New Age Islam
Wed Sep 18 2024, 10:30 AM

Urdu Section ( 12 Sept 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Where did ISIS come from? داعش کہاں سے آئی؟

نصرت مرزا

8 ستمبر، 2014

دولت اسلامیہ فی العراق و شام نامی نئی تنظیم نے ابوبکر البغدادی کی رہنمائی میں اور کچھ مہینوں پہلے جنم لیا اور جیسے ہی یہ تنظیم عراق میں داخل ہوئی کامیابی نے اس کے قدم چومنا شروع کردیئے ۔ 2 جنوری 2014 کو الرفع کے علاوہ اس نے 20 عراق شہروں پر قبضہ کر لیا ۔ جس میں سب سے اہم شہر حلب تھا جہاں سے انہیں 5.3 ارب ڈالر کا اسلحہ مل گیا جس میں اپاچی ہیلی کاپٹر بھی تھے اور عراق فوج میدان چھوڑ کر اس طرح بھاگی جیسے کوئی طے شدہ منصوبہ ہو۔ اس کے بعد ابو بکر البغدادی نے اپنے آپ کو تمام دنیا کے مسلمانوں کا امیر المومنین بنا لیا اور مسلمانوں کے لئے مقدس مقامات کو مسلکی بنا کر حملہ کرنے کا اعلان کیا ۔ اس نے اپنے عزائم کا اعلان  اس طرح کیا کہ وہ مسلمانوں کی پرانی سلطنت کا قیام چاہتے ہیں جو عراق ، شام ، اردن  ، اسرائیل اور ترکی کے کچھ علاقوں پر مشتمل تھی ۔ یہ اسرائیل اور شام ترکی کے لئےبھی خطرہ  کی گھنٹی تھی، بعد میں جاکر اس نے اسرائیل کے مقبوضہ علاقہ بائیٹس پر حملہ کر کے مسلمانوں  کے سامنے اپنی معتبری  ثابت کرنے کی کوشش کی، ساتھ ساتھ اس نے عراق، شام اور اردن کے علاوہ کردوں کے پیش مرگہ تنظیم کے اہلکاروں کو بھی مارنا شروع کردیا ۔ اب تک اس نے ایک امریکی صحافی جیمس فولی کو ایک داعش کے ایک برطانوی شہری نے قتل کرایا ۔ اس کے بعد کرد پیش مرگہ کے دو کارکنوں کو ہلاک کر کے کردوں کو بھی چیلنج کردیا ۔

سوال یہ ہے کہ یہ داعش نامی تنظیم کہاں سے آئی، ہم نے اس پر تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اِس میں یوروپی ممالک  کے علاوہ امریکی رضا کار شامل ہیں۔اس وقت حیرت ہوئی جب ہالینڈ اور دیگر یوروپی ممالک نے کہا کہ داعش کے زخمی کارکن ہالینڈ کے راستے جائیں گے، پھر برطانیہ بھی خاموش رہا ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ داعش کی تنظیم کی تربیت اردن میں ہوئی اور امریکہ کےنئے قدامت پسند دانشور بھی اس پر بہت خوش تھے ،ان کو اسرائیلی سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل رہی ہے ۔ ری پبلک او ر ڈیموکریٹک سیاسی جماعتوں کو بھی یہ سرمایہ کار حکومت میں لاتے رہے ہیں ۔ امریکی صدر اوباما جنہوں نے اپنے منشور میں کشمیر اور مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کاعندیہ دیا تھا ۔ وہ اِس مسئلہ کو حل کرنے میں ناکام رہے او ر جان کیری نےبرملا ا س ناکام ہونے کااعتراف کیا اور اِس کی ذمہ داری اسرائیل پرڈالی۔ اِس کے بعد امریکہ کی پالیسی اس سلسلے میں بے رُخی ہوگئی شاید اسی لئے کہ وہ کچھ اور سازش کرنے میں مصروف تھے  تا ہم داعش کی بڑھتی ہوئی پیش رفت کو روکنے کےلئے خلیج میں ایک بحری بیڑہ اور چند سو فوجی بغداد میں بھیج دیئے اور اس کےبعد اُن پر فضائی حملہ کیا اور آہستہ آہستہ عراق میں امریکہ اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا تاثر دے رہا ہے ۔ صرف اس لئے کہ داعش کے لوگ ایک حد سے آگے نہ  بڑھیں اور امریکی مفادات کو نقصان نہ پہنچے جب کہ انہوں نے ایک آئل فیلڈ پر قبضہ بھی کرلیا ہے مگر امریکہ  اُس کو ایک حد سے آگے نہیں  جانےدے گا تاہم عراق، شام میدانِ جنگ بننے کےبعد کئی امریکی  و برطانوی قلمکار لکھ رہے ہیں کہ عراق پر حملے کےوقت سابق صدر صدام حسین نے درست ہی کہا تھا کہ یہ ‘‘ جنگوں کی ماں’’ ہے جہاں ایک جنگ کے بعد دوسری جنگ ہوتی رہے گی۔

‘‘ داعش کے ساتھ ’’ صدام کے آخری ساتھی عزت ابراہیم الدوری شامل ہیں تاہم ان کے مقاصد صرف وہ نہیں ہیں جن کا داعش نے اعلان کیا ہے بلکہ اِس کے سوا بھی ہیں ۔ ایک تو یہ شام میں امریکہ اور عرب ممالک کو کامیابی  حاصل نہیں ہوسکی کیونکہ روسی اور چینی مددان کےساتھ تھی مگر داعش اس کو سخت نقصان پہنچارہی ہے اور شام کے باغیوں نے بھی زور پکڑ اہے اور انہوں نے اقوام متحدہ  کے درجنوں  اہلکاروں کو قید کرلیا ہے۔ اس تنظیم کامقصد صہیونی ، یینون منصوبہ کو پایۂ تکمیل کو پہنچا نا لگتا ہے جس میں عراق  کے تین ٹکڑے شیعہ و سنی اور کرد عراق کرنا مقصود ہے۔ اس کے ساتھ شام کو بھی تقسیم کرنا ہے ۔ شام میں  اب تک 2 لاکھ شہری شہید ہوچکےہیں اور 30 لاکھ کے قریب پناہ گزین بن چکے ہیں ۔ شام کو کمزور کرنے کا مقصد ایران کو بھی نقصان پہنچانا تھا او رمصر کو بھی مسلمان اور عیسائی بنیادوں پر تقسیم کرنا مقصود ہے مگر عرب ممالک ‘‘شاطر’’ کے اصل منصوبہ سے  ناواقف  تھے جس کی وجہ سے وہ اب پریشانی کے عالم میں اپنے بچاؤ کی تدبیر یں کرتے دکھائی دے رہے ہیں ورنہ پہلے ترکی کے ذریعے یہ مجاہدین شام اور عراق جاتے رہے ہیں۔

کسی بھی عرب یا مغربی ملک سے آتے تھے ، ترکی کے ہوٹلوں میں ٹھہرتے تھے، کوئی 450 کلو میٹر کی سرحد اسی طرح کی سرحد جیسی پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہے ان مجاہد ین کے لئے ہائی وےکا کام کرتی تھی اور عراق اور شام میں داخل ہوکر کہیں روپوش ہوجاتے تھے، یہاں تک کہ داعش کے تربیت یافتہ افراد آپہنچے جو تقریباً 5 ہزار کے قریب تھے، یہ منتظر مجاہدین داعش کے ساتھ مل گئے اب اُن کی تعداد 10 سے 20 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔ امریکہ اور یورپ میں کہا جارہا  ہے کہ یہ لوگ اس طرح سے قتل کررہے ہیں جو اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے ۔ اس طرح عیسائیوں  یا یزیدیوں کا قتل نہ تواسپین میں ہوا اور نہ آسٹریا میں جب مسلمانوں نے یہ علاقے فتح کئے تھے ، اس پر ہمارا کہنا ہے کہ بدنام مسلمانوں کو کیا جارہا ہے  جس میں مشرق وسطیٰ کی 1916 کی سرحدوں کو تبدیل کرنا ہے ۔ اس وقت ہاشمی خاندان کے ایک بھائی فیصل  کو 1921 میں عراق کا بادشاہ بنایا اور دوسرے بھائی عبداللہ کو اردن کا کیونکہ وہ سلطنت عثمانیہ  کے خلاف برطانیہ کی مدد کرتے رہے تھے، اب وہ عیسائیوں کو مصر میں جمع کررہے ہیں تاکہ مصر کو دو ریاستوں میں  تقسیم  کیا جاسکے ایک مسلمان مصر اور دوسرا عیسائی مصر، اس لئے امریکہ اور مغربی  ممالک عیسائیوں کو قتل اور خوف و ہراس کر کے فرار ہوکر مصر میں جمع ہونے کی پذیرائی کررہے ہیں، بظاہر وہ اپنے عوام کو داعش کی طاقت  اور اُس کے ظلم و ستم کی داستان سنارہے ہیں جب کہ دراصل وہ ایک طے شدہ منصوبے پر کام کررہے ہیں جس کا ہم نے کئی مرتبہ ذکر کیا ہے۔ ( یہ مضمون نگار کے اپنے خیالات ہیں )

8 ستمبر، 2014  بشکریہ : روزنامہ خبریں ،  نئی دہلی

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/where-isis-come-/d/99027


Loading..

Loading..