پروفیسر ہنری فرانسس
عید الاضحی کا قرآنی فلسفہ
قرآن مجیدمیں اللہ رب العزت نے اپنے اس فرمان کے ذریعہ عید الاضحی کا الہی کا حکم نازل کیاہے: "اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے ان مویشی چوپایوں پر جو اﷲ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں"(سورہ حج، 22:34)۔ آثار قدیمہ، بشریات اور تاریخ کے نامور جامعات کے اساتذہ نے متفقہ طور پر اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مختلف قبائل، نسلوں اور قومیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی جانب سےدیوی دیوتاؤں کے لیے جانوروں کی قربانیاں اورمختلف رسومات انسانی تاریخ میں عالمی سطح پر پائی جاتی ہیں اور قربانی کے اس نیک عمل کا آغاز حضرت آدم کی شکل میں زمین پر سب سے پہلے بنی نوع انسان کی آمد کے ساتھ ہو چکا تھا۔ حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کہ جن پر مندرجہ بالا (سورہ حج 22:34)آیت نازل کی گئی ہے خود انہیں ایسے چند ممالک اور دنیا کے بعض حصوں کا علم تھا کہ جہاں قربانی کی جاتی ہے ممکنہ طور پر انہیں اس حقیقت کا علم نہیں تھا کہ جانوروں کی قربانی روئے زمین پر تمام اقوام کے درمیان مروج ایک عالمگیرمعمول ہے۔ لہذا، قربانی کے بارے میں یہ آیت واقعی اس حقیقت کاایک واضح ثبوت ہےکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واقعی اللہ کے ایک سچے رسول ہیں اور حامل وحی الہی ہیں۔
یہی معاملہ روزے کا بھی ہے،یہایک عالمگیرعبادت ہے جو اتنے بڑے پیمانے پر مروج ہے کہ دنیا کی قدیم قومیں بھی اس پر عمل پیرا تھیں۔ جیسا کہ قرآن مسلمانوں کو بتاتا ہے کہ "اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ"(سورہ بقرہ2:183)۔ لہذا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر وحی الہی کے ذریعہ اس حقیقت سے آگاہ کیا گیا تھا کہ روزے اور قربانیدونوں ایسے عالمگیر نیک اعمال ہیں جو اس دنیاکی تمام قوموں سے تعلق رکھنے والے ہر نسل، ہر مذہب اور طبقہ میں مقبول اور مروج ہیں۔ اور یہی معاملہ اسلام کے باقی دو عملی احکام یعنی: نماز اور صدقہ کا بھی ہے۔ عبادت کی یہ روایات تمام نسل انسانی میں مشہور و مقبول ہیں اس لیے کہ رسالت کے بارے میں اسلام کی آفاقی تعلیمات کے مطابق اللہ نے دنیا کی تمام قوموں اور نسلوں میں نبیوں کو مبعوث کیا ہے، اور اللہ کے ان پیغمبروں نےانسانوں کو اس طرح سے اللہ کی عبادت کی تعلیم دی کہ جو انسانی فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔
تاہم،جیسے جیسے وقت گزرتا گیامختلف قوموں اور قبیلوں کی طرف بھیجے گئے اللہ کے گزشتہ نبیوں کے احکام کے مطابق بڑے پیمانے پر مروج یہ تمام نیک اعمال غلط تصورات اور توہمات کا شکار ہو کر مسخ ہو گئے۔پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا الہی مقصد ان عبادتوں کو ان کی حقیقی اہمیت و معنویت کے ساتھاس کی قدیم شکل میں بحال کرنا تھا۔شمنی، نسمیت اور کفار کے مختلف فرقوں میں قربانی کی نوعیت یہ تھی کہ یہ کفار مختلف قبائلی یا نسلی خدا سے تعلق رکھنے والے مشرکانہ دیوی دیوتاؤں کو یا کسی اور دیوی دیوتاؤں کوایک تحفہ کے طور پر قربانی پیش کرتے تھے تا کہ وہ دیوی یا دیوتاان سے خوش ہو جائیں یا ان کی الوہیت کا غصہ ٹھنڈا پڑ جائے یا ان دیوی یا دیوتاؤں سے انہیں کوئی مدد حاصل ہو۔ مثال کے طور پربت پرستی میں جانور کی قربانی کے عمل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بت پرست کسی خاص دیوتا،روح یا دیویوں کے حق کو محفوظ رکھنے کے لیے نذرانہ کے طور پر قربانی پیش کرتے تھے۔ان کا ماننا یہ تھا کہ اگر کوئی کافر دیوتاؤں کو قربانی کے طور پر مناسب انداز میں جانور، اناج یا شراب پیش کرتا ہے تو وہ اس کی دعا کو مسترد نہیں کر سکتے اور قربانی پیش کرنے والا ان سے جس چیز کا مطالبہ کرے وہ اسے عطا کرنے پر مجبور ہوں گے۔
قرآن کریم نےبہت سے مذاہب میں پائے جانے والے قربانی کے اس جھوٹے مشرکانہ،خوشامدانہ،مطلب پرست اور خود غرض تصور کوسختی کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایااور اس تصور کی اصلاح کی کہ ایک ضرورت مند انسان کی ضرورت کوپوری کرنے کے لیے خدا کو نذر کے طور پر کسی تحفےکی ضرورت ہے تا کہ وہ قربانی پیش کرنے والے سے خوش ہو، مطمئن ہواوراس سےراضی ہو۔گزشتہ مذاہب کے درمیان مروج اس باطل تصور پر تنقید کرتے ہوئے قرآن کا فرمان ہے کہ اللہ ہر اس چیز سے پاک ہے جو اس کی مخلوق اسے فراہم کر سکتی ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ میں: "اور اﷲ بے نیاز ہے اور تم (سب) محتاج ہو۔" (سورہ محمد 47:38)، "بے شک اللہ تم سے بے نیاز ہے ۔" (سورہ الزمر 39:7)،’’بیشک اللہ سب جہانوں سے بے نیاز ہے،‘‘( سورہ آل عمران 3:97)۔یہاں یہ آیت بھی پیش کرنا موزوں ہے: ’’فرما دیجئے: کیا میں کسی دوسرے کو (عبادت کے لئے اپنا) دوست بنا لوں (اس) اﷲ کے سوا جو آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ (سب کو) کھلاتا ہے اور (خود اسے) کھلایا نہیں جاتا‘‘۔ (سورہ انعام 6:14)۔ مندرجہ بالا آیات سے ظاہر ہونے والا قرآنی نقطہ نظر اہمیت کا حامل ہے اس لیے کہ اناج اور مکھن سے لے کر مرغی، بکری، گائے، بیل اور بھیڑجیسےجانوروں تک قربانیوں میں پیش کی جانے والی تمام چیزیں کھانے کی ہی ہیں،اور جو قربانی پیش کرنے والا اس غلط فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ اس نے خدا کے غصے کو مطمئن کر دیا ہے اور اس نے قربانی پیش کر کے خدا کی رضا مندی حاصل کر لی ہے۔ مثال کے طور پر، ویدوں کی تعلیمات پر مبنی آگ کی قربانی میں چندن اور گھی کو آگ میں ڈالا جاتا ہے اور یہ مانا جاتا ہے کہ آگ کا دیوتااس قربانی کوآسمان کے اعلی دیوتاؤں کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے۔ لیکن قرآن مجید ہمیں یہ بتاتا ہے کہ رحمٰن و رحیم اللہ تمام مخلوقات کو پالتا ہے اور انہیں رزق فراہم کرتا ہے اور اسے کوئی رزق نہیں دیتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت کو ہمارے شکریہ یا تعریف کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ابراہیم علیہ السلام کی قربانی: دنیاوی مال و اسباب سے دستبردار ہونا اور شہوات نفسانی کو ترک کرنا۔
اس سے قربانی کا وہ مقصد ہمارے اوپر عیاں ہوتا ہے جس کا ارادہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کرنے میں کیا تھااور ہم پر یہ امر بھی عیاں ہوتا ہے کہ اس واقعے کے ذریعےاللہ نے بنی نوع انسان کو کس طرح اس بات سے آگاہ کیا کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے بذات خود جان کی قربانی مقصود اور مطلوب نہیں تھی، بلکہ اللہ تعالی صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزما رہا تھا کہ وہ مکمل طور پر ایمان رکھتے تھے اور غیر مشروط طور پراللہ کی رضا پر راضی تھے یا نہیں۔قرآن کا مطالعہ کرنے پر ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہت دعاؤں کے بعد ضعیف العمری میں اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو اسماعیل کی شکل میں ایک بچہ عطا کیا تھا۔ جب حضرت اسماعیل نوجوان ہوئےتو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل کو قربان کر رہے ہیں۔اور جیسا کہ انسانی قربانی اورخاص طور پر سب سے پہلے پیدا ہونے والے بیٹےکی قربانی پیش کرنا ان کے دور میں مختلف قوموں کے درمیان ایک رائج معمول تھا، حضرت ابراہیم نے خواب کی تعبیر یہ کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں حضرت اسماعیل کی قربانی دینے کا حکم فرما رہا ہے۔ حضرت اسماعیل کی رضامندی حاصل کرنے کے بعد، حضرت ابراہیم نے اس قربانی کو انجام دینے کے لیے اسماعیل علیہ السلام کو باندھ کر قربان گاہ میں لٹایااور ان کے حلقوم پر چھری چلا دیا، لیکن اللہ نے انہیں قربان ہونے سے بچا لیا اور فرمایا: ’’واقعی تم نے اپنا خواب (کیاخوب) سچا کر دکھایا‘‘(37:104-105) ۔لہٰذا،اسماعیل کی اصل قربانی دینےکے عمل نے نہیں بلکہ اللہ کے حکم کی مکمل اطاعت اور یہاں تک کہ اللہ کے حکم پر اپنے محبوب بچے کو قربان کرنے کے عمل نے انہیں قرب خدا کا مستحق بنا دیاتھا۔حضرت ابراہیم کی مکمل اطاعت کے اس واقعہ کو یاد گار بنانے کے لیےایک جانور کی قربانی کا قانون اللہ نے نازل فرما دیا جسے ہر سال حج کے مہینے میں انجام دیا جاتا ہے۔
مسلمان جس جانور کی قربانی پیش کرتے ہیں اس بارے میں اللہ کا فرمان بڑا واضح ہے کہ : "ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے"(سورہ حج 22:37)۔ایک مشہور نقشبندی صوفی اور ہندوستان کے سب سے بڑے محدث حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے مطابق اس آیت سے یہ امر بالکل واضح ہے کہ اللہ تک ہمارے نفس کی قربانی پہنچتی ہےجس سے مراد نفسانی خواہشات کو ترک کرنا ہے،اور جانور کی قربانی کو اس کی علامت بنایا گیا ہے(ملاحظہ ہو عقیدۃ الحسنہ اہل سنت باب 14، جز 3)۔ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں کہ جب جانوروں کو قربان کیا جاتا ہے تو قربانی پیش کرنے والا بظاہر قربان تو جانور کو کرتا ہےجبکہ باطن میں اس کی نیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود شہوانی نفس یا اپنی انا کو ذبح کر رہا ہے۔قربانی کا سب سےاہم مقصد اور معنیٰ یہی ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہےاور جو آج تک جاری ہے اور صبح قیامت تک جاری رہے گا۔
اسلامی نظریاتی اور اخلاقیات میں "قربانی" کے قرآنی تصور کی اہمیت و افادیت
پوری کائنات انسانیت کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مقدس شخصیت کی جانب سے کہ جنہیں تمام مومنوں اور تمام وحدانییت پرست مذاہب (یہودیت، عیسائیت اور اسلام)کا بانی اور مربی مانا جاتا ہے، اتحاد و اتفاق کی دعوت کے علاوہ قربانی کے عمل سے ہمیں جو ایک اور سبق حاصل ہوتا ہے وہ اسلامی نقطہ نظر سے "قربانی" کا حقیقی معنی ہے۔جیسا کہ ہم نے پہلے ہی بیان کر دیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے دن ایک جانور کی رسمی قربانی خود اپنے اندر کے حیوانی اور نفسانی خواہشات اور جذبات کا خون کرنے کی علامت ہے۔اپنی ایک واحداولاد کو قربان کرنے کے لئے راضی ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی خاطر اپنی کی زندگی کی تمام چیزوں کو قربان کر رہے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کوبہت ضعیف العمری میں ایک بیٹا بخشا گیا تھا؛اور حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم کے لیے محبت، پیاراور شفقت کا صرف ایک مصدر و منبع ہی نہیں تھےبلکہ وہ اس بڑھاپے میں ان کی طاقت اقتصادی تعاون اور تحفظ کے بھی ضامن تھے۔ پھر بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم کی بجا آوری میں ان تمام چیزوں کو قربان کرنے کے لئے تیارتھے۔اور قربانی کا حقیقی معنی یہی ہے جیسا کہ ہمیں قرآن میں بتایا گیا ہے، "ہرگز نہ (تو) اﷲ کو ان (قربانیوں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ان کا خون مگر اسے تمہاری طرف سے تقوٰی پہنچتا ہے۔" (سورہ حج 22:37)۔لہٰذا،اللہ کے لیے حقیقی قربانی اس کی بارگاہ میں کھانا، پیسےاور یہاں تک کہ دوسروں کی جان و مال کی قربانی پیش کرنے کا نام نہیں ہے، بلکہ قربانی کا حقیقی معنیٰ دل و جان سے اپنی ذات کو مرضی مولا کے حوالے کرنے کا نام ہے۔اور اللہ کے ساتھ انسان کی وفاداری اور اطاعت شعاری کا تعلق اتنا مضبوط ہو جائے کہ روئے زمین پر ایسا تعلق کسی کے ساتھ بھی نہ ہو! در حقیقت یہ خود کو اللہ کی مرضی کے سپرد کرنے کی ایک بہترین مثال ہے۔ اکلوتے بیٹے کی زندگی بھی اپنے محبوب خالق کے حکم کی بجاآوری میں ابراہیم علیہ السلام کے لیے رکاوٹ نہ بن سکی۔
اسکے علاوہ قرآن کے مطابق ابراہیمی قربانی کا ایک اور پہلو بھی ہے جسے اکثر لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں۔جب اللہ نے حضرت ابراہیم اللہ کوایسا خواب دکھایا جس کی تعبیر انہوں نے یہ کی کہ اللہ ان سے ان کے بیٹے اسماعیل کو قربان کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے تواس کے بعد وہ اپنے بیٹے کے پاس گئے اور ان سے ان کی رائے اور ان کی رضامندی کے بارے میں پوچھا! حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک باپ تھے اور انہیں اپنے بیٹے پر پورا حق حاصل تھااس کے باوجود انہوں نےاپنے بیٹے کے ساتھ مشورہ کیا۔ (37:102)۔یہ نقطہ اس روایت میں اتنا اہم ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے اس 'قربانی' کو ابراہیم اور اسماعیل دونوں کی قربانی قرار دیا ہے (ملاحظہ ہو عقیدۃ الحسنہ اہل سنت باب 15، جز 7)۔ دوسروں کے ساتھ مشاورت بھی یقینی طور پر ایک قربانی ہے اس لیے کہ اس میں دوسرے کو طاقت اور اختیاردیا جاتا ہے۔مشاورت، باہمی معاہدے اور رضامندی کے عظیم اصول کا مظاہرہ جو کہ سنی اجماع (اسلامی مشاورتی جمہوریت) کی بنیادہے، جس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان مشکل اور سخت ترین حالات میں بھی عمل کیا تھا۔ دوسروں پر اختیاراور غلبہ رکھنے والےہر شخص کو خواہ وہ کسی ملک کا ایک صدر ہو ، ایک بادشاہ یا ایک اسلامی معاشرے کا ایک رہنما ہو حضرت ابراہیم کے ذریعہ پیش کردہ اس خوبصورت مثال سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔اپنے ماتحتوں کے ساتھ مشاورت کرنا اور ان کی رائے کو سراہنا یقینی طور پر ایک قربانی ہے لیکن اس کا نتیجہ معاشرےمیں کامل اتحاد، مفاہمت، ہم آہنگی کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل کا ذکرقرآن میں اس طرح ہے کہ "پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولا کے حکم کو تسلیم کرلیا) " (37:103)۔لہٰذا، عید الاضحی باہمی مشاورت کے اصول کی اہمیت کو تسلیم کرنے کا موقع فراہم کرتا ہےجو کہ ایک اچھی قیادت کے لئے ایک ضروری قربانی اور امت مسلمہ میں امن اور اتحاد کے لیے ایک شرط اولین ہے۔
ابراہیم اور اسماعیل کی قربانی پر اپنی سوچ کو گہرا کرنےکے لیے ہم یہ قیاس آرائی کر سکتے ہیں کہ اس واقعہ میں ایک دیگر قسم کی بھی 'بیٹے کی قربانی'ہےجو کہ خاندان کے تقوی کے لئے بہت فائدہ مند ہے ۔گمراہ کن محبت کی بنیاد پر اکثر والدین اپنے بچوں کی اصلاح کرنے کے بجائے ان کے غلط عزائم، غلط عادات،برائیوںاور بری خواہشات کو برداشت کرتے ہیں اور انہیں پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، طاقت اور اختیار رکھنے والے والدین اپنے اختیارات کا استعمال بچوں کی بدکرداریوں،کھلی برائیوں، غلط کاموں اور صریح ظلم کو نظر انداز کرنےکے لیے کرتے ہیں۔ اس کی سب سے بری مثالیں اس وقت سامنے آتی ہیں جب کسی ملک کے صدر اورحکمرانوں کے ضدی بچے ملک کے قانون کی خلاف ورزی کرنے اور یہاں تک کہ اخلاقی قوانین کو بھی توڑنے کے لئے آزاد محسوس کرتے ہیں اس لیے کہ ان کے والدین اپنے بیٹے کے شریر اعمال سے چشم پوشی کرتے ہیں اور قانون کو بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے ہیں کہ وہ انہیں روکےاوران کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔یہ ایسےمواقع ہیں جب ایک باپ کوانصاف اور سچائی کی راہ میں اپنےبیٹے کے لئے اپنی محبت کو قربان کرنا چاہئے ۔
حج: اسلام میں"اتحاد" اور "قربانی" کی ایک عملی مثال
عیدالاضحیٰ سے اتحاد کا جو سبق حاصل ہوتا ہے وہی سبق عملی طور پر حج میں بھی عیاں ہیں۔جہاں ہر قومیت، رنگ و نسل، سماجی و معاشی حیثیت سے تعلق رکھنے والے لوگ صرف ایک قادر مطلق کی عبادت میں ایک سفید چادر (احرام) میں ملبوس ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ ہو کر کعبہ شریف کا طواف کرتے ہیں۔حج کے دوران مختلف مراسم کے ذریعہ اسلام نے اتحاد و اتفاق کا جو نمونہ پیش کیا ہے انسانی اتحاد اور دیگر کمیونٹی کے ساتھی گانگت کی اس سے بہتر کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ اس کے علاوہ، حجاج کرام اپنی مرضی اور خوشی کے ساتھ سفر کی مشکلات برداشت کرتے ہیں، اپنےگھروں اور ملکوں کو چھوڑتے ہیں اورپھر اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے سفر کے اخراجات اور مختلف جسم ان یعصوبتوں اورمشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ بے شک، ایسا خلوص اپنے آپ میں منفرد ہے اور پوری دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی،یہ ایک حقیقی قربانی کا مظاہرہ ہے اس لیے کہ حج کے مناسک کی ادائیگی میں موت کا بھی خطرہ ہے۔
مراسم حج کا مرکز کعبہ شریف خود اللہ کی مطلق وحدانیت کی ایک یادگار ہے، جسے پیغمبراسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام 360 بتوں سے پاک کیا تھا جو اس کے اندر رکھے ہوئے تھےجو ایک سچے اللہ وحدہ لاشریک کا گھر تھا اور اب بھی ہے۔اسلامی تصوف کےنقطہ نظر سے انسانی جسم کے اندر دل کعبہ یعنی اللہ کا گھر ہے۔ اور جس طرح مادی کعبہ سے بتوں اور مشرکین کے معبودوں کو نکال دیا گیا ہے اسی طرح مسلمان کے دل کو بھی بتوں اور مشرکین کے معبودوں سے پاک سمجھا جاتا ہے، لہٰذا، اس سے یہ حقیقت مستفاد ہوتی ہے کہ حج کامقصد اپنے دل کے کعبہ میں چھپے ہوئے بدی کے بے شمار بتوں کو قربان کرنا ہے۔
بے شک، حج جو کہ اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک ہے اور صاحب استطاعت مسلمان پر واجب ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مقدس شخصیت کی یاد میں منائے جانے والے تہوار سے حاصل ہونے والے بنیادی سبق پر عمل درآمد کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔حضرت ابراہیم کی قربانی سے اللہ نے ہمیں جو سبق دیا ہے وہ یہ ہے کہ اسلام کے لیے جب بھی ضرورت ہو ہمیں ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیاررہنا چاہیے،خواہ وہ ہماری کوئی سب سے عزیزچیز ہو، ہماری زندگی ہو، مال و دولت ہو، ہمارے خاندان کی محبت ہو خواہ معاشرے میں ہماری حیثیت ہو۔
خلاصہ یہ کہ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عید الاضحی کے دن ایک جانور کی قربانی ہمارے دل اور دماغ میں پوشیدہ حیوانی اور نفسانی خواہشات کی حقیقی قربانی کے لیے ہمارے عزائم کی نشانی ہے۔ ہر سال عید الاضحی کے دن ہمیں مستقل طور پر کم از کم ایک بری عادت یاکوئی بری خصلت ترک کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اور اس کا حصول حقیقی قربانی پیش کرنے میں ہے جسے اللہ قبول کرتا ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں اس موقع پر ایک جانور کی رسمی قربانی کے علاوہ اگرہم اپنی انا، اپنے حیوانی جذبات اور خود غرضی کے بتوں کو قربان کریں اوراور اپنی زندگی کے ہر ایک لمحے کو اللہ کی اطاعت شعاری اور فرمانبرداری میں بسر کرنے کا عزم مصمم کر لیں، تب جا کر ہم واقعی حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام کی قربانی سے سبق حاصل کر سکیں گے اور فائدہ اٹھا سکیں گے۔ عید الاضحی کے اس سبق کو عملی زندگی میں اتار کر ہم اتحاد اور امن قائم کر سکتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں اور برکتوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان کی قیمتی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق اور طاقت و قوت عطا فرمائے۔آمین، ہزار بار آمین!
URL for English article: https://newageislam.com/islamic-society/the-‘feast-sacrifice’-its-spiritual/d/108533
URL for this article: