مبین ڈار
22 نومبر، 2013
وقتاً فوقتاً پاکستانی حکام یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ وہ خود دہشت گردی کے خلاف ہیں اور یہ کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں جتنے افراد ہلاک ہوئے ہیں ، اتنے کسی او رملک میں نہیں ہوئے ۔ یہ بات تو درست ہے کہ پچھلے چند برسوں میں پاکستانی طالبان اور دوسری مسلکی اور انتہا پسند تنظیموں کے ہاتھوں چالیس ہزار سے زیادہ شہری اور پانچ ہزار سے زیادہ سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوئے لیکن یہ بات قطعی درست نہیں ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف ہے ۔ اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے بلکہ خود پاکستانی سیاست داں اور سفارت کار اکثر دہشت گردوں کے تئیں اپنی ‘‘ محبت’’ کا اظہار کرتے رہتے ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال تو یہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کمانڈر حال ہی میں جب امریکی ڈرون حملے کا شکار ہوا تو حکومت پاکستان نے انتہائی سخت لفظوں میں اس کی مذمت کی اور یہ تک کہہ دیا کہ تحریک طالبان سے بات چیت کرنے کا جب امکان پیدا ہوا تو امریکہ نے اس عمل میں جان بوجھ کر رخنہ ڈال دیا تاکہ بات آگے نہ بڑھنے پائے ۔
بعض مذہبی انتہا پسند حلقوں نے تو حکیم اللہ محسود کو شہادت کا درجہ بھی عطا کردیا ۔ لیکن مذہبی حلقوں سے قطع نظر خود حکومت کا موقف یہ تھا کہ امریکہ نے حکیم اللہ محسود کو ہلاک کر کے بات چیت کا راستہ ہی بند کردینا چاہا کیونکہ عنقریب مذہبی اسکالر ز کا ایک وفد محسود سے مل کر مذاکرات کے لئے دعوت نامہ پیش کرنے والا تھا ۔پاکستان کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان تو کچھ اتنے برہم ہوئے کہ انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ حکیم اللہ محسو د کی ہلاکت کے بعد اب پاکستان ، امریکہ سے باہمی تعلقات کے سوال پر از سر نو غور کرے گا۔ غرض یہ کہ حکومت اور بعض سیاست دانوں کے انفرادی بیانات سے یہی اندازہ ہوا کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا افسوس تو پاکستان کو بہت زیادہ ہے البتہ ان چالیس ہزار سے زیادہ عام شہریوں کی ہلاکت کا کوئی غم نہیں جو طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں کے ہاتھوں مارے گئے ۔ تحریک انصاف پارٹی کے رہنما عمران خان نے تو نیٹوں سپلائی کا راستہ بند کرنے کی دھمکی بھی دے ڈالی ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایک حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پاکستان کے لئے اتنا بڑا سانحہ ثابت ہوئی کہ پاکستان اپنے چالیس ہزار عام شہریو کو بھول بیٹھا اور یہ بھی نہ سوچا کہ انہیں مارنے والے وہی لوگ ہیں جن سے بات چیت کرنے کے لئے حکومت بے چین نظر آتی ہے ؟
بہر حال حکیم اللہ محسود کی جگہ چند روز کے لیے ایک شخص کو عبوری سربراہ بنا یا گیا لیکن اس کے فوراً بعد ہی یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ اب اس کی جگہ ملا فضل اللہ کو تحریک طالبان پاکستان کا سپریمو بنادیا گیا ہے ۔ یہ ملا فضل اللہ وہی ہے جس نے وادی سوات میں عام لوگوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے تھے ۔ اس نے پورے علاقے پر تقریباً قبضہ کر لیا تھا اور پاکستان کا آئین اور قانون وہاں پورے طور پر دم توڑ چکا تھا، لڑکیوں کے اسکول بم سے اڑادیئے گئے تھے اور ان کی تعلیم پر پابندی لگا دی گئی تھی ۔ جو شخص بھی مزاحمت کرتا تھا یا طالبان کے نظریہ سے اختلاف کرتا تھا اسےبے دردی سے قتل کر کے درختوں پر لٹکا دیا جاتا تھا اور سرعام لوگوں کو پھانسی دی جاتی تھی ۔
ملا فضل اللہ کا ایک ریڈیو اسٹیشن بھی تھا جس کے ذریعے وہ دن رات اشتعال انگیز تقریریں کیا کرتا تھا ۔ 2009 میں سوات میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن ہوا اور تب کہیں جاکر اس علاقے کا نظم ونسق بحال ہوا تھا ملا فضل اللہ اور اس کے کچھ ساتھی بھاگ کر افغانستان چلے گئے اور وہاں سے حملوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے ۔ گزشتہ سال ملالہ یوسف زئی پر ملا فضل اللہ کے گرگوں نے ہی حملہ کیا تھا اور اب بھی وہ دھمکی دیتے رہتے ہیں کہ جب کبھی موقع ملے گا وہ اس پر دوبارہ جان لیوا حملہ کریں گے ۔ اب سوات کا وہی بدنام زمانہ دہشت گرد تحریک طالبان پاکستان کا نیا سربراہ بنایا گیا ہے ۔ معلوم نہیں اب وزیر اعظم نواز شریف کا کیا منصوبہ ہے لیکن جہاں تک ملا فضل اللہ کا سوال ہے تو اس نے بڑے ہی دو ٹوک لفظوں میں کہہ دیا کہ حکومت سے بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں سے متعلق نہ تو حکومت کا کوئی واضح موقف ہے اور نہ ہی فوجی ایسٹیبلشمنٹ کی منطق سمجھ میں آتی ہے ۔ سیاسی لیڈروں کاحال یہ ہے کہ وہ طالبان اور دوسرے دہشت گرد گروپوں سے اس قدر خوفزدہ رہتے ہیں کہ ان کی کسی بھی ظالمانہ اور غیر انسانی حرکت کے خلاف وہ ایک لفظ نہیں بو لنا چاہتے ۔ حد تو یہ ہے کہ جن بہیمانہ حملوں کی ذمہ داری خود طالبان یا اس سے وابستہ کوئی گروپ قبول کرتا ہے ۔ ان کی بھی مذمت کرنے میں انہیں گھبراہٹ ہوتی ہے ۔ کچھ ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کے سابق سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے حال ہی میں اپنی ایک کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ 2009 میں امریکی صدر بارک اوبامہ نے حکومت پاکستان کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر وہ لشکر طیبہ اور طالبان کے خلاف موثر کارروائی کرنے کا عہد کرے تو وہ کشمیر کے سوال پر ہندوستان بات چیت کرنے کو تیار ہیں اس حقیقت سے قطع نظر کہ ہندوستان کسی بھی حال میں کشمیر کے سوال پر امریکہ یا کسی بھی تیسرے ملک کی ثالثی قبول نہ کرتا ، حسین حقانی کے مطابق حکومت پاکستان نے صدر اوبامہ کیے اس پیشکش کو ٹھکرادیا تھا اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ حکومت پاکستان نے عملاً یہ تاثر دیا کہ امریکہ کشمیر کے سوال پر ثالث کا رول ادا کرے یا نہ کرے وہ لشکر طیبہ اور طالبان جیسے گروپوں سے تعلق نہیں توڑ سکتا ۔
کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ پاکستان اور دہشت گردی لازم و ملزوم بن کر رہ گئے ہیں؟یہ بات پوری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان 1950 کی دہائی سے ہی امریکہ سے یہ درخواست کرتا رہا ہے کہ وہ کشمیر کے سوال پر ہندوستان کو اپنے موقف میں لچک پیدا کرنے پر آمادہ کرے ۔ اگر حسین حقانی کا یہ انکشاف حقیقت پر مبنی ہے تو پاکستان کے لئے تو یہ سنہرا موقع تھا کہ وہ صدر اوبامہ کی پیشکش کو فوراً قبول کر لیتا لیکن ا س نے ایسا اس لیے نہیں کیا کہ اسے دہشت گرد گروپوں سے رشتہ توڑنا منظور نہ تھا ۔ ایک تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ آل پاکستان پرائیویٹ اسکول فیڈ ریشن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملا لہ یوسف زئی کی کتاب ‘‘ میں ملالہ ہوں’’ کسی بھی اسکو ل میں نہیں پڑھائی جائے اور نہ ہی کسی اسکول کی لائبریری میں اسے رکھا جائے گا یاد رہے کہ پاکستان کے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ اسکول اسی فیڈریشن کے تحت چل رہے ہیں اور ان میں اس ملک کے بہترین اور اعلیٰ معیار کے اسکول شامل ہیں ۔یہ اعلان آل پاکستان پرائیویٹ اسکول فیڈریشن کی طرف سے کیا گیا ہے جس کے صدر ہیں مرزا کاشف۔ ان کا کہنا ہے کہ ملالہ کی یہ کتاب نہ تو کسی نصاب میں شامل کی جائے گی او رنہ ہی کسی لائبریری کو یہ اجازت دی جائے گی کہ وہ اسے اپنی شیلف کی زینت بنائے ۔ مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے طلبا ء و طالبات کو ملالہ کے خیالات جاننے سے محروم رکھا جائے ۔
ظاہر ہے فیڈریشن کی یہ مجال نہیں کہ وہ اتنا بڑا فیصلہ حکومت کے اشارے کے بغیر کر سکے ۔ اگر حکومت کی مرضی شامل نہ ہوتی تو حکومت یا اس کی وزارت تعلیم کی طرف سے اس فیصلہ کے خلاف قدم اٹھایا جائے ۔ اس کتاب پر پابندی عائد کرنے کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ طالبان کا خوف غالب ہے ۔ ملا فضل اللہ کے گروپ کےطالبانیوں نے ملالہ پر گزشتہ سال اکتوبر کے مہینہ میں جان لیوا حملہ کیا تھا جس میں وہ بچ گئی تھی ۔ اسے علاج کے لیے برطانیہ لے جایا گیا تھا جہاں اس کا بہترین علاج کیا گیا ۔ تب سے وہ وہیں ہے اور تعلیم حاصل کررہی ہے ۔ اسے عالمی پیمانے پر تعلیم نسواں کے فروغ کی علامت کے طور پر شہرت ملی لیکن تعلیم کے دشمن طالبان اس کی شہرت او رمقبولیت سے بوکھلا گئے او رکھلم کھلا اسے دوبارہ جان سے مارنے کی دھمکی دی ۔ اسلام کے یہ خود ساختہ ٹھیکیدار ملالہ کو ‘‘ اسلام دشمن’’ قرار دے رہے ہیں حالانکہ تعلیم کے کام کو فروغ دے کر وہ عین اسلامی فریضہ انجام دے رہی ہے ۔ چونکہ طالبان والے اسے اسلام دشمن قرار دے رہے ہیں اس لیے حکومت پاکستان بھلا طالبان کو ناراض کیوں کرنے لگی ؟ پرائیویٹ اسکول فیڈریشن کے اس حالیہ فیصلہ کو اس پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے ۔
ایسے حالات میں اگر کوئی پاکستانی سیاست داں یا سفارتکار یہ دعویٰ کرے کہ حافظ سعید جیسے لوگ حکومت پاکستان کی یا پاکستانی عوام کی نمائندگی نہیں کرتے تو یہ دعویٰ بڑا مضحکہ خیز لگتا ہے ۔ حال ہی میں سفیر پاکستان برائے ہندو ستان سلمان بشیر نے ممبئی میں کچھ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حافظ سعید کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کا حلقہ اثر بہت محدود ہے اور پاکستان کی نمائندگی نہیں کرتے ۔ ان کا دعویٰ شاید ہی کسی کومطمئن کر سکے ۔ جہاں ارباب اختیار کے خوف کا یہ عالم ہو کہ وہ طالبان کے ڈر سے اسکولوں میں ملالہ کی کتاب پڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتے ، ان سے یہ امید کرنا فضول ہے کہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کریں گے ۔ اگر پاکستان آج دہشت گردی کا شکار ہے اور اب تک وہاں ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں تو اس کے ذمہ دار وہ لوگ خود ہیں جنہوں نے 1980 کی دہائی میں افغانستان اور 90 کی دہائی میں کشمیر میں سرکاری سرپرستی میں نام نہاد مجاہدین کو اپنے سیاسی مقاصد اور حربی حکمت عملی کے تحت استعمال کیا ۔ ایسے میں ان کا یہ رونا مضحکہ خیز لگتا ہے کہ ‘‘ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے’’۔
22 نومبر، 2013 بشکریہ : روز نامہ جدید میل ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-integral-relationship-with-terrorism/d/34550