نیو ایج اسلام اسٹاف
رائیٹر
1 فروری 2024
اسرائیل اور حماس کے
درمیان جاری جنگ کے دوران جہاں دنیا بھر کے انصاف پسند عوام فلسطین کے حق میں آواز
اٹھارہے ییں وییں بہت سارے عیسائی اکثریت والے یوروپی ممالک بھی سرکاری سطح پر
فلسطین کے حق میں عملی اقدامات کررہے ہیں۔لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ مسلم
اکثریتی ممالک نے فلسطین میں عام شہریوں پراسرائیل کی بمباری اور بچوں اور عورتوں
سمیت غزہ کے معصوم شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکت پر بے حسی اور لاتعلقی کا اظہار
کیا ہے۔ سب سے زیادہ مایوس کن رویہ 57 اسلامی اور مسلم اکثریتی ممالک کی تنظیم ،
تنظیم تعاون اسلامی کا رہا ہے جو غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے نہیں روک
سکی ہے اور نہ ہی وہاں کے عوام کو غذائی اشیاء، ادویات ، بجلی پانی اور ایندھن کی
دستیابی کو ہی یقینی بنا سکی ہے۔ اسرائیل رفح بارڈر سے غذائی اشیاء اور ادویات لانے
والے ٹرکوں کو غزہ میں جانے سے روکتا ہے جب کہ اقوام متحدہ کی سیکیوریٹی کاؤنسل نے
قرار داد پاس کرکے اسرائیل کو غزہ میں ضروری اشیاء کی فراہمی کا پابند بنایا ہے۔
اسرائیل کی رکاوٹوں کی وجہ سے غزہ کے عوام فاقہ کشی کے شکار ہیں۔ وہ زندہ رہنے کے
لئے جانوروں کا چارہ ، گھاس ہھوس اور دیگر ایسی چیزیں کھانے پر مجبور ہیں جو عام
حالات میں انسان نییں کھاتے۔ وہ گندہ پانی پینے پر بھی مجبور ہیں۔
ان حالات سے واقف ہونے کے
باوجود تنظیم تعاون اسلامی غزہ کے عوام کی مدد کے لئے آگے نہیں آئی ہے جبکہ اس
تنظیم کا قیام ہی فلسطینیوں کو اسرائیل کے قبضے سے آزادی دلانے اور مسجد اقصی کو
آزاد کرانے کے مقصد سے ہی ہوا تھا۔ تنظیم تعاون اسلامی کا مقصد ایک آزاد فلسطینی
ریاست کا قیام تھا جس کا صدر مقام القدس ہوگا۔ اسی مقصد کے تحت تنظیم تعاون اسلامی
کا قیام1969 ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس کے قیام میں سعودی عرب اور مراکش کے
سربراہوں نے فعال ۔ کردار ادا کیا تھا۔
اس تنظیم میں فلسطین کی
اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے دستور میں کہا گیا ہے کہ اس
کا ایک اسسٹنٹ جنرل سکریٹری فلسطین کے لئے وقف ہوگا۔ یہ تنظیم فلسطینیوں کی جدوجہد
میں معاونت کرے گی اور اپنی تمام پالیسیاں اسی کو نظر میں رکھ کر بنائے گی۔ یہ
تنظیم غزہ اور ویسٹ بینک میں اسرائیلی جارحیت پر نظر رکھے گی اور اسرائیل کے ذریعہ
فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرے گی۔یہ اسرائیل کی تمام
حرکات وسکنات کی نگرانی کرے گی اور فلسطین میں غیر قانونی یہودی بستیوں پر کڑی
نگاہ رکھے گی اور ان کے خلاف ضروری اقدامات کرے گی۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ میں
فلسطین سے متعلق جو بھی کارروائی ہوگی اس پر نظر رکھے گی اور اس کے مطابق ضروری
اقدامات کرے گی۔ یہی نہیں دنیا میں جہاں کہیں بھی فلسطین کے مسئلے پر مذاکرات ،
سیمینار اور میٹنگیں ہونگی وہاں تنظیم تعاون اسلامی فلسطینیوں کے نمائندے کی حیثیت
سے شریک ہوگی۔
اگر تنظیم تعاون اسلامی
(او آئی سی) نے اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر عمل کیا ہوتا توآج فلسطینیوں کو یہ دن
دیکھنا نہ پڑتا۔ حقیقت یہ ہے کہ آج یہ تنظیم فلسطینیوں کے تئیں اپنی مذہبی ،
انسانی اور اخلاقی ذمہ داریوں کو بھلا بیٹھی ہے اور مصلحت پسندی کا شکار ہو گئی
ہے۔اس نے اپنے قیام کے اغراض و مقاصد کو پس پشت ڈال دیا ہے اور کشمیر اور رام مندر
پر رسمی بیان دے کر عالم اسلام کی توجہ اپنی ناکامیوں پر سے ہٹانے کی کوشش کررہی
ہے۔اس کے اغراض و مقاصد میں ایک مقصد اسرائیل کا بائیکاٹ کرنا بھی ہے۔ 1981ء میں
اس تنظیم نے یہ قرارداد منظور کی تھی کہ وہ اسرائیل کا بائیکاٹ کرے گی لیکن
بائیکاٹ کرنے کی بجائے اس تنظیم کے کئی ممبر ممالک نے اسرائیل سے سفارتی اور
تجارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔ ترکی ، مصر، اردن ، مراکش اور متحدہ عرب امارات نے
اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے ہیں۔سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے
اور اس سے تعلقات بحال کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں ہے۔ فلسطینیوں سے سعودی عرب
کی بیزاری اور لا تعلقی کا انازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ
کے دوران سعودی عرب نے ریاض میں ایک رقص و موسیقی کے عالمی پروگرام کا انعقاد کیا
جس میں مشہور امریکی گلوکارہ شکیرہ نے شرکت کی۔انسانیت نواز حلقوں کی طرف سے سعودی
حکومت سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ جنگ کے مد نظر اور فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی
کے طور پر اس پروگرام کو ملتوی کردے لیکن سعودی حکومت نے ان کے مطالبے کو مسترد
کردیا ۔ یہی نہیں جب حوثیوں نے اسرائیلی جہازوں کو سمندر کے راستے جانے سے روک دیا
تو چند اسلسمی ممالک نے اس کے سامان کو اپنے ملک کے راستے اسرائیل تک پہنچانے کا
بندوبست کیا۔ جبکہ دوسری طرف اسرائیل غزہ میں اشیائے خورد نوش اور ادویات کو جانے
سے روکتا ہے۔
فلسطینیوں کو درپیش ان
مسائل میں اسرائیل نے ایک اور سنگین مسئلے کا اضافہ کردیا ہے۔ اسرائیل نے یہ الزام
لگایا ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس نے جو حملہ کیا تھا اس میں اقوام متحدہ
کی ریلیف اور ورک ایجنسی کے بھی 12 کارکن شامل تھے۔ اس الزام پر کئی یوروپین ممالک
نے فلسطین کو ملنے والا فنڈ روک دیا ہے اور, اس الزام۔کی انکوائری ہورہی ہے۔ اگر
اسرائیل کا یہ الزام ثابت ہو جاتا ہے تو فلسطین کو ملنے والا فنڈ بند ہو جآئے گا
اور فلسطینیوں کو سنگین مالی بحران کا سامنا ہوگا۔اس مسئلے پر بھی تنطیم تعاون
اسلامی کا صرف رسمی احتاجی بیان آیا ہے کوئی متبادل پلان سامنے نہیں آیا ہے جبکہ
تیل کی دولت سے مالا مال یہ اسلامی ممالک ہی اگر فلسطین کی مالی مدد کرتے تو
فلسطینیوں کو یوروپی ممالک کی مدد پر انحصار نہ کرنا پڑتا۔
تنظیم تعاون اسلامی کی اس
بے حسی اور بے عملی کو دیکھتے ہو ئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے وجود کا
جواز کھودیا ہے۔ یہ اسرائیل کے خلاف کوئی مؤثر قدم اٹھانے سے معذور ہے۔ یہ
فلسطینیوں کی مالی مدد بھی کرنے سے قاصر ہے۔ غزہ کے شہری دانے دانے کو محتاج ہیں
لیکن یہ سب اکیلے اسرائیل کے سامنے بے بس ہیں۔ وہ فلسطینیوں تک غذا ، پانی اور
ادویات تک نہیں پینچا سکتے۔ غزہ کی حاملہ عورتیں بغیر طبی امداد کے تڑپ تڑپ کر
مرجاتی ہیں اور نوزائیدہ بچے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے دم توڑ دیتے ہیں
لیکن تنظیم تعاون اسلامی سے وابستہ اسلامی ممالک کا اجتماعی ضمیر بے چین نہیں
ہوتا۔ یہ تنظیم صرف اسرائیل کے خلاف مذمتی بیان دینے اور اسرائیل سے جنگ روک دینے
کی گذارش کرنے کی ہی اہل رہ گئی ہے۔
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism