New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 02:01 PM

Urdu Section ( 3 Oct 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Film Based on Contempt of the Prophet (saw) and Our Reaction اہانت رسول پر مبنی فلم اور ہمارا رد عمل

پروفیسر اختر الواسع

4اکتوبر ، 2012

حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی تضحیک و توہین اور مسخ کاری کے لیے بنائی جانے والی فلم کا تازہ واقعہ نہایت اشتعال انگیز اور شرمناک ہے۔ ابھی قرآن سوزی کے جار حانہ واقعے کی یاد ذہنوں سے محو نہیں ہوئی تھی کہ یہ واقعہ سامنے آگیا ۔اس طرح کے واقعات کے پس پشت کار فرما ذہنیت کا جس قدر بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ یہ وہ شیطانی ذہنیت ہے جس کی تشکیل صرف انسانیت کی تخریب و انہدام کے لیے عمل میں آئی ہے۔ مغرب میں آزادی فکر و نظر کا تصور اس ذہنیت کو جس طرح پروان چڑھانے اور فروغ دینے میں مصروف ہے، اس کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں انسانی اخلاق اور مذہبی اقدار کا بچا کھچا سرمایہ بھی اس کی بھینٹ چڑھ جائے گا۔

تا ہم غور کیا جائے تو اندازہ ہوا گا کہ رسول اللہ کی تحقیر و اہانت کے یہ واقعات نئے نہیں ہیں۔ یہ ہر دور میں پیش آتے رہے ہیں اور ان کا سلسلہ آپ کے بعثت سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ عہد وسطیٰ کا مغربی ادب اس قسم کی مثالوں سے بھرا ہوا ہے ۔ دور جدید میں اس کی باضابطہ شروعات مرتد زمانہ سلمان رشدی کے ’’شیطانی آیات‘‘ (Satanic Verses) سے ہوتی ہے ۔سلمان رشدی کو مغرب خصوصاً برطانیہ میں اس کے بعد جو پذیرائی حاصل ہوئی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس نے رشدی کی ذہنیت رکھنے والے سماج کے بدطینت عناصر کی نگاہوں میں رشدی کو رول ماڈل بنادیا ۔ چنانچہ اب رشدی کی طرح شیطانی فکر رکھنے والوں کا ایک پورا طبقہ خصوصاً مغرب کی سرزمین پروجود میں آچکا ہے ۔ مغرب میں ایک چھوٹے سے طبقے کی مادر پدر آزاد تہذیب اور بے قید و بند فکر سے اس کی آبیاری ہورہی ہے۔ مغرب کے ایک حلقے کی خدا بے زار تہذیب میں خود خدا کا مذاق اڑانا بھی کوئی معیوب بات نہیں ہے ۔ رسول اللہ کی یہ حدیث پوری طرح مغرب میں بے قید او رغیر محدود آزادی فکر کے نقیبوں پر صادق آتی ہے: ترجمہ ’’اگر تمہیں شرم نہیں آتی تو جو چاہو کرو ‘‘ (قرآن)۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک دن مغرب کو اس کی قیمت چکانی پڑے گی ۔ اس کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں اور مغرب کے اس طبقے کو جو ابھی فطرت کی شاہراہ سے نہیں ہٹا ہے ، یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس کی تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی پر مائل ہے اور جس شاخ نازک پر مغربی فکر و ثقافت کاآشیانہ بنا ہے وہ شاخ بہت جلد ٹوٹنے والی ہے۔اب یہ بات کسی تفصیل و تشریح کی محتاج نہیں رہی کہ مغربی ممالک کی حکومت اور عوام کے لیے اسلام کی فکری و نظریاتی قوت ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اس لیے ان دونوں طبقوں میں اسلام فوبیا کا مظہراپنے عروج پر ہے۔ اسلام فوبیا کا شکار حلقہ اس بات کی فکر میں ہے کہ مسلمانوں کی فکری و ہ تہذیبی بنیادوں پر اس طرح تیشہ زنی کی جائے کہ وہ ان کی نظر میں ایک متاع بے قیمت ہوکر رہ جائیں۔

لیکن یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ اور اس طرح کے واقعات کوئی سازش نہیں ہیں۔ کیوں کہ اس کا کوئی بھی پہلو خفیہ اور پر اسرار نہیں ہے۔ اس کی پوری حقیقت آئینے کی طرح روشن اور شفاف ہے۔ مسلمانوں کے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کے پس پشت مقاصد کاادراک کرنے اور ان کی روشنی میں اس طرح کے چیلنج آمیز اور صبر آزما واقعات سے نمٹنے کی کوشش کریں۔ حالیہ کچھ عرصے میں اسلام نے اپنی فکری و نظریاتی قوت سے جس طرح مغرب کی سرزمین کو فتح کرنے کی کوشش کی ہے وہ اپنے آپ میں ایک معجز سے کم نہیں ہے۔ ایسی صورت میں باطل کا وطیرہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ وہ حق کی آواز کو دبانے کی ہر ممکن کوشش وکاوش کرے۔ یہ اہم سوال ہے کہ ا س نوع کے نفرت انگیز اقدامات پر پابندی کی کیا صورت ہوسکتی ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلے کا کوئی قابل عمل حل اس کے بغیر ممکن نظر نہیں آتا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے باضابطہ ایسا قانون بنایا جائے جس کے تحت دنیا کے تمام مذہبی رہنماؤں کی اہانت اور تمام مذاہب کے بنیادی عقائد و مسلمات کا مذاق اڑانے کو انسانیت کے خلاف جرم قرار دیا جائے اور سزا متعین کی جائے۔ جس کا نفاذ دنیا کے تمام رکن ممالک کے لیے لازمی ہو۔ سامیت کے خلاف لب کشائی اگر قابل سزا جرم ہوسکتی ہے تو پھر مذہبی شخصیات و مسلمات کا مذاق اڑانے والے ایسے اقدامات کیوں قابل سزا نہیں قرار دئے جاسکتے جن سے دنیا کی اکثر آبادی، جو مذہب اور مذہبی اقدار میں یقین رکھتی ہے، کہ جذبات مجروح ہوتے ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا کوئی اور؟

یہ سوال بھی قابل غور ہے کہ اس طرح کے اشتعال انگیز واقعات پرمسلمانوں کا کیا رد عمل ہونا چاہئے؟ یہ بات ہر صاحب عقل و ہوش پر واضح ہے کہ مسلمان اپنے پیغمبر کو اپنے ماں باپ ، اپنی اولاد اور اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز و محبوب رکھتے ہیں۔اسلام کا یہی مطالبہ ہے جیسا کہ رسول اللہ کی اس مشہور حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک کمال ایمان کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ،بچے اورتمام لوگوں سے زیادہ عزیز و محبوب نہ ٹھہرو (لا یومن احد کم حتی اکون احب الیہ من والدہ و لدہ والناس اجمعین ۔ بخاری) مسلمانوں کو اکثریت اس دور آزمائش میں بھی اس ایمانی صفت کی حامل ہے کہ وہ شاید سب کچھ برداشت کرسکتی ہے لیکن اپنے رسول کی توہین و استہزا کو برداشت نہیں کرسکتی اور حقیقت یہ ہے کہ عقل و فطرت سے بہرہ ور اور مذہبی اقدار میں یقین رکھنے والے کسی بھی شخص کا ضمیر اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ اس کے عقیدے اور عقیدت کے مرکز کو ٹھیس پہنچائی جائے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام پر مغرب میں بننے والی مختلف فلموں او رلکھی جانے والی ایسی کتابوں پر جس میں ان کی شخصیت کو ہدف تنقید واستہزا بنانے کی کوشش کی گئی ہے ، مغرب کے مختلف حلقوں میں بھی اس پر احتجاج اور مظاہرے کیے جاتے رہے ہیں۔

اس لیے اس نفرت انگیز فلم کے رد عمل میں مسلم ممالک میں جو واقعات پیش آئے وہ غیر متوقع نہیں تھے ۔ البتہ یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ اسلام ایک اصول پسند مذہب ہے ۔ ا س کا ایک مکمل اخلاقی نظام ہے۔ وہ اسلام دشمن طاقتوں کی بدترین اور ذلیل حرکتوں پر بھی اپنے اصول و اخلاقیات سے انحراف نہیں کرسکتا ۔ اس بنا پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ سفارت کا روں کا قتل کسی اسلامی شریعت کی روسے جائز نہیں تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسیلمہ کذاب کے دو قاصد آئے جو مرتد ہوچکے تھے اور مسیلمہ کی اس تجویز کے ساتھ آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیلمہ کے درمیان جزیرہ عرب کی تقسیم پر صلح کرلی جائے۔ یہ واقعہ نہایت اشتعال انگیز تھا لیکن آپ نے ان قاصدوں کا قتل نہیں کرایا کہ یہ وقت کے دستور کے خلاف تھا۔حقیقت یہ ہے کہ احتجاج نہ کیا جانا اسے خاموشی سے برداشت کرلینا ایمانی تقاضے کے خلاف ہے۔ لیکن یہ احتجاج اور مظاہرے ہر صورت میں پر امن ہونے چاہئیں ۔ قتل و تخریب ، آتش زنی، لوٹ مار اور فساد انگیزی کی کوششوں کو خواہ ان کے پیچھے محبت رسول کا خالص اسلامی جذبہ ہی کار فرما کیوں نہ ہو، سند جواز عطا نہیں کیا جاسکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے اقدامات سے خود ہمار اکیس کمزور ہو جاتا ہے ۔ ان واقعات کا اصل عامل یا قصۂ واردات پر ہونے والی گفتگو پس منظر میں چلی جاتی ہے اور تشدد پسندی کے واقعات شہ سرخیوں میں چھپ کر بحث و مباحثے کا موضوع بن جاتے ہیں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کائنات کو روشنی دینے والے خورشید درخشاں کی ہے۔ اس پر گرد ڈال کر اس کی روشنی کو دھندلایا مدھم نہیں کیا جاسکتا ۔ جزیرہ عرب کے مشہور عیسائی مورخ فلپ کے حتی نے اپنی کتاب ’’ ہسٹری آف دی عربس‘‘ میں لکھا ہے کہ تاریخ انسانی کے تمام مذہنی رہنماؤں میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ امتیاز ہے کہ وہ تاریخ کی مکمل روشنی میں پیدا ہوئے ۔ اس لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ آپ کی شخصیت کی مسخ کاری کی جاسکے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذکر کو بلند کیا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ور فعنا لک ذکر ک اور وہ قیامت تک بلند رہے گا۔ اسے کوئی پست نہیں کرسکتا ۔آج جو کچھ ہورہا ہے وہ نیا نہیں ہے، کیوں کہ بقولِ اقبال:

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغِ مصطفوی سے شرار بولہبی

4اکتوبر ،2012 : بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/film-based-contempt-prophet-(saw)/d/8880

Loading..

Loading..