اوشو
8 اگست، 2016
قرآن کا فرمان ہے کہ ایک سالک کے اندر تین بنیادی خصوصیات کا ہونا ضروری ہے۔اول خشوع و خضوع یا عاجزی انکساری۔دوم کرامت، یا صدقہ۔ سوم ، سچائی، صداقت، یا اس بات کو تسلیم کرنا جو آپ ہیں۔یہ تصوف کے تین ستون ہیں۔منکسر المزاج انسان نفس اور انایت سے مجرد نہیں ہوتا۔
اول، انانیت بہت طاقتور ہے۔جب آپ اپنی مال و دولت پر فخر و مباہات کا اظہار کرتے ہیں۔کسی دن آپ اپنی ساری دولت لٹا دیتے ہیں اور پھر ڈینگ مارنا شروع کردیتےہیں کہ ہمنے اپنی تمام دولت لٹا دی ہے۔یہ ایک چھوٹی بات ہے، لیکن آپ کی شیخی جاری رہتی ہے۔ عاجزی یا خشوع و خضوع سے مراد وہ انسان ہے جو نفس اور انانیت کے تمام راستوں سے واقف ہو۔ اور جوانا کے تمام طریقوں سے واقف ہو اس کے اندر سے انانیت اور نفس پرستی ختم ہو جاتی ہے۔
دوم،صدقہ،کرامت اور سخاوت ہے۔صدقہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کسی کو کچھ دیں اور اس یہ سوچ کر آپ خوش ہوں کہ آپ نے کسی کو کچھ عطا کیا ہے،اور صدقہ کا مطلب یہ بھی نہی ہے کہ آپ اسے احسان جتائیں جسے آپ نے کچھ عطا کیا ہے۔بلکہ صدقہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کسی کو کچھ عطا کریں اور اس کے شکر گزار ہوں کہ اس نے آپ کا صدقہ قبول کیا ہے؛ صدقہ یہ ہے کہ آپ اس نظریہ سے اوپر اٹھ کر کسی کو کچھ عطا کریں کہ آپ کسی بھی طرح کسی پر کوئی احسان کر رہ ہے ہیں؛ صدقہ یہ ہے کہ آپ کسی کو کچھ اس لیے عطاکر رہے ہیں کہ اللہ نے آپ کو بہت نوازا ہے۔
سوم،صدق اور سچائی۔اس کا مطلب سچا ہونا ہے۔کبھی کبھی آپ سچ اس وقت بولتے ہیں جب وہ آپ کے لیے نقصاندہ نہیں ہوتا– اور لوگوں کا عمل بھی اسی پر ہے۔جب لوگوں کو سچائی سے نقصان نہیں پہنچتا تو وہ سچے بن جاتے ہیں۔کبھی کبھی جب کسی سچائی سے دوسروں کو نقصان پہنچتا ہے تو لوگ سچے بن جاتے ہیں۔ لیکن جب سچائی آپ کے حق میں معاون نہیں ہوتی تو آپ سچائی کا دامن چھوڑ دیتے ہیں، اور اس صورت میں آپ کی سچائی بے معنیٰ ہو جاتی ہے۔
ماخذ:
blogs.economictimes.indiatimes.com/the-speaking-tree/humility-and-charity/
URL for English article: https://newageislam.com/spiritual-meditations/humility-charity/d/108212
URL for this article: