New Age Islam
Sat May 17 2025, 04:04 AM

Urdu Section ( 13 March 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Palestinian Cause Is Alive Because Of Its Persistence! فلسطینی کاز اپنی استقامت کے باعث زندہ ہے

رمزے بارود

12مارچ،2024

جیریڈ کشنر،جو ایک امریکی صدر کی امیر بیٹی سے شادی کرنے کے سبب امریکی حکومت میں سابق عہدیدار رہ چکے ہیں، نے ایک موقع پر فلسطینیوں کو سِکھانے کی کوشش کی تھی کہ آزادی کی جنگ کیسے لڑی جاتی ہے۔ ۲۰۲۰ء  میں  انہوں نے فلسطینیوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ `دہشت گردی سے باز آجائیں۔ مسئلۂ فلسطین پر ایک دفعہ انہوں نے بیان دیا تھا کہ ۵۰؍ لاکھ فلسطینی، اسرائیلی قبضہ یا اسرائیل کیلئے امریکی حمایت کی وجہ سے نہیں، بلکہ ناکام قیادت کی وجہ سے پھنسے ہوئے ہیں۔ کشنر جیسے ناتجربہ کار سیاستداں، جو مشرق وسطیٰ پر ۲۵؍  کتابیں پڑھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، نے فلسطینیوں کے سامنے وہی فرسودہ تجاویز پیش کی تھیں جو مذموم نیت والے خود ساختہ `امن پسند پیش کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے ایک دفعہ اسرائیل کے سابق وزیر خارجہ کا ہتک آمیز جملہ ’’فلسطینی بہترین مواقع گنوانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے‘‘ کو دہراتے ہوئے کہا، ’’اگر فلسطینیوں نے معاملہ کو بگاڑنے کی کوشش کی، تو مجھے یقین ہے کہ ان کی مشکلیں بڑھ جائینگی اور وہ اقوام عالم کے سامنے خود کو متاثرین کہنے کا موقع گنوا دینگے۔‘‘

ہر چند سال بعد، اسرائیل کے اشارہ پر امریکہ یہ پروپیگنڈا کرتا ہے کہ فلسطینی کاز کا خاتمہ ہوچکاہے اور عالمی سطح پر فلسطینی عوام سے یکجہتی زوال پذیر ہے۔ اس لیے فلسطینی عوام اور فلسطینی قیادت کو امریکہ ، اسرائیل اور مغربی اتحادی ممالک کی سیاسی یا مالی امداد کی صورت میں دی جانے والی معمولی بھیک بسرو چشم قبول کرلینا چاہیے  لیکن فلسطینی عوام محدود وسائل، پابندیوں، تنگ محاصروں اور مسلسل جاری تشدد کے باوجود ہر دفعہ امریکی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرکے اسے غلط ثابت کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے کاز پر مضبوطی سے قائم ہیں۔ فلسطینی متاثرین کے متعلق جاہلانہ بیانات دینے والے کشنر نہیں جانتے کہ شکار بننا اور شکار ہونے کا ڈھونگ کرنا کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ فلسطینی خود پر ہونے والے مظالم کو روک کر شکار بننے سے بچ نہیں سکتے کیونکہ اس میں بیرونی طاقت (اسرائیل، جسے امریکہ کا مالی تعاون حاصل ہے) کار فرما ہے۔ اگر فلسطینی اسرائیل کو روکنے کی طاقت رکھتے تو شکار بننے کا ڈھونگ نہ کرتے۔

درحقیقت، شکار بننے کا ڈھونگ کرنا ایک الگ مسئلہ ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس میں آپ کسی جذبہ یا طاقت کے غیر موجودگی میں خود کو مستقل طور پر شکار سمجھتے ہیں۔ اس میں  شک نہیں کہ غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی، جدید تاریخ میں بڑے پیمانے پر قتل عام کے عظیم جرائم کو شرمسار کررہی ہے۔ اور اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حالیہ دہائیوں میں کسی بھی قوم نے فلسطینیوں کی طرح بے جگری سے مقابلہ نہیں کیا۔ ایسا رویہ شاید ہی کوئی ڈھونگی شکار اپنائے۔ جوبائیڈن حکومت نے امریکی روایت قائم رکھتے ہوئے فلسطینیوں سے بات کئے بغیر ہی انہیں کو بیوقوف قرار دیا کیونکہ فلسطینیوں نے اپنے بنیادی حقوق کی ضمانت نہ دینے والے بلکہ انہیں سلب کرنے والے سیاسی سودوں کو قبول کرنے سے صاف انکار کردیا۔ حالانکہ کیمپ ڈیوڈ (۱۹۷۹ء)، اوسلو معاہدہ (۱۹۹۳ء) ،  روڈ میپ (۲۰۰۴ء) جیسے مذاکرات سے قبل ہی سے فلسطینی مکمل اور غیر مشروط آزادی کا مطالبہ کرتے آئے ہیں مگر  مذاکرات کی ہر کوشش کے پیچھے اسرائیلی قبضے کو طول دینے اور اسے ماننے سے انکار کرنے اور ان کے بنیادی حقوق کی نفی کرنے کی سیاسی کوششیں شامل رہی ہیں۔ کشنر نے بھی اسی ایجنڈہ کو فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔ امریکہ کے ذریعے پیش کی گئی تمام سابقہ ’امن تجاویز‘ صریحاً غیر منصفانہ تھیں، کیونکہ وہ اسرائیل کو نہ تو فائدہ پہنچاتی تھیں اور ان میں عالمی اور انسانی قوانین کو ملحوظ ر کھا جاتا تھا۔ ایسی تمام `اسرائیل نواز تجاویز، فلسطینیوں کی استقامت کی وجہ سے ناکام ہوئی ہیں۔ عالمی برادری کی امریکہ کو چیلنج کرنے کی اہلیت کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا۔ فلسطینیوں نے امریکی ایجنڈے کو شکست دی، لیکن آزادی حاصل کرنے کیلئے یہ ناکافی ثابت ہواکیونکہ وہ اس صبر آزما جنگ میں تنہا تھے۔ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی تحریک کو کئی دہائیوں سے دنیا بھر میں اس نوعیت کی تمام بین الاقوامی تحریکوں میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ ’آزاد فلسطین‘ کا جملہ بے شمار دیواروں پر، مختلف زبانوں میں، ہر شہر، قصبہ اور محنت کش طبقہ کے محلوں میں لکھا جارہاہے۔ لیکن یکجہتی کی یہ لہر بھی فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کو عالمی برادری کی اولین ترجیح بننے اور عوام پر گہرا تاثر قائم کرنے کیلئے کافی نہیں تھی جس طرح جنوبی افریقہ کی نسل پرستی کے خاتمہ کی جدوجہد کو دنیا نے ایک اخلاقی ذمہ داری سمجھا تھا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں ہونا چاہئے کہ جنوبی افریقہ کی نسل پرستانہ حکومت کے خلاف جدوجہد اور فلسطینیوں کی اسرائیلی قبضہ سے آزادی کی جدوجہد یکساں ہے۔ اُس دور میں، عالمی سطح پر جغرافیائی و سیاسی تبدیلیوں نے پریٹوریا کے نسل پرستی پر مبنی نظام کے تسلسل پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے تھے۔ اگر اُس نسل پرست حکومت کی طاقت کا موازنہ اسرائیل اور اس کے حامی ممالک سے کیا جائے تو آخر الذکر کا پلڑا بھاری رہے گا۔ واشنگٹن، اسرائیل کو اپنے عالمی اثر و رسوخ کا ایک لازمی حصہ سمجھتا ہے۔ امریکی سیاستدانوں  کے نزدیک اسرائیل، خارجہ پالیسی کے حصہ کے ساتھ ایک ملکی اور داخلی مسئلہ کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ اگر اسرائیل اپنے موجودہ غلبہ سے ہاتھ دھو بیٹھا تو امریکہ مشرق وسطیٰ کی فوجی اہمیت کی حامل آبی گزرگاہوں اور قدرتی وسائل سے مالامال اس خطہ میں اپنے مضبوط قلعہ سے محروم ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بائیڈن بار بار یہ اعتراف کرتے ہیں کہ’’اگر اسرائیل کا وجود نہ ہوتا تو ہمیں ہی اسے ایجاد کرنا پڑتا۔‘‘

تاہم، اب حالات بدل رہے ہیں، اور مشرق وسطیٰ کی تاریخ میں بدترین قتل و غارت گری کی مہم کے جواب میں جنم لینے والی یکجہتی کی نئی تحریک، مشروط یکجہتی، نظریاتی یکجہتی اور علامتی یکجہتی کی حدود کو عبور کر چکی ہے۔ دنیا بھر میں اعلیٰ سطح کی سیاسی مجالس میں یہ تحریک سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ بین الاقوامی عدالتِ انصاف کی عوامی سماعت (فروری۱۹؍ تا ۲۶) میں چین کے نمائندے ما ژِن مِن نے اپنی گواہی میں بین الاقوامی قوانین کا حوالہ دیتے ہوئے مسلح جدوجہد کے فلسطینی عوام کے  حق کا کھل کر دفاع کیا۔ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر  نے ’’ضرورت مندوں تک انسانی بنیادوں پر امداد کی رسائی میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والوں‘‘ پر سخت پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔  اسپین، آئرلینڈ، ناروے اور بیلجیم، و دیگر یورپی ممالک غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم کو بیان کرنے میں بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لفظی جمع خرچ کے بجائے `ٹھوس اقدام کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔یہ فلسطینی کاز کی زبردست کامیابی ہے۔

12 مارچ،2024، بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/palestinian-cause-because-persistence/d/131906

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..