New Age Islam
Sun Mar 23 2025, 05:12 PM

Urdu Section ( 7 Nov 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Non-Abrahamic Religions Endorsed by the Quran غیر ابراہیمی مذاہب جن کی توثیق قرآن کرتا ہے

 نصیر احمد، نیو ایج اسلام

 14 اکتوبر 2022

 قرآن میں جن اولو العزم انبیاء کا تذکرہ ابراہیم سے پہلے ہوا وہ آدم، ادریس، نوح، ہود اور صالح ہیں جو دنیا کی ہر اہم کتاب پر مبنی مذہبی روایت کے پیشوا ہو سکتے ہیں۔

 -----

 لوگ اکثر یہ کہہ کر قرآن کے پیغام کی آفاقیت پر سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ مشرقی مذہبی روایات پر خاموش ہے اور اس میں خصوصی طور پر صرف انہیں مذاہب کا ذکر ہے جو مشرق وسطیٰ میں زمین کے ایک چھوٹے سے حصے سے نکلے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کا ہر شخص اپنے آباؤ و اجداد کا سلسلہ نسب اسی ماں سے لگاتا ہے جو تقریباً ستر ہزار سال پہلے مشرقی افریقہ میں رہتی تھی اور اس لیے ہر مذہب کی بھی ایک مشترکہ اصل ہے اس حقیقت کے پیش نظر کہ اللہ نے ہماری پوری تاریخ میں انسانوں کی رہنمائی کی ہے۔ قرآن میں جن اولو العزم انبیاء کا تذکرہ ابراہیم سے پہلے ہوا وہ آدم، ادریس، نوح، ہود اور صالح ہیں جو دنیا کی ہر اہم کتاب پر مبنی مذہبی روایت کے پیشوا ہو سکتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ قرآن بنیادی طور پر بنی نوع انسان کی مذہبی تاریخ اور روایت کے عمودی ٹکڑے پر یا ابراہیمی مذاہب پر مرکوز ہے، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے فوری سامعین عرب تھے۔ تاہم، قرآن غیر ابراہیمی مذہبی روایات کا بھی ذکر کرتا ہے اور ان کی تائید بھی کرتا ہے۔ قرآن ان پر زیادہ تفصیلی روشنی نہیں ڈالتا ہے تاکہ اس کے فوری سامعین کو ان مذاھب کے حوالے سے الجھن میں نہ پڑیں جو کہ ان کی اپنی روایات سے بہت مختلف ہوسکتی ہیں۔

 انسان کو کون سی چیز سر بلند کرتی ہے اور کون سی چیز ذلیل اس موضوع پر قرآن میں ایک دلچسپ سورہ ہے جس کا آغاز اللہ کے اولو العزم انبیاء سے متعلق مقامات کی تعظیم سے ہوتا ہے جن کے بہت سے پیروکار ہیں جنہوں نے چار سب سے زیادہ بااثر مذاہب کی بنیاد رکھی ہے۔

 سورہ 95 التین / انجیر

قسم ہے انجیر کی اور زیتون کی

اور طور سِینِین کی

اور اس امن والے شہر کی

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا

پھر اسے نیچوں سے نیچا کر دیا

لیکن جو لوگ ایمان ئے اور (پھر) نیک عمل کیے تو ان کے لئے ایسا اجر ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا

پس تجھے اب روز جزا کے جھٹلانے پر کون سی چیز آماده کرتی ہے

کیا اللہ تعالیٰ (سب) حاکموں کا حاکم نہیں ہے

 آپ دیکھیں آیات 95:1 سے 95:3 میں، اللہ بعض جگہوں/چیزوں کی قسمیں یاد فرما رہا ہے۔

 95:2 کا مفہوم ،(طور سینین)

 طور کا مطلب پہاڑ ہے اور طور سینین کوہ سینا ہے جو موسیٰ سے منسوب ہے جس کا ذکر قرآن کی درج ذیل آیات میں ملتا ہے:

 (19:52) ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے ندا کی اور راز گوئی کرتے ہوئے اسے قریب کر لیا۔

 (20:80) اے بنی اسرائیل! دیکھو ہم نے تمہیں تمہارے دشمن سے نجات دی اور تم سے کوه طور کی دائیں طرف کا وعده کیا اور تم پر من وسلویٰ اتارا۔

 کعب الاحبار اور کئی دوسرے لوگوں نے کہا ہے کہ ’’یہ وہ پہاڑ ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے موسیٰ سے کلام کیا تھا۔‘‘ اس لیے آیت استعاراتی طور پر حضرت موسیٰ، ان کی قوم یہودیوں اور مذہب یہودیت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔

 95:3 کا معنی (اور اس امن والے شہر کی قسم)

 (5:97) اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو انسانوں کے لیے سلامتی کا ٹھکانہ بنایا

 شہر مکہ ایک زیارت گاہ تھا اور اس کے احاطے میں ابراہیم کے زمانے سے ایک حرم یا حفاظت کی جگہ تھی۔ لہٰذا حفاظت کے شہر سے مراد مکہ شہر ہے۔ یہ شہر پیغمبر اسلام، ان کے پیروکاروں یعنی مسلمانوں اور مذہب اسلام سے منسوب ہے۔ 95:2 اور 95:3 کے بارے میں علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

 سورہ کا موضوع بنی نوع انسانی ہے جسے بہترین سانچوں میں تخلیق کیا گیا ہے۔ کچھ اللہ کے دین (عقیدہ اور اعمال صالحہ) کے اصولوں پر عمل کر کے بہترین لوگوں میں سے ہوتے ہیں جبکہ باقی اپنے عقیدہ کے انکار اور برے اعمال کی وجہ سے نچلی سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔

 اس لیے کسی نبی/دین کی قسم کھانا سورہ کے موضوع کے مطابق ہے کیونکہ اللہ کے دین پر عمل کرنے سے انسان بہترین مخلوق بن جاتا ہے اور اللہ کے دین کو جھٹلانے سے وہ بدترین مخلوق بن جاتا ہے۔

 پھر انجیر اور زیتون کا کیا مطلب ہے (95:1)؟

 حسن بصری، عکرمہ، عطا بن ابی رباح، جابر بن زید، مجاہد اور ابراہیم نخل کہتے ہیں کہ انجیر اور زیتون سے مراد وہ پھل ہے جسے ہم کھاتے ہیں۔ ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ صحت کے فوائد اور انسانوں کے لیے اس کے استعمال کے پیش نظر ان دو پھلوں کی قسم کھا رہا ہے۔ اس طرح کے لغوی معنی لینا مضحکہ خیز ہے جب کہ مندرجہ ذیل دو آیات استعاراتی طور پر کسی پیغمبر/مذہب سے وابستہ مقام کی طرف اشارہ کر رہی ہیں جو باقی سورت کے لئے ایک انداز بیان متعین کرتی ہے۔ اس لیے اکثر علماء اس بات پر متفق ہیں کہ تینوں آیات تمثیلی طور پر صرف اللہ کے اولو العزم رسولوں سے متعلق مقامات کی طرف اشارہ کرتی ہیں نہ کہ کسی اور چیز کی طرف۔

 بعض علماء نے "انجیر اور زیتون" سے مراد بالترتیب دمشق اور یروشلم لیا ہے۔ ابن عباس کا قول ابن جریر، ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ نے نقل کیا ہے کہ انجیر سے مراد حضرت نوح کی مسجد ہے جو انہوں نے کوہ جودی پر بنائی تھی اور زیتون سے مراد یروشلم ہے۔ میں اس نظریہ کو رد کرتا ہوں کیونکہ نوح ابراہیم سے پہلے تھے اور آیت (3:96) کے مطابق "لوگوں کے لیے پہلا گھر (عبادت کا) جو تعمیر کیا گیا تھا وہ بکہ میں تھا" جو کعبہ ہے۔ لہٰذا "انجیر" سے مراد وہ مسجد نہیں ہوسکتی جو نوح نے بنوائی تھی جیسا کہ پہلی مسجد اس کے بعد ابراہیم نے بنائی تھی۔ مزید برآں، اگر اس سے مراد نوح ہیں، تو "جودی کے پہاڑ" کا حوالہ کیوں نہیں دیا گیا جو سینا کے پہاڑ کے مطابق ہوتا؟

 تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ "زیتون" سے مراد یروشلم اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں اور ان میں سے بعض کہتے ہیں کہ "انجیر اور زیتون" دونوں سے مراد صرف یروشلم ہے۔ زیتون کے پہاڑ کا کثرت سے نئے عہد نامہ میں اس جگہ کے طور پر تذکرہ کیا گیا ہے جہاں عیسیٰ کھڑے ہوئے تھے جب وہ یروشلم پر روے تھے (ایک واقعہ جسے لاطینی میں Flevit super illam کہا جاتا ہے)۔ ایک بار پھر، زیتون کے پہاڑ پر اپنے شاگردوں کے ساتھ عیسیٰ کی کہانی غناسطی کتاب Pistis Sophia میں دیکھی جا سکتی ہے، جو کہ تیسری سے چوتھی صدی عیسوی کے آس پاس کی ہے۔ لہٰذا اگر اس سے مراد وہ جگہ ہے جو صرف یسوع سے منسوب ہے تو کوہ سینا مراد لینے کے لیے "انجیر اور زیتون" کی قسم کیوں کھائی جائے اور "زیتون کے پہاڑ" کی کیوں نہیں؟ وجہ بالکل واضح ہے کہ، "انجیر" اور "زیتون" سے مراد دو مختلف مقامات اور دو مختلف پیغمبر ہیں۔ حضرت نوح سے "انجیر" کو منسوب کرنا شاذ و نادر ہے خاص طور پر ماقبل میں"جودی پہاڑ" یا "کشتی" کے انتخاب کے پیش نظر جس سے نوح کو زیادہ جانا جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں کسی اور جگہ "انجیر" کی وضاحت تلاش کرنی چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ بودھی درخت ("بیداری کا درخت")، بودھ گیا میں واقع ایک بڑا مقدس انجیر کا درخت ہے، جس کے نیچے بدھ کو معرفت حاصل ہوئی تھی۔ یہ وضاحت "انجیر" پر زیادہ فٹ بیٹھتی ہے۔

 95:1 اور اگلی دو آیتوں کے درمیان انداز میں فرق کی ممکنہ وجوہات

 95:1 کا مفہوم واضح نہیں ہوتا لیکن 95:2 اور 3 کے لیے 95:2 اور 95:3 کے ظاہری معانی کو دیکھتے ہوئے جو بالعموم مقبول ہیں، میں نے علماء کی طرف سے پیش کی گئی باقی تمام وضاحتوں پر غور کرنے کے بعد 95:1 کی بہترین وضاحت پیش کی ہے۔

 بدھ مت کا حوالہ "انجیر کے درخت سے" اور عیسائیت کا "زیتون کے پہاڑ سے" یکساں طور پر مضبوط کیوں نہیں ہے؟ اسلام اور یہودیت کا حوالہ زیادہ مضبوط اور واضح ہے، لیکن عیسائیت اور بدھ مت کا حوالہ کمزور ہے اور ہم ان کے معنی کا اندازہ نہ لگا سکتے اگر یہ ان دونوں آیات کے بغیر خود ہی وارد ہوتے۔ کمزور حوالہ کی وجہ یہ ہونی چاہیے کہ عیسائیت نے اپنی توحید کو تصور تثلیث اور یسوع کو خدا بنا کر کمزور کر دیا۔ قرآن مجید کی متعلقہ آیات ذیل میں نقل کی جاتی ہیں:

 (5:72) بے شک وه لوگ کافر ہوگئے جن کا قول ہے کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے حانکہ خود مسیح نے ان سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا رب ہے، یقین مانو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے، اس کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے اور گنہگاروں کی مدد کرنے وا کوئی نہیں ہوگا۔

(73) وه لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں کا تیسرا ہے، دراصل سوا اللہ تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا۔

 بدھ مت کا حوالہ کمزور اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ مہاتما بدھ زمانے کے ساتھ ساتھ عبادت کی چیز بن گئے ہیں۔ مہایان روایت میں پوجا بدھ اور بودھی ستواس کی عقیدت کی شکل اختیار کرتی ہے۔ عبادت کرنے والے بدھ کی تصویر کے سامنے بیٹھتے ہیں اور اپنے منتر پڑھتے ہیں۔

 یہودیت اور اسلام توحید پرست رہے ہیں۔ غور کرنے والی اہم بات یہ ہے کہ قرآن ان چار مذاہب کی قسم کھاتا ہوا نظر آتا ہے جس کا مطلب ان کی توثیق کرنا بھی ہے حالانکہ دو مذاہب میں بعد کے دنوں میں ہونے والی پیش رفت کی بنیاد پر کچھ تحفظات ہیں۔

 قرآن بدھ مت جیسے لا ادریہ مذہب کی توثیق کیسے کر سکتا ہے؟

 (49:14) دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان ئے۔ آپ کہہ دیجئے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں ئے لیکن تم یوں کہو کہ ہم اسلام ئے (مخالفت چھوڑ کر مطیع ہوگئے) حانکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔ تم اگر اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرنے لگو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بخشنے وا مہربان ہے۔"

 اوپر جن آیت کا حوالہ دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے دین یا طرز زندگی یا اخلاقی ضابطوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔ قرآن ہم سے کلمہ شہادت کی تلاوت کا تقاضا نہیں کرتا ہے اور نہ ہی اس بات کہ ہم ایمان لائیں۔ ایمان لانا یا نہ لانا ہمارے اختیار میں نہیں ہے۔ ہمارے اختیار میں صرف یہ ہے کہ اللہ کے دین پر عمل کریں یا نہ کریں۔ خدا اور آخرت پر یقین جہاں ہمارے اعمال کی بنیاد پر ہمیں جزا یا سزا ملے گی، ہمیں اخلاقی ضابطے پر عمل کرنے میں مدد کرتا ہے جو آسان نہیں ہے کیونکہ اکثر ہمارا مفاد ضابطہ کی خلاف ورزی میں مضمر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی آیات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے دین یا اخلاقی طرز زندگی کی پیروی کریں۔ بدھ مت اس ضرورت کو اپنے واضح اصول پر مبنی یا deontological ضابطہ اخلاق کے ذریعے پورا کرتا ہے۔

 ایک جامع deontological ضابطہ اخلاق سے باہر کوئی اخلاقیات نہیں ہے۔ ملحد صرف اس حد تک اخلاقی ہیں جب تک اس سے ان کا فائدہ ہو اور جب غیر اخلاقی ہونے کے فوائد خطرات کے مقابلے میں زیادہ ہوتے ہیں تو وہ غیر اخلاقی ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی اخلاقی اقدار کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

 (18:103) کہہ دیجئے کہ اگر (تم کہو تو) میں تمہیں بتا دوں کہ باعتبار اعمال سب سے زیاده خسارے میں کون ہیں؟ (104) وه ہیں کہ جن کی دنیوی زندگی کی تمام تر کوششیں بیکار ہوگئیں اور وه اسی گمان میں رہے کہ وه بہت اچھے کام کر رہے ہیں (105) یہی وه لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کی ملاقات سے کفر کیا، اس لئے ان کے اعمال غارت ہوگئے پس قیامت کے دن ہم ان کا کوئی وزن قائم نہ کریں گے (106) حال یہ ہے کہ ان کا بدلہ جہنم ہے کیونکہ انہوں نے کفر کیا اور میری آیتوں اور میرے رسولوں کو مذاق میں اڑایا۔

 اس لیے میری رائے میں، بدھ مت جیسا مذہب ان لوگوں کے لیے ضروری تھا جو خدا پر یقین کرنا مشکل محسوس کرتے تھے اور لا ادریہ تھے۔ ایسے لوگوں کے پاس بھی یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ ایک اصول پر مبنی ضابطہ اخلاقی کی سختی سے پیروی کریں جس کے بغیر ان کے کام بیکار ہوں گے اور ان کا بدلہ جہنم ہوگا۔

 غیر ابراہیمی انبیاء

 قرآن میں جن پیغمبروں کا ذکر ابراہیم سے پہلے ہوا ان میں سے کچھ ہیں ادریس، نوح، ہود اور صالح۔ قرآن صابیوں کے مذہب کی بھی توثیق کرتا ہے جو "غیر ابراہیمی" ہے اور درحقیقت "ہر اس مذہب کی تائید قرآن کرتا ہے جو خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اور نیک کام کا حکم دیتا ہے"۔

 (2:62) مسلمان ہوں، یہودی ہوں، نصاریٰ ہوں یا صابی ہوں، جو کوئی بھی اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ئے اور نیک عمل کرے ان کے اجر ان کے رب کے پاس ہیں اور ان پر نہ تو کوئی خوف ہے اور نہ اداسی۔

 آیت 5:48 پر بھی غور کریں "اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محاف ہے۔ اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ حکم کیجیئے، اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راه مقرر کردی ہے۔ اگر منظور مولیٰ ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے، تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو، تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وه تمہیں ہر وه چیز بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہتے ہو۔" اس سے پتہ چلتا ہے کہ غیر ابراہیمی روایات بہت مختلف ہو سکتی ہیں۔ اگر بدھ مت کی بھی توثیق ہو جاتی ہے تو اس سے ہمیں چونکا یا حیران نہیں ہونا چاہیے۔

 خلاصہ

 قرآن ہمیں واضح طور پر یہ بتاتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے اور کن چیزوں سے بچنا ہے لیکن کچھ دوسری آیات مثلا 95:1 میں کچھ ابہام ہے۔ یہ آیات سب کے سمجھنے کے لیے بھی نہیں ہیں بلکہ صرف انہی کے لیے ہیں جو علمی مطالعہ عمیق ہے۔ یہ قائدین کے لیے ہے کہ وہ ایک وسیع وژن تیار کرنے اور تنگ نظری سے بچنے میں ان کی مدد کریں۔ عوام کی رہنمائی اپنے لیڈروں سے ہوتی ہے اور اگر لیڈروں کے اندر وسعت ذہنی ہو تو وہ عوام کی اچھی رہنمائی کر سکتے ہیں۔

 میں عام طور پر "اللہ بہتر جانتا ہے" کا اضافہ نہیں کرتا لیکن یہاں ایسا کرنا ضروری ہے کیونکہ زیر بحث آیات متشابہات کے زمرے سے ہیں جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے: (3:7) "وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اوربعض متشابہ آیتیں ہیں۔ پس جن کے دلوں میں کجی ہے وه تواس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے، حانکہ ان کے حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان چکے، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں"۔ یہ مضمون آیت 3:7 ہی کی طرح ہے جس میں تمام موجودہ حقائق پر مبنی ممکنہ طور پر بہترین وضاحت کے ساتھ پیغام کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مضمون میں اتحاد و یگانگت تعمیر کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے نہ کہ اختلاف اور فساد کی۔ اس کا مقصد مسلمانوں کو یہ قبول کرنے میں مدد کرنا ہے کہ ان کے راستے سے مختلف راستے بھی ہیں جو اللہ کی طرف سے ہیں۔

 English Article: Non-Abrahamic Religions Endorsed by the Quran

URL: https://newageislam.com/urdu-section/non-abrahamic-religions-quran/d/128351

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..