پروفیسر اختر الواسع
3 جنوری ، 2013
اسلام نے عورت کو جو حقوق
دئیے ہیں، اس کی مثا ل دوسرے مذاہب میں نہیں
ملتی ۔ اس سے قبل تاریخ کے پورے دور میں مختلف
مذاہب ونظریات کے حاملین کی طرف سے عورتوں کے ساتھ ظلم و نا انصافی کی روش قائم رہی۔ اسلام نے عورت کے سماجی مقام و
مرتبے کوبلند کیا، اس کو عزت و احترام سے نواز ا اور اسکی فطرت کے مطابق اس کی شخصیت
کی تشکیل میں بنیادی رول ادا کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق آپ کو دنیا کی دو پسند یدہ چیزوں میں سےایک پسندیدہ
اور محبوب چیز عورت تھی ۔ آپ نے دنیا کی سب سے بہتر متاع نیک اور صالح عورت کو قرار
دیا۔ ( خیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ )
قرآن میں پوری ایک سورت عورت کے نام سے معنون ہے، جب کہ مردوں کے نام سے کوئی سورت
موجود نہیں ہے ۔ اسلام عورت اور مرددونوں میں
سے کسی کی حیثیت کو کم نہیں کرتا۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ‘ میں کسی شخص کے کام کو جو تم میں سے کرنے والا ہو اکارت
نہیں کرتا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ تم آپس میں ایک دوسرے کے جز ہو’ (آل عمران
:195) قرآن میں دوسری جگہ کہا گیا ہے کہ : نیک عمل جو کوئی بھی کرے گا مرد ہو یا عورت
بشرطیکہ صاحب ایمان ہوتو ہم اسے ضرور ایک پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور اچھے کاموں
کے عوض ضرور اسے اجر دیں گے (النحل : 97)
ان دونوں آیتوں سے واضح طور
پرمعلوم ہوتا ہے کہ مرد اور عورت دونوں سےنیک اعمال یکساں طور پر خدا کے نزدیک مقبول
ہیں اور اللہ تعالیٰ دونوں کے پسندیدہ اعمال کا یکساں اجر دیتا ہے ۔ چاہے ان کا تعلق
دنیا سے ہو یا آخرت سے۔
ایک بہترین سماج کی تشکیل
میں عورت اور مرد دونوں کے رول یکساں اہمیت ہے ۔ کسی ایک کےرول کو کلی یا جزوی طور
پر نظر انداز کر کے ایک تعمیری اور فطری طور پر مطلوب سماج کی تشکیل نہیں کی جاسکتی ۔ اس
میں شک نہیں کہ عورت کا بنیادی دائرۂ کار گھر اور خانگی زندگی ہے اور مرد کا بنیادی
دائرہ کار گھر سےباہر کی زندگی ہے۔ عورت داخلی امور کی نگراں اورمرد خارجی امور کا
ذمہ دار ہے ۔ تاہم یہ سمجھنا کسی بھی طرح صحیح نہیں ہوگا کہ مرد کو داخلی اور خانگی
امور، جن میں گھر کے ماحول کی درستی سے لے کر بچوں کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت
شامل ہے، سے کوئی مطلب نہیں اور عورت کو سماج اور سماج کی تعمیر و تشکیل سےتعلق رکھنے
والی خیر کی سرگرمیوں سے کوئی سر وکار نہیں ہے۔ بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ عورت کو اپنی فطری قدرت و استطاعت
کے لحاظ سے اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی شرط کے ساتھ سماجی سطح پر ایک حد میں رہتے
ہوئے متحرک ہونے کی اجازت ہے۔ مذکورہ شرائط اور حدود کی پاس داری اور پابندی کے ساتھ وہ ملازمت بھی کرسکتی ہے سماجی تحریکات
میں حصہ بھی لے سکتی ہے اور دیگر ایسے کام بھی
کرسکتی ہے، جس میں انسانیت کا مفاد مضمر ہو۔ عہد نبوی کے بہ شمول خیر القرون
میں اس کی کثرت کے ساتھ مثالیں ملتی ہیں۔ قرآن کے مطابق حضرت شعیب علیہ السلام کی
بیٹی جن سے حضرت موسیٰ کا نکاح ہوا بکریاں چراتی تھیں ۔ (القصص :23) خلیفہ دوم حضرت
ابوبکر صدیق کی صا حبزادی حضرت اسما ء رضی
اللہ عنہ گھر سے باہر نکل کر اپنے شوہر حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کے کاموں
میں ہاتھ بٹاتی تھیں۔روایت کےمطابق وہ ان کے گھوڑوں کی مالش کرتیں، ان کے لیے دانے
کوٹتیں او ر گھر سے باہر کسی اور جگہ سے یہ دانے اپنے سر پر اٹھاکر لاتی تھیں۔ (بخاری ومسلم) حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ان کی خالہ
کو طلاق کے بعد عدت کی حالت میں اس بات کی اجازت دی کہ وہ اپنے باغ میں جاکر کھجوریں اکٹھا کریں۔ (مسلم) عہد نبوی میں بہت سی خواتین تجارت یا خرید و فروخت کیا کرتی تھیں۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی ایک بہن تھیں،
جن کا نام بالہ رضی اللہ عنہ تھا، وہ چمڑے کی تجارت کرتی تھیں۔ حضرت صائب بن اقرع ثقفی
رضی اللہ عنہ کی ماں حضرت ملیکہ رضی اللہ عنہ عطر فروشی کا کام کرتی تھیں ۔ مختلف صحابیات
دست کاری کی ماہر تھیں او رانہوں نے اسے بطور پیشہ اختیار کر رکھا تھا۔ مشہور صحابی
حضرت عبدا للہ بن مسعود کی بیوی ایسی ہی خاتون تھیں جو خود اپنے بال بچوں کی کفالت
کرتی تھیں۔ (رسول اکرم اور خواتین ۔ ایک سماجی مطالعہ، یٰسین مظہر صدیقی ، ص 144)
حضرات صحابیات کا عہد نبوی کی متعدد جنگوں میں شریک رہنا درجنوں روایات سے
ثابت ہے۔ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
غزوہ میں شریک ہوتے تھے ۔ ہم لوگوں کو پانی پلاتے تھے ۔ ان کی خدمت کرتے تھے اور مقتولین
اور زخمیوں کو مدینہ منتقل کیا کرتے تھے۔ (بخاری) حضرت ام عطیہ انصاری کہتی ہیں کہ
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک رہی۔ میں نبی کریم اور
صحابہ کرام کے پیچھے ان کے خیموں میں رہ جاتی تھی، ا ن کے لیے کھانا بناتی تھی، زخمیوں
کا علاج کرتی تھی او رمریضوں کی تیمارداری کرتی تھی ۔(مسلم)
ہمارے درمیان مستحکم طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے اور اس تصور کی مخالفت
کے رویے کو شدید قسم کی بد دینی پر مخمول کیا جاتا ہے کہ عورتوں کے لیے گھر سے باہر
کے ماحول میں بازار سب سے زیادہ فتنے کی جگہ ہے ۔عورت کی شخصیت او ربازار میں تقریباً
تضاد کی نسبت پائی جاتی ہے لیکن ذرا اس واقعے
پر غور کیجئے کہ خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جو فقہائے صحابہ میں ممتاز
مقام کے حامل ہیں۔ ا س کے ساتھ آپ کے امتیاز ات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ عورتوں کی
حیا و عصمت کے تعلق سے نہایت حساس ذہن رکھتے تھے ۔ قرآن میں آیت حجاب کے نزول میں
ان کی اس تعلق سے غیرت و حساسیت کی کارفرمائی تھی ۔ ان تمام حقائق کے ساتھ یہ حقیقت
قابل غور ہے کہ انہوں نے ایک صحابیہ شفا بنت عبدا للہ العدویہ کو بازار کا نگراں او
ر محاسب مقرر کیاتھا۔(فتاوی یوسف القرضاوی جلد دوم، ص 163 ، مرکزی مکتبہ اسلامی ، نئی
دہلی ) اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عہد نبوی و عہد صحابہ کی بہت سی خواتین کی گھر کے کام
کاج پر ہی نہیں بلکہ بازاروں پر بھی نگاہ تھی۔
علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں:
‘‘عورتوں کو گھر کے اندر مقید رہنے او رہر قسم کے اختلافات سے دور رہنے کا جو تصور آج پایا جاتا
ہے وہ حضور او رصحابہ کرام کے دور میں نہیں تھا۔چنانچہ اس زمانے میں عورتیں نہ گھروں
میں قید ہوکر او رنہ مردوں سے بالکل الگ اور علاحدہ ہوکر زندگی گزارتی تھیں۔ حقیقت
یہ ہے کہ عورتوں پر بے جا پابندیوں کا سلسلہ اس وقت سے شروع ہوگیا جب مسلم امت قرآن
و حدیث کی صحیح تعلیمات سے دور ہونے لگی ۔ تعلیم کے بجائے جہالت پھیلنے لگی اور ترقی
کے بجائے پسماندگی غالب آنے لگی ۔ اس جہالت
و پسماندگی کاسلسلہ ہنوز جاری ہے۔’’( ایضا، ص 103)
قرآن و حدیث او رعہد صحابہ
و عہد تابعین کے واقعات کے مطالعے اورتجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے تعلق سے
اس وقت مسلم معاشرے میں افراط و تفریط کی جو کیفیت پائی جاتی ہے ، اسلام میں اس گنجائش نہیں ہے۔ اس
وقت صورت حال یہ ہے کہ ایک طبقہ جو مغرب کی تہذیب و ثقافت سےنہ صرف مرعوب و متاثر بلکہ
اس کی تقلید کے پھندے میں گرفتار ہے، وہ عورتوں کی ا س سطح پر مکمل آزادی کا قائل
ہے جس سطح پر یہ آزادی مردوں کو حاصل ہے۔وہ عورت و مرد کے درمیان بنیادی اور اصولی
طور پر کسی دائرہ کار کی تحدید اور نوعیت کار کی تعیین کا قائل نہیں ہے اور ایسی کسی بھی گفتگو کو قدامت پرستی اور تاریک خیالی پر محمول
کرتا ہے جب کہ دوسرا طبقہ ان لوگوں پر مشتمل ہے جو عو رتوں کی سماجی سطح پر کسی بھی
قسم کی آزادی کا قائل نہیں ہے۔ وہ آخر ی حد تک عورتوں کو چہار دیواری کے اندر قید
کر دینے کا قائل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس طبقے
کی عورتیں بھی اس نوع کی پابندیوں کو قبول کرنے کی اب رو ا دار نہیں رہ گئی ہیں۔
صحیح بات یہ ہے کہ یہ دوسرا
طبقہ پہلے طبقے کے رد عمل میں پیدا ہوا ہے ۔ یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ رد عمل کی نفسیات
بہر صورت انسان کو افراط و تفریط میں مبتلا کردیتی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم
عورتوں کے لیے ایک معتدل اور اسلام کا مطالبہ ہے اور یہی وقت کا تقاضا ہے ۔
-----------
پروفیسر اختر الواسع ذاکر
حسین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز جامعہ ملیہ
اسلامیہ کے سربراہ ہیں۔
3 جنوری ، 2013 بشکریہ : انقلاب
، نئی دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/social-freedom-women-during-life/d/9872