پروفیسر اختر الواسع
18نومبر،2019
9نومبر 2019کو بابری مسجد اور رام مندر تنازعہ پر عدالت عظمیٰ کا جو فیصلہ آیا ہے اس پر عدم اطمینان کی وجہ سے جو مایوسی، ذہنی پراگندگی اور اعصابی تناؤ مسلمانوں کے عام و خاص میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ غیر فطری نہیں ہے، لیکن اس کے نتیجے میں جس طرح اپنے، اپنوں کی کردارکشی پر لگے ہوئے ہیں وہ اوربھی زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھایا جائے، کچھ سچائیوں کی وضاحت ضروری ہے،تاکہ سندر ہے اور بہ وقت ضرورت کا م آئے:
(1) عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یقینی طور پر مسلمانوں کی توقعات کے مطابق نہیں آیا۔ (2) اس فیصلے پر عدم اطمینان یا عدم اتفاق کے اظہار کوعدالت عظمیٰ کی توہین یا ملک دشمن قرار دینا صریحاً غلط ہے۔ (3) سپریم کورٹ نے اس فیصلے میں نیتجہ کچھ اور بھی اخذ کیاہو، لیکن کچھ سچائیوں کو بالکل واضح کردیا ہے جو درج ذیل ہیں:
(الف) اپنے فیصلے میں عدالت عظمیٰ نے اس داغ کو ہمیشہ کیلئے دھو دیا ہے کہ مسجد، مندر توڑ کر بنائی گئی تھی۔ (ب) 22/23دسمبر 1949ء کو سازش کے تحت رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر بابری مسجد میں مورتی رکھی گئی تھی۔ (ج) 6دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت غیر قانونی تھی۔ (د) 1991ء کے مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کے تحت اب کوئی نیا تنازعہ کسی بھی فرقے کی عبادت گاہ کو لے کر نہیں اٹھایا جاسکتا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے حاصل نتیجوں کے ساتھ یہ حقائق بھی اس وقت باقی رہیں گے جب تک کہ یہ فیصلہ قانون کی کتابوں، تاریخ کے صفحات میں محفوظ رہے گا اور اس پر ماہرین قانون اور قانون کے طلبہ اپنی رائے دیتے رہیں گے۔ ایک بات یہاں اعادہ اور ضروری ہے کہ جمعیۃ علماء ہند ہو یا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ یا اس مقدمے سے متعلق مسلمانوں کی دوسری تنظیمیں، سب نے انتہائی دیانت، جاں فشانی اور حوصلے کی بلندی کے ساتھ پہلے بابری مسجد کی بقا و سلامتی اوربعدازاں اپنے مؤقف کوبرحق ثابت کرنے کیلئے تمام پر امن و جمہوری طریقوں سے قانونی لڑائی لڑی۔ ان تمام حقائق کے ساتھ ایک بات ہمیں اور بھی قابل تحسین لگتی ہے کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا ء بورڈ نے 31اگست،2019ء کو امن وخیر سگالی کو یقینی بنانے اور صبر و تحمل سے کام لینے کے لیے ایک اپیل جاری کی تھی۔ بعد ازاں اس کی تائید اور توثیق کرتے ہوئے حضرت مولانا ارشد مدنی کی قیادت میں آل انڈیامسلم مجلس مشاورت نے بھی ایک میٹنگ بلائی، جس میں جماعت اسلامی ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث، جناب شاہد صدیقی، جناب وجاہت حبیب اللہ سمیت مسلمانوں کی ملی، سماجی اور دینی حلقوں کی مقتدر شخصیات نے شرکت کی اور اتفاق رائے سے یہی فیصلہ کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ بھی ہو، ہم اسے تسلیم کریں گے اور حالات بگڑنے نہیں دیں گے۔اسی طرح مرکزی وزیر مختار عباس نقوی نے اپنے گھر پر مسلمانوں کے مختلف طبقات کے نمائندہ افراد کوبلایا اور اس میں آر ایس ایس کے بھی دو اہم رہنما بلائے گئے۔
اس کے بعداسی طرح کی ایک اور میٹنگ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے اپنے گھر پر منعقد کی۔اس میں بھی بہت سے لوگ جن کی سیاسی، نظریاتی اورمسلکی وابستگیاں الگ الگ تھیں، شریک ہوئے اور میٹنگ میں وی ایچ پی کے بھی اہم ذمہ دار شریک ہوئے۔ ان تینوں میٹنگوں میں راقم الحروف بھی شریک تھا، اس لئے موقع کے گواہ کے طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے کلی طور پر متفق ہونے کا عام طور پر زیادہ تر مسلم قائدین میں سے کسی نے بھی اعلان نہیں کیا۔ ہاں اس موقف کو ضرور دوہرایا کہ ہم جس بات کا اعلان سپریم کورٹ کے فیصلے کے آنے سے پہلے کر چکے ہیں کہ چاہے وہ ہمارے حق میں ہو یا خلاف، اسے تسلیم کریں گے۔
نقوی صاحب او رڈوبھال صاحب کے یہاں میٹنگوں میں شرکت پر کچھ لوگوں نے نہ صرف نا پسندیدگی کا اظہارکیا، بلکہ شرکاء کو متہم کرنے اور دشنام طرازی کاشکار بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں ہر کوئی سمواد (بات چیت) کے لئے گیا تھا، سودے بازی کے لئے نہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ جمہوریت کی روح او رمذہبی خیر سگالی نہ مجادلے میں ہے نہ مناظرے میں،بلکہ مکالمے میں ہے۔ ہم غصہ کرنے والوں او ربرا بھلا کہنے والوں کے جذبات کی قدر و قیمت کو سمجھتے ہیں۔ ان کی نیتوں پر ہمیں کوئی شبہ نہیں ہے، لیکن انہیں بھی اتنا خیال رکھنا چاہئے کہ جب کوئی ملت کے نام پر سودے بازی کرتا نظر نہ آئے اس سے اختلاف تو کریں، لیکن اس کے خلاف نفرت آمیز اور غیر مناسب طرزعمل سے تھوڑا پر ہیز کریں۔ ہمیں یہ بھی نہیں بھولناچاہئے کہ اپنی بات کہنے، ملت کے احساسات اور جذبات کو حکومت ہو یا اکثریتی فرقہ تک پہنچانے کے لئے کوئی نہ کوئی چینل اور پُل توبنانے ہی پڑیں گے۔ اس میں اگر ہم اجیت ڈوبھال جیسے تجربے کا ر افسر کوذریعہ بنا سکتے ہیں،جنہیں کانگریس کی حکومت نے آئی بی کا ڈائریکٹر بنایا تھا اور جو کہ اپنی غیر جانب داری کے لئے جانے جاتے ہیں تو اس وقت تک اس پر کسی کواعتراض نہیں ہونا چاہیے، جب تک کہ ملت کے مجموعی مفاد کے خلاف کوئی کام نہ کیا جارہا ہو۔
جماعت اسلامی ہو یا جمعیۃ علماء ہند، مرکزی جمعیت اہل حدیث ہو یا آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور اس سے جڑی ہوئی دوسری شخصیات او رجماعتیں، جیسے مولانا کلب جواد، مولانا خالد رشید فرنگی محلی اور یا پھر ان سب سے الگ دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام مولانا سید احمد بخاری یا پھر سابق مرکزی وزیر کے رحمٰن خاں جو کہ ہمارے اعتبار اوراعتماد کے حامل رہے ہیں، سبھوں نے اپنے اپنے دائروں میں مسلمانان ہند کی بقاء عزت اور ملی تشخص کے لیے غیر معمولی کام کیے ہیں ان سے اختلاف رائے کو خدا کے لیے اُمّت میں خلفشار اور انتشار کا ذریعہ مت بنائیے۔ ایک ایسے وقت میں جب اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے ٹرسٹ بنائے جانے پر اکثریتی فرقے میں ٹکراؤ اور اختلاف کھل کر سامنے آرہا ہے، خدا کے لیے ایسی کوئی کوشش مت کیجئے جس سے اس کا رُخ ایک بارپھر مسلمانوں کی طرف ہوجائے او رہندو مسلم تنازعے کی نئی شکل اختیار کر کے ملک کے امن و سکون کو غارت کردے اور ہماری نئی نسلوں کو ایک بار پھر آزمائش میں ڈال دے۔ ہمیں اس حقیقت کو نہیں فراموش کرنا چاہیے کہ آگے چھلانگ لگانے کے لیے پیچھے ہٹنا ناگریز ہوتا ہے۔
اگرچہ میں امّت مسلمہ کا ہندوستان میں ایک معمولی فردہوں، اس قطرے کی مانند جوسمندر میں رہ کر اپنی کوئی الگ شناخت نہیں رکھتا جو پیوستہ شجر رہ ہی کر امید بہار رکھتا ہے۔ جس نے سیاست کے بازار میں اپنے آپ کو کبھی بکنے والی شئے نہیں بنایا۔ اس لیے قصہ پاکئی دامن کے سوا کیا پیش کرسکتا ہوں۔ مارچ، اپریل 1964ء میں ساتویں کلاس کے ایک طالب علم جس کی عمر تیرہ سال بھی نہیں تھی، اس نے کلکتہ، راوڑ کیلا اور جمشید پور میں بھیانک فسادات کے خلاف علی گڑھ میں الگ الگ جلسوں میں دو احتجاجی تقریریں کیں اور اس کی پاداش میں ایک نہیں دومقدمے چلائے گئے۔ بالآخر سزا ہوئی۔ بعدازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بازیابی میں سات دفعہ تہاڑ، لکھنؤ، بجنور، علی گڑھ میں جیلوں میں رہا۔ چھ مہینے سے زیادہ میزا (MISA) میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ قید و بند کا شکار رہا۔ ایمر جنسی میں انڈر گراؤنڈ رہا او راس کے بعد سیاست کے بازار کی خواری سے بچنے کے لیے اپنی اور اپنے گھروالوں کی غربت و افلاس سے بچانے کے لیے تدریس کے پیشے کواختیار کیا اور اس دوران بھی ملک و ملت کے لیے ہمیشہ زبان و قلم سے سچ ہی کو لکھا او ربیان کیا۔ یاران تیز گام دیکھتے ہی دیکھتے منزلوں کو جا پہنچے لیکن اس پر ہمیشہ خوشی کا تواظہار کیا رشک و حسد کا نہیں، کیونکہ جس نے جو راستہ چنا وہ وہاں پہنچ گیا اور اپنے رب کا ہمیشہ اس لیے شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے بھی وقت سے بہت پہلے اور اوقات سے بہت زیادہ نوازا۔ وہ سب کچھ عطا کیا جو میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا اور شاید جس کا میں مستحق بھی نہیں تھا اس لیے آج جب کوئی ہماری نیت اور ملت سے وفاداری پر شک کرتا ہے تو بلاشبہ تکلیف ہوتی ہے۔ خاص طور پر ان لوگوں کی طرف سے جب طعنے ملتے ہیں، جن کی نیت کی نیکی، دلیری او رحق گوئی پر ہمیں ناز رہا ہے، جنہوں نے اپنے قلم و زبان سے ہمیشہ فرقہ واریت، فسطائیت اور نفرتوں کے سودا گر وں کے خلاف قلم اٹھایا ہے،نکّڑ ناٹک کیے ہیں او راپنی شائستگی او رایثار پیشگی سے اپنی ایک پہچان بنائی ہے، تو دکھ ہونا لازمی ہے۔
آخر میں میں صرف اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے صرف اتنی فکر رہتی ہے کہ خود اپنے اور اپنے خدا کے سامنے شرمندگی نہ ہو اور ہاں اگر کہیں مسلمانوں کے نام پر پھر بلایا جائے گا تو میں مسلمانوں کے مؤقف کو پیش کرنے کے لیے پھر ہر جگہ جانے کو تیارہوں کیونکہ بات چیت سے وہ گریز کرتا ہے جس کامؤقف غلط ہوتا ہے۔
18نومبر،2019،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/we-speak--/d/120297
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism