پروفیسر اخترالواسع
6 اپریل 2020
طالبان کا امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ کے بعد ایسا محسوس کیا جا رہا تھا کہ افغانستان میں امن وامان لوٹ آئے گا، لیکن کابل کے گرودوارے پر خودکش حملہ نے ساری توقعات کا خاتمہ کر دیا ہے۔ کابل میں واقع گرودوارہ ہر رائے صاحب میں ۲۵؍مارچ کواس وقت دہشت گردوں نے حملہ کیا، جب ڈیڑھ سو سے زائد سکھ عقیدت مند گرودوارہ میں موجود تھے۔ اس حملے میں۲۵؍ سکھ عبادت گزار ہلاک اور کم از کم۸؍ افراد زخمی ہوگئے۔ یہ ساری کارروائی ایک گھنٹہ طویل محاصرے کے دوران ہوتی رہی جس میں سارے حملہ آور حفاظتی دستوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ حملے کے کئی گھنٹے بعد افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آرین نے اس حملے کو بزدلانہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مجرموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ افغانستان کی پارلیمان کے سکھ رکن نریندر سنگھ خالصہ نے نہایت دکھ بھرے انداز میں پوری دنیا سے اپیل کی ہے کہ افغانستان میں سکھوں کو تحفظ فراہم کیا جائے۔پاکستان نے کابل حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے حملوں کا کوئی سیاسی، مذہبی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ دفتر خارجہ سے جاری بیان میں افغان عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان ہر طرح کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔ جبکہ ہندوستان نے کابل کے گرودوارے پر حملہ کو نہایت شرمناک قرار دیا ہے اور افغان حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ وہاں سکھوں کے تحفظ کا کوئی مضبوط میکانزم تیار کرے۔ اس حملے کے بعد ہندوستان کی انتظامیہ اور عوام کادلبرداشتہ ہونا فطری تھا کیونکہ سکھوں کی سب سے بڑی آبادی ہندوستان میں ہی ہے۔ یہاں پنجاب کے وزیراعلیٰ امریندر سنگھ اور سابق وزیراعلیٰ سکھبیر سنگھ بادل نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت ہند سے مطالبہ کیا کہ افغانستان میں سکھوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔واضح ہو کہ افغانستان میں سکھ برادری کی تعداد بہت کم ہے، اس کے باوجود ان کے خلاف ظلم وزیادتی ہوتی رہتی ہے۔ اس سے قبل۲۰۱۸ء میں بھی جلال آباد کے علاقے میں سکھ برادری پر حملہ ہوا تھا، جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔ مذکورہ حملے میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ تازہ حملہ کی ذمہ داری بھی داعش نے قبول کرلی ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کابل میں یہ دہشت گردانہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک روز قبل ہی امریکہ نے افغانستان کی امداد میں ایک ارب ڈالر کی کٹوتی کا اعلان کیا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب طالبان اور داعش کے درمیان اختلاف کھل کر سامنے آچکا ہے۔ اگر ایسا ہے تویہ افغانستان اور پورے اس خطہ کے لیے خوش آئندبات ہے کیوں کہ جب تک داعش تنہا نہیں ہوگا خطہ میں امن وامان کی توقع کرنا فضول ہے۔ داعش اسلام کے نام پر ساری دنیا میں دہشت گردانہ کارروائی کرتا رہا ہے اور اسلام کی بدنامی و رسوائی کا سبب بنتا رہا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس گروہ کا نہ اسلام سے تعلق ہے اور نہ مسلمانوں سے، کیونکہ اس کے اندازکار یہ بتاتے ہیں کہ ان کے پیچھے اسلام دشمن طاقتیں ہی ہیں جو ہر جگہ نئی نئی صورتوں میں ظاہرہوتے ہیں۔افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے بعد طالبان مذاکرات کی میز پر آئے اور ایک امن معاہدہ ہوا ،جس کی روشنی میں طالبان نے وعدہ کیا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کا استعمال دہشت گردی کے لیے نہیں ہونے دیں گے اور امریکہ نے یہ وعدہ کیا کہ وہ وہاں سے اپنی فوج واپس بلالے گا۔ امن معاہدہ میں کئی اور اصول طے پائے اور دنیا نے اس امن معاہدے کا خیرمقدم کیا، کیوں کہ سبھی افغانستان میں اب مزید خون خرابہ نہیں چاہتے تھے، مگر شاید داعش جیسے دہشت گرد تنظیم اور اس کی پشت پناہی کرنے والی طاقتوں کو یہ منظور نہیں ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ داعش نے کابل کے گرودوارے پر حملہ کیاہے؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ داعش نے اپنی پوری طاقت نچوڑ کر اس حملے میں جھونک دی اور جان بوجھ کر سکھوں کے گرودوارے کو اس ہلاکت خیزی کے لیے منتخب کیا، کیوں کہ اگر وہ مسلمانوں کو نشانہ بناتے تو شاید وہ اتنا سنسنی خیز نہ ہوتا کیوں کہ افغانستان میں مسلمانوں میں آپسی ٹکراؤ روزمرہ کی چیز ہے۔ جلال آباد ہو یا کابل میں معصوم اور بے قصور سکھوں کو داعش کے ذریعے اپنا نشانہ بنانا اپنے دہشت گرد وجود کا احساس دلاناتھا اور ساتھ میں طالبان کے ذریعے کیے گیے امن معاہدے کے خلاف اپنی نفرت اور انکار کو جگ ظاہر کرنا بھی۔اس کے ساتھ ہی ساری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے بدنامی کا سامان کرنا تھا۔لیکن اب دنیا سمجھ گئی ہے کہ داعش پر افغانستان کی زمین تنگ ہو چکی ہے، طالبان ان کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں اور عالم اسلام خوارج کی اس نئے روپ کو ہمیشہ کی طرح قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ دوسری طرف سکھوں یاسکھوں کے مذہبی مقامات کو تہہ وبالا کرنے کے پیچھے مسلمان ہرگز نہیں ہیں۔ یہ دہشت گردوں کا باہمی جنگ وجدال ہے جس کا اظہار گرودوارے پر حملہ کے ذریعے سامنے آیا ہے، سکھ بھائی بہنوں کو بھی یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کسی مذہب کی اہانت، کسی بھی فرقے کی عبادت گاہ کی توہین اور کسی بھی معصوم اور بے قصور انسان کی جان لینے کے سخت خلاف ہے۔قرآن میں صاف کہا گیا ہے کہ دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔اسی لیے سکھ بھائیوں کو یہ یقین رکھنا چاہیے کہ وہ چاہے ہندوستان میں ہوں، افغانستان میں یا دنیا میں کہیں بھی ہوں، مسلمان ان سے محبت کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کابل حملے کے بعد ہندوستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں نے اس کی شدید مذمت کی ہے۔
کابل کے گرودوارے میں حملے کے تعلق سے ہندوستانی حکومت کو پوری سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور افغانستان میں موجود سکھوں کے دکھ درد میں شامل ہونا چاہیے۔ چونکہ حکومت ہند کا افغانستان میں کافی اثرورسوخ ہے، اس لیے حکومت کو اس سلسلے میں پیش قدمی کرنی چاہیے۔ حکومت کو وہاں مہلوکین کے پسماندگان کی دادرسی کے ساتھ ساتھ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہاں تھوڑی سی تعدادمیں رہ رہے سکھوں کا تحفظ ہو۔ ان کے گھروں کے اردگرد سیکورٹی کا انتظام ہو، گرودواروں پر فوجی پہرہ لگایا جائے اور سکھوں کے آنے جانے کو محفوظ بنایا جائے۔ اس سلسلے میں حکومت ہند کو پوری سنجیدگی اور طاقت کے ساتھ سامنے آنا چاہیے اور مجرموں کو سخت سے سخت سزا ملنی چاہیے۔ خاص بات یہ ہے کہ افغانستان کے سیاسی مسائل کا مستقل حل ڈھونڈنے کے لیے ہندوستان شروع سے ہی فکر مندہے، چنانچہ طالبان اور امریکہ کے درمیان جو معاہدہ ہوا ہے اس پر ہندوستان مطمئن ہے، کیوں کہ اگر وہاں امن وعافیت کی کوئی راہ نکلتی ہے تو یہ ہندوستان کے ہر فرد کے لیے خوشی کا باعث ہوگا۔ نوے کی دہائی میں جب وہاں طالبان نے جمہوریت کا گلا دبانے کی کوشش کی تو پھر وہاں طالبان کو بے دخل کرنے میں بھی ہندوستان سرگرم رہا تھا۔ ناٹو افواج کے آپریشن سے افغانستان کی تباہی کے بعد جب نئی حکومت سازی ہوئی تو اس کی اخلاقی اور مالی حمایت کرنے میں بھی ہندوستان پیش پیش رہا۔ ہندوستان نے وہاں سڑکیں، اسکول وکالجز اور ٹرانسپورٹ سمیت دیگر انفراسٹرکچر کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ ہندوستان اپنے یہاں ہرسال پندرہ سے بیس ہزار افغانی طلبہ کو داخلہ دیتا ہے اور سیکڑوں طلبہ کو دنیا بھر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظائف جاری کرتا ہے۔ ہندوستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کس قدر مستحکم ہیں اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ہندوستان کا افغانستان میں سفارت خانہ کے علاوہ وہاں کے متعدد شہروں میں چار قونصل خانے کام کر رہے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہندوستان افغانستان میں پوری طرح بااثر ہے۔ ایسے میں ہندوستان کا ہر فرد یہ امید کرتا ہے کہ کابل کے گرودوارے پر حملے کا حساب لیا جائے گا اور مظلومین کو انصاف دلایا جائے گا۔ ہندوستان کی اہمیت، ضرورت اور اخلاقی تائید حاصل کرنے کی ضرورت سے اب طالبان کو بھی انکار نہیں، اس کا اندازہ قطر میں معاہدے کے وقت ہندوستان سفیر کی موجودگی اور معاہدے سے قبل امریکہ اور افغانستان کے بیچ میں رابطے کی کڑی اور معاہدے کے معمار کی ہندوستان آمد اور حکومت ہند سے مذاکرات کرنے سے بھی لگائی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ طالبان نے کسی موقعے پر بھی اس سے اختلاف نہیں کیا۔
6 اپریل 2020بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/attack-gurdwara-kabul-tragic-/d/121502
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism