BY Prabhulal Satyani
In this Urdu book titled Hamey bhi Jeene do, Published by Asar Publications, Lahore, 2005, Prabhu Lal Satyani, a human rights activist in Lahore, has documented the plight of dalit Hindus in Pakistan. He says that a large number of dalit Hindus live in Sindh and South Punjab. To retain their supremacy, the pandits and the leaders divided the society and pushed dalits to the bottom of the social heirarchy. Not only has religious extremism affected them but also the state has neglected them. In the second section of this book, the author describes how the number of Pakistani Dalits (whom he still calls “untouchable”) is declining. But, he says, the reason for this is not so much their migration to India, as is the case with upper caste Hindus, but forcible conversion to Islam. Some Dalits, he says, also convert out of greed, for the sake of better jobs and perks.
In this section Prabhu Lal Satyani focusses on the plight of the Dalit women and the atrocities meted out against them not only in their society but also by the majority Muslim community. Mr Satyani says that forcible conversions and gangrape of their women by the majority community are commonplace and the administration generally turns a blind eye to them. Most of the time the police does not register an FIR because of the influence of the majority community and even if they do, they do not take action.
The women have to wrap themselves up in typical coarse cloth so as to make them distinguishable in society. They suffer at every step thanks to their poverty, illiteracy and ignorance. They do not send their girls to school due to the fear that they might be kidnapped for forcible conversion or sexual assault. The author narrates a number of incidents where their women were kidnapped and sexually assaulted or made to convert to Islam.
ہمیں بھی جینے دو۔ حصہ سوئم
پاکستان میں اچھوت ہندؤوں
کی صورتحال
پربھولال ستیانی
اچھوت عورتوں کی صورتحال:
‘‘آپ ایک مرد ہو آپ کیسے عورت کی نفسیات کے حوالے سے بات کرسکتے ہو’’؟
یہ سوال رجنیش اوشو سے کسی نے کیا تھا اسی وقت انہوں نے انتہائی خوبصورتی سے جواب دیتے
ہوئے کہا تھا کہ میں کسی مرد یا عورت کی حیثیت سے بات نہیں کررہا ہوں میں تو ذہن کی
حیثیت سے بات کررہا ہوں ،ذہن تو صرف استعمال ہی ہوتا ہے بلکہ میں تو شعور کی حیثیت
سے بات کررہا ہوں کیونکہ شعور کا تعلق کسی جنس سے نہیں ہے۔
ہمارا معاشرہ مردوں کا بنایا
ہوا ہے، جہاں پر عورت کو ملکیت کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، چاہے وہ کسی بھی قبیلے
،قوم یا مذہب سے وابستہ کیوں نہ ہو۔
مجموعی طور پر پاکساکن میں
عورتوں پر ہر قسم کا ظلم کیا جاتا ہے لیکن جب ہم اچھوت عورتوں کی بات کرتے ہیں تو سوچ
کر ہی رہ جاتے ہیں کہ جہاں پرمردوں کے لیے رکاوٹیں ہیں وہاں عورت کا پڑھا لکھا تصور
کرنا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
اچھوت عورتوں کا گھر چلانے
میں مرد سے زیادہ ہاتھ ہوتا ہے اگر ہم اس معاشرے کا جائزہ لیں تو ایک گھر یا خاندان
میں عورت کے پیدا ہونے پر ناخوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ماضی میں ‘‘پنجاب میں
سکھوں میں خاص طور پر اور ہندوؤں او رمسلمانوں میں عام طور پر بیٹیوں کو پیدا ہوتے
ہی مار ڈانے کی قبیح رسم موجو د تھی۔ اپنی بیٹیوں کو ہلاک کرنے والے سکھ خود کو فخر
یہ طور پر بیدی کہتے تھے۔ 1853میں پنجاب کے چیف کمشنر سرجان لارنس نے امرتسر میں مختلف
گروہوں کے نمائندوں کا اجلاس بلایا اور اس میں اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے پر
اصرار کیا ۔ اس لیے جو عملی اقدامات تجویز کیے گئے ان کے نیتجے میں 1856تک اس قبیح
رسم کا خاتمہ ہوگیا۔’’
لیکن یہاں اچھوت کے کچھ فرقوں
میں تھوڑا مختلف ہوتا ہے کیونکہ لڑکی ان کی نظر میں ایک دولت ہے، خزانہ ہے، سرمایہ
ہے، لڑکی کو بچپن ہی سے گھر کے کام میں لگادیا جاتا ہے ۔ دور دورسے پانی بھر کے لانا،
ماں باپ کے ساتھ باہر کے کاموں یعنی محنت مزدوری میں ہاتھ بٹانا دوسروں کے گھروں میں
صفائی کرنا اور کپڑے دھونا وغیرہ شامل ہے اور
جب وہ جوان ہوتی ہے تو ان کو بھا ری رقم لے کر کسی بھی شخص کے ساتھ شادی کروا کر باندھ دیا جاتا ہے اور جہاں وہ بیاہی جاتی
ہے وہاں پر ایک اور عذاب شروع ہوجاتا ہے۔
اکثر لڑکیوں کی چھوٹی عمر
میں شادی کردی جاتی ہے یا بے جوڑی شادیاں ہوتی ہیں۔ شادی کے فیصلے میں لڑکی کی رائے
کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ بلکہ شادی کے کسی بھی فیصلے میں اس کا کوئی اختیار
نہیں ہوتا ۔
بہت سے ایسے واقعات بھی ہیں
جن میں لڑکیوں کی کم عمری کی وجہ سے زچگی کے دوران ہی موت ہوجاتی ہے ۔ اچھی صحت نہ
ہونا، غربت کی وجہ سے ہسپتال نہ لے جانا اور کم معلومات بھی ان اموات کے عوامل ہیں۔
اچھوت عورتیں اکثر تشدد کا
شکار ہوتی ہیں۔ انہیں کمیو نٹی میں جر گے کی سیاست کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اکثر کمیونٹی
میں طلاق کا شعور ہی نہیں ہے، اگر کسی لڑکی کا شوہر مر بھی جائے تو اس کی دوسری شادی نہیں ہوسکتی چاہے اس لڑکی کی عمر
16سال ہی کیوں نہ ہو۔ اگر اس طرح کوئی کر بھی لیتی ہے تو اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا
جاتا ہے اس لیے برادری والے اس سے قطع تعلق کرلیتے ہیں ۔ضلع رحیم یار خان میں ‘‘اثر
مائنورٹی رائٹس ٹیم’’ کے وزٹ کے دوران بھیل کمیونٹی کے ایک گھر میں یہ بات سامنے آئی
کہ ایک باپ نے اپنی چھ سال کی بیٹی کو اس لیے
اسکول جانے سے روک دیا کہ کمیونٹی والوں نے اعتراض کیا تھا، وہ لڑکی کی تعلیم کو اچھا
نہیں سمجھتے کیو نکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکی گھر کے کام کاج کے لیے مخصوص ہوتی ہے۔
کچھ لوگ پڑھانا بھی چاہیں
تو ان کو بھی ہمیشہ ڈر رہتا ہے کہ ان کی لڑکیوں کو اغوا کر کے مسلمان کردیا جائے گا
کیو نکہ وہ اکثر دیکھتیں ہیں کہ ہندو لڑکیوں کو ورغلا کر یا زبر دستی مسلمان کیا جاتا
ہے یا ان کو اغوا کر کے جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ لڑکیوں
کو اسکول بھیجنے کے بجائے اپنے ساتھ کھیتوں میں کام پر لے جاتے ہیں۔
اچھوت عورتوں کا لباس بھی
عام عورتوں کے لباس سے مختلف ہوتا ہے اور وہ کپڑا اچھوت عورتوں کے لیے ہی مخصوص ہوتا
ہے۔ وہ کپڑا اتنا موٹا ہوتا ہے جس سے عام طور پر رلی یا رضائی بنائی جاتی ہے۔ اچھوت
عورتیں ہر موسم میں اپنے انہی کپڑوں میں دکھائی دیتی ہیں کیو نکہ ان پرمسلط کئے ہوئے
رسم ورواج چھو ڑنا نہ ممکن ہوتا ہے ۔ اسی لباس کی وجہ سے سفر کے دوران بھی انہیں بہت
سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وہ جس بس گاڑی میں سوار ہوتی ہیں دوسرے مذاہب سے
تعلق رکھنے والی عورتیں ان کو اسی لباس کی وجہ سے اپنے قریب بیٹھنے نہیں دیتیں تاکہ
ان کا لباس ناپاک نہ ہوجائے ۔ وہی لباس ان کا دشمن بن جاتا ہے جو معاشرہ میں چلتے پھرتے
ظاہر کرتا ہے کہ یہ تو اچھوت عورت ہے جب وہ علاج کے لیے ہسپتال جاتی ہیں تو نظر انداز
کیا جاتا ہے ۔ حتیٰ کہ ان کو کھانے پینے کے برتنوں کو ہاتھ لگانے تک کی بھی اجازت نہیں
ہوتی ۔
تھر پار کر میں اگر کوئی عورت
کنویں پر پانی بھرنے کے لیے جاتی ہے تو اسے اپنے مٹکے الگ رکھنے پڑتے ہیں اور دوسری
کسی ذات والی کے ساتھ پانی نہیں بھرسکتی ۔
تھر پار کر یہ واحد خطہ ہے
جو دوسرے اضلاع کی نسبت امن پسند ہے لیکن گزشتہ چار پانچ سالوں سے عورتوں کے حوالے
سے خودکشیاں اور اجتماعی زیادتیوں جیسے واقعات سننے میں آرہے ہیں۔اچھوت لوگوں میں
کوہلی اوربھیل تو اندرون سندھ میں زیادہ زرعی زمینوں پر مزدوری کرتے ہیں۔ فصلوں کی
کٹائی کے موسم کے دوران کافی خاندان زرعی علاقوں کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ جہاں وہ تھوڑا
سا قرضہ لے کر ساری عمر کے لیے زمینداروں کے غلام بن جاتے ہیں ۔اپنے پورے خاندان بچوں
،بڑوں ،بوڑھوں اور عورتوں سمیت دن رات محنت کرتے ہیں لیکن قرضوں سے آزاد نہیں ہوپاتے
۔ وہ ان ہی زمینوں پر عارضی جھونپڑے بنا کر
رہتے ہیں جہاں ان کی عورتیں بالکل محفوظ نہیں ہوتیں ۔ اور ہمیشہ زمینداروں اور علاقے
کے دوسرے مردوں کے بھی ظلم کا شکار ہوتی رہتی ہیں۔
شیڈول کاسٹ کی لڑکیوں کو اغوا
کرنا اور ان کے ساتھ گینگ ریپ کرنا عام سی بات ہے۔ شیڈولڈ کاسٹ کی بہت سی عورتوں کو
اغوا کرلیا جاتا ہے اور ان کو زبردستی مسلمان
کرلیا جاتا ہے۔ جس کا نہ تو کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے نہ کوئی فریادی ہوتی ہے
۔ صرف اس بات پر کہ اب وہ اسلام کے دائرے میں ہیں ، ان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور
یہ مذہب کا تبدیل کرنا نہ صرف ہند و ازم بلکہ عیسائیت میں کافی سارے اچھوت لوگ صرف
اپنی غربت اور امتیازی سلوک کی وجہ سے اپنے ہی مذہب کو چھوڑ رہے ہیں۔
سندھ کے کسی بھی اخبار کا
جائزہ لیں تو پتہ نہیں ایسے کتنے واقعات نظر آئیں گے ۔ یہ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو
میڈیا کی پہنچ میں ہوتے ہیں ، لیکن بہت سے ایسے واقعات بھی ہیں جو کسی کی نظر میں نہیں
آتے یا تو وہاں میڈیا کی پہنچ نہیں ہوتی یا ان مظالم کا شکار ہونے والوں کا بس نہیں
چلتا کہ ملزم کے خلاف کچھ کرسکیں ۔کیونکہ سندھ میں وڈیرا شاہی (Feudal
system )اتنا
طاقت ور ہے کہ ان کے خلاف آواز اٹھانا ایسے ہی ہے جیسے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنا
ہے۔
شیڈول کاسٹ کے لوگ زیادہ کو
ہلی بھیل جو اکثر زمینداروں کے بندھے ہوئے غلام ہیں ۔ ہمیشہ کی طرح ظلم وستم برداشت
کرتے آرہے ہیں کیو نکہ ان کے پاس او رکوئی چارہ نہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیم (HRCP)نے کافی ہاریوں اور ا
ن کی عورتوں کو زمینداروں کی قید سے آزاد کروایا اور ان کے لیے باقاعدہ کوٹری کیمپ
میں رہنے کے لیے جگہ بھی دی ہے۔ لیکن وہ وہاں پر بھی ذہنی طور پر پرسکون نہیں ہیں۔
2004میں اثر ٹیم کے وزٹ کے دوران ان کی اکثر یت کا کہنا تھا کہ ہم آزاد تو ہوگئے ہیں
لیکن ابھی ہمارے پاس روزگار نہیں ہے، کیونکہ اچھوت ہونے کی وجہ سے نہ تو کوئی کاروبار
یا دکان وغیرہ کھول سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی روزگار دیتا ہے۔ یہ آزادی بھی نامکمل
ہوتی ہے جب تک غربت پیچھا نہ چھوڑے۔
2مئی 1998کو منو بھیل کے گھر کے 9افراد کو جھڈو سندھ سے اغوا کیا گیا
جس میں ان کے ماں ،باپ ،بیوی بیٹے اور بیٹیاں شامل ہیں۔ جن کی واپسی کے لیے ابھی تک
وہ سانگھڑ کے زمیندار کے خلاف حیدر آباد پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتا ل پر بیٹھا ہوا
ہے اور مظاہرے کررہا ہے،یہ مسئلہ بین الاقوامی سطح پر پہنچ گیا ہے لیکن سات سال گزر
نے کے باوجود ابھی تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ زندہ بھی ہے یا مار دیے گئے ہیں جو
ایک شرمناک صورتحال ہے۔
سندھ کے بہت سے علاقوں میں
جہاں لوگ کوڑا کرکٹ پھینکتے ہیں وہاں پر اچھوت لوگ باگزی اور گرگلہ ذات کے دیکھنے کو
ملیں گے ۔ جو خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں اکثر ان کی عورتیں گھروں میں کھلونے
یا چوڑیاں بیچنے جاتی ہیں اور پیچھے مرد بچوں کی نگہداشت کرتے ہیں۔ وہ مستقل ایک جگہ
نہیں رہتے۔ دس پندرہ دن ایک شہر میں تو دس پندرہ دن دوسرے شہر میں ۔تعلیم کا تو کوئی
تصور ہی نہیں ابھی تک ان کے شناختی کارڈ بھی تیار نہیں کیے گئے کہ آیا وہ اس ملک کے
شہری بھی ہیں یا نہیں ۔
دادو شہر میں کافی سارے باگڑی
اور اوڈ کمیونٹی کے لوگ شہر کے بیچ ریلوے اسٹیشن کے قریب رہتے ہیں لیکن ان کے پاس نہ تو صحت کے حوالے سے سہولیات ہیں اور نہ
ہی مردوں کی آخری رسومات کے لئے شمشان گھاٹ۔
اکثر عورتیں بیمار یوں کی
وجہ سے مرجاتی ہیں ، اکثر ہندوؤں میں نچلے طبقے کے لوگوں میں لڑکیوں کو پڑھانے کا
نہ تو کوئی رواج ہے اور نہ ہی وہ اسے اچھا سمجھتے ہیں ۔ اگر ان کا کوئی لڑکا قسمت سے
پڑھ بھی جاتا ہے تو اس کے ساتھ امتیازی رویہ رکھا جاتا ہے۔ بری نظر سے دیکھا جاتا ہے
اور اگر لڑکیاں پڑھتی بھی ہیں تو وہ غیر محفوظ ہوتی ہیں بلکہ جنسی تشدد کا بھی شکار
ہوسکتی ہیں۔ یہ کچھ واقعات ہیں جو خاص طور پر اچھوت عورت کے ساتھ ہوئے ہیں۔
30مئی 2005کو دادو سندھ سے اوڈ کمیونٹی کی دو لڑکیاں مس ہیمی اور مس
شہناز کو بزور زبردستی اغوا کیا اور اسلام قبول کرنے کو کہا انکار پر تشدد اور زنا
کیا گیا۔( اثررپورٹ)
لاڑ کانہ نوڈیرو کے قریب واقع
گاؤں اللہ بخش سپڑو میں ہاری شنکر کھیتوں میں کام کرنے کے بعد اپنی والدہ مسمات سکینہ
اور بیوی مسمات چندرہ کے ساتھ گھر واپس آرہا تھا کہ تین نامعلوم افراد نے انہیں راستہ
میں روک کر تشدد کا نشانہ بنایا اور شنکر بیوی چندرہ کو اغوا کر کے فرار ہوگئے۔ اغوا
کنند گان میں سے ایک کا نام محمد رمضان بتایا
گیا۔ بعد میں موصول ہونے والی رپورٹ کے مطابق شنکر کی والدہ سکینہ نے گھر پہنچ کر برادری
والوں کو تمام واقع سے آگاہ کیا ۔ جو جلوس کی شکل میں محمد رمضان کے گھر پہنچ گئے
اور اس سے چندرہ کی واپسی کی استدعا کی۔ محمد رمضان نے باگڑی برادری کو یقین دلایا
کہ وہ چندرہ کی بازیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گا۔لیکن وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں
ناکام رہا ۔ یہاں سے مایوس ہوکر یہ تمام افراد مقامی زمیندار سجاد چنا کے پاس پہنچے
جس نے اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے چندرہ کو بازیاب کرادیا۔ محمد رمضان شرکو چندرہ
کے اغوا کے الزام میں ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ ( جہد حق HRCP)
کھپر و کی شریمتی ساکراں بائی
نے الزام لگایا کہ آچر مری اور اس کے ساتھیوں نے 3ماہ قبل اس کی بہو شریمتی تاری بائی
کو اغوا کرلیا جس کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں چلا۔
)جولائی 2005 جہد حق(
مسمات ہیمی اور ماروی نامی
لڑکیوں کے مبینہ اغوا کے خلاف جھڈو میں احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرین نے الزام لگایا
کہ اغوا کنندگان نے لڑکیوں کو تبدیلی مذہب کے لیے مجبور کررہا ہے۔
جھل مگسی ۔ 28مئی کو ڈھاڈر
کے علاقے میں نامعلوم افراد نے گھر میں گھس کر سامانہ اور اس کی 12سال بیٹی وینہ کماری
کو قتل کردیا جس کی وجہ سے ڈھاڈر میں ہندو تاجراور اس کی بیٹی کے قتل کے واقع کے خلاف
گنداواہ میں ہندو پنچایت کی کال پر شہر کے تمام کاروباری اور تجارتی مرکز بندر ہے
۔ دوپہر ایک بجے تک گاڑیوں کی آمد ورفت بھی معطل رہی ۔ شاہی بازار کے مرکزی چوک میں
ہندو پنچایت کے نمائندہ سیٹھ نیوند رام ، انند مل ،جیتو مل، بچہ مل، سریش لعل، چندا
مل او ر دیگر نے کہا کہ امن وامان کا قیام پولیس اور انتظامیہ کی ذمہ داری تھی۔ اور
ہندوؤں کے خلاف بہت سارے واقعات ہورہے ہیں لیکن پولیس اپنا کردار ادا نہیں کررہی
۔
زیارت کوئٹہ میں اکتوبر
2004کے پہلے ہفتہ میں پانچ سالہ ہندو لڑکی کے ساتھ نامعلوم افراد نے جنسی زیادتی کی۔
اس سے قبل یکم اکتوبر 2004کو اسی آبادی میں ایک دوسری ہندو لڑکی بینا کے ساتھ جنسی
زیادتی کی گئی تھی۔ شہر کی انتظامیہ نے مبینہ طور پر بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ سرکاری
افسران کے متعصب رویے کی وجہ سے ملزمان کو علاقے میں مذہبی اقلتیوں کو زیادتی کا نشانہ
بنانے کی شہ ہے۔( 2دسمبر 2004روز نامہ ڈان(
12فروری 2004کو چک نمبر 113/Pضلع
رحیم یار خان میں 18سالہ ہندولڑکی صغری منچارام کے ساتھ 28سالہ محمد انور اور 25سالہ
محمد حسین نے مبینہ طور پر جنسی زیادتی کی۔ صغری اپنے 14سالہ بھائی کے ساتھ کھیت میں
کام کررہی تھی۔ ملزمان نے اس کے بھائی کو ایک کمرے میں بند کردیا۔ دوگھنٹے تک لڑکی
کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے بعد ملزمان فرار ہوگئے۔ لڑکی نے گھر آکر اپنے والدین
کو وقوعہ سے آگاہ کیا۔ طبی معائنے کی رپورٹ سے جنسی زیادتی کی تصدیق ہوگئی۔ مقدمہ
درج کر کے ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔ پولیس نے مبینہ طور پر رشوت لے کر ملزم کو چھوڑ
دیا۔ (NCJP رپورٹ(
10جولائی 2004کو حیدر آباد کے ایک گاؤں دریو ٹو میں 12نامعلوم افراد
نے ایک ہی خاندان 15سالہ رامیش ، 17سالہ کرینہ ،19سالہ بھاگ بھری ،16سالہ ذرنا او رلکشمی
کے ساتھ گھنٹوں اجتماعی جنسی زیادتی کی۔ یہ خاندان ایک اورگاؤں سے تلاش معاش کے لیے
اس گاؤں میں آیا تھا ملزمان نے انہیں اغوا اور تشدد کرنے کے علاوہ جنسی زیادتی کا
نشانہ بھی بنایا ۔عورتوں کے شور مچانے پر کسی پڑوسی سے مدد کر نے کی جرأت نہ کی۔ حاملہ
ہونے کے باعث صرف لکشمی کو طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جایا گیا۔ مقامی ہندوؤں نے
احتجاج کرتے ہوئے سڑک بلاک کردی او رملزمان کی گرفتار ی کا مطالبہ کیا۔ مقامی با اثر
افراد نے مظاہر ین کو احتجاج کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ مظاہرین کے پاس چپ
ہوجانے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ علاقہ میں ہندو خواتین کا اغوا آبروریزی اور
قتل ایک معمول ہے۔ پولس ملزمان کے اثر ورسوخ کی وجہ سے انہیں گرفتار نہ کرسکی۔
)NCJPرپورٹ(
15نومبر 2004کو سندھ کے گاؤں کا ٹیان شہداد پور میں ہندو خواتین
22سالہ ست بھرائی حمیداں ، آلہانو اور جنت پوگرو کے ساتھ جانو چاندیو ،صابو چاندیو
اور سونجو کو سونے بندوق کی نوک پر اجتماعی جنسی زیادتی کی ملزمان گھر میں گھس آئے
انہوں نے مردو ں کو باندھ دیا اور عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی ۔ خاندان کو وقوعہ
کی رپورٹ کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔ تاہم پولس کو مطلع کرنے پرملزمان
کو گرفتار کرلیا گیا۔ تادم رپورٹ ملزمان متاثر ہ خاندان کو ہراساں کررہے تھے۔
)NCJPرپورٹ(
2ستمبر 2004کو چک 17/GBضلع
یزمان بہاولپور چار بچوں کی ماں بختو مائی اور دو بچوں کی ماں امرتی مائی کو مسلمان
ملزمان جان محمد ،قادر بخش ،فیض بخش ،رفیق احمد مہر اور بشیر احمد نے اغوا کرلیا۔ ملزمان
نے قیمتی سامان لوٹا اور خواتین کو اغوا کر کے لےگئے ۔ پولس نے مقدمہ درج کرلیا اور
25ستمبر 2004کو امرتی مائی کو برآمد کرلیا گیا اکتوبر 2004کو امرتی بائی کو بھی برآمد
کر کے ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا۔ امرتی کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی تھی اس لیے
اس نے ملزمان کے خلاف بیان دینے سے انکار کردیا۔ مجسٹریٹ نے ملزمان کے ساتھ امرتی بائی
کو بھی جیل بھیج دیا۔NCJPرپورٹ)
صوبہ سندھ میں 22اکتوبر
2004کو حاجی رمضان کی 14سالہ گھریلو ملازمہ کا کیو مائی کے ساتھ مسلمان ندیم نے جنسی
زیادتی کی۔ پولیس نے بااثر ملزم کے خلاف کارروائی کر نے سے گریز کیا۔کا کیو مائی کے
انکل کیول جی نے ممبر قومی اسمبلی گیان سندھ سے رابطہ کیا ۔ گیان سندھ نے قومی اسمبلی
میں پولس کی غفلت کے خلاف او رمتاثر لڑکی کی جان کی خطرہ سے محفوظ رکھنے کے لیے تحریک
پیش کی مگر پولس پر کوئی اثر نہ ہوا۔(23اکتوبر 2004ڈیلی ٹائمز(
1اکتوبر 2004کو ضلع لورالائی میں ایک ہندو لڑکی سپنا کماری کو چند معلوم
افراد نے اغوا کرلیا۔ وہ مبینہ طور پر اپنی دوست کے گھر جارہی تھی کہ اسے اغوا کرلیا
گیا۔ چند روز بعد اغوا کرنے والوں نے ڈی پی او، سٹی ناظم اور لڑکی کے خاندان کو ایک
تحریر ارسال کی جس میں کہا گیا تھا کہ لڑکی نے اپنی مرضی سے گھر چھوڑا ہے۔ لڑکی کے
والدین نے مقدمہ درج کروایا مگر افسوس پولیس اب تک سپنا کو برآمد کرو انے میں ناکام
رہی ہے۔ (اثر رپورٹ(
3اگست 2004کو ضلع بدین حیدر آباد سے 106کلومیٹر مشرق میں واقع گاؤں
منرومل کوہلی پر رات 10بجے موٹر سائیکلوں اور ٹریکٹر وں پر سوار کلہاڑیوں اور رائفلوں
سے چالیس نامعلوم افراد نے حملہ کردیا۔ حملہ آوروں نے بچوں اور عورتوں کو زخمی کرنے
کے علاوہ گاؤں کے اسکول میں موجود فرنیچر اور دیگر اسٹیشنری کا سامان تہ وبالا کردیا۔
مقامی لوگوں نے پولس کو فوراً مطلع کردیا جس نے کوئی مدد نہ کی۔ بعد ازاں موقع سے آٹھ
افراد کو گرفتار کرلیا گیا جن کو جلد ہی چھوڑ دیا گیا۔ متاثرہ برادری کے لوگوں نے پولس
سے ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ تھانیدار (SHO)نے چھوڑ دیے گئے ملزمان
کو دوبارہ گرفتار کرنے سے انکار کردیا بلکہ دیہاتیوں میں سے دو گرفتار کرلیا۔ پولیس
انتظامیہ کی طرف سے اس سانحہ پر نہایت بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا۔ اثر ریسو رس سینٹر
کو جب اس واقع کے بارے میں معلوم ہوا تو فوری طور پر سماجی اور انسانی حقوق کی تنظیموں
کو آگاہ کیا گیا، اس کے علاوہ اعلیٰ حکام کو بھی خطوط لکھے گئے کہ وہ ہندو اقلیتیں
اور ان کے جائیداد کے تحفظ کے لیے اقدام کریں اور ان مظلوم لوگوں پر حملہ کرنے والے
غنڈوں کے خلاف ایکشن لیں۔ اثر کی طرف سے اس سرگرمی کا یہ فائدہ ہوا کہ ضلع انتطامیہ
بدین نے اس واقع کا سنجیدگی سے نوٹس لیا حملہ آوروں کے خلاف ایف۔ آئی ۔ آر درج کر
کے حملہ آورووں کو گرفتار کیا گیا جبکہ SHO تھانہ گولار چی کو اپنے فرائض سے غفلت برتنے اور
جانبداری کا مظاہرہ کرنے پرمعطل کردیا گیا۔ (اثر رپورٹ
ضلع سانگھڑ وا ہو ڈیرہ تھراری
میں بااثر زمینداروں ابراہیم راجور او رآدم دارس نے مرد وخواتین او ربچوں سمیت 41ہند
و کھیت مزدوروں کو غیر قانونی حراست میں رکھا تھا۔ مزدوروں کو زدوکوب کرنے کے علاوہ
اکثر ذلیل بھی کیا جاتا تھا
10جون 2004کو نگر پار کر (سندھ) میں ایک بااثر شخص نے ہندو لڑکی گوری
راٹھور کے ساتھ جنسی زیادتی کی ۔ برادری کے لوگوں نے مقدمہ درج کروایا اور مقدمے کی
پیروی کے لیے ہر گھر سے 50روپے چندہ اکٹھا کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعدمیں ازاں ملزم کے
اثر رسوخ کی وجہ سے گاؤں والوں نے متاثرہ خاندان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا۔ ملک
میں موجود انصاف کے نظام کی وجہ سے معاشرے میں اجتماعی اور انفرادی سطح پر خواتین پر
ہونے والے ظلم کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/let-be-alive-–-part-3/d/3073