پرویز صہیب احمد
19 نومبر، 2014
اپنوں کا ستم اور غیروں کا کرم اگر دیکھنا ہو تو اردو زبان کو دیکھ لیجئے کہ کس طرح محبت کی یہ زبان ہم ہندوستانیوں کے درمیان نظر انداز ہوتی چلی جارہی ہے اور اغیار کس طرح اس کی اہمیت اور ضر ورت کے قائل ہوتے جارہےہیں ۔ بہت دنو ں کی بات نہیں بلکہ اسی ہفتہ منظر عام پر آنےوالی اُن دو خبروں کا سر سری جائزہ لینا مقصود ہے جو اردو کی بڑھتی مقبولیت کے حوالہ سے بھی قابل قدر کہلا سکتی ہیں اور اردو کی جڑیں کاٹنے کے معاملہ میں غیر معمولی اہمیت کی حامل سمجھ میں آتی ہیں ۔ چند دنوں کے درمیان اردو زبان کے تعلق سے اخبارات میں شائع ہونے والی درجنوں خبروں کے درمیان دو خبروں پرہماری توجہ ٹھہر گئی جس میں ایک طرف یہ بتایا گیا کہ ہندوستان کی واحد اردو یونیورسٹی جو مولانا آزاد کی شخصیت سے معنون ہے، اس کی ویب سائٹ میں اردو کیلئے کوئی جگہ باقی نہیں رکھی گئی ہے۔ جب کہ دوسری خبر میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کا سپر پاور ملک یعنی امریکہ اردو کی مقبولیت کامعترف اس حد تک ہوگیا کہ اس نے نئی دہلی کے اپنے سفارتخانہ کی سرگرمیوں سے اردو قارئین کو واقف کرانے کی غرض سے اردو کی ویب سائٹ لانچ کردی۔ یہ دونوں خبریں ایک دن آگے پیچھے ہماری نظروں کےسامنے آئیں اور ایک طرف اگر خوشی ملی تو دوسری طرف غم کا سوغات بھی ۔
اردو کے حوالہ سے نومبر ماہ اس وجہ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل قرار پاسکتاہے کہ اسی مہینہ میں اردو کی کئی عالمی شخصیتیں پیدا ہوئیں ۔ وہ شخصیتیں جنہوں نے اردو زبان کو بنانے ،سنوارنے اور اسے غیر معمولی بلکہ آفاقی یا عالمی سطح پر اہمیت دلانے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ اس ضمن میں شاعر مشرق علامہ اقبال بھی سر فہرست ہیں ، امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد بھی اور ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو بھی ۔ ایسا نہیں ہے کہ یہی تین شخصیتیں ایسی تھیں جن کے دم سے آج اردو زندہ ہے بلکہ سچی بات تو یہ بھی ہے کہ اردو کی ترویج و ترقی کےحوالہ سے غیر معمولی خدمات انجام دینے والی عظیم شخصیتوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے جن کا تذکرہ کسی ایک تحریر میں کرناممکن بھی نہیں ۔ چونکہ ان تینوں شخصیات کا یوم ولادت ابھی حال میں ہی منایا گیا ہے اور محبان اردو نے اپنی زبان کی تعمیر وترقی کے حوالہ سے کچھ خواب دیکھے اور دکھائے بھی ہیں، اس لئے ان کا تذکرہ کرنا یہاں ضروری معلوم ہوتاہے۔ علامہ اقبال او رمولانا ابوالکلام آزاد کی اردو پرستی کے قصے گرچہ بہت طویل ہیں کہ انہوں نے اس زبان کو غیر معمولی تندرستی اور توانائی بخشنے کیلئے کیا کوششیں کیں۔ ‘ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا’ کے خالق نے اپنی غیر معمولی قوت تخلیق کو گویا اردو کے لئے وقف کیا ۔ اقبال کا قصہ درد یہ بھی ہے کہ انہیں آگے چل کر پاکستان دوست تصور کر لیا گیا جس کی وجہ سے ان کے ساتھ وطن عزیز میں بڑی نا انصافیاں ہوئیں ۔ اس سچائی کے باوجود کہ اردو کو غیر معمولی توانائی بخشنے میں اقبال سر فہرست کہلانے کے مستحق ہیں ۔
اقبال کے تیئں ہماری حکومتوں کا رویہ کیا رہا ہے اور شاعر مشرق کو کیا اکرام و اعزاز حاصل رہا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ۔ البتہ یہ سچ ہے کہ اردو داں طبقہ اقبال کو آج بھی گلے لگائے ہوئے ہے اور ان کے کلام کی اثر پذیری کا قائل بھی ہے ۔ چنانچہ ہمارے یہاں اقبال کایوم ولادت یوم اردو کی شکل میں منایا جاتا ہے اور محبان اردو اس زبان کی ترقی و ترویج کی قسمیں کھاتے ہیں لیکن ان قسموں کی اہمیت اور افادیت کیاہے، وہ ہم سبھوں کےسامنے ہے۔ علامہ اقبال کے بعد جن محترم اور معتبر شخصیتوں کاتعلق اردو کی ترقی و ترویج کے حوالہ سے سب سے زیادہ نمایاں ہے، ان میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد شامل ہیں ۔ مولاناآزاد نہ صر ف یہ کہ بڑے مجاہد آزادی تھے ، عظیم صحافی تھے بلکہ نہرو کے ‘ گارڈ فادر’ بھی تھے ۔ ہندوستان کی آزادی کیلئے انہوں نے اپنی زندگی قربان کی، ان معنوں میں کہ وطن کی آزادی کیلئے آزاد پوری طرح وقف ہوگئے ۔ صحافت بھی کی تو آزادی کیلئے، سیاست بھی کی تو آزادی کیلئے، خطابت بھی کیا تو آزادی کیلئے ۔ جب ملک آزاد ہوا او رنہرو کی قیادت میں پہلی آزاد حکومت قائم ہوئی تو مولانا ابوالکلام آزاد وزیر تعلیم کی حیثیت سے حکومت میں شامل ہوئے ۔تعلیم کو رواج دینے کے لئے انہوں نے جو کوششیں کیں وہ آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔
مولانا آزاد چونکہ بالغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے چنانچہ ان کی سیاست ، ان کی صحافت، ان کی اردو نوازی ، ان کی سیاسی بصیرت و بصارت او ران کا ملت تئیں درد وکرب ہمیں یہ بات کہنے کی اجازت دیتاہے کہ وہ ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے ۔ حکومت ہند نے ان کی بلند قامتی کا دیر سے ہی سہی اعتراف کرتےہوئے جب اردو یونیور سٹی کےخواب کو شرمندہ ٔ تعبیر کرنے کا فیصلہ لیا تو نظرکرم آزاد پر آکر ٹکی اور اردو یونیورسٹی مولانا آزاد کے نام معنون ہوئی ۔ اب اسے کیا کہاجائے کہ مولانا آزاد یونیورسٹی درجنوں یا سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اردو یونیورسٹی کی ویب سائٹ میں اردو کےلئے کوئی جگہ باقی نہیں رکھی گئی ہے تو ہمیں ایسامحسوس ہوا کہ اردو والے گویا مولانا کی روح کو اذیت ہی نہیں پہنچا رہے ہیں بلکہ انہیں منھ چڑھارہے ہیں۔اردو زبان اور اردو صحافت کے تعلق سے سر د مہری اور بے توجہی ہمارے یہاں کچھ زیادہ ہی دیکھنے کو مل رہی ہے ۔ سرکاری اداروں کی جانب سے جو لا پرواہیاں برتی جارہی ہیں ، ان کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہندوستان کی واحد یونیورسٹی کی ویب سائٹ میں اردو موجود نہیں ہے۔ حقیقت تو یہ بھی ہے کہ اردو کے تئیں صرف سرکاری ادارے ہی شرمناک حد تک مجرمانہ غفلت کے شکار ہورہے ہیں بلکہ ان سیاسی جماعتوں کا بھی مزاج اور رویہ اردو کے حوالہ سے قابل گرفت کہلا سکتا ہے جن کے اجداد اردو کے مسیحا کہلانے کے بعد مستحق ہیں ۔
یہاں یہ تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی وراثت کی امین ہونے کا دعویٰ کرنے والی جماعت کا تعلق بھی اردو کشی کے معاملہ سےکہیں نہ کہیں جڑا ہوا ہے۔ پنڈت نہرو نے اردو صحافت کو ایک نئی زندگی دینے کے خاطر قومی آواز کا اجراء کیا تھا ۔ لیکن یہ بھی ایک ناقابل تردید سچائی ہے کہ نہرو کا ‘ قومی آواز’ بھی چند برسوں قبل ہی مرحوم ہوگیا ۔ گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کا سیاسی منظر نامہ اردو زبان اور اردو صحافت کیلئے کہیں نہ کہیں ہمیں بہت زیادہ پر امید ہونے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ہم یہ محسوس کرتےہیں کہ قدم قدم پر اردو کے حوالہ سے لوگ بے توجہی اور نظر انداز کی جانے والی پالیسی پر نہایت ایمانداری کے ساتھ چل رہے ہیں ۔ اردو کو زندہ درگور کرنے والوں میں اردو والوں کابھی بہت بڑا رول دکھائی دیتاہے۔ اس ضمن میں اردو کی روٹی کھانے والے اساتذہ ہوں یا پھر اردو کادم بھرنے والی شخصیتیں اور انجمنیں ،انہیں اپنی گریبان میں جھانکنے کی سخت ضر ورت ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اردو کے تعلق سے عام ہندوستانیوں کا رویہ اور مزاج کب بدلے گا؟ کیا اب بھی نہیں جب کہ اردو کی اہمیت اور ضرورت کو دنیا کی طاقتور مملکتیں بھی سمجھ رہی ہیں اور اردو کی ترویج و اشاعت کے عمل میں وہ بھی شریک سفر ہونے پر مجبور ہیں ۔ یہ اردو والوں کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
19 نومبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/urdu-oppressed-its-own-people/d/100095