نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
19 جنوری، 2024
اسلام شخصیت پرستی کی حوصلہ
افزائی نہیں کرتا ۔ دینی معاملات میں بھی اسلام شخصیت پرستی کی تائید وحمایت نہیں کرتا
۔سورہ المائدہ میں خدا کہتا ہے
۔"آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا
اور تم پر اپنے احسانات پورے کردئیے اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔"
(المائدہ:٣)۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے قرآن کی
تفسیر پیش کردی جواحادیث کی شکل میں مسلمانوں کے سامنے موجود ہے۔ لہذا اب دین میں کسی
قسم کے اضافے یا رد وبدل کی گنجائش ختم ہوگئی۔دین کے کسی بڑے سے بڑے عالم یا علماء
کی جماعت کو یہ اختیار نہیں کہ وہ دین میں کچھ اضافہ یا کوئی تبدیلی کردیں۔ قرآن میں
مسلمانوں کو دین سیکھنے اور سکھانے کی تلقین کی گئی ہے اور مومن انہیں کہا گیا ہے جو
دین کے معاملے میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ییں۔ مسلمانوں کو ایسے افراد سے دین کی سمجھ
حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے جو دین کا علم رکھتے ہوں ۔ لیکن دین کا علم رکھنے والوں
کو بدعت کو اسلام میں داخل کرنے کے خلاف تنبیہہ بھی کردی گئی۔ گویا ایک عالم کا کام
صرف قرآن اور حدیث کا علم عام مسلمانوں تک پہنچا دینا ہے۔
بہرحال ، مسلمانوں میں شخصیت
پرستی کی وبا ہھیل گئی اور دین کے عالموں نے قرآن کے احکام اور اقوال کی اپنے اپنے
طور پر تفسیر وتاویل پیش کرنی شروع کی اور ہر مفسر کا اپنا ایک حلقہ تیار ہوگیا۔۔ ہر
مفسر کے پیروکار قرآن سے زیادہ اپنے مسلک اور جماعت کے عالم کی تفسیر اور تاویل کو
اہمیت دینے لگے۔نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف مفسرین نے قرآنی احکام کے الگ الگ مفاہیم بیان
کئے اور امت مسلمہ ان متضاد تاویلوں اور تفاسیر کی وجہ سے فرقوں اور نظریاتی مکاتب
میں بٹ گئی۔ کسی نے سیکولرزم کو اسلام کے منافی کہا تو کسی نے اسے عین اسلام کی روح
کے مطابق پایا۔ کسی نے خود کش دھماکے کو قرآن کی روشنی میں غلط اور حرام قرار دیا تو
کسی نے خاص حالات میں اسے جائز قرار دیا۔ مسلمانوں میں شخصیت پرستی اتنی گہرائی تک
پھیل گئی کہ انہوں نے اپنی پسندیدہ شخصیات کی رائے کو قرآن اور حدیث کی روشنی میں پرکھنا
بھی خلاف ادب تصور کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں ایسے عقائد راہ پاگئے جن کا جواز قرآن
میں نہیں تھا۔ سب سے روشن مثال مسلمانوں میں وجود میں آنے والے فرقوں اور مسلکوں کی
یے۔ اسلام مسلک یا فرقے کو ناپسند کرتا ہے اور فرقہ بندی یا مسلکی تفریق پر درد ناک
عذاب کی تنبیہہ کرتا ہے۔ خدا اپنے رسول ﷺ سے کہتا یے۔
۔"جنہوں نے راہیں نکالیں اپنے دین میں اور
ہوگئے بہت سے فرقے تجھ کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔"(الانعام:159)
خدا رسول پاک ﷺ سے کہتا ہے
کہ دین کو فرقوں میں بانٹنے والوں سے اپنی بےزاری کا اظہار کردیجئے۔ لیکن مسلمان صرف
شخصیت پرستی کی وجہ سے اپنے اپنے مسالک کی شخصیات کی رائے کو ہی اسلام کی صحیح تفسیر
سمجھ بیٹھے ہیں اور ان کی رائے کو قرآن کے احکامات کی روشنی میں پرکھنے کی جسارت نہیں
کرتے۔
اس شخصیت پرستی کی ایک مثال
مولانا شبیر احمد عثمانی کی سورہ لقمان آیت نمبر 14 کی تفسیر ہے۔ وہ آیت ہے۔
۔"اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق
تاکید کی ہے، اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اس کو پیٹ میں رکھا اور دو برس میں اس
کا دودھ چھوٹتا ہے، کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر، میری ہی طرف
لوٹ کر آنا ہے۔"(لقمان:14)۔
اس آیت کی تفسیر میں مولانا
شبیر عثمانی لکھتے ہیں:
۔"دودھ چھڑانے کی مدت جو یہاں دوسال ہوئی
باعتبار غالب اور اکثری عادت کے ہے۔ امام ابو حنیفہ جو اکثر مدت ڈھائی سال بتاتے ہیں
ان کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی۔جمہور کے نزدیک دوہی سال ہوگی۔"۔
قرآن نے دودھ چھڑانے کی مدت
دوسال بیان کی ہے مگر مولانا شبیر عثمانی کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابو حنیفہ
نے دودھ چھڑانے کی مدت ڈھائی سال بیان کی ہے۔اس کے باوجود وہ کہتے ہیں کہ امام ابو
حنیفہ کے پاس کوئی اور دلیل ہوگی ڈھائی سال کے حق میں۔ کیا امام ابو حنیفہ کے پاس کوئی
اور قرآن تھا؟ امام ابو حنیفہ کا قول قرآن سے متصادم ہے پھر بھی مولانا شبیر عثمانی
صاحب ان کے قول کو غلط قرار دینے کی ہمت نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی
اور دلیل ہوگی۔یہ ہے مسلمانوں میں شخصیت پرستی کی معراج۔
اسی شخصیت پرستی کی بنیاد
پر مسلمانوں میں قتل و غارت گری اور فتنہ فساد ہوتا ہے۔ کسی عالم کے فتوے کی بنا پر
مسلمان کسی مسلمان کا قتل کردیتے ہیں جبکہ اس عالم کا فتوی قرآن کی روشنی میں خود غلط
ہوتا ہے لیکن چونکہ مسلمان کسی شخصیت کو ہی اسلام کا حقیقی نمائندہ سمجھ لیتے ہیں اس
لئے اس عالم کے فتوے کو قرآن کی روشنی میں جانچنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
مسلمانوں میں سب سے زیادہ
قتل و تشدد توہین کے معاملات میں ہوتا ہے۔ جبکہ توہین اور بدگوئی پر قرآن درگذر اور
صبر سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن میں خدا کہتا ہے۔
۔"اور البتہ تم سنوگے اگلی کتاب والوں سے
اور مشرکوں سے بدگوئی بہت اور اگر تم صبر کرو اور پرہیزگاری کرو تو یہ ہمت کے کام ہیں۔"(آل
عمران: 180)۔
قرآن کے نزدیک بدگوئی اور
اہانت کرنے والوں کو قتل کردینا ہمت اور بہادری کا کام نہیں بلکہ اس پر صبروتحمل سے
کام لینا بہادری کا کام ہے۔ لیکن شخصیت پرستی کی وجہ سے مسلمانوں میں اہانت کے معاملات
میں قتل اور تشدد عام ہوگیا ہے۔
چند مفسرین نے اہانت کے مجرم
کو واجب القتل قرار دیا ہے ۔ چونکہ مسلمان قرآن سے زیادہ ان مفسرین کی رائے کو اہمیت
دیتے ہیں اس لئے ان کے نزدیک گستاخ کی سزا سر تن سے جدا ہی واحد سزا ہے۔ کچھ مفسرین
نے تو مسلمانوں کے لئے بھی یہی سزا تجویز کی ہے اور مسلم معاشرے خصوصاًپاکستان میں
مسلمانوں کو بھی اہانت کے الزام میں ہلاک کردیا جاتا ہے۔یہ بھی شخصیت پرستی کا شاخسانہ
ہے
گستاخ رسولﷺ اسے بھی قرار
دیا جاتا ہے جو یہ عقیدہ رکھے کہ رسول ﷺ بشر تھے حالانکہ قرآن میں کئی مقامات پر خود
خدا نے حضور پاک ﷺ کو اعلانیہ بشر کہا ہے۔لہذا، اگر رسول پاک ﷺ کوبشر ماننا توہین یا
گستاخی ہے تو سب سے بڑا گستاخ نعوذ باللہ خدا ہے۔ آئیے ان آیات کو ملاحظہ کریں:
۔"۔کہہ دیجئے کہ پاک ہے میرا رب ، میں کون
ہوں صرف بشر رسول۔"۔ (بنی اسرائیل :93)
۔"تو کہہ میں بھی بشر ہوں جیسے تم حکم آتا
ہے مجھکو کہ تم پر بندگی ایک حاکم کی ہے۔سو اسی کی طرف قائم رہو۔ اور اس سے گناہ بخشواؤ
، اور خرابی ہے شریک کرنے والوں کو جو نہیں دیتے زکوة اور وہ آخرت سے منکر ہیں۔"
( حم السجدہ:6)۔
۔"تو کہہ میں بھی ایک بشر ہوں جیسے تم حکم
آتا ہے مجھکو کہ معبود تمہارا ایک معبود ہے سو پھر جس کو امید ہو ملنے کی اپنے رب سے
سو وہ کرے کچھ نیک کام اور شریک نہ کرے اپنے رب کی بندگی میں کسی کو۔"(الکہف:
110)۔
قرآن میں ایسی اور بھی آیتیں
ہیں جن میں رسول پاک ﷺ کو بشر کہا گیا ہے لیکن شخصیت پرستی کے زیراثر مسلمانوں کے ایک
طبقے میں قرآن کے حکم کے منافی عقیدہ رواج پاگیا ہے اور قرآن کے حکم کو ماننے والوں
کو ہی گستاخ اور واجب القتل قرار دیا جاتا ہے۔گویا قرآن کی ان آیتوں پر ایمان لانے
والوں کو ہی کافر سمجھا جاتا یے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کچھ دینی شخصیات نے رسول پاک ﷺ
سے متعلق اپنا ایک الگ عقیدہ وضع کرلیا ہے جس کی تائید قرآن نہیں کرتا لیکن چونکہ ان
کے ماننے والوں کا حلقہ انہیں ہی اسلام کا صحیح اور سچا ترجمان مانتا ہے اس لئے انہیں
قرآن کے مؤقف سے کوئی سروکار نہیں۔
خلافت کا موضوع بھی مسلمانوں
میں بڑی اہمیت کا حامل ہے قرآن حکومت کے لئے کسی خاص طرز حکومت کا تعین نہیں کرتا بلکہ
اچھی حکومت اور رعایا پروری ، عدل ، مساوات اور احکام قرآنی پر عمل آوری پر زیادہ زور
دیتا ہے۔لیکن کچھ مفسرین نے اس رائے کی اشاعت کی کہ مسلمانوں کے لئے صرف خلافت ہی وہ
طرز حکومت ہے جسے تائید قرآنی حاصل ہے۔شاہ ولی اللہ نے تو اس موضوع پر ایک کتاب ہی
لکھ دی ۔ اس میں انہوں نے ایک خلیفہ ہونے کے لئے قریشی النسل ہونے اور بیعت کی فرضیت
کو شرط قرار دیا ۔گویا مسلمان اکیسویں صدی میں بھی ساتویں صدی کی ہی طرح خلیفہ کا انتخاب
کریں اور دنیا میں کہیں بھی خلافت قائم ہو اس کا خلیفہ کسی قریشی النسل شخص کو بنایا
جائے۔اس تفسیر کی وجہ سے مسلمانوں میں یہ عقیدہ بھی رواج پاگیا کہ پوری دنیا میں مسلمانوں
کی ایک خلافت ہو اور خلیفہ قریشی النسل ہو۔ شاہ ولی اللہ کے پیروکاروں نے ان کی رائے
کو ہی قرآن کی آیتوں کی صحیح تفسیر مان لی اور خلافت کا یہی تصور مسلمانوں میں رائج
ہو گیا۔
اس طرح اور بھی کئی عقائد
اور نظریات ہیں جو مسلمانوں میں شخصیت پرستی کے نتیجے میں رائج ہوگئے ہیں ۔ شخصیت پرستی
نے مسلمانوں میں تقلیدی ذہن کو فروغ دیا اور انہوں نے غوروفکر کو چھوڑ کر چند شخصیات
کی تقلید کو ہی نجات کا ذریعہ سمجھ لیا جبکہ ان مفسرین نے اپنی سوچ اور فہم کے مطابق
صرف قرآن کی آیتوں کی تاویل و تفسیر پیش کی تھی۔ مسلمانوں کو شخصیت پرستی چھوڑ کر بدلتے
ہوئے وقت کے تقاضوں اور نئے حقائق کی دریافت کی روشنی میں قرآن کو سمجھنے کی کوشش کرنی
چاہئے تھی۔
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism