BY Pirbhu Lal Satyani
In this Urdu book titled Hamey bhi Jeene do, Published by Asar Publications, Lahore, 2005, Prabhu Lal Satyani, has documented the plight of dalit Hindus in Pakistan. He says that a large number of dalit Hindus live in Sindh and South Punjab. To retain their supremacy, the pandits and the leaders divided the society and pushed dalits to the bottom of the social heirarchy. Not only has religious extremism affected them but also the state has neglected them.
In the second section of this book, the author describes how the number of Pakistani Dalits (whom he still calls “untouchable”) is declining. But, he says, the reason for this is not so much their migration to India, as is the case with upper caste Hindus, but forcible conversion to Islam. Some Dalits, he says, also convert out of greed, for the sake of better jobs and perks.
Pirbhu Lal Satyani is a Pakistani Hindu social activist based in Lahore.
ہمیں بھی جینے دو۔ حصہ دوئم
پاکستان میں اچھوت ہندؤوں
کی صورتحال
پربھولال ستیانی
اتنی ساری پابندیاں لگائی
گئی ہوں وہاں ایک اچھوت عورت کی حیثیت کیا ہوگی۔ جو ایک اچھوت ہونے کے ساتھ ساتھ خاندان
، معاشرہ، کلچر، رسم ورواج مذہبی سطح پر پستی ہوئی عورت بھی ہے۔
اگر ہم دلت ادب یا شاعری کا
مطالعہ کریں تو وہ اس تکلیف یا حقیقت سے بھی منہ نہیں موڑسکتے جو ایک بہت ہی بھیانک
تجربہ ہے گلیوں میں جھاڑوں دینے والی اچھوت عورتوں کی زندگی کا ایک عام حادثہ ہے۔
تم ایک کمزور شکار کی طرح
پھنس جاتی ہو
اور وہ مزہ لیتے ہیں
اچھوت گوشت کا
جس کے چھونے میں بڑا لطف آتا ہے
پاکستان میں اچھوت:
معاشی ، سماجی، سیاسی، مذہبی
، تعلیمی باور قومیت کے لحاظ سے اگر کوئی پیچھے ہیں تو پاکستان کے اچھوت ہیں۔ معاشی
طور پر دیکھیں تو نہ تو ان کے پاس روزگار ہے اور نہ ہی گھر ہیں اور نہ ہی کوئی ذریعہ
معاش ہے۔ غربت ان کے گھروں میں ناچتی ہے۔ معاشرے میں انہیں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا
جاتا۔ یہ لوگ اسی سیاسی شعور سے بالا تر ہیں اور ان میں قیادت کا فقدان ہے۔ پاکستان
میں بسنے والے ہندوؤں کی آبادی کا70 فیصد اونچی ذات کے ہندو آباد ہیں۔ مذہب کے معاملے
میں اچھوت اپنی مذہبی رسومات سے بھی واقف ہیں۔ اس کی وجہ تعلیم نہ ہونا اور غربت ہے۔مذہبی
مقامات مندر وغیرہ اچھوتوں کی مداخلت کو مداخلت کومناسب نہیں سمجھا جاتا۔ اس وجہ سے
ان میں مذہبی شعور کی بھی کمی ہے۔
قومیت کے معاملے میں سب سے
بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے اچھوت ایسے ہیں جو تقسیم پاک وہند سے پہلے کے
یہاں پر آباد ہیں۔ لیکن ابھی تک ان کی شناختی کارڈ نہیں بنے۔ قومیت کے حوالے سے ان کی کوئی پہچان نہیں ہے۔
‘‘1947میں جب قیام پاکستان کے وقت ، پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی
ایک کروڑ تھی جو کم ہوتے ہوتے 17لاکھ رہ گئی ہے۔ انڈیا میں اس وقت مسلمانوں کی کل آبادی
تین کروڑ تھی جو بڑھتے بڑھتے 14کروڑ تک پہنچ گئی ہے’’۔
پاکستان سے ہندوستان ہجرت
کرنے والے ہندوؤ ں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے پاکستان بننے کے بعد سے لے کر
1965کی جنگ اور اس کے بعد 1971پھر ہندوستان میں بابری مسجد کے واقعات کے بعد ہندوؤں
کی بھاری تعداد عدم تحفظ کی وجہ سے بھارت ہجرت کرگئے۔ ہجرت کرنے والے ہندوؤں میں اکثر
یت اونچی ذات والوں کی تھی ان کی تھی جو اقتصادی طور پر بہتر تھے ۔ پاکستان میں رہ
جانے والے ہندوؤں میں بڑی تعداد اچھوتوں کی ہے۔ کیونکہ نہ تو ان کے پاس اتنے وسائل
تھے نہ ہی انہوں نے ان باتوں کی اہمیت دی تھی کیونکہ وہ تو اپنی روزمرہ زندگی میں ہی
ہزاروں بار جی اور مررہے تھے۔ ان کے لئے ہندو مسلم فسادات یا پاکستان انڈیا تنازعہ
اس قدر اہمیت کا حامل نہیں تھا جتنا کہ ایک سرمایہ دار ہندو کے لیے تھا۔
اگر اچھوت لوگوں کی آبادی
میں کمی آتی ہے تو اس کی ایک وجہ مذہب کی تبدیلی ہے۔ ایک تو ان سے مذہب زبردستی تبدیل
کروایا جاتا ہے ، دوسرا وہ لالچ میں آکر بھی اپنا مذہب تبدیل کر لیتے ہیں۔ ہندوؤں
میں ذات پات ہونے کی وجہ سے بڑی ذات کے ہندو اچھوتوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتے
ہیں۔ اسی وجہ سے بھی کچھ لوگ اپنا مذہب تبدیلی کرلیتے ہیں۔ ہندو اقلیت پاکستان کے چاروں
صوبوں میں آباد ہیں۔ لیکن سندھ اور جنوبی پنجاب میں ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ
ہیں۔
دس لاکھ سے زیادہ ہندو اچھوت
سندھ کے میر پور خاص ڈویژن میں بے زمین ہاریوں اور مزدوروں کے طور پر زندگی گزار رہے
ہیں۔
ضلع تھر پار کر کی ایک ملین
آبادی میں سے 40فیصد ہندو رہتے ہیں جس میں سے 35فیصد نچلے طبقے کے لوگ (اچھوت) آباد
ہیں ۔ سابقہ MPAلالہ
مہر لعل کے مطابق تین لاکھ پچاس ہزار ہندو شیڈول کاسٹ ، پنجاب میں آباد ہیں۔ جن کی
زیادہ تعداد رحیم یار خان او ربہاد لپور اضلاح میں رہتی ہے ۔ جبکہ او رکچھی ،بالمیکی
اور راجپوت دوسرے اضلاح میں رہتے ہیں۔
سماجی صورتحال:
نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے
لوگ گاؤں میں گھر نہیں بناسکتے ۔ انہیں گاؤں سے باہر علیحدہ محلّہ بنانا پڑتا ہے
۔ جہاں پر وہ اپنے ہی لوگوں کے ساتھ رہتے ہیں اکثر افراد دیہاتوں میں رہتے ہیں، کھیت
میں مزدوری کا کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس اپنی زمینیں نہیں ہیں۔ اپنی زمین نہ ہونے کی
وجہ سے وہ ہمیشہ ایک زمیندار سے دوسرے زمیندار کی زمین پر نقل مکانی کرتے رہتے ہیں۔
اور ان کا ایک ٹھکانہ اور گھر نہیں بن پاتا ۔ اکثر جھونپڑوں او رکچے مکانوں میں رہتے
ہیں اور وہاں سے زمیندار جب چاہے انہیں بے دخل کرسکتا ہے اور ان کی داد رسی بھی نہیں
ہوتی۔
چولستان میں بسنے والے بھیل
،مینگواڑ اور بوریا یہاں کے قدیم باشندے ہیں۔ چولستان کی اراضی کی الاٹمنٹ پاکستان
بننے کے بعد چھ دفعہ ہوئی ہے لیکن ان اقوام کو محروم رکھا گیا ہے۔ یہ لوگ بے زمین او
ربے گھر ہیں ’ 665خاندان کی ، 1965، 1970، 1978 میں درخواستیں دی گئیں ۔ 1978میں
72خاندانوں کی درخواستیں سکرونٹی کمیٹی نے پاس کیں جن کو ابھی تک الاٹمنٹ نہیں کی گئی ۔ باقی درخواستیں
1978سے چولستان کے دفتر میں پینڈنگ پڑی ہوئی ہیں۔جن کو ابھی تک سنابھی نہیں گیا ہے۔
حالانکہ مورخہ 17.02.2000کو بورڈ آف ریونیو کی واضح ہدایت تھیں کہ تین مال کے اندر
اندر ان کی سکرونٹی کریں۔ لیکن تین ماہ کی بجائے چار سال گزر نے کے باوجود بھی کوئی
عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔
شیڈول کاسٹ کی کافی تعداد
سندھ میں خانہ بدوشوں کی طرح زندگی گزاررہی ہیں۔ ان کے پاس کوئی اپنا ذاتی ٹھکانہ یا
رہنے کے لیے گھر نہیں ہے۔ وہ پاکستان میں کسی گنتی میں شمار ہی نہیں ہوتے ہیں چاہے
مردم شماری ہو یا کوئی اور ترقیاتی پروگرام ۔ کافی سارے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے ابھی
تک شناخت کارڈ نہیں بنے اور اس میں سے بہت سارے ایسے افراد ہیں جن کے باپ دادا کے بھی
کارڈ نہیں بنے تھے اور نہ ہی حکومت یا عوامی نمائندے اس بارے میں سوچتے ہیں۔ وہ جب
کارڈ بنوانے کے لئے شناختی کارڈ کے دفتر جاتے ہیں تو و ان کے باپ دادا کاشناختی کارڈ
اور ڈومیسائل مانگتے ہیں جو کہ ان کے پاس نہیں ہوتا خاص کر شیڈول کاسٹ کی عورتوں کے
تو کوئی شناختی کارڈ بنے ہی نہیں ہیں۔
جب اثر ریسورس سنٹر نے چولستان
سے کچھ ہندو عورتوں کو ورلڈ سوشل فورم 2004(ممبئی) لے جانے کےلئے منتخب کیا تویہ بات
سامنے آئی کہ ان کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہیں۔ اثر ریسورس سنٹر نے ان لوگوں کے لئے
نئے شناختی کارڈ بنوائے جو کہ پاسپورٹ کے حصول کے لئے ضروری تھا۔
گاؤں میں زیادہ تر اسکولوں
میں بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ان کو کھانے پینے کے برتن استعمال
کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ دوسرا ان کو بھی اسلامی نصاب پڑھنا پڑتا ہے۔ ان کے مذہب
کے حوالے سے کوئی الگ نصاب نہیں ہوتا ۔اکثر اساتذہ او رمسلم بچوں کا رویہ بھی ٹھیک
نہیں ہوتا۔ او رملک بھر میں اسکولوں میں دی جانے والی اسکالر شپ بھی انہیں نہیں دی
جاتی۔ ا س کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ اسکالر شپ زکوٰۃ کے فنڈسے دی جاتی ہے اور غیر
مسلم کوزکوٰۃ دینا منع ہے۔ لہٰذا یہ اقلیتی بچے چاہے وہ مستحق ہوں یا ذہن ہوں ان کا
اسکالر شپ نہیں ملتی ۔ اور وہ احساس محرومی اور احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نوکری
نہ ملنے کے باعث والدین اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کی بجائے اپنے ساتھ کھیتوں میں کام
کرنے اور مویشی چرانے کے کام میں لگادیتے ہیں۔ اور جگہ جگہ آپ کو یہ کالے کلوٹے بچے
ننگے پاؤں بھینس بکریاں چراتے نظر آئیں گے۔
تھر پار کر میں اچھوت اکثریت
میں ہیں جس میں کوہلی، بھیل اور میگھواڑ شامل ہیں۔ جن کی زندگیاں مصائب او رمشکلات
سے بھری ہوتی ہیں۔میگھواڑ کمیونٹی تعلیم کی وجہ سے دوسروں سے کچھ بہتر ہے۔ لیکن کوہلی
اور بھیل ابھی تک وہیں کے وہیں ہیں۔یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کھاتے پیتے نہیں
ہیں اور نہ ہی رشتہ داری کرتے ہیں۔
تھر کے ہوٹلوں میں اکثر آپ
کی نظر ایک ایسے شیلف پر پڑے گی جو محض لکڑی کا ایک ایسا ٹکڑا ہے جسے میخوں کے ساتھ
دیوار میں لگا یا جاتا ہے۔ اس شیلف پر کھانے پینے کے برتن ، چائے کے کپ او رگلاس رکھے
ہوتے ہیں ۔ نچلی ذات کا ہندو جو صدیوں سے اس سماج کا حصہ ہے اور جسے حقارت اور نفرت
سے دیکھا جاتا ہے،اس شیلف سے برتن اٹھاتا ہے او رکھانے پینے کے بعد خود ہی دھوکر رکھ
دیتا ہے ۔ اس کے برتن کو کوئی نہیں چھوئے گا کیونکہ وہ اچھوت ہے ۔ اچھوتوں کو پانی
پلانے کا طریقہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ اس کے برتن میں پانی تقریباً ایک فٹ کی دوری سے
انڈیلا جاتا ہے مباد ا اس کا برتن گھڑے کے ساتھ لگ کر اسے پلیدہ نہ کردے۔ جہاں گلاس
نہ ہو وہاں اچھوت اپنے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیوں سے پیالہ بنالیتے ہیں جن میں گدلہ
اور ریتلا پانی انڈیلا جاتا ہے اور جب وہ سیر ہوجاتا ہے تو اپنے سر کی جنبش سے بتادیتا
ہے کہ اب مزید پانی انڈیلنے کی ضرورت نہیں ۔
تھر میں غربت کی سطح کا اندازہ
اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی دس دیہاتوں کو لوٹے تو اسے پچاس روپیہ سے زائد رقم
ہاتھ نہیں لگے گا۔
تھر میں آپ کو بہت سے ایسے
لوگ ملیں گے ۔جنہوں نے اپنے جوتے اپنی چھڑی کے ساتھ باندھ کر کندھے پر رکھے ہوں گے
اور خود ننگے پاؤں ریت پر چل رہے ہوں گے کیونکہ ریت کی رگڑ سے جوتا گھس کر جلدی ٹوٹ
جاتا ہے ۔لہٰذا نیا جوتا خرید نے کی بجائے ایک کلو آٹا خریدنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ
اس کے بغیر زندہ نہیں رہا جاسکتا ۔ ان بیچارے سیدھے سادھے لوگوں کو اکثر ڈرا دھمکاکے
بیگار لی جاتی ہے ۔ کافی سارے لوگ جو بارڈر کے قریب رہتے ہیں وہ آرمی اور نیجرزکے
ظلم کا شکار ہیں۔ انڈیا ، پاکستان تنازع کی وجہ سے ہمیشہ ان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ
ہجرت کرنی پڑتی ہے۔
قانون نافذ کرنے والے ادارے
زبردستی ان کی مال مویشی، مرغیاں وغیرہ ان کے سامنے سے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔ ڈر کے
مارے وہاں کے لوگ بول بھی نہیں سکتے، وہاں کے ہندو اور مسلمان وڈیرے چھوٹی ذات کے ہندوؤں
سے بلا معاوضہ کام کرواتے ہیں ۔ اور اگر انکار کرے تواپنے اثر رسوخ کی وجہ سے انہیں
تھانے میں بند کرواکر ان پر کوئی مقدمہ ڈلوادیتے ہیں مثلاً چوری، ڈکیتی کے مقدمے میں
پھنسا دیتے ہیں۔ اس خوف کی وجہ سے وہاں کے چھوٹی ذات کے ہندو انہیں بلامعاوضہ اپنی
خدمات دینے پر مجبور ہیں۔
اکثر سندھ میں چھوٹی ذات کے
ہندوؤں کے گھروں پر لینڈ مافیا (قبضہ گروپ) قبضہ کرلیتے ہیں اور ان کی شنوائی بھی
نہیں ہوتی ۔اکثر جگہوں پر ان کی عبادت کے لیے کوئی مندر نہیں ہے اور جب کوئی مرتا ہے
تو ان کی آخر ی رسومات ادا کرنے کے لئے شمشان گھاٹ بھی نہیں ہیں۔ اگر کہیں ہیں بھی
تو وہاں مسلمان قابض ہیں۔
لاہور میں بسنے والے ہندو
بالمیکیوں کا کہنا ہے کہ لاہور میں بہت سے مندر ہیں لیکن ہمیں وہاں عبادت کرنے کی اجازت
نہیں ۔ یہ سب محکمہ اوقات کے زیر اثر ہیں۔ اپنے مردوں کو جلانے کے لیے لاہور میں جی
ٹی رو ڈ باغبانپورہ پر شمشان گھاٹ موجود تھا لیکن 1985سے یہاں کے لینڈ مافیا(قبضہ گروپ)
نے اس پر قبضہ کررکھا ہے۔ جس کی وجہ سے انہیں اپنے مردوں کی آخری رسومات دور دراز
علاقوں میں جاکر ادا کرنی پڑتی ہیں۔
سیاسی صورتحال :
15اگست 1944کو قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک پریس کانفرنس میں کہا
کہ ‘‘میں مسلم لیگ کی پوزیشن کو کلیئر کرنے کےلئے ایک نقطہ کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں
۔ جہاں تک شیڈول کاسٹ کا اور اقلیتوں کا تعلق ہے ان کی فوری ضروریات کو پورا کیا جائے
گا بیشتر اس کے کہ ان کوتمام حقوق پوری طرح مل سکیں۔ میں اپنے شیڈول کاسٹ دوستوں کو
بتانا چاہتاہوں کہ میں نے ان کے وجود یا حق کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ ماضی میں بھی
ان کی مدد کے لیے وہ سب کچھ کیا جو میں کرسکتا تھا۔ مستقبل میں بھی ان کے تحفظ کے لیے
کھڑا رہوں گا چاہے یہ آئین کی بات ہو ۔میرا خیال ہے جو غلطیاں یا ناانصافیاں ماضی
میں صدیوں سے چلی آرہی ہیں وہ جاری نہیں رہنی
چاہئے حکومت کی اختیار کی ہوئی تہذیب یافتہ شکل میں ۔’’
پاکستان کی دستور ساز اسمبلی
کی کارروائی کا آغاز ہی ایک اقلیتی نمائندے جو گندر ناتھ منڈل کو اس اسمبلی کا عارضی
صدر مقرر کرنے سے ہوا تھا۔ پہلا ہی قدم ظاہر
کرتا ہے کہ قائد اعظم کے ذہن میں اقلیتوں اور اقلیتی نمائندوں کے لئے وہی عزت تھی جو
اکثریت اور اس کے نمائندے کے لئے اپنے دل میں رکھتے تھے۔ یادر ہے کہ جو گندر ناتھ منڈل
اچھوت فرقے سے تعلق رکھنے والوں میں سے تھا۔
پاکستان کے پہلے وزیر قانون
اور اچھوت رہنما جوگندر ناتھ منڈل نے قدم قدم پرپاکستان کی تائید وحمایت کی تھی ۔ انہوں
نے 10اگست 1947کو دستور ساز اسمبلی کی صدارت کی اور 11اگست کو وزیر قانون مقرر ہوئے۔
اسمبلی میں اقلیتوں کا نمائندہ ہونے کے باوجود انہوں نے ہر مسئلے پر حکومت کا ساتھ
دیا لیکن 1953میں اپنے وزارتی عہدے سے فارغ کردیئے گئے اس کا انہیں بیحد رنج ہوا۔ اکثریت
کی طرف سے یہ ایک اشارہ تھا کہ وہ حکومت کی جتنی بھی تائید وحمایت کرلیں ان کے ساتھ
سلوک ایک اقلیتی نمائندے کا ہی ہوگا کچھ عرصہ بعد وہ مایوس ہوکر ہندوستان چلے گئے اور
پھر کبھی واپس نہ آئے۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سیاسی
منظر میں اقلیتوں کا جتنا کردار ہے اس کا ایک
فیصد بھی اچھوتوں کے حصے میں نہیں آیا۔
سندھ 2002کےالیکشن میں 9سیٹیں
اقلیتوں کے لیے مخصوص کی گئیں جس میں 7ہندوؤں کی ایک کرشچین کے لئے اور ایک شیڈول
کاسٹ کے لئے مخصوص کی گئی۔ پاکستان میں ہندوؤں کی کل آبادی 70فیصد حصہ شیڈول کاسٹ
پر مشتمل ہے اور یہ ایک عجیب صورتحال ہے کہ اس 70فیصد کے حصے میں صرف ایک سیٹ آتی
ہے۔ اگر دیکھا جائے تو شیڈول کاسٹ کے اندر کوئی بھی ظاہری اور مضبوط قیادت نہیں ہے
اور نہ ہی کوئی موثر تنظیم ان کے دفاع ،تحفظ اور بقا کے لیے کچھ کررہی ہے۔
ضلع رحیم یار خان کے سابق
ایم پی اے لالہ مہر لال بھیل کے مطابق پنجاب میں لاکھوں کی تعداد میں اچھوت ہندو آباد
ہونے کے باوجود پنجاب میں قومی اور صوبائی اسمبلی سیٹوں پر ہندوؤں کو کوئی نمائندگی
حاصل نہیں ہے۔ ان کے کہنے کے مطابق 1985کے الیکشن میں اقلیتی نشستوں کا آرڈ نینس اس
تناسب سے ترتیب دیا گیا تھا کہ قومی اسمبلی میں کل 10سٹیں ہیں
(1) پاکستان او راقلتیں:۔جس
میں 4عیسائی، 4ہندو ، 1پارسی ، بدھ مت اور ایک قادیانی کے لیے مخصوص ہیں مگر پنجاب
میں ان تمام سیٹوں پر مسیح لوگوں کو نمائندگی حاصل ہے اور باقی اقلیتیں پنجاب میں اپنی
نمائندگی کے حق سے محروم ہیں ۔ لالہ مہر لعل کے مطابق جب ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے
منتخب نمائندوں کے پاس جاتے ہیں تو وہ ہمیں پہچاننے سے انکار کردیتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ
حکومت پاکستان کے نئے بلدیاتی نظام میں اقلیتوں کو ایک یونین کے برابر بھی مراعات نہیں
مل رہیں ۔ اقلیتوں کے جنرل کونسلر ، یونین کونسلر ، تحصیل کونسلر کو اعزام یہ نہیں
مل رہا جب کہ حکومت پنجاب نے جو سمری نمبر CMS/04/OT/43/28223 پاس کر کے فنانس سیکرٹری کے پاس بھیجا ہے اور اس
پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
وفاقی نوکریاں کے حوالے سے
بھی قائد اعظم محمد علی جناح نے شیڈول کاسٹ کے لئے 6فیصد نوکریوں (Job
Quota)کا
اعلان کیا تھا لیکن بدقسمتی سے 1998میں نواز شریف کی حکومت میں کچھ اثر ورسوخ اونچی
ذات کے ہندو اور کرسچین MPAs کے قومی اسمبلی میں شور مچانے پر شیڈول کاسٹ جاب
کوٹہ کو اقلیتی کوٹہ میں تبدیل کردیا گیا اس وقت قومی اسمبلی کے دو ممبران ڈاکٹر کٹو
مل میگھواڑ اور کرشن بھیل نے اس کو روکنے کے لیے بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی حالانکہ
ان دونوں کا تعلق شیڈول کاسٹ سے تھا۔
اکثر نچلی ذات کے (اچھوت)
ہندو الیکشن کے دوران اپنی مرضی سے ووٹ نہیں ڈال سکتے، وہ اونچی ذات کے ہندو او رمسلمان
وڈیروں کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اگر کوئی چھوٹی ذات کا ان کی مرضی کے خلاف کسی کو ووٹ
دے دے کر تو وہ اس کا اپنے علاقے میں رہنا مشکل بنادیتے ہیں یہاں تک کہ اپنی حویلیوں
میں بلا کر غیر انسانی سزائیں دیتے ہیں ۔
پاکستان میں شیڈول کاسٹ کی
اتنی بھاری تعداد ہونے کے باوجود بھی گزشتہ 2002کے جنرل الیکشن کے دوران صوبہ سندھ
میں چند مخصوص سیٹوں کے علاوہ کوئی بھی شیڈول کا سٹ کا ممبر مقابلہ کر کے اسمبلی میں
نہیں آسکا۔
اگر نچلی ذات کے ہندو آپس
میں نفرتیں ختم کر کے ایک ہی پلیٹ فارم پر متحد ہوجائیں تو امید کی جاسکتی ہے کہ یہ
ایک تاریخی تبدیلی لاسکتے ہیں نہ صرف سیاسی شعور سے بالا تر ہونگے بلکہ اونچی ذات والوں
کے شکنجے سے آزاد ہوسکتے ہیں۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/let-be-alive-–-part-2/d/3065