New Age Islam
Sat Nov 02 2024, 09:07 PM

Urdu Section ( 14 Jun 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Miraj and Event of the Highest Perfection of Human Being واقعہ معراج آدم خاکی کے عروج کا منتہائے کمال

معراج کی شب میں رسول کریم کی ذات کو کائنات کی ہربلندی سے اوپر لے جاکر اس اعلان کی عملی تعبیر پیش کردی گئی اور بتادیا گیاکہ مقام عبدیت ہی سب سے بلند مقام ہے

پروفیسر اختر الواسع

14 جون ، 2012

معراج کا واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک اہم واقعہ ہے۔  یہ جن حالات کے تناظر میں پیش آیا وہ اپنےاندر انسانیت کے لئے کئی سبق رکھتا ہے ۔ واقعہ معراج آدم خاکی کے عروج کا منتہائے کمال ہے، یہ وحدت آدم اوروحدت دین کا اظہار ہے ، یہ انسانی رفعت و بلندی کا وہ عظیم مقام ہے  ، جہاں تک پہنچنے میں ساری مخلوقات درماندہ ہیں ۔ یہ واقعہ پیغام بھی دیتا ہے کہ انسان کی سربلندی اس کی عبدیت میں پوشیدہ ہے،یہی مقام عبدیت ہے ‘‘قاب قوسین اوادنی’’ کی اس رفعت تک رسائی ملتی ہے جہاں جبرئیل امین کے بھی پرَ جلنے لگتے ہیں۔

معراج کا عظیم الشان واقعہ رجب کے مہینہ میں پیش آیا، جس ماہ رجب کے آخری ایام کی ایک شب کا واقعہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ام ہانی کے گھر میں یا ایک روایت کے مطابق خانہ کعبہ میں حطیم کے اندر آرام فرما ہیں، یہ وہ دن ہیں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم وستم کی انتہا کر دی گئی ہے، جس قوم نے آپ کی بے داغ جوانی اور خوش خصالی کو ‘صادق ’ اور ‘امین’ کا لقب دے رکھا تھا ، اسی قوم کے لوگوں نے آپ کو ستانے ،اذیت دینے او رنقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی ہے۔ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سراپا صبر ورضا اور شکر واستقلال ہے۔ ایک جانب ظلم و جبر اور اذیت وستم کے ایسے نارواسلوک ہیں اور دوسری طرف یہی  وہ موقع ہے جب یکے بعد دیگرے آپ کی دو محبوب شخصیتیں جو ان تمام پریشانیوں اور مصیبتوں میں آپ کا سہارا اور تسکین وقرار تھیں ایک آپ کی وفا شعار چہیتی بیوی حضرت خدیجہ کبریٰ رضی اللہ عنہا ، اور دوسرے آپ کے سر پرست وسہارا اور ہر آڑ ے وقت میں پوری قوت کے ساتھ سینہ سپر رہنے والے آپ کے چچا حضرت ابو طالب ، دونوں اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں۔ یہ غم اتنا بڑا ہے کہ آپ نے اس سال کو ہی ‘غم کا سال’ (عام الحزن ) کہا ہے۔

یہ پورا وہ ماحول ہے جس میں اللہ کا پیارا نبی ،وہ امی القب اور سراپا رحمت ، دل شکستہ ،غم واندوہ سے ندھال ،لیکن مرضی رب کے آگے سراپا تسلیم اور اپنی امت کو جہنم سے بچانے کی فکر میں غرق ، حطیم کعبہ کے اندر شب میں آرام فرما ہیں اور واقعہ معراج پیش آتا ہے۔

معراج رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ کی نصرت اور قلب کی تقویت کا سامان ہی نہیں بلکہ آپ کے اعزاز واکرام اورآپ کی بلندی مرتبت کا مشاہدہ بھی ہے۔ یہا ں سے واقعہ معراج شروع ہوتا ہے۔جبرئیل علیہ السلام آتے ہیں، براق کی سواری پیش کی جاتی ہے ،جو اپنی برق رفتار ی اور خوبصورتی میں واقعی اسم بامسمیٰ ہے۔اس کے ایک قدم کی مسافت تاحد نگاہ ہے، بیت المقدس میں آپ کی سواری ٹھہر تی ہے۔  ایک چٹان کے حلقہ سے سواری کو باندھتے ہیں ، اذان دی جاتی ہے ، دنیا میں اب تک آئے ہوئے تمام انبیا ورسل صف بستہ کھڑے ہوجاتے ہیں، جبرئیل امین آپ کو امامت کے لئے آگے بڑھاتے ہیں ، اور آپ کی امامت میں نماز ادا ہوتی ہے، پھر یہاں سے آسمان کا سفر شروع ہوتا ہے ، پہلے آسمان پر اولین انسان و نبی حضرت آدم علیہ السلام ، پھر چھٹے آسمان تک حضرت عیسیٰ و یحییٰ علیہما السلام ،حضرت ادریس علیہ السلام ، حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت ہارون علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اخیر میں ساتویں آسمان پر ابوالا نبیا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے، وہ سب آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ،پھر بیت المعمور اور سدرۃ المنتہی تک تشریف لے جاتے ہیں، یہاں سے آگے فرشتوں کے سردار جبرئیل نہیں بلکہ  صرف ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بڑھتے ہیں ۔  اللہ رب العزت والجلال آپ کو نماز کا تحفہ عطا فرماتا ہے ۔ اور یہ تحفہ آپ کے توسط سے آپ کو امت کو بھیجا جاتا ہے، اسی لئے نماز معراج المومنین کہا جاتا ہے ۔  اسی سفر میں آپ کو ‘کوثر’ کی زیارت کرتے ہیں جو قرآن کے سورہ الکوثر کے مطابق صرف آپ کو عطا کیا گیا ہے، جنت و دوزخ کو دیکھتے ہیں، دوزخ میں اعمال بد کی سزا ئیں پانے والوں کو دیکھتے ہیں ۔  اور یہ سارا سفر اسی شب میں تمام ہوجاتا ہے۔  صبح جب اس واقعہ اسرا ،و معراج کا ذکر آپ کرتے ہیں تو اس کی سب سے پہلے او ربلاچوں و چرا تصدیق حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ کرتے ہیں۔ اور اسی لئے ‘صدیق’ کا لقب حاصل کرلیتے ہیں۔

قرآن نے اس سفر مبارک ومسعود کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ ‘‘پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندہ کو ایک شب میں مسجد حرام سے اس  مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد ہم نے برکت رکھی ہے تاکہ ہم اسے اپنی نشانیوں میں سے کچھ دکھائیں ، بے شک وہ سننے والا او ردیکھنے والا ہے’’ (سورہ اسرا آیت نمبر 1)۔ معراج کی شب میں آسمان کے سفر سے پہلے مسجد حرام سے  مسجد اقصیٰ تک کا سفر کرایا گیا اور وہاں وہ تمام رسول او رنبی جو قرآن کے مطابق دنیا کی ہرقوم میں بھیجے گئے تھے، ایک صف میں کھڑے ہوئے اور سرکار دوعالم کی امامت میں نماز  ادا کی۔  یہ اس بات کا واضح اعلان تھا کہ دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی قوم، نسل اور رنگ سے تعلق رکھتے ہوں، اگر ان کے پیغمبر او رہادی ایک صف میں کھڑے ہیں تو ان سب کی امتیں بھی ایک ہیں، کیونکہ وہ سب ایک آدم کی اولاد ہیں اور اس بات کا بھی اعلان تھا کہ اگر چہ تاریخ کے مختلف زمانوں میں آنے والے مذاہب علاحدہ ناموں سے مشہور ہوئے لیکن ان سب کا بنیادی پیغام ایک ہی ہے اور اسی لئے آج ان سب کی نماز ایک امامت میں ادا ہورہی ہے۔

معراج کے واقعہ میں امت مسلمہ کے لئے کئی پیغام ہیں، قرآن نے کئی آیتوں میں جس بات کا اعلان کیا ہے کہ اللہ نے انسان کے لئے سورج وچاند، پہاڑ  و دریا اور دن ورات سب کو مسخر کردیا ہے  ، انسان کی عظمت کے آگے آسمان کی بلندیاں ہیچ ہیں۔  معراج کی شب میں رسول کریم کی ذات کو کائنات کی ہر بلندی سے اوپر لے جاکر اس اعلان کی عملی تعبیر پیش کردی گئی اور بتادیا گیا کہ مقام عبدیت ہی سب سے بلند مقام ہے۔  او رنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اپنے مقام عبدیت کے ساتھ تسخیر کائنات کے سفر میں نئی منزلوں سے آشنا ہوتی رہے گی۔

رہ یک گام ہے ہمت کے لئےعرش بریں

کہہ رہی ہے یہ مسلمان سے معراج کی رات

واقعہ معراج انسان کو سبق دیتا ہے کہ وہ پوری کائنات میں سب سے افضل واشرف ہے اور کون ومکان کی وسعت اس کے فکر ونظر کی جولا نگاہ ہے، اس کی فکری پرواز اسی آسمان تک محدود نہیں بلکہ اس کے لئے ستاروں سے آگے اور جہاں بھی ہیں، اور اس کے مقاصد صرف اسی دنیا کے روز وشب میں الجھ کر نہ رہ جائیں کہ اس کے زماں ومکان او ربھی ہیں۔ اقبال کا یہ شعر ہمیں اسی بات کی یاد دلارہاہے کہ

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیٰ سے مجھے

کہ بشریت کی زد میں ہے عالم گردوں

معراج کے سفر کی تفصیلات میں بھی کئی باتیں ہمیں دعوت فکر و نظر دیتی ہیں، جب آپ کی سواری براق مسجد اقصیٰ پہنچتی ہے تو آپ سواری سے اتر کر اسے ایک چٹان کے حلقہ سے باندھ دیتے ہیں،یہ سواری جو خاص آپ کے لئے بھیجی گئی تھی اور حکم الٰہی پر مامور تھی لیکن آپ نے اسے باندھ کر امت کو یہ پیغام دیا کہ وہ اسباب ووسائل کو اختیار کریں کہ یہی اس دنیا میں اللہ کی سنت ہے۔   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مثال یہا ں پیش فرمائی اپنے ایک فرمان میں اس بات کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ توکل علی اللہ یہ ہے کہ پہلے سواری کی رسی کو باندھ دو پھر اللہ پر بھروسہ کرو۔  یہی امت مسلمہ کو اپنی زندگی کے سفر میں تمام جائز وسائل کو اختیار کرنا ہوگا، تبھی وہ سنت الہٰی کو مکمل کرتے ہوئے کامرانی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔

اسی طرح اس سفر معراج میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے سامنے دو پیالے پیش کئے گئے ،ایک میں دودھ تھا اور دوسرے پیالہ میں شراب ۔ آپ نے دودھ والے پیالہ  کو منتخب کیا او رپی گئے۔اس پر جبرئیل نے کہا کہ آپ کو صحیح فطرت کی ہدایت ملی ۔ یہ گو یا ایک امتحان تھا جس میں آپ نے صحیح فیصلہ فرمایا۔   انسان کی پوری زندگی امتحانوں اور آزمائشوں سے بھری ہے۔  اس کی کامیابی اس میں ہے کہ وہ صحیح وقت پر درست فیصلہ کرے۔

آج مسلمان جب ماہ رجب میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک سفر معراج کی یاد تازہ کررہے ہیں معراج واسرا کاسبق انہیں دوہرا نا چاہئے۔  انسانی عظمت ورفعت کا سبق  ، انسان کے حوصلہ وہمت اور ناساز گار حالات میں بھی نصرف خداوندی کی امید کا دامن تھامے رہنے کا سبق ، تحقیق وتلاش اور جستجو کے عمل پیہم کاسبق ،اور اس بات کا سبق کہ سربلندی وعروج کی منزل آج بھی ہمارے سامنے ہے۔  ہم زمانے کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اور جائز اسباب ووسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں تو یقیناً ہم اس تصور کو غلط ثابت کرسکتے ہیں کہ ستاروں کی گذر گاہوں پر اپنے نقش پا چھوڑ نے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اپنے افکار کی دنیا میں سفر نہ کرسکی ہے ۔ یہی معراج کا سبق ہے۔

مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی کے شعبۂ اسلامیات کے سربراہ ہیں

14  جون ، 2012    بشکریہ :انقلاب ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/miraj-event-highest-perfection-human/d/7625

Loading..

Loading..