پروفیسر اخترالواسع
27 دسمبر ، 2012
دینی مدارس کے نصاب و نظام میں اصلاح وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس ضرورت کا احساس دینی مدارس کے حلقے جس قدر جلد کرلیں، ان کے او ر ملت کے حق میں یہ اسی قدر بہتر ہے ۔ مدارس میں اصلاح نصاب کے پہلو پر مدتوں سےگفتگو اور بحث و مباحثہ جاری ہے لیکن جہاں تک اس تعلق سے پیش رفت کی بات ہے تو وہ بہت کم ہوسکی ہے ۔ ہند و پاک میں مدارس کی اکثریت کا بنیادی نصاب درس نظامی پر مشتمل ہے اور درس نظامی کی قدامت اور فرنگی محل کے عظیم المرتبت خاندان سے اس کی سنت نے اس میں تقدس کا وہ رنگ بھر دیا ہے کہ اس میں کسی نوع کی تبدیلی کی کوشش و تجویز اس خطے میں تعلیم و تدریس کی ٹھوس اور مستندروایت سے انحراف کے ہم معنی تصور کی جاتی ہے ۔ حالانکہ اصولی طور پر یہ بات خود اہل مدارس کے تمام حلقو ں میں تسلیم شدہ ہے کہ نصاب کی اپنی کوئی قدر نہیں ہے ۔ اصل اہمیت اس نتیجے اور اس کے ذریعہ حاصل کیے جانے والے اس مقصود کی ہےجس کے لیے یہ یا اس طرح کاکوئی بھی دینی تعلیمی نصاب و ضع کیا جاتا ہے ۔
راقم الحروف کی نظر میں دینی مدارس میں رائج موجودہ نصاب کی ایک بڑی خامی یا کمزوری یہ ہے کہ اس میں حصول معاش کے پہلو کو شدت کے ساتھ نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آٹھ دس برسوں کے مسلسل اور جاں گسل تعلیمی مرحلے کے بعد فارغین مدارس کے سامنے سب سے بڑا سوال معاش کے تعلق سے سامنے آتاہے اور انہیں یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اس سب سے اہم چیلنج سے کس طرح عہدہ بر آہوں ۔ اس لیے اصلاح نصاب کے حوالے سے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اس مسئلے کو غور و فکر کا موضوع بنایا جائے ۔
جس مسئلے کے یگ گونہ حل کی مختلف صورتوں میں سے ایک صورت مدارس میں حرفے کی تعلیم کو راوج دینا ہے ۔ اگر ہندوستان کے بڑے مدارس اس کے لیے خود کو آمادہ کرلیں اور اپنے نصاب و نظام میں اس تعلق سے گنجائش پیدا کرسکیں تو یہ ایک نہایت غیر معمولی بات ہوگی۔ غور کرنے کی بات ہے کہ ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے بالغ نظر اور دور رس فکر کے حامل ذمہ داروں نےا س پہلو کو باضابطہ اپنی فکر و توجہ کا موضوع بنایا تھا ۔ چنانچہ دارالصنائع کے نام سے وہاں ایک شعبہ اب بھی قائم ہے جس کے تحت خطاطی ، کتابوں کی جلد سازی و مرمت اور خیاطی (سلائی ) سکھانے کے بندوبست کو اپنی فکر موضوع بنایا تھا اس وقت اپنی سہولت کے اعتبار سے وہ اس کے دائرے اور سطح کوبہت زیادہ وسیع و عریض نہیں کرسکتے تھے ۔ لیکن آج اس کے امکانات نہایت وسیع ہیں ۔ ملک کے طول و عرض میں ووکیشنل تعلیم کے ان گنت مراکز کھلے ہوئے ہیں ۔ ان کے تجربات اور ان کے نصاب و نظام سے اپنی ضرورت اور گنجائش کے لحاظ سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ اس وقت بعض بڑے مدرسوں میں اس عنوان سے کمپیوٹر سکھانے کا نظم کیا گیا ہے ، اس کو اس جہت میں ایک اچھی رفت ضرور قرار دیا جاسکتا ہے لیکن مکمل نہیں ۔ ظاہر ہے صرف ایک میدان میں فارغین مدارس اپنی کثرت تعداد کے ساتھ کھپ نہیں سکتے ۔ ڈیمانڈ سے زیادہ کسی بھی چیز کی پیدوار قابل قبول اور نتیجہ آفریں نہیں ہوتی ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ تناظر میں اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ مدارس اور ان کے فضلا کے حسب حال کون سے حرفے اور پیشے ہیں جن کو سیکھ کر اور اختیار کر کے وہ اپنی معاشی زندگی کو خو ش حال بنا سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں بعض مدارس نے نہایت خوش آئند پہل کی ہے ۔ جن میں جامعہ ہدایت جے پور کا نام سر فہرست ہے ۔ جامعہ نے تکنیکی اور ووکیشنل تعلیم کو عام تعلیم کے پہلو بہ پہلو رکھ کر مدارس کی دنیا کو ایک نئے اور انوکھے تجربے سے آشنا کیا ہے ۔ دوسرے مدارس کو اس کے تجربات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ البتہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جامعہ ہدایت میں تکنیکی تعلیم کو جس طرز پر اور جن تفصیلات کے ساتھ رکھا گیا ہے ، اس کی بعینہ تقلید کی جائے بلکہ مدارس اپنی سہولیات اور اپنے وسائل کے لحاظ سے اسی ماڈل کو حذف و اضافے کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں ۔
مدارس میں نصاب و نظام کی سطح پر اس نوع کے اضافے یا تبدیلی سے متعلق جو ذہنی رکاوٹیں اور اشکالات ہیں، ان میں سب سے اہم اشکال یہ ہے کہ موجودہ نصاب پہلے سے ہی ایک درجن سے زیادہ علوم کے مضامین کے بارے میں بوجھل ہے ، بھلا اس کی گنجائش کیوں نکالی جاسکتی ہے؟ بظاہر یہ بات وزنی معلوم ہوتی ہےلیکن صورت حال کو صحیح تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو اس اشکال کا آسان او رشافی جواب مل سکتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت نظامی مدارس کانصاب ایک طرف غیر ضروری اور دوسری طرف پیش پا افتادہ مضامین سے بھرا ہوا ہے ۔ مثال کے طور پر منطق و فلسفہ کے مضامین کو پڑھانے کی اب مطلق ضرورت باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ اس لئے کہ جدید سائنس نے وہ تمام پرانے نظریات مسترد کردئے یا لفظی بحثیں سرے سے علمی دنیا سے ختم ہوچکی ہیں جن پر یہ ان کتابوں کےمضامین مشتمل ہیں ۔ اب خود مدارس کے فاضلین او رعلما کی ایک بڑی تعداد اس بات کی موید ہے کہ فرسودہ مضامین سے موجودہ نصاب کو پاک کیا جائے ۔
دوسرا اشکال اس شکل میں ظاہر کیا جاتا ہے کہ معاشی تعلیم کی نصاب میں شمولیت سےمدارس کی قال اللہ و قال الرسول کی فضا متاثر ہوگی اور دوسری طرف طلبہ پر مادی رجحانات غالب آجائیں گے ۔ دنیا کی ہوس ان کے اندر پیدا ہوجائے گی ۔ وہ صرف حصول معاش کو اپنا مقصود بنالیں گے ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات اسلامی تاریخی سے نہایت بے خبری کی دلیل ہے ۔ اسلام کی پوری تاریخ میں دین و دنیا پر مشتمل نصاب پڑھا یا جاتا رہا ہے ۔ غور کیا جاسکتا ہے کے دارالعلوم دیوبند کے بانیاں واکابر کی تعلیم دہلی کالج میں ہوئی تھی، کسی دینی مدرسے میں نہیں ۔ اس کا نصاب آج کےمدارس کے دینی نصاب کے مطابق نہیں تھا ۔
ہمارے اسلاف میں علما و فقہا او رمحدثین کی ایک خاصی تعداد بیک وقت تجارت او رمختلف قسم کے پیشو ں سے وابستہ رہی اور اس کے ساتھ دینی تعلیم و تعلم میں مشغول ہوکر دین کی خدمت انجام دیتی رہی ۔ کون نہیں جانتا کہ امام ابو حنیفہ تاجر تھے ، اسلاف میں ایسے بہت سے لوگ ہوئے ہیں جن کے ناموں کے ساتھ خصاف ، زیات ، حد اد نجار اور حلوانی وغیرہ کا لاحقہ لگا ہوا ہے جوان کے پیشوں پر دلالت کرتا ہے ۔موجودہ دور میں بدقسمتی کے ساتھ مختلف پیشوں کے ذلیل سمجھے جانے کا رجحان پیدا ہوا ، یہاں تک کہ اس کی بنیاد پر ذات پات کی تقسیم بھی عمل میں آگئی ہے ۔ یہ بلاشبہ اسلام کی روح اور اسلامی تہذیب کے دور زریں کی روایات کے خلاف ہے ۔ خود بہت سے انبیائے کرام مختلف پیشوں سے وابستہ تھے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عباس کی ایک روایت جو اگرچہ مضبوط نہیں ہے، کے مطابق، حضرت آدم کاشت کار، حضرت ادریس خیاط (درزی) ، حضرت نوح نجار (بڑھی ) حضرت داؤد زرہ ساز تھے ۔ جب کہ یہ بات طے شدہ ہے کہ رسول اللہ نے بکریاں چرائی ہیں اورتجارت بھی کی ہے ۔ ہمارے علما اور مدارس کےفضلا کو پیشو ں کو ذلیل سمجھنے کے رجحانات کے خاتمے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ اس کا ایک مؤثر طریقہ یہ کہ علما خود عملی سطح پر اس سے وابستہ ہوں ۔ یہ عملی رہ نمائی ا س تعلق سے پائی جانے والی بہت سی غلط فہمیوں کے سد باب کا باعث ہوگی۔
مدارس کے طلبہ کو اگر کمپیوٹر ، گھڑی سازی، موبائل رپیئرنگ ، پلمبنگ ، بجلی کا کام یا اسی طرح کے دوسرے کام اور ہنر سکھادے جائیں تو مدارس کی چہار دیواری سےنکلنے کے بعد وہ صرف قومی چندوں پر ہی منحصر نہیں رہیں گے ۔ ان کے اندر خود انحصاری اور عزت نفس کا مزاج پیدا ہوگا ۔ او رسماجی سطح پر ان کی قدرو منزلت او روقار میں اضافہ ہوگا۔ بہر حال مدارس میں حرفہ جاتی تعلیم کی شمولیت وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔ ضرورت ہے کہ مدارس کے ارباب حل و عقداس پہلو کی طرف متوجہ ہوں ۔ اگر ہندوستان کے چند بڑے مدارس بھی اس سلسلے میں پہل کرسکیں تو یہ مدارس او راہل مدارس کے حق میں نہایت خوش آئند اقدام ہوگا ۔
27 دسمبر، 2012 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/need-introduce-vocational-courses-madrasas/d/9821