New Age Islam
Sun May 18 2025, 07:44 PM

Urdu Section ( 25 Sept 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Pakistan’s Blasphemy Laws as Well as Forced Conversions and Marriages پاکستان کے توہین مذہب کے قوانین، جبری تبدیلئ مذہب اور شادیاں اقوام متحدہ کے چارٹر اور اسلامی قدروں کی خلاف ورزی ہے: سلطان شاہین کا جنیوا میں یو این ایچ آر سی سے خطاب

سلطان شاہین، فاؤنڈنگ ایڈیٹر، نیو ایج اسلام

20 ستمبر 2024

اقوام متحدہ کی کمیٹی تجویز پیش کرتی ہے کہ پاکستان  توہین مذہب کے اپنے قوانین  کو منسوخ کرے یا ان میں اصلاحات کرے۔ اس کے علاوہ، کمیٹی نے "خواتین اور لڑکیوں، خاص طور پر ہندو دلت اور عیسائی خواتین اور لڑکیوں کو دی جانے والی دھمکیوں، ایذا رسانیوں، ان کے اغوا، ان پر جنسی تشدد، ان کی جبری شادیوں اور جبراً تبدیلئ مذہب کے حوالے سے، مسلسل آنے والی خبروں اور رپوٹوں پر، اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ۔"

-----

 9 ستمبر سے 11 اکتوبر 2024 تک، انسانی حقوق کونسل کے 57ویں اجلاس میں سلطان شاہین کا مکمل خطاب

 ایجنڈا آئٹم 3: ترقی کے حق سمیت تمام انسانی حقوق کا فروغ اور تحفظ (عام بحث)      

 این جی او: سینٹر فار ہیومن رائٹس اینڈ پیس ایڈوکیسی (CHRAPA)

 پیش کش: سلطان شاہین (پورا نام جیسا کہ پاسپورٹ میں ہے: سید سلطان احمد جیلانی)

 جناب صدر،

 ہماری تنظیم کو پاکستان اور اس کے زیر انتظام آزاد جموں و کشمیر میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر گہری تشویش ہے، جہاں شہری، سیاسی، معاشی، سماجی، اور ثقافتی حقوق، آزادئ اظہار رائے، اور مذہب کی آزادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

 نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کی کمیٹی نے، 23 اگست 2024 کو پیش کی گئی، پاکستان کی متواتر رپورٹوں (CERD/C/PAK/CO/24-26) کے جائزے میں، پاکستان کے  قانون توہین مذہب کو منسوخ کرنے، یا ان میں اصلاحات کرنے کی سفارش کی ہے۔ کمیٹی نے دھمکیوں، ہراسانی، اغوا، جنسی تشدد، جبری شادیوں، اور جبراً تبدیلی مذہب، اور خاص طور پر ہندو دلت اور عیسائی خواتین اور لڑکیوں کے، نشانہ بنائے جانے کی مسلسل رپورٹوں اور خبروں پر، گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

 جناب صدر،

 پاکستان خود کو ایک اسلامی جمہوریت قرار دیتا ہے، اور اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کنندہ بھی ہے، پاکستان کے قانون توہین مذہب ، اور جبراً تبدیلئ مذہب اور شادیوں کے خطرناک واقعات، نہ صرف انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کے خلاف ہیں، بلکہ اسلام کی حقیقی قدروں سے بھی متصادم ہیں۔ اسلام توہین مذہب کے لیے کوئی سزا متعین نہیں کرتا، اور نہ ہی جبراً تبدیلی مذہب، یا جبری شادی کی اجازت دیتا ہے۔ قرآن واضح طور پر کہتا ہے، ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘ (سورۃ البقرہ، 2:256)۔ مزید برآں، اسلامی قانون بھی یہی ہے، کہ واضح لفظوں میں عورت کی اجازت کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی۔

 مزید برآں، قرآن پاک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، غیر مسلموں کی طرف سے اہانتِ مذہب کی متعدد مثالیں پیش کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود قرآن اس طرح کے کاموں کی کوئی سزا مقرر نہیں کرتا۔ اس کے بجائے، مسلمانوں کو سورۃ الانعام (6:108) میں ہدایت دی گئی ہے، کہ وہ دوسرے مذاہب کی توہین سے باز رہیں۔

 سینٹر فار ہیومن رائٹس اینڈ پیس ایڈوکیسی (CHRAPA) پاکستان کو پرزور انداز میں اس بات پر آمادہ کرتا ہے، کہ وہ نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق، کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرے، اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات، اور اسلام کی اخلاقی تعلیمات کو زندہ رکھنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

 شکریہ جناب صدر۔

 -----

 زیادہ سے زیادہ ECOSOC اسٹیٹس این جی او کے مندوبین کو موقع فراہم کرنے کے لیے، ہر مندوب کو اس فورم میں صرف 90 سیکنڈ تک ہی بولنے کی اجازت ہے۔ تاہم، نیو ایج اسلام کے قارئین کے لیے، موضوع کو مزید واضح کرنے کے لیے، میں ذیل میں 23 اگست 2024 کو پیش کی گئی، پاکستان کی متواتر رپورٹوں (CERD/C/PAK/CO/24-26) پر، اقوام متحدہ کی کمیٹی کی انتہائی اہم رپورٹ کے، کچھ متعلقہ اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔

CERD/C/PAK/CO/24-26 ایڈوانس غیر ترمیم شدہ .: عمومی تاریخ: 23 اگست 2024 اصل: انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی

 نسلی امتیاز کے خاتمے سے متعلق کمیٹی، پاکستان کی مشترکہ چوبیسویں سے چھبیسویں متواتر رپورٹوں پر، غور و فکر کا نتیجہ*

   1. کمیٹی نے پاکستان کی مشترکہ 24 ویں سے 26 ویں متواتر رپورٹوں (CERD/C/PAK/24-26) پر غور کیا، جو ایک دستاویز میں، اس کے 3085ویں اور 3086ویں اجلاس میں (دیکھیں CERD/C/SR.3085 اور 3086)، جو کہ 8 اگست اور 9 اگست 2024 کو منعقد ہوا، پیش کیا گیا۔ اس کے 3099 ویں اجلاس میں، جو 18 اگست 2024 کو منعقد ہوا، اس میں یہ حتمی مشاہدات پیش کیے گئے:

توہین مذہب کے ملزمین کے خلاف حملے اور انتقامی کارروائیاں 15۔ کمیٹی کو، پرتشدد حملوں کی بڑھتی ہوئی رپورٹوں، اور اہانتِ مذہب کے الزام میں ملوث افراد کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر گہری تشویش ہے، جن کا تعلق اکثر نسلی اور نسلی و مذہبی اقلیتی گروہوں سے ہوتا ہے، بشمول جسمانی حملے، ہجومی تشدد اور قتل کے، جس میں پنجاب اور خیبرپختونخوا صوبوں میں، مئی اور جون 2024 کے درمیان ہونے والے واقعات بھی شامل ہیں، جن میں لوگ زخمی ہوئے، ہلاکتیں ہوئیں اور املاک تباہ کیے گئے۔ 2021 میں سیالکوٹ، اور 2023 میں جڑانوالہ میں ہونے والے حملوں میں، ملوث افراد کی تحقیقات، ان پر مقدمہ چلائے جانے اور انہیں مجرم قرار دینے جانے کے لیے، ریاستی کی جانب سے کیے گئے اقدامات پر، فراہم کردہ معلومات کے حوالے سے، کمیٹی کو تشویش ہے کہ اس معاملے میں، سات فیصد سے بھی کم مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا۔ کمیٹی نے جون 2024 میں خیبرپختونخواہ کے مدیان میں، پولیس کی حراست کے اندر اہانتِ مذہب کے الزام میں، ایک شخص کے قتل میں ملوث ملزمان کی تفتیش، قانونی چارہ جوئی، اور انہیں سزا دیے جانے کے بارے میں معلومات کی کمی پر، افسوس کا اظہار کیا۔ اہانتِ مذہب ملزمین کو اکثر طویل نظر بندی، قید تنہائی اور طویل مدتی قانونی جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے: جس سے ان کی حفاظت اور ان کے منصفانہ ٹرائل، اور تشدد یا غیر انسانی سلوک سے ان کی آزادی، کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ کمیٹی، اہانتِ مذہب سے متعلق 2020 میں 11 سے 2023 میں 213 تک کے، کل سالانہ تعداد سے پریشان ہے، خاص طور پر ان کے حوالے سے، جن پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295 اور 298، اور پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ 2019 میں سپریم کورٹ کے آسیہ بی بی بنام ریاست مقدمہ میں، آسیہ بی بی کے بری کیے جانے کے فیصلے، اور 2016 میں ممتاز قادری بنام ریاست مقدمہ میں، سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے، کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا ہے، اور کہا ہے کہ ریاست نے منصفانہ ٹرائل کے حق یا انتقامی کارروائیوں کی روک تھام کو یقینی بنانے کی خاطر، متعلقہ ملکی قوانین کو نافذ کرنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں، وہ ناکافی ہیں۔ کمیٹی نے، پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 295, 295-A, 295-B, 295-C, 298-A, 298-B, اور 298-C (دفعات. 2, 4 اور 6) کے تحت جرائم کی وسیع اور مبہم تعریفات کے حوالے سے بھی، اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

 16. کمیٹی کی تجویز ہے کہ ریاست: (ا)  توہین مذہب کے اپنے قوانین  کو منسوخ کرے یا اس میں اصلاح کرے، خاص طور پر، جن قوانین کے تحت عمر قید یا سزائے موت جیسی سخت سزائیں دیتے جاتی ہیں، اور اس بات کو یقینی بنائے، کہ سیکشن 295, -295-A, 295-B and 295-C کے تحت، ہونے والے جرائم کا دائرہ وسیع اور مبہم نہ ہوں، اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق ہوں۔ (ب) توہین مذہب کے ملزم افراد کے حقوق کے تحفظ کے لیے، ملکی قانون کے مکمل نفاذ کو یقینی بنایا جائے، جیسے آسیہ بی بی اور ممتاز قادری کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے، بشمول ان کے منصفانہ ٹرائل اور تعصب یا بیرونی دباؤ سے پاک عدالتی کارروائی کے حق کے؛ (ج) اہانتِ مذہب کے ملزم افراد کے خلاف، پرتشدد حملوں اور انتقامی کارروائیوں کو روکنے کے لیے، تمام ضروری اقدامات کیے جائیں، خاص طور پر ان کے لیے جو پولیس کی حراست میں ہیں، جس کے تحت اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے، کہ اہانتِ مذہب سے متعلق مقدمات میں پولیس، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے معیاری آپریٹنگ سسٹم اختیار کریں؛ (د) ثبوت کا بوجھ استغاثہ پر ڈالا جائے، اور اہانت مذہب سے متعلق مقدمات میں، ثبوتوں اور گواہوں کے معیارات کو مزید بلند کرنے والے ملکی قوانین کو نافذ کیا جائے؛ (ح) تمام پرتشدد حملوں اور انتقامی کارروائیوں کی تحقیقات کی جائیں، بشمول اہانتِ مذہب کے ملزم افراد کے خلاف ہجومی تشدد اور قتل کے؛ اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام مجرموں کے خلاف مقدمہ چلایا جائے گا، ان کا جرم ثابت کیا جائے گا اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے گی۔

