پروفیسر عرفان شاہد
16 فروری، 2013
اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے، انسانی زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام ہی امور میں وہ شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے ۔ خواہ وہ تعلیمی ہوں یا معاشی یا معاشرتی ۔ اللہ کے نزدیک ساری انسانیت کے لیے واحد مستند دین یہی ہے۔ اسلام کی نظر میں علم فی الواقع معرفت خداوندی کا نام ہے ۔ وہ علم ناقص ہے جو انسان کو اللہ تعالیٰ تک نہ پہنچا سکے اور توحید کے حقیقی تصور سے دور کھے ۔ اسی بنیادی تصور کو سامنے رکھ کر اسلام نے علوم و فنون کی آبیاری کی ہے اور اپنے ماننے والوں میں خود شناسی اور خداشناسی کے داعیات پیدا کیے ہیں۔ اسلام علم کے ساتھ عمل کو بھی لازم قرار دیتا ہے ۔ وہ علم مکمل نہیں ہوسکتا جو عمل سے خالی ہو۔ علم کا حصول ذہنی تعیش او رمعلومات میں اضافے کے لیے صحیح نہیں ہے جیسا کہ آج کل رائج ہے۔ علم عمل کو چاہتا ہے ۔ اگر عمل نہ ہوتو علم رخصت ہوجاتا ہے اور اپنی قدر و قیمت کھو دیتا ہے ۔ وہی علم کار گر اور مفید ہے جو عمل پر ابھارے ، صاحب علم کو فائدہ پہنچائے اور اس کے ذریعے سےپورا معاشرہ فیضیاب ہو۔ اسلام کے اس اساسی تصور کو سامنے رکھ کر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ فر د کاارتقاء، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل میں علم کا یہ اعلیٰ تصور ہمیشہ نمایاں رہا ہے۔ انسان کی معاشرت ، معیشت ، سیاست، تہذیب و تمدن ، ثقافت اور صنعت ، غرض زندگی کے ہر شعبہ میں علوم و فنون کو ترقی دینے کے لیے علم کی زبردست اہمت رہی ہے ۔ چنانچہ مسلمانوں کی چودہ سو سالہ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے علم و فن کے میدان میں جو ترقی کی ہے، اسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا اور دنیا کے تمام ہی علمی حلقوں کے لیے وہ سند کی حیثیت رکھتی ہے ۔ علم ریاضی ہو یا علم طب، علم تاریخ ہو یا علم فلکیات اور دیگر علوم۔ ان سب علوم میں اس طرح ترقی ہوئی کہ آج بھی ماہرین ان ابتدائی حاملین علوم و فنون کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں ۔ البیر ونی ہو یا غزالی، ابن رشد ہو یا ابن خلدون یا دیگر علماء سلف۔ ان کے علوم و فنون کی کتب آج بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ بچوں کی تعلیم و تربیت ایک دلچسپ موضوع ہے جس سے دنیا کے ہر شخص کو دلچسپی ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جس سے دنیا کے ہر شخص کو لازماً گزر نا پڑتا ہے۔
تعلیم کے معنی ومفہوم : تعلیم کے لغوی معنی ہیں کسی کو کچھ بتانا ، سکھانا۔ موجودہ دور کے ایک معلم، تعلیم کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : بعض لوگ غلط فہمی میں تعلیم کو تدریس کا ہم معنی سمجھ لیتے ہیں یعنی طلبہ کو بعض مضامین یا کتب کادر س دے دینا یا انہیں لکھنا پڑھنا اور حساب وغیرہ سکھا دینا ۔ حالانکہ یہ بہت ہی جامع لفظ ہے۔ اس کے مفہوم ہیں تدریس کے ساتھ ساتھ تدریب (فنون میں مہارت پیدا کرنا) تادیب (ادب سکھانا ) اور تربیت (شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی ہم آہنگ نشو ونما کرنا) بھی شامل ہے۔ تعلیم کے اس وسیع مفہوم سے یہ بات حتمی طور پرواضح ہوجاتی ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت سارے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ (1) والدین ، گھر(2) مدرسہ (3) ماحول (4) معاشرہ: یہاں پر زیر اثر بحت موضوع بچوں کی تربیت میں والدین کا رول ہے، اس لیے ہم صرف اسی کاذکر کریں گے ۔ تعلیم و تربیت کی اولین اور اہم ترین جگہ والدین کی گود ہوا کرتاہے۔ پیدائش سے لے کر چار پانچ سال کی ساری سر گرمیاں ، ماں کی گود سے لے کر گھر کی چہار دیواری تک محدود رہتی ہیں۔ اور یہی دور ، تربیت کا سنہرا دور ہوا کرتاہے۔ گھر کے افراد اور گھریلو ماحول کا جو اثر بچہ قبول کرتا ہے وہ بہت دور رس اور انتہائی اہم ہوتا ہے۔ یہیں وہ اٹھنا بیٹھنا ، چلنا، پھرنا، کھانا پینا، بات چیت کرنا ، سب کچھ سیکھتا ہے۔ یہیں سے حقیقی محبت و شفقت ، ہمدردی و تعاون حال ہوتا ہے اور آسائش و ناز برداری ہوتی ہے جو اس کی تربیت و پرورش کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اس دور میں بچے کا ذہن ایک کورے کاغذ کے مانند ہوتا ہے والدین جو چاہیں اس پر تحریر کرسکتے ہیں اور جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ : فِطْرَتَ اللّہِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْھَا ( الروم) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایابھی ہے کہ ‘‘ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔
امام غزالی اس موضوع پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
بچہ والدین کےپاس امانت ہے، اس کا پاکیزہ دل ایک قیمتی جوہر ہے ۔ اگر بچہ کو بھلا ئی کا عاری بنایا جائے اور اچھی تعلیم دی جائے تو بچہ اسی نہج پر پروان چڑھتا ہے اور دنیا وآخرت میں سعادت حاصل کرتا ہے ۔ اگر بچہ کو بری باتوں کا عادی بنایا جائے ، اس کی تربیت سے غفلت برتی جائے اور اسے جانور کی طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو بد بختی و بربادی اس کا مقد ر بن جاتی ہے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے والد محترم جناب ادھم رحمۃ اللہ علیہ کے خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں اپنے بچے کی تربیت اسلامی نہج پر کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ نصیحت کردیجئے ۔ شیخ صاحب نے اس شخص سے پوچھا کہ آپ کے بچے کی کیا عمر ہے ۔ اس شخص نے جواب دیا کہ میرا بچہ ایک مہینہ کا ہے۔ شیخ صاحب نے اس شخص سے کہا کہ آپ بہت دیر سے آئے ۔ دوبارہ پھر اس شخص نے تعجب بھرے انداز میں وہی جواب دہرایا کہ اس کا بچہ ایک مہینہ کا ہے ۔ شیخ صاحب نے جواب دیا جی ہاں میں نے سنا پھر بھی آپ بہت تاخیر سے آئے ۔ دوبارہ اس شخص نے شیخ صاحب سے سوال کیا کہ پھر مجھے اس کے لیے کب آنا چاہیے تھا؟ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ آپ کو اس وقت آنا چاہیے تھا جب آپ اپنی شادی کرنے جارہے تھے ۔ کیونکہ اسلامی نہج پر بچوں کی تربیت کے لیے ایک دیندار ماں کی ضرورت ہوتی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کو چار چیزوں کی بنیاد ایک عورت سے شادی کرنا چاہیے: حسب و نسب ، مال و دولت ، حسن و جمال اور دیندار ی لیکن تم دیندار عورت کا انتخاب کرو کیونکہ یہ پائیدار ہے۔ چنانچہ ایک مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے خود کو دیندار بنا ئے پھر اپنے نکاح کے لیے ایک دیندار عورت کا انتخاب کرے کیونکہ دیندار عورت بچوں کی تربیت کے لیے بے حد معاون اور مدد گار ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیندار صالح عورت کو دنیا کی قیمتی شئے سے تعبیر کیا ہے۔ ان ہدایات کے عدم توجہی کے صورت نتیجہ ا س شعر کے مانند ہوجائے گا:
قدم ہیں تو کنعان کے رہ گزر پر
سفینہ مگر نوح کا مانگتے ہو
غرض یہ کہ بچوں کے بناؤ بگاڑ پر سب سے زیادہ اثر انداز والد ین ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ بچوں کی شخصیت میں وہی رنگ و روغن بھرتے ہیں۔ شکل و صورت کی طرح ان کے اخلاق و عادات ، خیالات و معتقدات ، جذبات و میلانات پر والدین ہی کا پرتو پڑتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی تربیت اچھے ڈھنگ سے کرنے کی کوشش کریں اور یہ ان کی اہم ذمہ داری ہے کیونکہ یہ بچے اللہ تعالیٰ کی جانب سے امانت ہیں۔ ان کی صحیح تعلیم و تربیت والدین پر لازم ہے اور قیامت کے دن ہر والدین سے اس امانت کے متعلق سوال و جواب ہوگا کہ آپ نے کس حد تک اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کو تین چیزوں کا ثواب ہمیشہ ملتا رہتا ہے (1) اولاد صالح (2) یا کوئی ایسا شاگرد چھوڑا ہو جو اس کی تعلیمات کو لوگوں کے درمیان عام کر رہا ہو (3) یا کوئی ایسا کام ہو جس سے اس کے بعد لوگ مستفید ہورہے ہوں۔
بچوں کی تعلیم و تربیت کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سنہرا اصول: علم و عرفان کی دنیا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بڑا اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو علم کے دروازے سے تعبیر کیا ہے۔ آپ بچوں کی تربیت کے تعلق سے بڑا جامع بیان دیا اور بچوں کی تربیت کو عمر کے لحاظ سے تین مرحلوں میں تقسیم کردیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب بچہ تین سے سات سال کے درمیان ہوتو اس کے ساتھ والدین کو کھیلنا چاہئے ۔(1) پہلا مرحلہ تین سے سات سال (2) دوسرا مرحلہ سات سے چودہ سال (3) چودہ سال سے بائیس سال ۔ آپ نے فرمایا جب بچہ پہلے مرحلے میں ہو تو والدین کو اس کے ساتھ کھیلنا چاہئے اور اس سے پیار ی پیاری باتیں کرنا چاہئے ۔ اسے اسلام کے احکامات سکھانا چاہئے ۔ اوربچہ تیسرے اور آخری مرحلے میں داخل ہوجائے تو اس سے بہت دوستانہ تعلق رکھنا چاہئے ،کیونکہ یہ مرحلہ بہت ہی نازک ہوتا ہے، بچے کے اندر بے انتہا طاقت ہوتی ہے لیکن سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت طاقت کےمقابلہ میں تھوڑی کم ہوتی ہے ، مختصر یہ کہ یہ مرحلہ جوش کا ہوتا ہے۔
تربیت کے تعلق سے والدین کی ذمہ داریاں: (1) پیدا ہونے کے بعد بچہ کو صاف ستھرا کر کے اس کے کانوں میں اذان کہیں اور اس کے لیے اچھا نام تجویز کریں (2) حسب استطاعت ساتویں دن عقیقہ کریں (3) حلال اور پاک روزی سےبچے کی پرورش کریں (4) پیار او ر محبت سے آداب و سلیقے سکھائیں (5) پانچ سال کا ہوجائے تو صاحب کردار معلمین کے حوالے کر کے بتدریج علم و ہنر سکھائیں (6) سات سال کا ہوجائے تو نماز کی ترغیب دلائیں (7)دسویں سال اس کا بستر الگ کردیں (8) بارہویں سال سے اس کی حرکات و سکنات پر پوری نظر رکھیں (9) غلطیوں اورکوتاہیوں کے صحیح اسباب کا پتہ لگا کر ازالے کی فکر کریں (10) ان کی عزت نفس کا بھر پور لحاظ رکھیں اور بالغ ہونے پر شادی میں جلدی کریں۔
تربیت کے تعلق سے والدین کو چند ہدایات: (1) بچوں کے سامنے قابل تقلید نمون ہ پیش کیجئے (2) بچوں سے کبھی نہ جھوٹی بات کہیے اور نہ جھوٹا وعدہ کیجئے ۔ یہ گناہ ہے۔ ایسا کرنے سے آپ پر اعتماد اُٹھ جائے گا (3) بچوں کے سامنے آپس میں تو تو میں میں نہ کیجئے اور نہ ہی ان سے ایک دوسرے کی شکایت کیجئے ۔ ایسا کرنے سے ان کے اندر بگاڑ کے جراثیم پیدا ہوجائیں گے (4) نادان سمجھ کر ان کے سامنے خصوصی ازدواجی تعلقات کامظاہرہ ہر گز نہ کیجئے ۔ اولاً تو یہ بے شرمی کی بات ہے۔ دوسرے اس سےآپ کا رعب اور وقار احترام ختم ہوجائے گا نیز قتل از وقت جنسی بحران کے شکار ہوجائیں گے اور غلط کاریوں میں مبتلا ہوجائیں گے (5) اپنے طرز عمل سے یہ محسوس کر ا دیجئے کہ آپ دونوں ایک دوسرے کے بہت ہی خیر خواہ ہیں (6) بچوں میں رقابت نہ پیدا ہونے دیجئے ورنہ یہ چیز آگے بڑھ کر بہت سارے خطروں کی موجبت بن سکتی ہے ( 7) اس کے ساتھیوں کے سامنے کبھی سزا نہ دیجئے ورنہ آپ کا بچہ باغی ہوجائے گا (8) کوئی کمزوری سرزد ہوجائے اور اس کے نتیجے میں اسے سزا بھی ملی ہو، تو اسےبار بار ہر گز نہ دھرائیں ، ورنہ دوسرے لوگ کو طعنہ دینے کاموقع مل جائے گا اور آپ کا یہ عمل اس کو آپ سے دور کردے گا (9) کوئی حکم دینے سے پہلے ان کی ذہنی کیفیت کا اندازہ لگا لیجئے تاکہ نافرمانی کا اندیشہ نہ ہو (10) ان تمام کاموں کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث کے مطالعے کی ترغیب دلائیے کیونکہ یہ دونوں چیزیں انسان کو گمراہ ہونےسے بچا تی ہیں اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری وصیت ہے۔
موجودہ تعلیم کا مقصد : موجودہ دور میں تعلیم کےمفہوم کی طرح تعلیم کے مقصد میں بھی شدید اختلاف پایا جاتاہ ے ۔ ماں باپ اپنے بچوں کو عموماً اس غرض سے تعلیم دلاتے ہیں کہ وہ پڑھ لکھ کر کمانے کھانے کے قابل ہوجائیں ۔ گویا کہ وہ تعلیم کو صرف حصول معاش کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ تعلیم برائے معاش ان کی بنیادی مقصد ہوتا ہے۔ اگر چہ زبان سے اس کا اعتراف بہت کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت میں اکثریت انہیں لوگوں کی ہے جو تعلیم کو حصول معاش کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ آپ اس کا مشاہدہ اپنے موجود ہ معاشرے میں کرسکتے ہیں ۔ تعلیم کا یہ مقصد بالکل غلط ہے۔ اگر معاش کا دارو مدار صرف علم پر ہوتا تو بہت سارے جانور جو عقل سے کورے ہیں ، مرجاتے ۔ اسی مفہوم کی عکاسی کرتے ہوئے عربی ادب کا ایک شاعر لکھتا ہے کہ :
وَلَوْ کَانَتِ الْاُ رُزَاقُ تَجُرِیْ عَلیٰ الُحِجَا
ھَلَکُنَ اِذا مِنُ جَھُلِھنَّ البَھَا یمُ
ترجمہ : ‘‘اگر رزق کی تقسیم علم و دانائی کی بنیاد پر ہوتی تو یہ جانور جو علم سے آشنا ہیں، سب کے سب ہلاک ہوجاتے ’’۔
بلاشبہ کھانا کمانا انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور بہر حال اس بات کی کما حقہّ ، فکر ہونی چاہیے کہ بچہ پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکے۔ لیکن انسانیت کا تقاضہ بس یہی تو نہیں ہے کہ تنہا اسی کو تعلیم کا بنیادی مقصد قرار دے ۔ ایسا کرنے سے بچہ معاشی حیوان تو ضرور بن جائے گا لیکن انسان ہر گز نہیں بن سکتا ۔ کیونکہ جس تعلیم کو اللہ تعالیٰ نے معرفت ذات اور معرفت خداوندی کا ذریعہ بنایا تھا، اس تعلیم کو حصول معاش کا ذریعہ بنالیا گیا ۔ اور دوسری بات یہ کہ مسلمان کے نزدیک تو جان سے زیادہ عزیز ہوتاہے ۔ ایسی صورت میں معاش ہی کو مقصود زندگی ٹھہراکر تعلیم و تربیت کے نظام کو اس کے ارد گرد گھما نا دراصل بچے پر احسان نہیں بلکہ صریحی ظلم ہے:
تعلیم کی اہمیت قرآن و حدیث کے تناظر میں : ہماری یہ دنیا بہت ساری چیزوں کا مجموعہ ہے اور اس کی ہر چیز اپنے رنگ و بو اور مزاج کی بنیاد پر پہچانی جاتی ہے۔ سورج اپنی روشنی کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے ۔ رات اپنی تاریکی کی وجہ سے پہچانی جاتی ہے۔ پھول اپنی خوشبو کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے۔ٹھیک اسی طرح انسان کی بھی ایک پہچان ہے ۔ وہ پہچان کیا ہے؟ وہ پہچان علم ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تخلیق آدم کے وقت ہی انسان کا رشتہ علم سے جوڑ دیا اور جس وقت نبی کو فریضہ نبوت سے سرفراز کیا گیا تو آغاز ہی میں تعلیم و تعلم کی تلقین و ہدایت کی گئی اور اسی طرح سورہ اقرأ کا نزول ہوا:
اِقّرا بِا سُمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ خَلَقَ الْاِ نْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اِقّرا وَرَبُّکَ الْاَ کُرَمْ الَّذِیْ عَلَّمَ بِا لقَلَمَ عَلَّمَ الاِ نْسَانَ مَا لَمُ یَعْلَمُ ‘‘ اے نبی ! پڑھو اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو ، اور تمہارا رب بڑا کریم ہےجس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا ۔ انسان کو وہ علم دیا جسے وہ جانتا نہ تھا۔’’
ان آیات میں پہلی وحی سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہمیت ، اس کا مقام ، تعلیم و تعلم کی ضرورت ذریعہ تعلیم او رلکھنے پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انسان بالکل بے علم تھا، جو علم دنیا میں پھیلا ہوا ہے، اللہ کی دین اور اس کی نعمت ہے۔ اسی طرح قرآن او رحدیث بھی علم کا بہت بڑا خزانہ اور اللہ کی بہت بڑی نعمت ہیں :
علم و ہنر سے پاتی ہے انسانیت عروج
انسان زندہ لاش ہے تعلیم کے بغیر
مختصر یہ کہ ہر والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کے لیے مندرجہ بالا باتوں کا خیال رکھنا چاہیے ۔ اس کی عدم توجہی کی صورت میں بچہ ہی نہیں بلکہ آپ کی آنے والی پوری نسل تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اسلام میں شادی بیاہ محض تمطع کے لیے نہیں بلکہ یہ ایک عبادت ہے۔ اور بچے اللہ تعالیٰ کے جانب سے والدین کے لیے امانت ہیں ۔ اور امانت میں خیانت کرنے والا بہت بڑا مجرم ہوتاہے ۔ ہر صاحبان اولاد کو قیامت کے دن اس کے متعلق جواب دینا ہوگا ۔ کیونکہ اپنے اپنے بچے کا راعی ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ذمہ دار شخص اللہ کے یہاں اپنے ماتحتوں کے متعلق جواب دہ ہوگا ۔بچے بھی ایک طرح سے والدین کے ماتحت میں آتے ہیں ۔ لہٰذا ہر والدین کو اپنے بچوں کے متعلق اللہ کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا۔
16 فروری، 2013 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/role-parents-proper-upbringing-children/d/10478