نصرت مرزا
22 ستمبر ، 2014
3 ستمبر 2014ء کو القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے بھارت میں جنوبی
ایشیائی شاخ قائم کرنے کا اعلان کیا اور اس کی سربراہی عاصم عمر کو سونپ دی گئی۔ انٹرنیٹ
پر 55 منٹ کے عربی اور اُردو زبانوں میں جاری ہونے والے بیان میں ایمن الظواہری کا
کہنا تھا کہ امتِ مسلمہ اپنی سرزمین کی آزادی، خودمختاری کی بحالی اور خلافت کے دوبارہ
قیام کیلئے دشمنوں کے خلاف جہاد کرے۔ برما، بنگلہ دیش، آسام، گجرات، احمد آباد اورکشمیر
کے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں، ان کی مدد کی جائیگی۔ انہوں نے
اِس شاخ کے قیام کو اِن علاقوں کے مسلمانوں کے لئے خوشخبری قرار دیا۔ اُن کا کہنا تھا
کہ القاعدہ کی یہ شاخ اسلامی حکومت کے قیام اور جہاد کے پرچم کو لے کر آگے بڑھے گی۔
مگر ہوا کیا کہ اِس کے قیام کے تین روز بعد ہی اِس تنظیم نے مبینہ طور پر پاکستان کے
سب سے بڑے شہر کراچی میں پاکستان نیول ڈاکیارڈ پر حملہ کردیا۔ اس ڈاکیارڈ کی بہت اہمیت
ہے کیونکہ یہاں جب جدید فرانسیسی سب میرین کو جوڑا جارہا تھا تو فرانسیسی انجینئروں
پر حملہ کیا گیا۔ اسی ڈاکیارڈ میں تین جدید تباہ کن جہاز جس میں اورین طیارے کی خصوصیات
شامل تھیں بنائے گئے اور اب ترکی کی مدد سے ایک بڑا جہاز تیار کیا جارہا تھا، شاید
اس کو تباہ کرنا مقصود رہا ہو۔ ایسے واقعات سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ القاعدہ کا کہنا
کچھ بھی ہو مگر یہ کرتے وہی ہیں جس میں پاکستان کو نقصان پہنچے۔ بعض تجزیہ نگاروں کا
یہ بھی کہنا ہے کہ یہ تنظیم امریکہ کی مدد کے لئے معرضِ وجود میں لائی گئی ہے تاکہ
امریکہ کوئی عمل کرے تو یہ تنظیم اس طرح ردعمل کرے کہ وہ امریکہ کے حق میں جائے اور
اس رد عمل کا فائدہ امریکہ ہی کو پہنچے۔ مثال کے طور پر امریکی عوام امریکی انتظامیہ
اور امریکی جنگی لابی کو امریکہ سے باہر جنگ کی اجازت دینے کی حامی نہیں تھی مگر9
/11کے واقعہ نے امریکی عوام پر جنگی جنون سوار کردیا اور انہوں نے اسلامی انتہاپسندوں
کو دشمن قرار دے کر حملے کی اجازت دیدی۔ جمی کارٹر انتظامیہ کے سلامتی امور کے مشیر
نے گرینڈ جیمس بورڈ کے نام سے جو کتاب لکھی وہ آج امریکہ کی پالیسی کی انجیل مانی جاتی
ہے۔ اس کے مطابق امریکہ نے اپنے دشمنوں کا جب احاطہ کیا تو اُن کو روس، فرانس اور چین
کے علاوہ سب سے بڑے مخالف اپنے عوام نظر آئے جواپنی حکومت کے عالمی عزائم اور دُنیا
پر امریکی بالادستی قائم کرنے کی کسی بھی مہم جوئی کو روکنے کیلئے آہنی دیوار کے طور
پر سامنے کھڑے تھے کیونکہ وہ خون خرابے کے علاوہ امریکی سپاہیوں اور عوام کا خون بہانے
کے بھی خلاف تھے چنانچہ ان سے اجازت کے حصول کیلئے 9/11 کے واقعہ کو ترتیب دیا گیا
اور اس کیلئے مسلمان جہادیوں کو جو فلسطین میں ظلم و ستم کی وجہ سے بہت سخت غصہ کے
عالم میں تھے اس طرح استعمال کیا گیا کہ امریکی عوام نے غصہ کے عالم میںاپنے حکمرانوں
کو اجازت دیدی کہ وہ مسلمانوں پر چڑھ دوڑیں اور جگہ جگہ مسلح تنظیمیں بنا ڈالیں جو
اب کبھی کبھار خود امریکی عوام پر بھی حملہ آور ہوجاتی ہیں ۔
بھارت کے ایک سابق سفیر اور
لکھاری بہادر کمار نے جنوب ایشیائی القاعدہ کے وجود کے اعلان کے بعد لکھا ہے کہ ’’ہماری
ایجنسیاں کتنی ہی مستعد اور کتنی ہی بہادری کے دعوے کیوں نہ کرتی ہوں۔ بھارت کی ریاست
ٹوٹ جائے گی اگر مسلم آبادی کا ایک فیصد بھی جہاد میں شامل ہوجائے گا۔ اُن کا کہنا
ہے کہ یہ سچائی پر مبنی حقیقت ہے۔ جس کو ہماری سیاسی برادری کو اپنے ذہن نشین رکھنا
چاہئے۔‘‘ڈان مرفی CSM عالمی دہشت گردی پر ایک اتھارٹی کی سی حیثیت رکھتے
ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’’مسلمان دُنیا میں سلفیوں کو روکنے کا نظام دبائو کا شکار
ہے۔ یہ درست ہے کہ بھارتی ایجنسی ان لوگوں کو روکنے کی کوشش کرے گی مگر بھارت خطرہ
سے دوچار رہے گا کیونکہ آسام، گجرات اور جموں و کشمیر میں بھارت کے ہندوئوں نے مسلمانوں
کو جو زخم لگائے ہیں وہ ناقابلِ علاج ہیں۔ مندمل نہیں کئے جاسکتے اُن زخموں کو بھرا
نہیں جاسکتا۔‘‘
روسی ماہر شرقیات والیری کاشین
کا خیال ہے کہ ’’بھارت القاعدہ کی دھمکیوں کا جواب دینے کے قابل ہے۔ بھارت دہشت گردوں
کا مقابلہ کرنے کے بہت زیادہ طریقے وضع کرچکا ہے، اس ملک کو انسداد دہشت گردی کے حوالے
سے وافر تجربہ حاصل ہے۔ بھارت کئی مرتبہ دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بن چکا ہے لیکن
ان حملوں کا کامیابی سے مقابلہ کیا گیا۔ ہندوستان کے حکام سرحدی علاقوں کے حالات کی
موثر نگرانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی بھارت اسلامی ممالک بالخصوص افغانستان اور
وسطی ایشیائی ملکوں کے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ آج خلافت کے قیام کا امکان
کم ہے لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔‘‘ دوسری روسی ماہر شرقیات یلینا
میلکومیان کے مطابق ’’ایسی جنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ موصوفہ کے مطابق
یہ کہنا مبالغہ ہوگا کہ کسی بھی لمحے مذہبی جنگ شروع ہوسکتی ہے کیونکہ داعش جیسی تنظیموں
کے خلاف سنجیدہ اقدامات کئے جارہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ مستقبل قریب میں ان اقدامات میں
تیزی لائی جائے گی کیونکہ سب پر واضح ہے کہ ’’القاعدہ‘‘ اور ’’داعش‘‘ کے منصوبے کس
حد تک خطرناک ہیں۔ دوسری طرف اگر ان تنظیموں کو ختم نہ کیا جائے اور ان کو بڑا نقصان
نہ پہنچایا جائے تو بڑی جنگ کا خدشہ موجود ہے۔ یہ بہت مستعد اور مضبوط طاقت ہے اور
اس کے حامیوں کی تعداد کم نہیں۔‘‘
ویسے القاعدہ کا نام ہم نے
9/11 کے بعد ہی زوروشور کے ساتھ سنا ورنہ بہت کم لوگ اِسکے بارے میں جانتے تھے۔ اگرچہ
اس تنظیم کی بنیاد 1980ء میں تنظیم مکتب الخدمت کے نام سے پڑی اور 1988ء میں القاعدہ
کے نام سے متعارف ہوئی۔ اس تنظیم نے مسلمان کو نقصان پہنچانے میں جو کام کیا وہ کسی
غیرمسلم تنظیم اور ملک نے بھی نہیں کیا۔ لاکھوں افراد کو تو خود پاکستان میں مار دیا،
اس کے علاوہ افغانستان، عراق، یمن، شام، سعودی عرب غرض ہر ملک میں اِس کی تباہ کاریوں
کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔ سب سے آسان نشانہ مسلمان تھے ان کو مارا جاتا رہا ہے۔
پاکستان کے دفاع کے ہر اڈے کو یہ نشانہ بنا چکی ہے، کامرہ ایئربیس، جی ایچ کیو، مہران
بیس اور دیگر اڈوں کو نقصان پہنچانے میں اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اب یہ برما، بنگلہ
دیش اور بھارت کے شہروں کو آزاد کرانے چلی ہے تو سمجھ لیں کہ مسلمانوں کی خون کی ندیاں
بہیں گی۔ میرا اس سلسلے میں سوچی سمجھی رائے یہ ہے کہ جہاں امریکہ جاتا ہے وہاں القاعدہ
پہنچ جاتی ہے اور یہ امریکہ کی مدد کو جاتی ہے یعنی ردعمل میں نقصان بھی امریکی ہدف
کو پہنچے جبکہ امریکہ کا ہدف مسلمان ہیں۔ امریکہ بھارت کو ایک مضبوط ملک بنانا چاہتا
ہے جب القاعدہ کا خوف ہوگا تو بھارت کوئی پارٹی یا ان پارٹیوں پر مشتمل کوئی گروپ نریندر
مودی جو خود مسلمان کا دوست نہیں ہے کیخلاف محاذ آرائی نہیں کرسکے گا اور اس کو حکومت
سے بے دخل کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکے گی کیونکہ القاعدہ کی شکل میں ایک دشمن
موجود ہوگا جو مودی کو مضبوط سے مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔ مسلمان اس کی حمایت
کرتے ہیں، حمایت کے شبہ میں دبائے جائینگے یا مارے جائینگے۔ ایک صورت یہ بھی ہوسکتی
ہے کہ القاعدہ کا خوف دلا کر پاکستان کی بھارت کی مخالفت کو کم کیا جاسکتا ہے یا امریکہ
نے ضرورت محسوس کی تو القاعدہ کے کسی عمل کے ذریعے دونوں ملکوں میں لڑائی کرائی جاسکتی
ہے۔ کھیل امریکہ کے ہاتھ میں رہیگا۔ وہ بھارت کو مضبوط بھی کریگا اور کمزور بھی کرتا
رہیگا کہ یہی اس کی پالیسی ہے کہ:
’’ہوئے دوست تم جس کے دشمن آسماں کیوں ہو‘‘
یہ بہت جدید زمانہ ہے، اس
میں پالیسیاں بہت پیچیدہ بنائی جاتی ہیں اور پاکستان جیسے سادہ اور عام لوگ کم ہی ان
پالیسیوں کو سمجھتے ہیں۔ ایک وقت کے دشمن امریکہ ایک عمل سے دوست بنا دیتا ہے جیسے
امریکہ اسلامی اسٹیٹ جسے پہلے داعش کہا جاتا تھا کہ ڈر سے عرب اور عجم کے ممالک کو
ہم پیالہ و ہم نوالہ کرتے جارہا ہے۔ عراق، شام اور مصر کی تقسیم بھی کرے گا اور انہی
ممالک کے ہاتھوں کرائے گا جو اُن کا ساتھ دے رہے ہیں۔
22 ستمبر ، 2014 بشکریہ: روز
نامہ جنگ ، کراچی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/south-asian-al-qaeda,-pakistan/d/99198