مذہب یا عقیدے کی آزادی

 23. مذہبی اور سماجی رواداری کے کلچر کو فروغ دینے، اور نسلی-مذہبی اقلیتی گروہوں کے مذہبی تہواروں کو باضابطہ تسلیم کرنے کے لیے، اسکولی نصاب تیار کرنے سے متعلق آرڈر نمبر 2 (SMC نمبر 1 آف 2014) میں، سپریم کورٹ کے فیصلے کو مثبت طور پر نوٹ کرتے ہوئے، کمیٹی کو تشویش ہے کہ ریاست نے قانونی یا عملی طور پر نسلی مذہبی اقلیتی گروہوں، اور بالخصوص، غیر سنی نسلی و مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے، ناکافی اقدامات کیے ہیں۔ کمیٹی کو اس بات پر بھی افسوس ہے، کہ اس کے پاس اس حوالے سے بھی کوئی جانکاری نہیں ہے، کہ بین المذاہب عدم رواداری قانون کا کیا ہوا۔ ریاست کی طرف سے، مذہبی تشدد کی شکار برادریوں کو معاوضے دیے جانے جیسے اقدامات کو تسلیم کرتے ہوئے، بشمول گرجا گھروں کی تعمیر نو اور خاندانوں کو معاوضہ کے، کمیٹی مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے، آزادانہ طور پر اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حق کو درپیش خطرات سے فکر مند ہے۔ خاص طور پر، کمیٹی کو جسمانی حملوں، مذہبی یا ثقافتی نشانات کی بے حرمتی، اور عبادت گاہوں کے انہدام، بشمول چھتیس احمدیہ بیت الذکر، چھبیس عیسائی گرجا گھروں، دو ہندو مندروں، اور 2023 میں ایک سکھ گوردواروں کے انہدام کی رپورٹوں پر سخت تشویش ہے۔ مزید برآں، کمیٹی نے، عید الاضحی سے قبل اور عید الاضحی کے دوران مسلم احمدیوں کو ہراساں کیے جانے، اور ڈرائے دھمکائے جانے کی خبروں، اور بار ایسوسی ایشنوں کی طرف سے، احمدیوں کو رسم قربانی کی اجازت دینے والے سرکاری افسروں کے خلاف، عدالتی طور ہراساں کیے جانے، اور قربانی کرنے والے احمدیوں کی من مانی گرفتاریوں اور نظربندیوں کی رپورٹوں پر، اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نسلی ومذہبی برادریوں کا ہراساں کیا جانا، انہیں ڈرایا دھمکایا جانا، اور ان کی عبادت گاہوں یا املاک پر حملوں کیا جانا، اور ان سب میں کسی کی ذمہ داری طے نہ کیا جانا، اور ملزمان کا بری ہو جانا بھی، کمیٹی کے لیے تشویش کی بات ہے (دفع 5)۔ 24. کمیٹی سفارش کرتی ہے، کہ ریاست تمام ضروری اقدامات کرے، جیسا کہ کنونشن کے آرٹیکل 5 میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں یہ بھی سفارش کی گئی ہے کہ ریاست: (ا) نسلی-مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے، اپنے ملکی قانونی ڈھانچے پر نظرثانی کرے، بشمول قانونی طور پر بغیر کسی امتیاز کے، ان کے مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کے؛ (ب) بین المذاہب عدم رواداری کے قانون کو اپنانے کے لیے اقدامات کی تجدید کی جائے یا اس میں تیزی لائی جائے؛ (ج) نسلی ومذہبی اقلیتی برادریوں کے نمائندوں کے ساتھ مل کر، ان کے تحفظات کی نشاندہی کرنے، اور سیکیورٹی اور حفاظت جیسی، ان کی مخصوص ضروریات کو پورا کرنے والی پالیسیاں بنانے لیے، باقاعدہ جامع اور مشترکہ طور پر مشاورتوں کا اہتمام کیا جائے۔ (د) جسمانی حملوں، مذہبی یا ثقافتی علامتوں کی بے حرمتی، اور عبادت گاہوں کی تباہی، اور انتقامی کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ (ھ) متاثرہ لوگوں کو مناسب معاوضہ دیا جائے، عدم تکرار، امن و سکون اور باز آبادکاری کی ضمانت دی جائے، باز آباد کاری اور معاوضے کے علاوہ، ان کی عبادت گاہوں کی تعمیر نو کی جائے اور متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دیا جائے۔

CERD/C/PAK/CO/24-26 8 جبراً تبدیلئ مذہب اور شادیاں

 25. جبراً تبدیلئ مذہب اور شادیوں کو روکنے کے لیے قانونی فریم ورک کے لیے، اٹھائے گئے اقدامات کا حوالہ پیش کرتے ہوئے، بشمول پروینشیل چائلڈ میرج لاز کے نفاذ کے، کمیٹی نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے، کہ ریاست نے جرائم کی بنیادی وجوہات پر غور کرنے، یا ان سے نمٹنے کے لیے ناکافی اقدامات کیے ہیں۔ کمیٹی کو ان رپورٹوں پر بھی سخت تشویش ہے، کہ خواتین اور لڑکیوں، بالخصوص، ہندو دلت اور عیسائی خواتین اور لڑکیوں کو، ڈرایا دھمکایا، ہراساں اور اغوا کیا جاتا ہے، ان پر جنسی تشدد ہوتا ہے، ان کی جبری شادیاں کروائی جاتی ہیں اور جبراً ان کا مذہب تبدیل کروایا جاتا ہے۔ مزید برآں، کمیٹی نے تشویش کے ساتھ یہ بھی کہا ہے، کہ قانون نافذ کرنے والے حکام اکثر متاثرین کے اہل خانہ کی شکایات کو مسترد کر دیتے ہیں، اغوا کی فوری اور مؤثر تحقیقات کرنے میں ناکام رہتے ہیں، یا متاثرین کی عمر کا تعین کرنے میں ناکام رہتے ہیں، اور یہ کہ تفتیش کار، استغاثہ اور جج، اغوا کاروں کے پیش کردہ شواہد کا تنقیدی جائزہ لینے میں ناکام رہتے ہیں، جس میں جبری بیانات اور جعلی دستاویزات بھی شامل ہوتے ہیں، جن کے نتیجے میں، بسااوقات، ایسے عدالتی احکامات صادر ہوتے ہیں، جن میں جبراً شادیوں کو مؤثر طریقے سے منظوری حاصل ہو جاتی ہے۔ کمیٹی ریاستی میں پیدائش کے اندراج کی کم شرح پر بھی فکر مند ہے، جس کی بنیاد پر، اس کی موجودہ پالیسی (دفع 5) کے تحت ابتدائی عمر کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ 26. کمیٹی تجویز پیش کرتی ہے، کہ ریاست: (ا) جبراً تبدیلئ مذہب اور جبری شادیوں کو روکنے کے لیے، اپنے قانونی فریم ورک کے موثر نفاذ کو یقینی بنائے، جب کہ اس سلسلے میں اضافی ادارہ جاتی اور قانونی اقدامات پر بھی غور کرے، جیسے کہ ایسے قوانین بنائے جائیں جن میں، جبری شادی یا تبدیلئ مذہب کے مقصد سے اغوا کو، یا اغوا کی کوشش کو جرم قرار دیا گیا ہو ؛ (ب) قانون نافذ کرنے والے حکام، استغاثہ، وکلاء اور ججوں کے لیے، معیاری عمل، ثبوتی معیارات، اور دستخط شدہ اعترافات سے متعلق مسائل میں تربیت کا انعقاد کیا جائے؛ (ج) اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف اور موثر تدارک اور ساتھ ہی ساتھ، امدادی خدمات جیسے پناہ گاہیں، قانونی امداد، نفسیاتی مشاورت، اور باز آبادکاری کے پروگرام تک رسائی حاصل ہو۔ (د) پیدائش کے اندراج کے نظام کو بہتر بنانے کی کوششوں میں اضافہ کیا جائے، بشمول رجسٹریشن میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے، جیسے وسائل کی کمی یا عوامی حکام میں لوگوں کے درمیان عدم اعتماد وغیرہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انٹرنیشنل دلت سولیڈیرٹی نیٹ ورک (IDSN) کی جانب سے، کمیٹی آن دی ایلمنیشن آف ریشیل ڈسکریمنیشن (CERD) کے 113ویں اجلاس (05-23 اگست 2024) کو پیش کردہ، پاکستان بمقابلہ پاکستان میں جبراً شادیاں اور جبری تبدیلئ مذہب،

جبری شادیاں اور خواتین اور لڑکیوں کا جبراً تبدیلئ مذہب، ہندو اور عیسائی اقلیتوں کو زبردست طریقے سے متاثر کرتا ہے۔ ایسی اکثر رپورٹیں آتی رہتی ہیں، کہ ان اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اغوا کیا جاتا ہے، اور ان پر تشدد کیا جاتا ہے، انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں، انہیں جسمانی اور جذباتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اکثر متاثرین کو پسند کی شادی کی آڑ میں مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ 10. سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شیڈیولڈ کاسٹ ہندو لڑکیاں ہیں، خاص طور پر دلت لڑکیا، جنہیں اغوا کیا جاتا ہے یا مذہب تبدیل کرنے کا لالچ دیا جاتا ہے، ان کا جنسی استحصال کیا جاتا اور پھر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ 11 اکثر، ان اقلیتوں کو اس طرح کے ظلم و زیادتیوں کے تدارک میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بارے میں کوئی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہے، کہ مذہبی اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والی لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو، کتنی تعداد میں زبردستی اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ اس رجحان کے بارے میں این جی او کا تخمینہ ہر سال 300 سے 1,000 معاملات تک ہے۔ تعداد میں یہ اختلاف، جزوی طور پر، جبری تبدیلئ مذہب کی مختلف تعریفات کی وجہ سے ہے۔ 12. 2011 کا پریونشن آف اینٹی وومن پریکٹس ایکٹ، جبری شادیوں اور تنازعات کے حل کے لیے لڑکیوں کے تبادلے، اور نابالغ لڑکیوں کی شادی پر روک لگاتا ہے۔ تاہم، اس قانون کے باوجود، پولیس اکثر ایسے معاملات میں مداخلت کرنے سے انکار کرتی ہے۔ عدالتیں بھی خواتین کی سابقہ غیر اسلامی شادیوں کو کالعدم قرار دے کر، اور ان کی جبری شادیوں کو تسلیم کر کے، اس میں شریک ہو سکتی ہیں۔ مزید برآں، 2013 کا سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 18 سال سے پہلے شادی کو ممنوع قرار دیتا ہے، لیکن عدالتیں، صوبہ سندھ میں، ہندو دلت نابالغوں سے متعلق مقدمات میں، قانون پر عمل درآمد کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں۔ 10 IDSN اور PDSN: - "پاکستان میں شیڈیولڈ کاسٹ خواتین - عزت اور احترام کی زندگی سے محروم۔"، پاکستان 2013 کی متواتر رپورٹ 4 کی جانچ کے لیے CEDAW کی متبادل رپورٹ، پیرا گراف 74. 11 پاکستان میں شیڈیولڈ کاسٹ کے بچے - کمیٹی آن دی رائٹس آف دی چائلڈ (CRC) 72 اور PSWG 5 - 9 اکتوبر 2015 - پاکستان دلت سولیڈیرٹی نیٹ ورک (PDSN) اور انٹرنیشنل دلت سولیڈیرٹی نیٹ ورک (IDSN) کے ذریعہ، پاکستان کی مشترکہ متبادل این جی او رپورٹ)، صفحہ 9. یہ بھی دیکھیں: IDSN "پاکستان میں دلت خواتین"، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے، کہ جنسی زیادتی، اغوا اور جبری تبدیلئ مذہب کا شکار ہونے والی دلت خواتین کو، ان کی جنس، مذہب اور ذات کی وجہ سے تین گنا امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 12 انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹ - پاکستان میں مذہب یا عقیدے کی آزادی کے حق کی خلاف ورزیاں - ایک بریفنگ پیپر، جولائی 2021، صفحہ۔ 36. 8 یہ واضح رہے کہ پولیس کو عوام کا بہت کم اعتماد حاصل ہے، جو کہ دلت/ شیڈیولڈ کاسٹ کے افراد کی انصاف تک رسائی میں، مزید ایک رکاوٹ ہے۔ پولیس دونوں فریقین سے رشوت لینے کے لیے جانی جاتی ہے، اور بعض صورتوں میں، عدالت کی طرف سے کارروائی کرنے کی ہدایت کے باوجود، پولیس لواحقین سے رقم وصول کرتی ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ پولیس اپنے دوستوں، اور خاندان والوں، اور سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والوں کی مدد کرے گی، لیکن ایس سی/دلت درخواست دہندگان کو نظر انداز کرے گی۔ اس کے بعد یہ درخواست دہندگان انصاف کے حصول کے لیے، عدالتوں میں فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) دائر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جو کہ ایک طویل اور مہنگا عمل ہے۔ ریاست کے لیے سفارشات • ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک پر پابندی لگانے والے قانون بنائے جائیں، اور ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک کے شکار لوگوں کے تحفظ کے لیے، اس قانون کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے، موثر اور فوری اقدامات کیے جائیں، اور اس پر عمل درآمد کا ایک مؤثر ذریعہ تلاش کیا جائے، جس میں الگ الگ ڈیٹا بھی شامل ہو۔ بانڈڈ لیبر سسٹم ایبولیشن ایکٹ کے موثر نفاذ کو یقینی بنایا جائے، اور بندھوا مزدوروں کی نگرانی اور باز آبادکاری کے لیے ڈسٹرکٹ ویجیلنس کمیٹیوں کو فعال کیا جائے۔ • بندھوا اور جبری مزدوری سے نمٹنے اور اس کی روک تھام کے لیے، مزدوری کے معائنے اور نفاذ کے طریقہ کار کو مضبوط کیا جائے، خاص طور پر اینٹوں کے بھٹوں اور زراعت جیسی صنعتوں میں۔ • غربت اور ناخواندگی کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے، دلت بچوں اور بالخصوص لڑکیوں کے لیے معیاری تعلیم تک رسائی کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ • دیہی اور شیڈیولڈ کاسٹ علاقوں میں، حفظان صحت کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنایا جائے، بنیادی خدمات جیسے کہ صفائی اور صاف پانی تک رسائی کو یقینی بنایا جائے۔ • جبری شادیوں اور تبدیلئ مذہب پر پابندی لگانے والے قوانین کے نفاذ کو مضبوط بنایا جائے، بشمول پریونشن آف اینٹی وومن پریکٹس ایکٹ اور سندھ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کے۔ • پولیس کو امتیازی سلوک کے خلاف تربیت فراہم کی جائے، اور مقدمات کا اندراج نہ کرنے کو قابل سزا جرم بنایا جائے۔ اس کے علاوہ، ان قوانین پر سیمیناروں کا اہتمام کیا جائے، جو پاکستان بھر میں اور خاص طور پر چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں، اقلیتوں اور پسماندہ طبقوں کو، تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہیں۔ • جبری شادیوں اور تبدیلئ مذہب کے متاثرین کو معاون خدمات فراہم کی جائیں، بشمول قانونی امداد اور باز آبادکاری پروگراموں کے۔ • دلتوں کی سماجی و اقتصادی حیثیت پر الگ الگ ڈیٹا اکٹھا کر کے شائع کیا جائے، بشمول ان کی روزگار، تعلیم، حفظان صحت اور دیگر بنیادی خدمات تک رسائی کے۔ • انسداد امتیازی پالیسیوں اور قوانین کے نفاذ کی نگرانی کے لیے، خود مختار نگراں ادارے قائم کیے جائیں، جواب دہی اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ • دلتوں کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر امتیازی سلوک، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے زمینی حقائق کو جمع کرنے، اور رپورٹ کرنے کے لیے سماجی تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ • گورنمنٹ سیکٹر، سول سروس، عدلیہ، محکمہ زراعت اور دیگر اداروں میں، شیڈیولڈ کاسٹ برادریوں کے لیے 6 فیصد ملازمتوں کا کوٹہ بحال کیا جائے، تاکہ انہیں کام کی ضمانت مل سکے۔

تعاون کرنے والی تنظیمیں، دی پاکستان دلت سولیڈیرٹینیٹورک (PDSN)، پاکستان میں حقوق پر مبنی درجنوں سماسی تنظیموں کا ایک سنگم ہے۔ اس کا باقاعدہ آغاز اپریل 2009 میں، 2007 میں کیے گئے ایک تحقیقی مطالعے کے بعد کیا گیا تھا، جس میں پاکستان میں شیڈیولڈ کاسٹ (دلتوں) کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ نیٹ ورک کے بنیادی مقاصد، قومی اور بین الاقوامی حمایت کے ذریعے شیڈیولڈ کاسٹ کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ سینٹر فار لاء اینڈ جسٹس (سی ایل جے) ایک غیر منافع بخش، غیر جانبدار اور غیر سرکاری تنظیم ہے، جو پسماندہ مذہبی برادریوں، خواتین اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے وکالت، اسٹریٹجک قانونی چارہ جوئی، تحقیق و تفتیش اور پالیسی کے تجزیہ میں حصہ لے کر، ان کے تحفظ کے لیے کوشاں ہے۔ 2011۔ صفائی کرنے والوں، اور ذات پات اور مذہب کی باہمی تفریق کا شکار، مذہبی اقلیتوں پر تحقیق اور ان کی وکالت، سینٹر کے قیام کے روز اول سے ہی، اس کا نصب العین رہا ہے۔ پروگریسو ہیومن فاؤنڈیشن (پی ایچ ایف) ایک غیر سرکاری تنظیم ہے، جو 1860 کے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ XXI کے تحت رجسٹرڈ ہے۔ اس نے مذہبی اقلیتوں کے لیے قانونی معاونت، نوجوانوں کو بااختیار بنانے، خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے، بندھوا مزدوری اور صوبہ سندھ میں پسماندہ دیہی برادریوں کے بچوں کی تعلیم کے، متعدد خود کفیل منصوبوں پر کام کیا ہے۔ رورل ایڈوانسمنٹ ڈیولپمنٹ اینڈ ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن (RADHA) خواتین کی زیر قیادت خواتین کا ادارہ ہے، جو مقامی تنظیم کے لیے پرعزم ہے۔ رورل ایڈوانسمنٹ ڈیولپمنٹ اینڈ ہیومن رائٹس ایسوسی ایشن (RADHA)، سندھ میں مقامی اقلیتوں اور شیڈیولڈ کاسٹ کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس کے کام کے اہم شعبے، انسانی حقوق، تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی اور خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ دلت سوجاگ تحریک ایک ایسی تحریک اور تنظیم ہے، جو پاکستان میں شیڈیولڈ کاسٹ ہندو برادریوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ تحریک 2016 کو، میرپورخاص میں بابا صاحب امبیڈکر کی 125ویں سالگرہ کے موقع پر شروع کی گئی تھی۔ پاکستان میں اس کی تشکیل، شیڈیولڈ کاسٹ کی مختلف تنظیموں کے مجموعے سے ہوئی تھی۔ HARI- ویلفیئر ایسوسی ایشن ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔ تحقیق و تفتیش، وکالت اور لابنگ کے ذریعے، HWA کا مقصد کسانوں، محنت کشوں اور دیگر پسماندہ برادریوں کے معاشی، سماجی، ثقافتی، شہری اور سیاسی حقوق کو فروغ دینا ہے، بشمول سندھ اور پاکستان کے دیہی علاقوں میں زراعت سے وابستہ دلتوں کے۔ انٹرنیشنل دلت سولیڈیرٹی نیٹ ورک (IDSN) کی بنیاد، مارچ 2000 کو، دلت انسانی حقوق کی وکالت کرنے، اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر دلتوں کے مسائل کے حوالے سے بیداری پیدا کرنے کے لیے، رکھی گئی تھی۔ IDSN انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں، ترقیاتی ایجنسیوں، یورپ کے قومی دلت یکجہتی نیٹ ورکوں، اور ذات پات سے متاثرہ ممالک کے قومی پلیٹ فارموں کا ایک نیٹ ورک ہے۔

--------------

English Article: Pakistan’s Blasphemy Laws as Well as Forced Conversions and Marriages Not Only Violate The UN Charter but Also Islam’s Pristine Values; Sultan Shahin Tells UNHRC at Geneva On 20 September 2024

URL:   https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-blasphemy-forced-conversion-sultan-shahin-unhrc/d/133284

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..