پروفیسر اختر الواسع
13 مارچ،2022
ہمارے پڑوس سے اکثر ایسی
ہولناک خبریں آتی ہیں جو کہ دل دہلانے والی ہوتی ہے۔ پاکستان میں مذہب کے نام پر
جو کچھ ہوتاہوا اکثر دکھائی دیتاہے وہ نہ تو اسلام سے مطابقت رکھتاہے اور نہ ہی
کسی بھی مہذب معاشرے کو وہ قطعاً زیب دیتاہے ۔ پاکستان میں نظام مصطفی قائم ہو، اس
کیلئے زور و شور سے نعرے بازی کی جاتی ہے لیکن اس طرح کی نعرے بازی کرنے والے یہ
بھول جاتے ہیں کہ نظام مصطفی کے قیام کے لئے بنیادی شرط اخلاق مصطفی صلی اللہ علیہ
وسلم کی ہے۔ پاکستان میں اہانت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام اور قرآن کی
توہین کے خلاف جو قوانین وضع کئے گئے ہیں خود پاکستان میں رہنے والے اور وہاں کے
حالات و واقعات کے جاننے والے اس بات کو مانتے ہیں کہ ان کا استعمال ذاتی دشمنی
نکالنے کے لئے اکثر کیا جاتاہے۔ پہلے ان قوانین کا استعمال پاکستان کی عیسائی اور
دیگر اقلیتوں کے خلاف کیا جاتا تھا لیکن آہستہ آہستہ اب ان کا استعمال مسلمانوں
سے بدلہ لینے کے لئے خود ان کے مسلمان بھائی ہی خوب کررہے ہیں۔ اسی طرح کا ایک
بہمانہ واقعہ حال ہی میں پاکستانی پنجاب کی راجدھانی لاہور سے 275 میل دور ضلع
خانیوال کے جنگل ڈیرہ والہ گاؤں میں پیش آیا جہاں ایک پاگل شخص کو ایک محمع کثیر
نے اپنے تشدد کا اس طرح نشانہ بنایا کہ پولیس بھی بے بس ہوگئی اور وہ شخص دیکھتے
ہی دیکھتے لقمہ اجل ہوگیا۔ اس شخص پر یہ الزام تھا کہ اس نے قرآن کریم کی اہانت
کی۔ اس کے صفحات کو پھاڑ ا اور انہیں نذر آتش کردیا۔ پہلی بات تو یہ کہ کسی ایسے
شخص سے جو پاگل ہو، آپ کسی معقول ، مہذب اور متوازن رویے کی توقع کس طرح کرسکتے
ہیں؟ جو شخص اپنے ہو ش وہواس میں ہی نہیں رہتا اور دماغ کے خلل کی بنا پر اسے
اچھائی اور برائی کا کچھ پتا ہی نہیں، اس کے ساتھ سمجھداروں کو تو ایسا برتاؤ
کرناہی نہیں چاہئے۔آپ کا مذہبی صحیفہ جو خدا کی آخری کتاب کی صورت میں اس نے
اپنے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں دیا، اس پر آپ کا غم و غصہ جائز
ہوسکتا ہے لیکن اسی کے ساتھ خرد مندوں کو اتنا تو یادر کھنا چاہئے کہ ایسے شخص کو
پولیس کے حوالے کرناچاہئے تاکہ قانون اپنا کام کرسکے نہ کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے
لینا چاہئے۔خیر سے مشاق احمد جو بشیر احمد نامی شخص کا بیٹا تھا ، مسلمان تھا اور
ہمیں ابھی تک پاکستان کے صوبہ پنجاب کی ایک کپڑوں کی فیکٹری میں اہانت رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے نام پر ایک سر ی لنکن کارندے کو بھی جس طرح ہجومی تشدد کا اسی
طرح نشانہ بنایا او روہ بھی جاں بحق ہوگیا، اب تک یاد ہے۔
پاکستان ، جو اپنے آپ کو
مملکت خداداد کہتا ہے او رجو اسلام کی تعلیمات کو نافذ کرنے کے لئے وجود میں لایا
گیا تھا، وہاں جو کچھ غیر مسلموں کے ساتھ ہوتا آیاہے وہ شرمناک بھی ہے اور تکلیف
دہ بھی ۔ اسی طرح سے اسی انتہا پسندی اور اس شدت پسند ی کو کیا کہا جائے جس میں نہ
مسجدیں ،نہ خانقاہیں، نہ امام بارگاہیں او ردرگاہیں خیرت سے ہیں اور مسلکی عناد
وفساد کے ذریعہ پیدا کردہ اپنے ہی ہم وطنوں کے لئے نفرت کا ماحول، پاکستان کو دیمک
کی طرح کھائے جارہا ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ تمام مسالک دین کے تابع ہیں نہ کہ
دین مسلکوں کے زیر نگیں۔ ہم جوبھی مسلک اختیار کریں اور جس سے چاہیں شرف ارادت و
بیعت حاصل کریں لیکن یہ نہ بھولیں کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم او
راس کی کتاب ہی ہمارے عقیدے کا محوررہیں گے باقی ہر وابستگی اور تعلق عقیدت کا
مرکز ہوگا۔
معاملہ اتناہی نہیں ہے
ہمیں یاد ہوگا کہ ملالہ یوسف زئی نام کی بچی کو ماضی میں اس لئے گولی ماری گئی کہ
وہ لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں آواز اٹھا رہی تھی۔ وہ تو خیر ہو حکومت برطانیہ کا
اور وہاں کے بعض غیر سرکاری تنظیموں کا جنہوں نے ملالہ کا علاج بھی کرایا، اس کی
تعلیم کیلئے راستے بھی ہموار کئے اور اس زمانے کا سب سے بڑا نوبل انعام بھی اس کو
دیا گیا۔ لیکن یہ بھی کوئی کم تکلیف کی بات نہیں کہ جب دنیا پاکستان کی ایک بیٹی
کو اس اعزاز سے سرفراز کررہی تھی اس وقت پیشاور میں ایک اسکول کے اندر ملالہ کے
مخالف اور تعلیم کے دشمن عناسر نے ننھے منے بچوں کو جوو ہاں حصول علم کے لئے آئے
تھے انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا اور سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سب کے لئے
مذہب کو جواز کے طور پر استعمال کیا گیا۔
کون نہیں جانتا کہ جب نبی
امّی علیہ الصلوٰۃ والسلام بعثت کے بعد غار حرا سے سوئے قوم آئے تو اپنے ساتھ ’
اقرا‘ کا پیغام لے کر آئے تھے۔ ان نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسی دنیا
میں جہاں علم و دانش پر چند لوگوں کی اجارہ داری تھی یہ ببانگ دہل کہا ’ علم حاصل
کرنا فرض ہے ہر مسلمان مرد پر او رہر مسلمان عوت پر‘ ۔ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ’
علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر تک‘۔آپ نے یہ ہدایت بھی دی کہ ’ حکمت مومن کی
گمشدہ پونجی ہے ، وہ جہاں سے ملے حاصل کرو‘۔ اور صرف کہا ہی نہیں، آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس کو عملی طورپر کرکے دکھایا ۔ جب جنگ بدر میں فتح یابی کے بعد
مسلمان مکہ والوں کو جنگی قیدی کے طور پر مدینہ لائے تو ان کی رہائی کے لئے دوہی
شرطیں رکھی گئیں ’ یا تو فدیہ دو یا مدینے کے مسلمان بچے بچیوں کو زیور تعلیم سے
آراستہ کرو اور رہائی پا جاؤ‘۔ جب کہ ہم سب جانتے ہیں کہ وہ قرآن کو مانتے نہیں
تھے ، حدیث کو جانتے نہیں تھے ، اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے
کھلے ہوئے دشمن تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کون سی تعلیم دلوائی
ہوگی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی تعلیم دلاکر یہ بتادیا کہ ہمیں
اپنے بچو ں کے مذہب کی فکر کرنی چاہئے لیکن استاذ کا مذہب نہیں بلکہ ان کے علم اور
قابلیت کو دیکھنا چاہئے ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ پاکستانی سماج میں کس طرح ایک
مخصوص گروہ تعلیم کا دشمن بنا ہوا ہے۔
نبی کریم علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے بخاری شریف کے مطابق یہ بھی فرمایا ہے کہ ’ گالی دینا فسق اور قتل کرنا
کفر ہے‘ ۔پھر یہ دریدہ ذہنی ، ہر زہ سرائی اور تشدد پاکستانی معاشرے میں کہاں سے
درآیا ہے کہ جمعہ کے مبارک دن اللہ کی کبریائی کے اعتراف میں سر بہ سجود ہونے کے
لئے جمع لوگوں پر ایک خود کش حملہ کیا گیا جس میں ابھی تک 63 ؍افراد
جاں بحق ہوگئے اور نہ جانے کتنے زخمی ۔مرنے اور زخمی ہونے والوں کا قصور صرف اتنا
تھا کہ وہ شیعہ فرقے سے تعلق رکھتے تھے جن کے مسلمان ہونے پر کسی کو بھی کوئی شک
نہیں ہوناچاہئے ۔لیکن اس کی سزا انہیں کس نے دی ! داعش نے ۔ یہ نادان بھول جاتے
ہیں کہ ان کے ایسے شرمناک عمل سے اسلام کی تصویر دنیا کے سامنے داغدار ہوتی ہے اور
اتحاد امت پارہ پارہ ہوتا ہے ۔ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ دنیا میں کہیں بھی
، کسی کے بھی خلاف ظلم وزیادتی ہو ہم اس کے سخت خلاف ہیں اور ایک جگہ کے ظلم کو
دوسری جگہ کے ظلم کے جواز بنانے کے قطعاً حامی نہیں ہیں۔ پاکستان کی حکومت میں ملک
کے وزیراعظم سے پنجاب اور صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ سمیت مذہبی امور کے وزیر،
انسانی حقوق کے وزیر اور دیگر لوگوں نے بظاہر ان تمام واقعات کی سخت مذمت کی ہے
اور وزیر اعظم عمران خان نے دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹولرینس کی بات کہی ہے لیکن
خالی کہنے سے کام نہیں چلے گا کیونکہ جب تک ایسے لوگوں پر کس کر لگام نہیں کسی
جائے گی، پاکستان ہی کی نہیں اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بھی دنیا میں داغدار ہی
ہوتی رہے گی۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا
چاہئے کہ اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان والوں کی یہ پہچان بتائی
ہے کہ ’ وہ جو کچھ اپنے لئے پسند کرتے ہیں وہی دوسروں کے لئے بھی ‘ اور رسول مقبول
علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس قول کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ ہم غیر مسلم اکثریتی
ملکوں اور معاشروں میں وہ تمام حقوق ، آزادیاں اور مراعات جو مسلمانوں کے لئے
چاہتے ہیں وہ مسلم اکثریتی معاشروں او رملکوں میں اپنے غیر مسلم بہن بھائیوں کو جو
اقلیت میں ہیں، سب سے پہلے دے کر دکھائیں ، ایک مثال قائم کریں اوردنیا کے ساتھ
اپنے رب کے حضور سرخروئی کا سامان کریں۔
13 مارچ،2022 ، بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
English Article: Why Are Extremism And Violation Of Islam In The Name Of Islam Growing Together In Pakistan?
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/extremism-pakistan-violation/d/126573
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism