھی۔ انگریزی ان کے لئے بیرونی زبان ضرور تھی لیکن جس طر ح انہوں نے فارسی اور
عربی پر دسترس حاصل کی تھی، اسی طرح انگریزی زبان پر بھی دسترس حاصل کرنے میں
کامیاب تھے۔ ان کی انگریزی تحریروں اور خطوط کے مطالعے سے یہ حقیقت عیاں ہوجاتی ہے
کہ وہ انگریزی زبان کے قواعد کی باریکیوں سے کس قدر واقف تھے۔ سائنٹفک سوسائٹی کے
زیر اہتمام دو درجن سے زائد انگریزی کتابوں کے تراجم کرائے گئے۔ ان میں Scott
Burns کی
کتاب Modern Farming،سائنس داں ہیرس کی کتاب Electricity اور Todhunters کی کتاب Menstruation اور Trignomatary کے ساتھ ساتھ Rollens کی Ancient
History of Egypt
کا بھی ترجمہ کیا۔ ان کا موقف تھا کہ بین العلومی مطالعے کی بدولت ہی ہم مسلم
معاشرے کو باہری دنیا سے آشنا کراسکتے ہیں اور ان کے ذہن و دل میں یہ سبق بیٹھا
سکتے ہیں کہ مختلف علم و فنون حاصل کرکے ہی ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اب فیصلہ تو
ہم اور آپ کوکرنا ہے کہ ہم نے سرسید احمد خاں کے افکار ونظریات کو اپنی عملی زندگی
میں کتنا فیصد شامل کیا ہے۔ گہوارہ سرسید کے پروردہ کے اوپر اور بھی یہ اخلاق ذمہ
داری ہے کہ وہ سرسید کے مشن کو کتابوں کی دنیا سے باہر نکال کر اجتماعی زندگی کا
حصہ بنائیں تاکہ ہمارے معاشرے میں جو تاریکی ہے وہ اس نور سے منور ہوسکے۔ عہد حاضر
میں ہم جن مسائل سے دوچار ہیں ان سے نجات کا بھی واحد راستہ سرسید کی دکھائی ہوئی
راہیں ہیں مگر افسوس ہے کہ ہم اب بھی خواب غفلت میں مبتلا ہیں اور دنیا نے ہزار ہا
میلوں کا سفر تمام کرلیا ہے۔ سرسید کے تئیں اظہار عقیدت کا سب سے بڑا طریقہ یہی ہے
کہ ہم سرسید کی سوانح کو صرف ایک کتاب نہ سمجھیں او ران کے افکار ونظریات کو محض
ماضی کا چراغ تصور نہ کریں کیونکہ ان کی فکر ونظر کی دنیا اتنی وسیع ہے کہ اس میں
ہمارے ذہن و دل کی تاریکی کے خاتمے کے لئے ہزار ہا نسخے موجود ہیں۔
17 اکتوبر،2021، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism