پروفیسر ہینری فرانسیس، نیو ایج اسلام
28 اکتوبر 2017
سنی اسلام کے ایک عظیم صوفی حضرت امام السنائی نے کہا ہے کہ : "خدا تمہاری ذات سے بھی بڑھ کر تم سے محبت کرتا ہے اور تمہاری قدر کرتا ہے" (ملاحظہ ہو " Spiritual Sayings of Imam Sana'i"، صفحہ 37 )۔ میں اس مختصر سے جملے کو ہر انسان کے وجود پر زبردست حقائق و معارف کا حامل مانتا ہوں۔ ہمیں بار بار یہ یاد دلانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ خدا جو کہ ذاتِ واجب الوجود ہے اسی کی مرضی سے ہمیں وجود بخشا گیا۔ خدا نے ہمارے وجود کو غیر معمولی اہمیت و افادیت کا حامل بنایا ہے، اگرچہ ہماری یہ دنیاوی زندگی مختصر اور ناپائیدار ہے۔ ہمارا وجود کوئی معمولی وجود نہیں ، ہم حادثاتی طور پر پیدا نہیں کئے گئے اور نہ ہی خدا کی نظر میں ہم کوئی حادثاتی مخلوق ہیں۔ ہم اس کی اپنی انتہائی جامع تخلیق کا ایک اہم حصہ ہیں، اور خدا کی ایسی تخلیق ہمارے وجود کے بغیر کبھی مکمل نہیں ہو گی۔
اس واجب الوجود خدا نے ہمیں انسانی وجود کے حیرت انگیز تحفوں سے نوازا ہے۔ اور ایک فرد کے طور پر ہمارا وجود اس قدر منفرد ہے کہ ہماری انفرادیت کے لحاذ سے کوئی اور مخلوق ہماری طرح نہیں ہے۔ ہم سب ایک منفرد افراد کے طور پر موجود ہیں- ہماری طرح نہ کوئی ہوا ہے ، نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی کبھی ہوگا۔
جی ہاں ہم میں سے ہر ایک انسان منفرد ہے! آپ منفرد ہیں، ناقابل اعادہ ہیں، ناقابل تحلیل ہیں، ہمیں محدود نہیں کیا جا سکتا، ہمیں بدلا نہیں جا سکتا! اس لامحدود وجود نے ہمیں کسی چیز یا کسی شئی کی طرح کوئی انسان نہیں بنایا ہے! وہ لامحدود وجود جسے ہم "خدا" کہتے ہیں، کبھی بھی انسانوں کو کل پرزوں کی موٹر کار کی طرح ایک جیسا نہیں پیدا کیا ہے۔ اس وجود نے آپ کی طرح نہ تو ماضی میں کسی وجود کو پیدا کیا ہے اور نہ ہی مستقبل میں کسی کو آپ کے جیسا پیدا کرے گا، اور وہ کبھی بھی مستقبل میں آپ جیسا کوئی دوسرا انسان نہیں پیدا کرے گا۔ ایک عظیم ہندوستانی سنت اور روحانی پیشوا راجنیش اوشو کے الفاظ میں : "خدا موٹر کار بنانے والی کسی فیکٹری کی طرح نہیں ہے جس سے ایک ہی طرح کے موٹر کار ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں بنا کر نکالے جاتے ہیں بلکہ خالق اپنے تخلیقی منصوبے میں منفرد، یکتا اور بے مثال ہے۔
ہر فرد کی تخلیق ایک مخصوص مثال اور مقررہ نمونے پر نہیں ہوئی ہے؛ بلکہ ہر شخص کو خدا نے ایک منفر انداز میں پیدا کیا ہے۔ اس نے آپ کو انفرادی شکل و شباہت عطا کیا ہے، اس نے آپ کی ساخت ایک خاص انداز میں تیاری کیا ہے اور آپ کو ایک مخصوص اہمیت و افادیت کا حامل بنایا ہے۔ آپ منفرد ہیں، آپ اصل ہیں، آپ کوئی نقل نہیں ہیں۔ اور یہ مادی اور روحانی دونوں دنیا میں ایک واضح حقیقت ہے! "(ملاحظہ ہو شری راجنیش اوشو کی کتاب،" Unio Mystica [Mystical Union] "، صفحہ78۔)۔
لیکن انتہائی افسوسناک بات یہ ہے کہ ہم اکثر خود کی نہ تو قدر کرتے ہیں اور نہ ہی خود سے محبت کرتے ہیں۔ ہم اکثر اوقات خود پر بہت سخت ہوتے ہیں۔ اکثر ہم خود اپنی بے قدری کرتے ہیں۔ ایک گنہگار کے طور پر ہم خود اپنی مذمت کرتے ہیں اور فطری طور پر برے، گنہگار، فاسق و فاجر اور بدکار ہونے پر اپنی مذمت کرتے ہیں۔ ہم خود اپنے دشمن بن گئے ہیں۔ اور ایسا کر کے ہم خود ذات وحدہ لاشریک پر خود کو ناقص اور نامکمل پیدا کرنے کا الزام لگاتے ہیں (نعوذ باللہ)! یہی وجہ ہے کہ آج میں نے اپنی گفتگو حضرت امام السنائی کے اس بامعنیٰ قول سے شروع کی جو کہ ہمیں یہ یاد دلانے میں انتہائی اہم ہے کہ خدا ہم سے بے انتہا محبت کرتا ہے۔ امام السنائی نے ہمیں یہ بتایا کہ : "خدا تمہاری ذات سے بھی بڑھ کر تم سے محبت کرتا ہے اور تمہاری قدر کرتا ہے"۔اسی طرح یہودیوں کے صحیفہ میں بھی یہی بتایا گیا کہ ‘‘اللہ انسان سے بے انتہاء محبت کرتا ہے اور اس کی نظر میں انسان کا ایک اعلیٰ مقام ہے"ہاں، میں تم سے بے انتہاء محبت کرتا ہوں۔ لہذا میں نے تمہیں اپنی شفقت اور محبت سے تخلیق کیا ہے۔" (یرمیاہ 31:3؛ مستند کنگ جیمز ورژن)۔
لہٰذا، اب وہ وقت آ چکا ہے کہ ہم خود سے محبت کرنا ، خود کی قدر کرنا ، اپنی ذات پر نرمی برتنا شروع کر دیں۔ اور ایسا کرکے ہم احسان مندی کے ساتھ الہی وجود کو تسلیم کرنے میں کامیاب ہوں جس نے ہمیں غیر یقینی ، عارضی اور قلیل زندگی سے نوازا ہے۔ قرون وسطی میں بغداد کے ایک عظیم صوفی اور مسلمانوں کے مذہبی فقیہ حضرت امام غزالی نے کہا تھا: "تصویر کی تعریف مصور کی تعریف کرنا ہے، اور شاعری سے محبت کرنا شاعر سے محبت کرنا ہے۔۔۔ آپ اس محبوب کی تصویر اور شاعری ہیں۔ آپ اس کے الفاظ اور اس کی تحریر ہیں- آپ اس کی منفرد ساخت ہیں۔ آپ اللہ تعالی کے وجود کی ("حجت") یعنی ثبوت ہیں اور اس کی نشانی ("آیت") ہیں۔ مخلوق اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ خالق موجود ہے۔۔۔ "(ملاحظہ ہو‘‘شرح احیاء علوم الدین، ص۔136 )۔
لہذا، ہمارے منفرد وجود کے خدا کے تحفے کے لئے ہمارا ردعمل کیا ہونا چاہئے؟ یہ ہونا چاہئے: ہم اپنے آپ سےاور دوسروں سے محبت کریں۔ ہمیں اپنے اور دوسروں کے منفرد وجود کا احترام کرنا چاہئے"اور ہمیں غیر متبادل وجود عطا کرنے کے لئے اس ذات وحدہ لاشریک کا شکر گزار ہونا چاہئے، اس سےقطع نظر کہ ہم اس زمین پر کتنے کمزور ہیں اور ہماری زندگی کس قدر عارضی ہے۔ مسیحی اور مسلمانوں دونوں کے نبی یسوع مسیح نے ہمیں حکم دیا: "اپنے پڑوسیوں سے اتنی ہی محبت کرو جتنی تم خود سے کرتے ہو۔" (سینٹ میتھیو 22:39)۔ یہ عبارت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جتنی ہم خود سے محبت کرتے ہیں اتنی ہی ہمیں اپنے پڑوسیوں سے بھی محبت کرنی چاہئے۔ لہذا جب ہم اپنے آپ سے نفرت کرتے ہیں اور اپنی ہی مذمت کرتے ہیں تو اسی طرح ہم دوسروں سے بھی محبت اور ان کی قدر نہیں کرسکتے۔ اور جب ہم خود اپنے آپ سے نفرت کرتے ہیں، تو نعوذ باللہ ہم اسی طرح ذات وحدہ لاشریک سے بھی نفرت کرتے ہیں اور اس کے وجود کی مذمت کرتے ہیں، جس نے ہمیں اس عارضی اور مادی دنیا میں وجود بخشا ہے۔
مجھے یہ لگتا ہے کہ ایک حقیقی روحانی زندگی بسر کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم انسانی وجود کے اس قابل قدر تحفہ کا شکریہ ہونا ہے جو ہمیں خدا نے کسی بھی شرط کے بغیر عطا کیا ہے: نیز ہمیں خود اپنے اور دوسروں کے وجود کا بھی احترام کرنا چاہیئے، اور شکر گزاری کے ساتھ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کی نظر میں میری بھی قدر اتنی ہی جتنی تمہاری ہے، اس دنیا میں میں بھی اس کے وجود کا ایک عکس ہوں جس طرح تم اس کا آئینہ ہو۔ ترکی کے صوفی حضرت مولانا جلال الدین رومی کے الفاظ میں، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ - ہم سمندر میں صرف چند قطرات نہیں ہیں بلکہ ہم خود سمندر ہیں اور قطروں میں ظاہر ہیں ۔ تو آج کے لئے اور باقی زندگی کے لئے اس خوبصورت غور و فکر کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ذات واجب الوجود اور قادر مطلق کی شکرگزاری کے ساتھ واقعی یہ غور و فکر کے لائق ہے، جس کی رحمت ، شفقت اور محبت کی بدولت ہم اس عارضی دنیامیں موجود ہیں۔ آمین ، صد ہزار بار امین !
URL for English article: https://newageislam.com/islam-spiritualism/the-immeasurable-value-human-existence/d/113055
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism