غلام رسول دہلوی، نیو ایج اسلام
14 مئی 2025
پاکستان میں ایک بار پھر غزوہ ہند کے مسخ شدہ نظریے کا، جسے امویوں نے اپنے توسیع پسندانہ اور سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے سب سے پہلے وضع کیا تھا، عسکریت پسندی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے پیش نظر، واضح انداز میں اور جان بوجھ کر غلط استعمال کیا گیا۔ لیکن اس بار، یہ بیانیہ صرف پاکستان کے بنیاد پرست علما سے ہی نہیں سنا گیا، بلکہ اس کی بازگشت پاکستانی فوجی بیان بازی میں بھی سنائی دیتی رہی، جس میں مذہبی علامت اور قوم پرستانہ نظریے کو ملا کر پیش کیا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری اس تنازعہ میں، مذہب کے نام پر عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے، اس قسم کی عسکریت پسندی کو بڑھاوا دیا گیا۔
جدید دور میں، خاص طور پر 1947 کے بعد، پاکستان میں کچھ عناصر نے غزوہ ہند کی اصطلاح کو، ہندوستان کے خلاف دشمنی کے جواز کے لیے استعمال کیا ہے، اور اسے ایک مقدس پیشین گوئی یا مذہبی فریضہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ لشکر طیبہ جیسے گروہوں اور زید حامد جیسے نظریہ سازوں نے، پاکستانی نوجوانوں میں پرتشدد انتہا پسندی اور جہادی جذبات کو فروغ دینے کے لیے، اکثر غزوہ ہند کا نعرہ بلند کیا ہے۔ لیکن ہندوستان اور عالمی سطح پر بڑے بڑے علمائے اسلام نے غزوہ ہند کو، پروپیگنڈہ جنگ کا ایک ہتھیار قرار دیا ہے، اور اس کی مذمت کی ہے اور تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے:
• اس سے اسلام کا امن اور انصاف کا عالمگیر پیغام مسخ ہوتا ہے۔
• یہ پیچیدہ جغرافیائی سیاسی تنازعات کو مذہبی بائنریز تک محدود کر دیتا ہے۔
• یہ انتہا پسندی اور بین مذہبی منافرت کو فروغ دیتا ہے۔
ایک پیغمبر جس نے سرزمین ہند سے آنے والی ٹھنڈی ہوا کو محسوس کیا ہو، وہ اسی سرزمین پر فوجی حملے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے، اور اسے ایک اسلامی مہم کیسے قرار دے سکتا ہے؟ کیا متعدد احادیث میں اہل ہند کے بارے میں اتنی اعلیٰ اور پُرامید بات کرنے والے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے، واقعی اس کے خلاف فوجی مہم کی بات کی تھی؟
ویسے، پاکستانی علماء، نظریہ ساز، اور بنیاد پرست اسلام پسند گروہ ایک بار پھر غزوہ ہند کے من گھڑت، بے بنیاد اور مسخ شدہ تصور کا راگ الاپ رہے ہیں، اور پاک بھارت فوجی کشیدگی کے تناظر میں اسے بھارت کے خلاف پروپیگنڈے کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ مولانا طارق جمیل سے لے کر مفتی طارق مسعود اور ان کے مربی مفتی عبدالرحیم تک، دیوبندی مکتبہ فکر کے بڑے بڑے پاکستانی مبلغین نے یہ کہا ہے کہ: پاکستان سے غزوہ ہند ہوگا۔
لیکن غزوہ ہند کا تصور، جیسا کہ آج کل عام طور پر اس کی تبلیغ کی جاتی ہے — خاص طور پر عسکری اور سیاسی بیان بازی میں — یہ صرف ایک مسخ شدہ اسلامی نظریہ ہی نہیں، بلکہ ایک متنازعہ فیہ اور اکثر استحصال کی جانے والی روایت ہے۔ اگرچہ یہ چند ضعیف اور انتہائی متنازعہ فیہ اور قابل اعتراض احادیث سے ماخوذ ہے، لیکن اس کے فوجی تناظر میں استعمال کو بہت زیادہ سیاسی رنگ دیا گیا ہے، خاص طور پر جاری پاک و ہند جنگ کے تناظر میں۔
حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے 'ہند' کا ایسا ذکر کیا ہے کہ اس کی تصدیق شاہ ولی اللہ دہلوی (1762-1703 عیسوی) جیسے عظیم اسلامی اسکالر نے کی ہے، جو برصغیر پاک و ہند کے سب سے زیادہ بااثر علمائے اسلام، تھیولوجین اور مصلحین میں سے ایک ہیں۔ انہیں 18ویں صدی کے ہندوستان میں اسلامی فکر اور عمل کو زندہ کرنے والا (مجدد) مانا جاتا ہے، انہوں نے اپنی تخریج میں ایک حدیث نقل کی ہے، جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہند (برصغیر پاک و ہند) کا ذکر انتہائی تعظیم و توقیر کے ساتھ موجود ہے، اور وہ اس طرح ہے: "میں عرب ہوں، لیکن عرب مجھ میں نہیں ہے اور میں ہند میں نہیں ہوں لیکن ہند مجھ میں ہے"۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس حدیث کو الطبرانی الاوسط کے حوالے سے نقل کیا ہے۔
امام بخاری (870-810 عیسوی) جن کی حدیث کی کتاب کو سنی مسلمانوں میں "کتاب اللہ کے بعد سب سے زیادہ "مستند" (اصح الکتب بعد کتاب اللہ) مانا جاتا ہے اس میں درج ذیل حدیث موجود ہے:
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ہندی بخور سے علاج کرو، کیونکہ اس میں سات بیماریوں کی شفا ہے، اسے گلے میں تکلیف والے کو سونگھایا جائے اور بلغم کے مریض کے منہ کے ایک جانب میں ڈالا جائے۔
[صحیح البخاری، جلد 7، کتاب 71، نمبر 596]
ایک اور مجموعہ حدیث "الادب المفرد" میں بخاری نے درج ذیل حدیث ذکر کی ہے: ایک مرتبہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ان کے بھتیجے ان کے علاج کے لیے ایک ہندی ڈاکٹر لائے۔
مزید بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے امام علی ابن ابی طالب کو بھی سرزمین ہند سے بے پناہ محبت تھی۔ ابن عباس روایت کرتے ہیں: علی ابن ابی طالب نے کہا: "سب سے زیادہ خوشبودار آسمانی ہوا ہندوستان کی زمین [ہند] سے آتی ہے"، جیسا کہ مستدرک الحاکم (حدیث نمبر 4053) میں منقول ہے۔ اس حدیث کے مجموعہ کو مرتب کرنے والے امام حاکم فرماتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے یعنی صحیح مسلم کی شرائط اور معیار کے مطابق صحیح ہے، حالانکہ شیخین (امام بخاری اور امام مسلم) نے اسے اپنے احادیث کے مجموعوں میں درج نہیں کیا ہے۔
امام علی علیہ السلام سے منسوب اس حدیث کی روایت سے متاثر ہو کر، علامہ اقبال نے جو کہ حکیم الامت ہیں اپنے بانگ درا کے اردو شعر میں کہا:
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے..... میرا وطن وہی ہے
ابن عباس روایت کرتے ہیں: علی ابن ابی طالب نے کہا: میں ہند کی سرزمین سے ٹھنڈی ہوا محسوس کرتا ہوں۔ مستدرک الحاکم حدیث 4053۔ حاکم نے کہا کہ یہ حدیث [صحیح] مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
اس حدیث سے متاثر ہو کر علامہ اقبال نے جو کہ حکیم الامت ہیں، اپنے بانگ درا کے اردو شعر میں کہا:
میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے..... میرا وطن وہی ہے
یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ’’میں ہندوستان سے نہیں مگر ہندوستان مجھ سے ہے‘‘، اس کی وجہ یہ حقیقت ہو سکتی ہے کہ آپ کا نورِ محمدی، اسلام کے پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام میں مجسم ہو کر، عرب میں خود ان کی پیدائش سے پہلے ہی ہندوستان میں نازل ہو چکا تھا۔ عمران بن عیینہ نے عطاء بن السائب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہوئے کہا: آدم علیہ السلام جنت سے ہندوستان کی سرزمین دہنہ میں اترے۔
حافظ ابن کثیر الدمشقی جو کہ کلاسیکی حدیث اور تفسیر کے مشہور علماء میں شمار کیے جاتے ہیں، فرماتے ہیں: اللہ (قرآن میں) فرماتا ہے: ’’تم سب نیچے اتر جاؤ‘‘ [2:36]۔ پس وہ نیچے اتر آئے۔ آدم ہندوستان میں اترے، اور حجر اسود اور جنت سے مٹھی بھر پتے بھی ان کے ساتھ اترے، اور انہوں نے ان سب کو ہندوستان میں بکھیر دیا، اور ایک خوشبو کا درخت اُگ آیا، جو آدم کے اتارے ہوئے مٹھی بھر پتوں سے ہندوستان سے آنے والی خوشبو کی اصل ہے۔ آدم نے انہیں صرف جنت چھوڑنے کے غم کی وجہ سے لے لیا تھا، جب انہیں جنت سے نکالا گیا تھا۔
اس طرح، ہند (برصغیر پاک و ہند) - ایک دائمی دشمن کے طور پر پیش کیے جانے سے بہت دور - کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں کیا ہے جو وقار، حرمت، مقدس تاریخ اور روحانی انعام کے ایک موقع کی عکاسی کرتا ہے، اور پوری انسانیت کے لیے ضروری اور آفاقی اسلامی پیغام کو پھیلاتا ہے۔ لہٰذا، اہل بیت کی بعض زبانی روایات میں آتا ہے، کہ امام علی علیہ السلام نے اس حملے کو ناکام بنا دیا تھا جو اموی خلیفہ معاویہ بن ابو سفیان (680-602 عیسوی) نے اسلام کو پھیلانے کے بہانے ہندوستان/ہند کے خلاف کرنا چاہا تھا۔
بعد میں، امیر معاویہ نے ہندوستان کی طرف، خاص طور پر سندھ اور مکران (موجودہ پاکستان اور جنوبی مغربی ایران) میں فوجی مہمات شروع کیں۔ تاہم، ان کا مقصد کوئی مذہبی جنگ نہیں تھا، بلکہ وسیع تر اموی سامراجی مقاصد کے حصے کے طور پر، ایک سیاسی توسیع تھی۔ واضح طور پر — بنو اُمّیہ کی سیاسی اور اسٹریٹجک توسیع کے ایک حصے کے طور پر، نہ کہ اسلام کے ایک منصفانہ مقصد یا مذہبی مہم کے طور پر، نام نہاد "غزوہِ ہند" کے تصور کا جنم اموی خاندان میں ہوا تھا۔
غزوہ الہند کے بارے میں سب سے زیادہ جو حدیث نقل کی جاتی ہے وہ مسند احمد میں ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’میری امت میں سے ایک گروہ ہند کے بادشاہوں کو مغلوب کرے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔‘‘
(مسند احمد، 28/637؛ ضعیف لیکن وسیع پیمانے پر منقول)
جہاں جاوید احمد غامدی جیسے جدید اسلامی سکالرز نے مستقبل میں اس طرح کے کسی بھی واقعے کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے، وہیں ڈاکٹر عمران نذر حسین جیسے کلاسیکی علوم کے ماہرین اسے نسلی جنگ نہیں، بلکہ ناانصافی کے خلاف ایک روحانی جدوجہد کے طور پر دیکھتے ہیں، جدید سیاسی سرحدوں کی نشاندہی کیے بغیر۔ اس حدیث میں "معافی" کا ذکر ایک امید بھرے لہجے کی عکاسی کرتا ہے، غلبہ کی دعوت کی نہیں۔
غزوہ ہند کے بارے میں باقی تمام احادیث سنن نسائی جیسے ثانوی مجموعوں میں پائی جاتی ہیں، اور بہت سے علماء - کلاسیکی اور معاصر دونوں - ان کی سند پر سوال اٹھاتے ہیں، یا ان کی استعاراتی تشریح کرتے ہیں۔ اس طرح کی حدیثیں صحیح بخاری یا صحیح مسلم جیسے مستند مجموعوں میں نہیں ہیں۔
مجموعی طور پر، غزوہ الہند کی وہ احادیث جو آج پاکستان میں عسکری مقاصد اور جہادی تشریحات کے لیے استعمال ہو رہی ہیں، ان ملاؤں کی اموی یزیدی ذہنیت کا پردہ چاک کرتی ہیں۔ چونکہ غزوہ ہند سے متعلق یہ متنازعہ فیہ احادیث اہل بیت کی روایات اور اہل سنت اور شیعہ مکاتب فکر کے مسلمہ مستند مجموعوں سے بالکل غائب ہیں، اس لیے ظاہر ہے کہ انہیں بنو امیہ نے غزوہ کے نام پر اسلامی سلطنت کی توسیع کی حمایت کے لیے گھڑا تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ امویوں نے درحقیقت سندھ تک رسائی حاصل کی تھی - جو اس وقت ہند (ہندوستان) کا ایک حصہ مانا جاتا تھا۔" لیکن یاد رکھیں کہ ہندوستان پر حملہ کرنے کی یہ ابتدائی کوشش، اور اس کے بعد کی مسلمانوں کی مہمات، امام علی علیہ السلام کی روحانیت اور ساتھ ہی ساتھ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات کے بالکل خلاف تھیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہندوستان کی کبھی توہین و تذلیل نہیں کی۔ درحقیقت، ابتدائی مسلمان - جیسے صحابہ اور ان کے اصحاب (تابعین) - تجارت کرتے، ہجرت کرتے اور ہندوستان کا احترام کرتے، خاص طور پر اس کے علوم، فلسفہ اور ادویات کی وجہ سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ہند کے بارے میں توہین آمیز باتیں نہیں کیں۔ بلکہ، صوفیاء کرام اور علماء نے بعد میں ہند کو حکمت اور مستقبل کی روحانی انقلاب کی سرزمین مانا اور اس نظریہ کو وسعت دی۔
تاریخی طور پر، اسلام کی اشاعت ہند میں تجارت، صوفیاء کرام اور اولیاء کے ذریعے ہوئی، فوجی فتوحات کے ذریعے نہیں۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء جیسے اولیاء نے، برصغیر پاک و ہند میں باہمی ہم آہنگی، محبت، ہمدردی اور اتحاد کو فروغ دے کر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس میراث کو جاری رکھا۔ یہ صوفی اسلام کا راستہ ہے - جس کی جڑیں امام علی علیہ السلام کی تعلیمات میں ہیں - جسے امویوں، یزید کے پیروکاروں اور خوارج نے ہمیشہ مسترد کیا ہے، اور اب ان کے نظریاتی وارث یہی کام دورِ جدید کے پاکستان میں کر رہے ہیں، ایک ایسا ملک جو جدید خارجی انتہا پسندی کا مرکز بن چکا ہے۔ آخری لیکن ایک اہم بات، اسلام کی تعلیمات اخلاقی ہیں، جیو پولیٹیکل نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حق بمقابلہ باطل کو ایک اخلاقی جدوجہد قرار دیا ہے، قومی ریاستوں کے لیے نہیں۔ جب غزوہ ہند کے نظریہ کو قوم پرست یا عسکری نظریہ میں توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے، تو اس سے اسلام کی روحانی اور اخلاقی ساکھ تباہ ہوتی ہے۔
-----
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism