New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 12:55 AM

Urdu Section ( 27 Dec 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Sufi Perspective on the Spiritual Worth of the Present Moment موجودہ لمحے کی روحانی قدر و قیمت پر ایک متصوفانہ نقطہ نظر

پروفیسر ہینری فرانسس، نیو ایج اسلام

23 نومبر 2017

اس مختصر سی دنیاوی زندگی کے اندر دنیاوی سرگرمیوں میں ہماری مصروفیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہمارے پاس اپنی تخلیق کے اصلی مقصد پر غور و فکر کرنے کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمارا زیادہ تر وقت زندگی کی گزر بسر کے لئے انتظام و انصرام اور دولت ، عزت اور شہرت کے حصول کے لئے ڈور بھاگ میں بسر ہو جاتا ہے ، یہاں تک کہ اکثر ہمیں اطمینان کے ساتھ سانس لینے کا بھی وقت نہیں ملتا! سوشل میڈیا ہمارے لیے قیمتی اوقات کو محفوظ کرنے کے بجائے ہمیں غیر اہم کاموں میں مشغول رکھتا ہے جبکہ ٹیلی ویژن کے سامنے ہمارا وقت اکثر لاحاصل اور تضیع اوقات پر مبنی پروگراموں میں ضائع ہوجاتا ہے۔

درحقیقت ہم موجودہ لمحوں کی خوشی اور نعمت سے محروم ہو چکے ہیں کیونکہ ہمارا زیادہ تر وقت اپنے ایسے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہوتے ہیں جو اب تک واقع ہی نہیں ہوا ہے۔ ہمارا اکثر وقت ماضی کی باتوں پر افسوس کرنے میں بھی برباد ہو جاتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہم اپنی ماضی کی غلطیوں پر حد سے زیادہ وہم و گمان اور غور فکر کر کے مفلوج ہو چکے ہیں اور بیکار مواقع کے تعاقب میں اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کر رہے ہیں!

ایک حقیقی قدرداں انسان کی زندگی کا اصل مقصد اپنی زندگی کے مقصد کو تلاش کرنا ہے۔ تصوف پر مسلم روحانی شخصیات کی کتابوں کے مطالعہ کے درمیان میں نے یہ پایا کہ صوفیائے کرام قدردان انسان کو "ابن الوقت"، یعنی موجودہ لمحے کے اولاد قرا ردیتے ہیں۔ قرون وسطی کے ترکی کے عظیم سنی صوفی بزرگ حضرت مولانا جلال الدین رومی بھی ایک قدر داں انسان کو "صاحب الوقت"، موجودہ لمحے کا مالک قرار دیتے ہیں (ملاحظہ ہو ، مثنوی مولانا روم، ص۔34)۔ حضرت مولانا رومی لکھتے ہیں کہ ایک قابل انسان اپنے حال پر نظر رکھتے ہوئے کسی بھی افسوس کے بغیر اپنے ماضی کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے اور بے خوف و خطر مستقبل کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔

کیا قابلیت کے حصول کے راستے میں ہمیں ماضی سے کچھ سبق حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ جی ہاں، ماضی سے سبق حاصل کرنے کے لئے بہت ساری چیزیں ہیں! ایک عقلمند انسان کے لئے اس کا ماضی فہم و بصیرت کا ایک مصدر و سرچشمہ ہے کیونکہ وہ اپنی پچھلی غلطیوں کا جائزہ لیتا ہے اور خود کو ایک بہتر انسان بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس کا مطلب ماضی پر آہ و بکا اور گریہ و زاری کرنا نہیں ہے بلکہ ماضی تو سبق حاصل کرنے کا داعیہ ہے۔ جیسا کہ ناول نگار رچرڈ بچ کہتے ہیں، " غلطی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ وہ کام ہم اپنے حق میں انجام دیتے ہیں جو چیزوں کو سیکھنے کے لئے اہم ہیں اور ہمیں جنہیں سیکھنے کی ضرورت ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کس قدر ناخوشگوار ہیں۔ ہم جو بھی اقدامات کرتے ہیں وہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے ضروری ہیں جنہیں ہم نے اپنا ہدف بنایا ہے۔ ("The Bridge Across Forever: A True Love Story "، صفحہ 97)۔ "لہذا، وجودیاتی اور ساتھ ہی ساتھ روحانی معنوں میں بھی در حقیقت غلطی جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے- بلکہ یہ زندگی ایک ایسی درسگاہ ہے جس میں ہمارا کام صرف قیمتی سبق حاصل کرنا ہے!

گزرے ہوئے وقت کو واپس لانے کی کوشش کرنا ایک سعی لاحاصل ہے اس لئے کہ جو وقت گزر چکا وہ تاریخ کے ہلاکت آمیز دامن میں چلا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ جو وقت ہمیں میسر ہے اسے اسی شکل میں اپنا کر اپنی زندگی کا حصہ بنانا لازمی ہے ۔ ہمیں زندگی سے لطف اندوز ہونا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں اسے بےہودہ اور غیر اہم کاموں میں گزارنے سے بچنا چاہئے اور اس امر سے بھی ہمیں لاپرواہ نہیں ہونا چاہئے کہ ان لمحوں کو گزارنے کا طریقہ کیا ہے اور ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ اس ‘‘وسیع ترین کاروبار دنیا میں ہماری حیثیت کیا ہے’’۔ ہمیں اپنی زندگی کو اس کی پوری تونگری ، خوشحالی اور اس کے متنوع اور کثیر جہتی تجربات کے ساتھ گزارنا چاہئے۔ ہمیں اپنی زندگی کے ہر ہر لمحے سے حتیٰ المقدور لطف اندوز ہونا چاہئے ، لیکن ہمیں آج کا کوئی بھی اہم کام کل پر نہیں ٹالنا چاہئے۔ اس لئے کہ امکان قوی ہے کہ ہم کل کا سورج نہ دیکھ سکیں۔

اسی ایک طرح ایک قابل انسان وہی ہے جو " ابن الوقت ہے"، جو مسلسل اپنے موجودہ لمحے کو جیتا چلا جاتا ہے، خود سے آگاہ ہوتا ہے ، دوسروں کے ساتھ با معنی تعلقات رکھتا ہے ، اور ہر لمحہ اللہ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے۔ جس طرح صوفیاء اور اولیاء نے اللہ کی تقدیر پر توکل اور تفویض کے ذریعہ کامل توازن، بے نیازی اور سکون و قرار کے ساتھ زندگی کے لئے ناگزیر نشیب و فراز کو قبول کر لیا ہے۔ ایک قابل قدر شخص اپنی زندگی کے گزر جانے سے کبھی خوفزدہ نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ جو شخص مکمل طور سے خدا خالق ہر زمان و مکان پر اعتماد کرتا ہے وہ اس تسلی بخش احساس کی بدولت مکمل طور پر محفوظ ہو جاتا ہے کہ جو بات اسے اس دنیاوی زندگی میں پیش آئی ہے یا پیش آنے والی ہے وہ اسی قدیر و خبیر مالک ہر زمان و مکان اللہ جل جلالہ کی جانب سے ہے۔

یہی مفہوم ہے مارٹن لوتھر کے اس قول کا کہ ایک مؤمن کی زندگی میں اس کے تمام اعمال و افعال کا محرک اس کی اپنی کوششیں نہیں بلکہ اللہ کا فضل و احسان ہے۔ اگرچہ مومن اپنی زندگی کے لئے منصوبہ بندی کر سکتا ہے، لیکن وہ مکمل طور پر یہ جانتا ہے کہ اس کے منصوبے صرف اسی وقت کامیاب ہو سکتے ہیں جب اسے اللہ کی نصرت و حمایت میسر ہو۔ اگر وہ اپنے منصوبوں میں ناکام ہو جاتا ہے تو ایک مومن کا مضبوط یقین ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اس کے لئے کیا اچھا ہے خدا سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ہر صورت میں مومن کے دل پرسکون ( صلح قلب) ہوتا ہے: جو ہمیشہ یہی مانتا ہے کہ خدا ہمیشہ بہتر چاہتا ہے اور وہ ہمیشہ ہمارے لئے بہتر ہی کرے گا، اگرچہ مومن یہ نہیں جانتا ہے اس کا طریقہ کیا ہے۔ ایسا سچا عقیدہ اور پختہ اعتماد صرف خدا کے فضل، اس کی رحمت اور محبت پر مکمل اعتماد سے ہی پیدا ہوتا ہے۔

URL for English article: https://www.newageislam.com/spiritual-meditations/a-sufi-perspective-spiritual-worth/d/113321

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/a-sufi-perspective-spiritual-worth/d/113705


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..