) پہلی قسط (
نورین علی حق
9فروری،2018
اس موضوع پرقلم اٹھانے سے قبل موافقین و مخالفین کی کتابوں اور نظریات کے مطالعے کے دوران عجیب و غریب کیفیات سے میں گزرا ، جہاں مقامات فرحت و انبساط تو ناپید تھے البتہ مقامات آہ وفغاں اتنے تھے کہ دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے ،مگر میرے لیے ان مقامات آہ و فغاں سے صرف نظر کر لینا اس لیے بھی مشکل امر تھا کہ جس زمانے میں ہم سانسیں لے رہے ہیں وہاں زیادہ تر بیماریوں کا علاج جراحت ہے، جس کی نظیر مجھ سے پہلے موجود تھی اور اس نظیر سے خاصی ڈھاریں بندھی ۔ تصوف کے دور عروج کے سرخیل و رہنما حضرت شیخ محی الدین عبدالقادر جیلانی، حضرت خواجہ معین الدین چشتی غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ ،حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ، حضرت خواجہ نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت شیخ شرف الدین یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ او ران جیسے بے شمار صوفیائے کرام نے سفینہ تصوف کو زوال و ادبا ء سے محفوظ رکھنے کے لیے بند باندھے او رجہاں کہیں طنابیں ڈھیلی محسوس ہوئیں ،تنقید ،مواعظ سخت ترین شرائط و ضوابط اور اصولوں کے ذریعے انہیں مضبوط و مستحکم کرنے کی جانکاہ کوششیں کیں ۔
اس کے باوجود زمانے کے عروج و زوال کے اصول کے مطابق آج اپنے زوال و ادباء او رلامتناہی انحطاط کے اسباب کی تلاش میں سرگرداں ہونا پڑا۔ زندگی کی رمق کی بقا کے لیے یہ از حد ضروری بھی ہے کہ زوال و انحطاط کے سخت ترین سناٹے او رسیاہ ترین اندھیرے میں کوئی شعاع امید کوئی قندیل رہبانی تلاش کرلی جائے، جب تک ناکامیوں او رزو ال کے اسباب کا پتہ نہیں چلتا اور اس کی تلاش کے بعد اس کا اقبال او رآگے کا لائحہ عمل طے نہیں ہوتا ، تب تک کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی ۔ ہماری ترقی دنیاوی ترقی نہیں ہے، ہماری ترقی سامان تعیش نہیں ہیں، ہماری ترقی اسباب دولت و ثروت نہیں ہیں نہ ہی حکومت سازی ہے ۔ ہماری اصل ترقی تو یہ ہے کہ ہم تزکیہ باطن اور تصفیہ قلب کے ذریعے خود کو تصوف کے اس طلائی عہد اور کڑی سے منسلک و متصل کردیں،جہاں ادنیٰ و اعلیٰ کا امتیاز معدوم ہوتا تھا، اپنے اور غیر میں کوئی تفریق نہیں ہوتی تھی، کسی بھی انسان کو اخلاق پیش کرنے میں مذہب حائل نہیں ہوتاتھا بلکہ مذہب دوئی اور غیریت کی دیواروں کو زائل کردیتا تھا، جہاں پہنچ کر علامہ ابن جوزی جیسے غیر تصوف پسند کو بھی کہنا پڑتا تھا کہ وما کان المنقدمون فی التصوف الا رؤسافی القرآن و الفقہ والحدیث والتفسیر (تلبیس ابلیس ص 345)
تزکیہ باطن اورتصفیہ قلب ہی وہ مرکزی نقطہ ہے،جس سے دور ہوکر ہم گم گشتۂ راہ ہوگئے اور متصوفانہ عروج و ارتقا او راعلیٰ روحانی منازل تک رسائی کو ممکن بنانے والے صراط مستقیم سے کہیں دور جا پڑے۔
وقد خاب من دَشھَا
زوال کو جھٹکا او ر زلزلہ نہیں ہے کہ چشم زون میں آیا اور سب کو تہہ و بالا کرکے چلا گیا۔ زوال کے آثار پہلے ہویدا ہوتے ہیں پھر وہ آہستہ آہستہ ہماری زندگیوں میں نظر آنے لگتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ ترقی کے لیے انتھک او ربے لاگ کوششوں اور جد وجہد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن زوال کو تو بس بے توجہی ،بے فکری او ربے اعتدالی کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنا کام کرجاتا ہے۔اگر ہم زوال کے ابتدائی زمانے میں ہی بیدار نہیں ہوتے تو وہ زوال ، ادبار میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے ۔ یہی ہوا ہماری خانقاہیت کے ساتھ کہ متقدین صوفیہ کی روشن و تابناک زندگیاں اتنی پر کشش تھیں کہ ہم نے عوام کے ساتھ ساتھ خود کو بھی دور سے ہی ان کا تابناکی سے محفوظ کرایا گیا مگر اس کے حصول کی راہوں پر چلنے سے گریز کرتے رہے او رتجاہل عارفانہ اختیار کرگئے ۔ تن آسانی، زندگی کی چمک ،مادی وسائل اور آسائش نے ہمیں ہمارے اسلاف و اکابر سے عملاً دور کردیا او ر ہم یہ سمجھتے رہے کہ رسوم و آداب کی ادائیگی کے ذریعے ہی ہم سب کچھ حاصل کرلیں گے جب کہ قرآن و احادیث اور متقدمین صوفیہ نے واضح انداز میں ہمیں بتادیا تھا کہ تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن ہی وہ قطب نما ہے، جس سے مربوط رہ کر ہم اپنے مقاصد میں کامیاب و کامراں ہوسکتے ہیں ۔قد ا فلح من تزکی و دکرا سم ربہ فصلی (الا علیٰ 14-15,87ا) فدا فلح من ذگھا و قد خاب من دشھا (سورہ شمس ) ان تعبد اللہ کانک تراہ فان لم ئکن تراہ فانہ یراک ( صحیح بخاری 12:1) اور حضرت امام حسن بصری کے قول قدا فلح من ذکی نفسہ و حملھا علی طاعۃ اللہ ( معلم التنزیل علی ھامش الخازن 21:8)جیسی آیات قرآنی، حدیث نبوی اور صوفیہ کے اقوال کو ہم اپنی زبانوں سے ادا تو کرتے رہے مگر ان پر عمل کرنے کی طرف مائل نہیں ہوسکے ۔ نتیجتاً قد لحاب من دسھا کی تنبیہ ہماری کھلی آنکھوں کے سامنے اپنے بال و پر پھیلاتی رہی اور ہم پدرم سلطان بود کی افیم کھا کر اس کے نشے میں مست الست رہے۔ لہک لہک کر غوث پاک ، خواجہ غریب نواز، خواجہ بختیار کاکی، بابا فرید اور خواجہ محبوب الہٰی کی معتبر اور غیر معتبر کرامات تو سناتے رہے اور عوام سے نذر انے وصول کرتے رہے مگر عملی طور پر ان راہوں پر چلنے کی ہمت نہ کرسکے ، جن پر چل کر محی الدین عبدالقادر ، غوث پاک، معین الدین چشتی، خواجہ غریب نواز ، فریدالدین ، گنج شکر اور نظام الدین بدایونی محبوب الہٰی بنے تھے ۔ اپنے اصل اثاثے اور سرمائے خانقاہیت ، متصوفانہ رویے اور تعلیم اخلاق کو لاوارث چھوڑ کر درگاہیت کی راہوں میں ہم اتناآگے اور دور تک کا سفر طے کرچکے ، جہاں سے واپسی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔
زمانے کے چوطرفہ حملوں ،مذمتوں اور زوال وادبار کی سنگینیوں نے جب ہمیں اپنے مخمور نگاہوں کو کھولنے پر مجبور کیا تو ہمارے سارے قیمتی اثاثے اور سرمائے لٹ چکے تھے ان اثاثوں اور سرمائے کی تلچھٹ اگر کہیں ہمیں نظر بھی آئی تو ہم اس پر عملی دعویٰ پیش کرتے اس کے برعکس ہم نے علمائے ظواہر کی تدابیر او رمولویانہ تاویلات سے کام لیا او راپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی ایسی فکر دامن گیر ہوئی کہ کہ دوسروں کانوربھی ہم پر رشک کا جذبہ پیدا نہ کرسکا بلکہ ہم نے اس نور کو بھی ظلمات کا نام دینے کی ناکام کوشش کی ۔بالآخرمعاصرنا قدو محقق مولانااسید الحق محمد عاصم قادری کو کہنا پڑا کہ ’’ اس تلخ حقیقت کابہر حال اعتراف کرناچاہئے کہ خانقاہی نظام کو جن دعوتی اور اصلاحی مقاصد کے لیے ہمارے اسلاف نے متعارف کرایا تھا ان مقاصد اور اہداف سے ہم بہت دور جا پڑے ہیں ۔ اس نظام کی اصل روح ختم ہوگئی ہے اب صرف ایک رسم رہ گئی ہے جس کو نسلاً بعد نسل نبھایا جارہا ہے۔ افسوس کہ جن خانقاہوں سے کبھی ’’انا الحق‘‘ کا نعرہ مستانہ سنائی دیاکرتا تھا وہاں سے حق کی تجلیات رخصت ہوئیں اب صرف ’’انا‘‘ باقی رہ گئی ہے ۔‘‘ (تحقیق و تفہیم ص 253)
مولانا اسید الحق محمد قاصم قادری کا یہ اقتباس تقریباً بارہ سال پرانا ہے۔ ان بارہ برسوں میں پوری دنیا میں تبدیلیاں رونما ہوئیں بہت کچھ بدل گیا ۔ کتنی ہی حکومتیں نیست و نابود ہوگئیں، کتنے ہی رعونت پسند شاہان مملکت خاک چاٹنے پر مجبور ہوئے ،خانقاہی سطح پر کچھ مثبت تبدیلیاں رونما ہوئیں او رکچھ انتہائی منفی ۔مثبت ان معنوں میں کہ انگلیوں پر شمار کی جانے والی خانقاہوں نے شہزاد گان کی تعلیم و تربیت پر تھوڑی توجہ مرکوز تو کی مگر کتنے ہی نام نہاد صوفیائے خام مد مخالف کے سامنے توانا کا مجسمہ بنے رہے مگر کم پڑھے لکھے عوام کے سامنے حصول زر کے لیے زبان کھولنے کے معاملے میں مزید بے حس ہوگئے ۔ یہ سب کچھ صرف اورصرف اس لیے ہوا کہ ہم نے نفس کشی کے سبق کو طاق نسیاں کی زینت بنا دیا۔
ذات سے بیگانہ احتساب کائنات
متقدمین صوفیہ نے جن امور پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے ان میں ایک احتساب ذات ہے، جہاں پہنچ کر حضرت امیر خسرو جیسا فدائے شیخ بھی پکار اٹھتا ہے ۔ سب سکھین میں چیز موری میلی،دیکھ ہنسی نر ناری ۔لیکن آج احتساب ذات کی طرف ہماری توجہ جاتی ہی نہیں ۔ البتہ احتساب کائنات کا شوق کوٹ کوٹ کر بھر گیا ہے، جن امور ومعاملات کی انجام دہی کے لیے ہم کو کمر بستہ نہیں ہوتے ان تمام امور کو اپنے سامنے والے سے انجام دلوانے کے خواہاں ضرور رہتے ہیں ۔ مریدین و متوسلین اور عوام سے ہم یہ توقع ضرور رکھتے ہیں کہ متقدمین صوفیہ ، تبع تابعین ، تابعین ، اصحاب رسول اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگیوں کو وہ اپنے لیے حرزجان ضرور بنائیں ۔ اس کے برعکس خواص کی خامیوں اور خود اپنی ذات کی آلائشوں سے مسکرا کر گزر جاتے ہیں ۔ ذاتی مفادات او راس کے امکانات ہمیں احتساب ذات کی فرصت اور مہلت ہی نہیں دیتے ۔
جن امور کی ادائیگی بادشاہی عہد میں مفتیان عظام، قاضیان کرام اور علمائے ظواہر کے سپرد تھی ، جن سے عام طور سے ہمارے اسلاف و اکابر خود کو دور و نفور رکھ کر اپنے جمالیاتی پیغامات کو دلوں کی سطح تک پہنچانے کے لیے کوشاں تھے ۔ ہم ان میں بھی مداخلت سے گریزاں نہیں رہے۔ہمارا فرض منصبی احتساب ذات کی سنگلاخ زمین میں گزر کر ادعواالی سبیل ربک با الحکمۃ والموعظمۃ الحسنتہ کے ذریعے احتساب کائنات تھا۔ مگر ہمارے لب و لہجہ سے دعوتی حکمت او رحسن موعظت دونوں ناپید ہوگئے او رہم تصوف کے دور عروج کے بعد مفتیانہ روش کو ہی سب کچھ سمجھ بیٹھے ۔ اشداء علی الکفار سے آگے بڑھ کر اشداء علی المسلمین تو بنے مگر رحماء بینھم تر اھم رکعا سجدا یبتغون فضلا من اللہ و رضوانا کے ا وصاف صحابیانہ سے تہی دست ہوگئے ۔
ہم نے شعوری او رغیر شعوری طور پر علمائے ظواہر کے حصے کے وہ تمام کام کیے، جن سے امت مسلمہ کا شیرازہ منتشر ہوکر رہ گیا او رآسمان نے ہمیں زمین پر دے مارا۔ صوفیہ کی تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے مدعو اقوام کے لیے عملی جانفشانیاں کیں ،تکالیف میں مبتلا ہوئے ، طرح طرح کی آزمائشوں سے انہیں گزرنا پڑا اس کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آسکی او رہم نے کبھی بھی مدعو اقوام کی سرے سے فکر ہی نہیں کی۔ بلکہ ان سے دوریاں اختیار کیں ۔ ان کے سامنے ایک مثال قائم کرنا تو دور پیار کے دو بول نہ بول سکے ،بد عقیدہ مسلمانوں کے رویوں ، بدعقیدگیوں اور خود سے ان کے بعد کے اسباب کی تلاش کیے بغیر ہم سے انسلاک کی تشہیر کرنے والے علماء نے انہیں اسلام سے خارج قرار دے دیا۔ بلکہ ذاتی عناد کی بنیادوں پر بھی ہم مشرب مسلمانوں کو پہلے تو بدعقیدہ ثابت کرنے کی سعی نامقبول کی اور پھر نتائج سے بے پرواہ فتوۂ کفر صادر کردیا ۔ عام طور پر ہم خود کو داعی کی حیثیت سے پیش کرنے میں انتہائی ناکام ثابت ہوئے۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر تو اپنے مرید سے یہ کہیں کہ مجھے قینچی کی ضرورت نہیں ، میرے لیے سوئی لاؤ چونکہ میرا کام کاٹنانہیں جوڑنا ہے او رہم قینچیوں کابے دریغ استعمال کرکے خود اپنے مجتمع قوت و صلاحیت کے خاتمے کاسبب بنتے رہے۔
وقت کا جبری تقاضا تویہ تھا کہ ہم احتساب ذات کے عمل سے گزر کر احتساب ہم مشرباں وہم نفساں کرتے او رپھر احتساب کائنات کا کام خدا خود ہم سے لیتا ہم نے احتساب کے آخری زینے کو پہلا زینہ تصور کر لیا او رجب زمانے نے ہماری کوتاہیوں کی گرفت شروع کی تو ہم اونٹوں کی طرح بدلنے لگے، جب ہمارے عوام عملی اور قولی اعتبار سے ہمارے لیے گنبد کی آواز ثابت ہوئے تو ہمیں انظر الی ماقال ولاتنظر منقال دفاعی حربہ نظر آیا او رہم ندائے ربانی یا ایھا الذین آمنوالما تقو لون ماذاتفعلون کو فراموش کرگئے ۔
علمائے سوء کی دوڑ میں صوفیائے خام
صوفی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ تصوف کے زمانۂ آغاز سے حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلی کے زمانے تک کبھی بھی صوفیہ نے بادشاہوں ، مملکتوں کے سربراہوں او رحکام کی دربار داری نہیں کی اور اپنے علاوہ اپنے مریدین و متوسلین اور خلفا کو بھی بادشاہوں سے دوررہنے کی بزور نصیحتیں کرتے رہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ تصوف کو اموی بادشاہوں کے جبرنے مقبول بنانے میں ثانوی کردار ادا کیا اور سب سے زیادہ اموی بادشاہوں کی عملی مخالفت بھی علمائے راسخون نے ہی کی۔ اس کے باوجود شاہان وقت نے صوفیہ کے دربار میں جبیں سائی کی۔ حضرت مولانا احتشام الدین فریدی، سابق سجادہ نشیں خانقاہ فرید سہسرام فرماتے ہیں ۔
’’ علمائے ظواہر نے وسائل پید ا کرکے شاہی دربار میں دسترس حاصل کرلی۔ مگر یہاں دیکھا کہ بادشاہ وست خود ہی چشتی بزرگ کے معتقد ہیں ۔ آستانوں میں ایک بھیڑ لگی دیکھی ، تحائف اور نذرانے پیش کیے جارہے ہیں یہ دیکھ کر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ نذرانے واپس کیے جارہے ہیں اور قبولیت کے لیے خانقاہ کے خادموں سے سفارش کرائی جارہی ہے ۔‘‘ (تاریخ ابلاغ چشت ۔ص 37)پروفیسر خلیق احمد نظامی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کے سلسلے میں لکھتے ہیں، لیکن استغنا کا یہ عالم رہا کہ سلطان جلال الدین خلجی نے گاؤں پیش کرنے کی اجازت چاہی تو فرما دیا مجھے او رمیرے خدمت گاروں کو تمہارے گاؤں کی چنداں ضرورت نہیں ، میرا اور ان کا خدا کارساز اور سیر سامان ہے۔‘‘ (تاریخ مشائخ چشت ص 172) ہندوستان کے دور اول کے صوفیہ میں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر نے فرمایا تھا کہ لوار دتم بلوغ درجۃ الکبار فعلیکم بعدم الالثفات الی ابناء الملوک ۔( سیرالاولیا، ص 75)
تصوف کے دور اول سے اس معاملے میں بعد کے صوفیہ نے بے توجہی برتی اور اپنے زمانے کے علمائے سوء و علمائے ظواہر کی طرز پرعمل کرتے ہوئے دربار داری اور جاگیر و انعام او راکرام کے حصول کی طرف مائل ہوگئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پھر کسی مولانا ابوالحسن علی حسنی ندوی کے منارے نے کسی بادشاہ کو صوفی کا پیر دباتے نہیں دیکھا ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مولانا ابو الحسن علی حسنی ندوی کی کتاب القراۃ الراشد جلد ثالث کا مضمون المارۃ تتحدث) اور صوفیہ بھی درباروں میں علمائے سوء کی طرح جاہل بادشاہوں کی بے اعتنائیوں کا شکار ہوتے رہے ۔میں ان تمام گفتگو میں ان صوفیہ کو الگ رکھنا چاہتا ہوں، جنہوں نے بادشاہوں تک مذہب کو پہچانے کی سعی کی او راپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ۔ آج بھی اگر کوئی یہ کام کرتا ہے او راس کے ذریعے کسی بادشاہ وقت کے دل سے کسی قوم کی نفرت اور عداوت اگر ہے اور وہ نکل جاتی ہے تو اس میں کیا مذائقہ ہوسکتا ہے ۔ لیکن اس کے برعکس چھوٹے سیاسی لیڈر وں اور علمائے ظواہر کی طرح ہی ذاتی مفادات کو پیش نظر رکھ کر اگر کوئی صوفی حکومت وقت کے سامنے سرنگوں ہوتاہے تو بزور اس کے مذمت ہونی چاہئے ۔
9فروری،2018 بشکریہ: روز نامہ میرا وطن، نئی دہلی
https://newageislam.com/urdu-section/reasons-fall-sufism-its-impact-par-1/d/114268
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism