نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
23 اگست،2024
پاکستان میں گزشتہ دو برسوں
سے سیاسی اتھل پتھل ہے۔ بیروزگاری اور فاقہ کشی کے ساتھ آسمان چھوتی مہنگائی نے عوام
کو بے حال کردیا ہے۔ جو لوگ ملک چھوڑ کر جاسکتے ہیں وہ جارہے ہیں اور جو نہیں جاسکتے
وہ بدعنوان اور بے حس حکومت کے رحم وکرم پر ہیں۔ اس کے باوجود پاکستانی عوام کا ایک
طبقہ مذہبی جنون میں مبتلا ہے اور پاکستانی قائدین انہیں مذہبی معاملات میں الجھا کر
رکھنے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے اصل مسائل کےحل کے لئے نہ اٹھ کھڑے ہوں۔ یہ قائدین
عوام میں اپنی بے وقعتی دور کرنے کے لئے مذہبی معاملات کا سہارا لے رہے ہیں کیونکہ
انہیں معلوم۔ہے کہ انکے پاس پاکستانی عوام کی معاشی بدحالی اور فاقہ کشی دور کرنے کا
کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
پاکستان میں حکومت کے خلاف
عوام مظاہرے کررہے ہیں اوربنگلہ دیش میں تختہ پلٹ کے بعد پاکستان میں بھی عوام کے اندر
بغاوت کی آگ پھر سے بھڑک اٹھی ہے۔ لہذا، عوام کی توجہ منتشر کرنے اور حکومت مخالف مظاہروں
کو دوسری طرف موڑنے کے لئے حکومت نےمذہبی تنظیموں کا سہارا لیا۔ مذہبی تنظیموں نے سپریم
کورٹ کے ذریعے احمدیہ فرقے کے ایک فرد کو ضمانت پر رہا کئے جانے کے خلاف مظاہرہ کیا
اور ہزاروں عوام نے سپریم کورٹ کا محاصرہ کرلیا۔ ہجوم نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس فائز
عیسی کو الٹی میٹم دیا کہ وہ اپنے فیصلے کو واپس لیں ورنہ انجام بھگتنے کو تیار رہیں۔ملی
یکجہتی کونسل نے ہنگامی اجلاس طلب کیا اور پانچ ملی تنظیموں نے بڑے پیمانے پرمظاہرے
شروع کردئیے۔ جس احمدیہ فرقے کے خلاف مقدمہ چل رہا ہے اس کانام مبارک احمد ثانی ہے۔اس
پر الزام ہے کہ اس نے احمدیوں کی قرآنی تفسیر تفسیرصغیر ایک مدرسے کی بچیوں میں تقسیم
کی تھی۔ 2021ء میں پاکستان میں قانون بنا کہ احمدیہ فرقے کے لوگ اس تفسیر کو تقسیم
نہیں کرسکتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مبارک احمد ثانی نے تفسیر2019ءمیں تقسیم کی تھی۔ اس
کے خلاف اور دیگر پانچ افراد بشمول ایک خاتون کے خلاف پنجاب کے چناب نگر میں 6 دسمبر
2022ء کو ایف آئی آر درج کی گئی اور ان کے خلاف مقدمہ شروع کیا گیا۔نچلی عدالت اور
لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کو ضمانت نہیں دی تو مقدمہ سپریم کورٹ پہنچا۔ سپریم کورٹ نے
6 فروری 2024ء کو اپنا فیصلہ سنایا جس میں ملزم کو اسب بنیاد پر ضمانت دی کہ جس جرم
کا الزام ملزم پر ہے وہ 2019ء میں قانون کی نظروں میں جرم نہیں تھا۔ قانون 2021ء میں
بنا اور ایف آئی آر 2022ءمیں درج کی گئی جبکہ جرم مبینہ طور پر 2019ء میں کیا گیا۔اس
فیصلے کے خلاف فروری میں نظرثانی کی پٹیشن دائر کی گئی۔ عدالت نے ایک بار پھر 24 جولائی
کے فیصلے میں ملزم۔کی فوری ضمانت کا حکم دیا۔ اس حکم کے خلاف پانچ ملی تنظیموں نے مظاہرے
شروع کردئیے اور چیف جسٹس کے خلاف کردار کشی کی مہم سوشل میڈیا پر چلائی جانے لگی۔پاکستان
کی خاتون جرنلسٹ آرزو کاظمی نے ایک ٹی وی چینل سے گفتگو کے دوران بتایا کہ چیف جسٹس
فائز عیسی کا سر قلم کرنے والے کو ایک کروڑ روپئے کا انعام دینے کا اعلان کیاگیا ہے۔
لہذا ، ملی تنظیموں کے دباؤ میں پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں نظرثانی پیٹیشن داخل
کی۔ اس کی سماعت سپریم کورٹ نے کی اور مولانا تقی عثمانی ، مولانا فضل الرحمان ، مولانا
منیب الرحمان اور دیگر علماء کی رائے سپریم کورٹ نے لی اور بالآخر اپنے 6 فروری اور
24 جولائی کے فیصلے کے کچھ اقتباسات کو حذف کردیا۔ اس طرح ملی تنظیموں اور علماء کے
دباؤ میں سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے کو پلٹ دیا۔
عدالت کے فیصلے کے بعد مولانا
فضل الرحمن نے میڈیا کے سامنے ایک تقریر کی اور کہا :۔
"میں اس بہت بڑی کامیابی پر پوری قوم کو مبارک باد پیش کرتا ہوں
اور تمام دہنی جماعتوں کے کارکنوں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں آج سپریم کورٹ میں تمام
مکاتب فکر کے علماء شریک ہوئےانہوں نے جس یکجہتی کے ساتھ کورٹ کے سامنے اپنا مؤقف رکھا
اور سپریم کورٹ کو قائل کیا۔یہ سب قابل احترام ہیں اور مبارک باد کے مستحق ہیں اور
انہوں نے امت پر احسان کیا ہے۔اس سلسلے میں میں اعلان کرتا ہوں کہ کل پورے ملک میں
یوم تشکرمنایا جائے گا۔7ستمبر 1974 ء کوپاکستان کی قومی اسمبلی نےمتفقہ قرارداد کے
ذریعے متفقہ ترمیم کے ذریعے قادیانیوں کو اور لاہوریوں کو غیر مسلم اقلیت قراردیا تھا
اور آج جب پوری قوم 7 ستمبر 2024ء کو مینار پاکستان لاہور پر پچاس سالہ گولڈن جوبلی
منانے جارہی ہے اور جس دن کو یوم الفتح کے طور پر منایا جائے گا۔اج کے اس فیصلے نے
گولڈن جوبلی کی اہمیت کو دوبالا کردیا ہے۔اب پاکستان کے عوام کو ایک الگ جذبے اور تازہ
ترین فاتحانہ تصور کے ساتھ اس میں شریک ہونگےاور انشاءاللہ عزیز عقیدہء ختم نبوت کے
لئے 7 ستمبر یوم الفتح سنگ میل ثابت ہوگا۔ یم ان (قادیانیوں ) کے انسانی حقوق کو تسلیم۔کرتے
ہیں۔ ان کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ پاکستان کے آئین اور اس کے فیصلے کو قبول کریں۔"۔۔
مولانا فضل الرحمان نے یہ
بھی کہا کہ قادیانیوں کے پیشوا نے کہا تھا کہ جو انہیں نبی نہ مانے وہ کافر ہے۔
اس طرح ملی تنظیموں اور ملی
قائدین کے دباؤ میں اور قتل کی دھمکی سے خوف زدہ ہوکر سپریم کورٹ نے اہنافیصلہ بدل
کرخلاف قانون فیصلہ سنایا اور اس فیصلے کو فیصلے کی درستگی قرار دیا۔مولانا فضل الرحمان
نے احمدیوں کو ملک کے آئین اور اس کے فیصلے کو تسلیم کرنے کا مشورہ دیا جبکہ خود وہ
اور ملی تنظیموں نے خود پاکستان کے قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا
اور سپریم کورٹ کو مجبور کیا کہ وہ 2019ء کے مبینہ جرم کا فیصلہ 2021ء کے قانون کے
مطابق کرے۔
چونکہ اس فیصلے کے بعد معاملہ
ٹھنڈا پڑ جاتا اس لئے عوام کی توجہ کو دوسری طرف موڑے رکھنے کے لئے اور عوام کو حکومت
مخالف مظاہروں سے دور رکھنے کے لئے جمعہ کو یوم تشکر منانے اور پھر 7 ستمبر کو احمدیہ
مخالف قانون کی گولڈن جوبلی یعنی یوم الفتح منانے کا اعلان مولانا فضل الرحمان نے کردیا۔
اس طرح عوام کو 7 ستمبر کے جشن کی تیاری میں مصروف رکھا جائے گا۔ اس,دوران مولانا فضل
الرحمان جلسے جلوسوں میں تقریریں کریں گے اور عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کوبحال
کرنے کی کوشش کری گے۔واضح ہو کہ امسال ہونے والے انتخابات میں مذہبی جماعتوں کو عوام
نے مسترد کردیا تھا اور خود مولانا فضل الرحمان الکشن ہار گئے تھے۔لہذا، مبارک ثانی
کا مقدمہ ان کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ۔ اس مقدمے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کورجوع
کرانے میں انہوں اہم کردار ادا کیا تاکہ اس کے سہارے وہ اپنی سیاسی ساکھ بحال کرسکیں۔
انہی ملی تنظیموں نے ملک میں بدعنوانی ، بجلی کے ہوشربا بلوں ، فاقہ کشی اوربیروزگاری
کے خلاف کبھی کوئی تحریک نہیں چلائی ۔ حکومت کے ذریعے مظاہرین عورتوں پرانسانیت سوز
مظالم اور انسانی حقوق کی پامالی پر بھی انہوں نے اپنے کارکنوں اور عوام کو احتجاج
اور تحریک کے لئے پکار نہیں دی بلکہ جب بھی حکومت کو اپنی ساکھ بچانےاور عوام کے احتجاج
کو کچلنے کی ضرورت پڑی تو انہی ملی تنظیموں نے حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے۔پاکستان کے
عوام بھی ان سیاسی اورملی رہنماؤں کےہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں کیونکہ ان میں تعلیم کی
کمی ہے اس لئے مذہبی جنون میں مبتلا کرکے یہ سیاسی اور ملی قائدین عوام کوبیوقوف بناتے
رہتے ہیں۔ ہندوستان کے کچھ سیاسی مبصرین اس خیال کا اظہار کررہے ہیں کہ پاکستان میں
بھی بنگلہ دیش کی طرح انقلاب آسکتا ہے۔ یہ مبصرین پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کے
مزاج اور طرز فکرمیں بنیادی فرق سے واقف نہیں ہیں اس لئے بے وقوفوں کی جنت میں رہتے
ہیں۔
----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism