نصرت ظہیر
4مئی ،2017
آپ کے ہمارے جان سے پیارے پرسنل لابورڈ نے پورے ملک میں تین طلاق کے روح پرور موضوع پر جو ایمان افروز بحث آج کل چھیڑ رکھی ہے اس کے بارے میں سوچ کر کبھی کبھی فرط مسّرت سے میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں کہ آخر کوئی تو ہے جو ہمارے ایمان کا رکھوالا ہے۔ بلکہ حال ہی میں اس بنیادی مسئلے پر بیداری کی جو مہم شروع کی ہے اس کے احترام میں تو میں نے باقاعدہ سونا ہی بند کردیا ہے۔ مبادا کل کلاں یہ مہم ناکام ہوگئی تو سارا الزام مجھ پر ہی نہ آجائے اور ٹی وی چینلوں کی زبان میں ناکامی کا سارا ٹھکرا میرے سر پر نہ پھوڑ دیں، کہ سارا معاملہ اسی نامردِ مومن کے سونے سے خراب ہوا ہے ،ورنہ ہم تو مرد مومن کو مسلم عورتوں کے آگے بے اختیار ہونے سے صاف بچا لیا تھا ۔ بس یہی سب سوچ کر میں نے دو ہفتوں تک جاگتے رہنے کے لیے اپنے بیڈروم کو تالا لگادیا ہے اور اکثر ڈرائنگ روم میں بیٹھا ٹی وی دیکھتا رہتا ہوں ۔ اس دوران نیند کا زورزیادہ پڑے تو ذرا سا اونگھ لیتا ہوں ورنہ بستر پر سونا اور خرّاٹے لینا بالکل بند کردیا ہے۔
بہر حال ،بات ہورہی تھی مسلم پرسنل لا بورڈ کی ، جو اس روئے زمین پر فی زمانہ مجھ جیسے نا اہل حدیث کے جذبہ ایمانی کا واحد محافظ رہ گیا ہے ۔ بلکہ کبھی کبھی تو میں اس الجھن میں پڑ جاتا ہوں کہ مسلم پرسنل لا بورڈ ۔ جتنا اس پر غور کرتاہوں اتنا ہی یہ خیال پختہ ہوتا جاتاہے ،لیکن جیّد اور سیّد مسلمانوں پر مشتمل بورڈ نہ رہا تو شاید اس کا سانس لینا ہی دوبھر ہوجائے ۔
یوں تو مسلمان کافی سخت جان واقع ہوا ہے اور بفیض طالبانِ کرام اسے اسلام کے بغیر زندہ رہنے کی اچھی خاصی عادت پڑ چکی ہے۔ بلکہ اسلام کے بغیر تو وہ کچھ زیادہ ہی زندہ رہنے لگتا ہے ۔ ایسے مسلمان کے آگے بھلا مسلم پرسنل لا کیا چیز ہے؟ اسے تو جناب یہ بورڈ اور یہ جماعتیں ہی زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ ذرا غور کیجئے ، خد ا نہ کرے یہ جماعتیں ، جمعیتیں او رمجلسیں بکھر گئیں تو ملّت بیضا کا کیا ہوگا۔ کیا رہ جائے گا ا س کے پاس سوائے اس زیر و انڈے کے جومجھ جیسے غریب طالب علم کو اکثر تیسری چوتھی جماعت کے ماہانہ ٹیسٹ میں ملا کرتا تھا ۔
یہی سب سوچتے ہوئے ایک روز مجھ پر رقّت طاری تھی کہ بیوی نے آکر ٹوک دیا۔ کہنے لگیں ،’’ اوفوہ اس وقت تو گھر میں پیاز بھی نہیں کاٹی جارہی ۔ او ر ٹی وی پر بھی کامیڈی سیریل چل رہا ہے ۔ پھر یہ آنکھیں گیلی کیوں او رمنھ لٹکائے کس لیے بیٹھے ہو۔‘‘
میں نے انہیں نرمی سے سمجھایا ، ’’ بی بی،آج کل بار بار میرے سامنے نہ آیا کرو۔ کم سے کم دو ہفتوں تک احتیاط برتو۔ ان دنوں پورے ملک میں طلاق کے ایمان افروز مسئلے پر بحث چل رہی ہے۔ میں ٹھہرا پرسنل لابورڈ کی شریعت کا مخلص پیروکار ۔ کہیں جو ش عقیدت میں تم سے بحث چھڑ گئی او رغلطی سے تمہیں طلاق پڑ گئی تو میرا اس بڑھاپے میں کیا ہوگا۔ مجھے تو نان و نفقہ بھی نہیں ملے گا‘‘۔
’’ اچھا تو یہ ادارے میں تمہارے ۔ پرسنل لا بورڈ کی آڑ میں مجھ سے چھٹکارے کی سوچ رہے ہو؟ ‘‘ بیوی نے آنکھیں نکال کر کہا۔
’’ارے ارے یہ کیا کہہ رہی ہو نیک بخت ، یہ سفید بال لے کر میں بھلا کہاں جاسکتا ہوں ۔‘‘ میں نے احتجاج کیا۔ مگر وہ کہاں رکنے والی تھیں ۔
’’ بال کیا اب سفید ہوئے ہیں ۔ شادی کے وقت سے تمہارا خون او ربال دونوں سفید چلے آرہے ہیں ۔ وہ تو اب دو تین سال سے خزاب لگانابند کر رکھا ہے۔ رہ گئی بڑھاپے کی بات تو وہ بھی ابھی گھٹنوں کے بل چل رہا ہے اور یہ شروع کا بڑھاپا ہی سب سے خطرناک ہوتا ہے۔ بلکہ سچ پوچھو تو جب یہ بڑھاپا عنفوان شباب سے گزرتا ہوا بزرگی وبالیدگی کے دور میں داخل ہوگا تب بھی تمہارے کیریکٹر کی گارنٹی کم از کم میں تو ہر گز نہیں دے سکتی ۔ یاد نہیں مرزا غالب کو اس عمر میں بھی کیا فکر رہتی تھی ۔ رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے ! اور تم ٹھہرے مرزا کے خاص مرید !‘‘ بیوی نے چند جملوں میں ہی میرے زندگی بھر کے نامۂ اعمال پر خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ مگراس سے پہلے کہ میں کچھ اور احتجاج کر پاتا وہ سانس لینے کے لیے رک کر پھر شروع ہوگئیں ۔ ’’ اور ہاں کان کھول کر سن لو۔ یہ پرسنل لابورڈ والی طلاق کی دھمکی کسی اور کو دینا ۔ میں کوئی جاہل عورت نہیں ہوں جو اس دھمکی میں آجاؤں گی ۔ تم طلاق کا حق لیے بیٹھے ہو تو میرے مذہب نے مجھے بھی کئی حق دیے ہیں ۔ تم میرا نان ونفقہ بند کروگے میں تمہارا ناطقہ بند کردو ں گی۔‘‘
میں سچ مچ سہم گیا ، اور اب اسی میں عافیت تھی کہ ٹی وی پر ساس بہو کے سیرل والا چینل لگایا جائے ۔ میں نے وہی کیا لیکن بیوی نے اس عمل پر جس رد عمل کا اظہار کیا اسے دیکھ کر مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ چینل بدلنے پر وہ مجھے چھوڑ کر ٹی وی سے رجوع ہوجائیں گی او ربڑے شوق سے سیریل میں ساس بہو کے جھگڑوں کی بجائے اس میں کام کرنے والی خواتین کے میک اپ ، نئے فیشن کے لباس اور زیورات کا ابغور مطالعہ شروع کردیں گی۔ مگر اس کی بجائے انہوں نے جھٹ سے ٹی وی کاریموٹ اٹھا کر کھٹ سے ٹی وی بند کردیا او ربولیں۔ ’’ تم کیا مجھے عام سیریل زدہ جاہل عورت سمجھتے ہو؟ اگر تمہاری طرح ہر وقت نیوز چینل نہیں دیکھتی تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دماغ سے کچھ کمزورواقع ہوئی ہوں ۔ تمہارے نیوز چینلوں پر دکھایا ہی کیا جاتا ہے؟ وہی اپنے اپنے مکر و فریب پر بے شرمی سے مسکراتے ہوئے منحوس چہرے ، ایک دوسرے پر چلاّتے ہوئے پارٹی ترجمان چیخ چیخ کر خبریں بیچتے ہوئے نیوز ریڈر۔ ہر نیوز چینل کی الگ پالیسی ۔ کوئی اس پارٹی کے حق میں ، کوئی اس پارٹی کے حق میں ۔ ان سے تو یہ سیریل اور فلموں والے تفریحی چینل بہتر ہیں ۔ کم سے کم جی تو بہلا تے ہیں ۔ یہ تو ہوگئی ٹی وی کی بات ۔ اب اصلی بات کی طرف آؤ۔‘‘
میں سہم گیا ۔’’ کون سی اصلی بات ؟ ‘‘ میں نے پوچھا ۔
’’ طلاق کی بات او رکیا! مجھے یہ بتاؤ کہ جب بھی مسلمان عورتوں کو مذہب اور شریعت کے مطابق ان کا حق دینے کی بات آتی ہے تو تم مردوں کے پیٹ میں درد کیوں ہونے لگتا ہے ۔ جن کا اسلام اور قرآن میں کوئی تصور نہیں آستینیں چڑھا کر کیوں عورتوں پر مرد کا ظلم جاری رکھنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ طلاق شدہ عورت کو گزر بسر کا خرچ دینے کی بات ہو یا بیک وقت تین طلاق دینے کے رواج کو ختم کرنے کا معاملہ، یہ اسلام کے کچھ خود ساختہ ٹھیکیدار فوراً مذہب میں مداخلت کا شور کیوں مچانے لگتے ہیں ۔ یہ لوگ کیا خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہیں جنہوں نے تین طلاق کے رواج سے بر ملا اپنی نفرت کا اظہار کیا ہے ۔ جس کی وجہ سے سعودی عرب اور پاکستان جیسے سبھی مسلمان ملکوں نے ایک وقت میں تین طلاق پر پابندی لگا رکھی ہے۔ تمہارا پرسنل لا بورڈ کیا ان سے بھی زیادہ مسلمان ہے کہ اس نے پوری قوم کواس خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے ، اور جس عمل کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے قابل نفرت قرار دیا تھا اس کے حق کی حفاظت کرنے پر ایسے تلا ہوا ہے جیسے اس کے چھن جانے پر بیس کروڑ مسلمان ایک دم کافر ہوجائیں گے ۔ اور تم کیا سمجھتے ہو؟ بورڈ کیا یہ سب مسلم پرسنل لا کی محبت میں کرر ہا ہے؟‘‘
’’ اور کس کی محبت میں کررہا ہے ؟‘‘ میں نے مری ہوئی سی آواز میں کہا ۔
’’ یہ سب اپنے آپ سے محبت کا معاملہ ہے ۔ یہ بڑا کمپلیکس او ربہت پھیلا ہوا پیچیدہ معاملہ ہے محترم جو آپ کی نرم ناز ک عقل شریف میں اتنی جلدی نہیں آئے گا۔ اس لیے ہونقوں کی طرح میری طرف دیکھنا بند کیجئے ۔ یہ تھیلا لے کر ذرا بازار سے ایک کلو ڈٹر جنٹ پاؤڈر ، دو کلو چینی او رناشتے کے لیے انڈے لے آئیے ۔ او رہاں ایک کلو بھنڈی بھی ۔ آج بھنڈی پیاز کھانے کو جی چاہ رہا ہے‘‘۔
میں نے پرسنل لا بورڈ کو وہیں صوفے پر چھوڑ کر تھیلا ہاتھ میں لیا اور سرجھکا کر بازار چل دیا۔
4مئی ،2017 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslim-personal-law-board-zindabad/d/111027
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism