نیلوفر احمد (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
ایسا کہا جاتا ہے کہ حضرت
عائشہؓ کا نکاح پیغمبر محمد ﷺ کے ساتھ چھ سال
کی عمرمیں ہوا، اور جب آپ کی عمرنو سال تھی
تب آپ اپنےشوہر کے ساتھ رہنے کے لئے مدینہ (ہجرت کے بعد) منتقل ہو گئیں۔
اس گمراہ کن افواہ نے غلط تاثر دیا کہ اسلام میں بچوں کی شادی کی اجازت
ہے۔ یہ قابل غور ہے کہ حدیث کے مستند ہونے کو ثابت کرنے کے لئے، راویوں، حالات اور
اس وقت کی کیفیت کا تاریخی حقائق کے ساتھ باہمی تعلق کو بھی دیکھا جانا چاہیے۔ اس سلسلے
میں ہشام کی صرف ایک حدیث ہے جس میں حضرت عائشہؓ کی عمر نو سال ہونے کا اشارہ ملتا
ہے، جب وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لئے آئیں۔
کئی مستند احادیث بھی ظاہر
کرتی ہیں کہ ہشام کی روایت نبی کریم ﷺ کی زندگی
کے ان تاریخی حقائق خلاف ہے جن پر کی اجماع قائم ہے، ۔ عمر احمد عثمانی، حکیم نیاز احمد اور حبیب الرحمن کاندھولوی جیسے
علماء کرام کے حوالے کے ساتھ، میں اس حقیقت کے حق میں کچھ دلائل پیش کرنا چاہوں گی،
کہ حضرت عائشہؓ کی عمر کم از کم 18 سال تھی جب آپ کا نکاح ہوا اور کم از کم 21 سال
کی تھیں جب آپ نبی کریم ﷺ ساتھ رہنے کے لئے ان کے گھر میں منتقل ہو ئیں۔
عمر احمد عثمانی کے مطابق،
سورۃ النساء میں یہ کہا ہے کہ یتیم کے ولی ان کا مال انہیں واپس کرنے سے قبل ان کی
مسلسل آزامائش کرتے رہیں ، یہاں تک کہ وہ شادی کی عمر تک پہنچ جائیں (4:6)۔ اس سے
علماء کرام نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ قرآن نے شادی کی عمر کم از کم سن بلوغت طے کیاہے
۔ چونکہ لڑکی کی منظوری ایک قانونی ضرورت ہے
اس لئے وہ نابالغ نہیں ہو سکتی ہے۔
ہشام بن عروہ اس حدیث کے خاص راوی ہیں۔ اس کی زندگی دو ادوار
میں تقسیم کی گئی ہے: 131A.H. میں مدنی مدت ختم ہوئی، اور عراقی مدت کا آغاز ہوا، اس وقت ہشام کی
عمر 71 سال تھی۔ حافظ ذہبی نے بعد کے وقت میں ہشام کی یاد داشت خراب ہو جانے کے بارے
میں بات کی ہے۔ مدینہ، میں انکے طالب علموں
امام مالک اور امام ابو حنیفہ نے اس حدیث کا ذکر نہیں کیا ہے۔ امام مالک اور
مدینہ کے لوگوں نے انہیں ان کی عراقی احادیث کے لئے تنقید کی ہے۔
اس حدیث کے تمام راوی عراقی
ہیں جنہوں نے ہشام سے اسے سنا تھا۔ علامہ کاندھولوی کا کہنا ہے کہ حضرت عائشہؓ کی عمر
کے سلسلے میں کہا گیا لفظ‘ تسّہ عشرہ ’ کہا گیا ہے جس کے معنی19 ہیں، جب ہشام نے صرف تسہ سنا (یا یادکیا) جس کا
مطلب9 ہوتا ہے۔ مولانا عثمانی کا خیال ہے کہ اس تبدیلی کو جان بوجھ
کر اور بد نیتی سے بعد میں بنایا گیا تھا۔
مؤرخ ابن اسحاق نے اپنی ‘سیرت رسول اللہ ’ میں اسلام کے باضابطہ
اعلان کے پہلے سال میں اسلام قبول کرنے والوں کی ایک فہرست دی ہے جس میں حضرت عائشہؓ
کا نام حضرت ابو بکرؓ "کی چھوٹی بیٹی عائشہؓ" کے طور پر دیا گیا ہے۔ اگر
ہم ہشام کے حساب کو قبول کرتے ہیں، تو اس وقت تک وہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی
پہلی بیوی، حضرت خدیجہؓ کی وفات کے کچھ دنوں بعد، حضرت خو لہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو ایک باکرہ سے دوبارہ شادی کرنے کا مشورہ دیا، جن سے مراد حضرت عائشہ تھیں (مسند احمد)۔ عربی میں باکرہ
کے معنی ایک غیر شادی شدہ لڑکی ہے جس نے سن بلوغت کو پار کر لیا ہے اور وہ شادی کی
عمر کی ہو گئی ہے۔ ایک چھ سالہ لڑکی کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
بعض اہل علم کا خیال ہے کہ
حضرت عائشہ کی شادی جلدی ہو گئی تھی کیونکہ عرب میں لڑکیاں جلد بالغ ہو جاتی ہیں۔ لیکن
یہ اس وقت عربوں کا عام رواج نہیں تھا۔ علامہ کاندھولوی کے مطابق، اسلام سے قبل یا
اس کے بعد اس طرح کا کوئی معاملہ درج نہیں
ہے۔ اور نہ ہی اسے نبی کریم ﷺ کی سنّت کے طور پر فروغ دیا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے اپنی بیٹیوں کی شادی حضرت فاطمہؓ کی 21 اور حضرت رقیہؓ کی 23 سال کی عمر میں
شادی کر دی تھی۔ اس کے علاوہ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہؓ کے والد
نے 26 سال کی عمر میں اپنی سب سے بڑی بیٹی آسمہ کی شادی کر دی تھی۔
حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ
وہ جنگ بدر کی لڑائی میں میدان جنگ میں موجود تھیں (مسلم)۔ یہ کسی کو بھی اس نتیجہ کی طرف لے جاتا ہے کہ حضرت
عائشہؓ 1 ھجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں منتقل ہوئیں۔ لیکن ایک نو
سال کی بچی کو کسی بھی طرح ایک خطرناک فوجی مشن پر نہیں لے جایا جا سکتا ہے۔
2 ھجری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احد میں 15 سال سے کم
عمر کے لڑکوں کو لے جانے سے انکار کر دیاتھا۔ کیا آپﷺ نے ایک 10 سالہ لڑکی کو اپنے
ساتھ جانے کی اجازت دی ہوگی؟ لیکن حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہؓ اور
حضرت امّ سلیمؓ کو پانی سے بھری مشک لے جاتے ہوئے دیکھا اور وہ فوجیوں کو پانی پلا
رہیں تھیں (بخاری)۔ حضرت امّ سلیمؓ اور جنگ
احد میں موجود دوسری خاتون حضرت امّ عمارہؓ مضبوط اور بالغ خواتیں تھیں، جن کی ذمہ داری ہلاک اور زخمی
فوجیوں کو اٹھانا تھا اور ان کے زخموں کا علاج کرنا تھا۔ بھاری مشک میں پانی لے جانا
اور گولہ بارود اور یہاں تک کہ تلوار بھی لے جاتی تھیں۔
حضرت عائشہؓ نے کنّیات لقب
کا استعمال کیا جو حضرت امّ عبد اللہؓ کے بیٹے اور آپ کے بھتیجے اور گود لئے گئے بیٹے کے نام سے لیا گیا
تھا۔
اگر وہ چھ سال کی تھیں جب
آپ کا نکاح ہوا تھا، تو ان سے آٹھ سال ہی بڑی رہیں جنہیں گودلینا مشکل ہو گا ۔ اس کے
علاوہ، ایک چھوٹی لڑکی کبھی اپنے بچے کی امید نہیں چھوڑ سکتی تھی جبکہ انہوں نے اپنی کنیت کے لئے اپنے
گود لئے گئے بچے کا نام استعمال کیا۔
حضرت عائشہؓ کے بھتیجے عروہ
نے ایک بار کہا کہ وہ اسلامی قوانین، شاعری اور تاریخ کے بارے میں ان کے حیرت انگیز
علم سے حیران نہیں ہیں کیونکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی اورحضرت ابو
بکرؓ کی بیٹی تھیں۔ اگر وہ والد کے ہجرت کے وقت
آٹھ سال کی تھیں ، تب انہوں نے اپنے والد سےشاعری اور تاریخ کا علم کب سیکھا؟
اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ
حضرت عائشہؓ اپنی بڑی بہن حضرت آسمہ سے 10 سال چھوٹی تھیں، جن کی ہجرت کے وقت عمر
تقریباً 28 سال تھی ۔ اس طرح یہ نتیجہ اخز کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عائشہؓ ہجرت کے وقت
تقریباً 18 سال کی تھیں۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر منتقل ہونے کے وقت
آپ 21 برس کی نوجوان عورت تھیں۔اس وقت کے بہت سے تاریخی حقائق کے ساتھ باہمی تعلق
نہ بنا پانے کے سبب ہشام حدیث کے اکیلے راوی
ہیں جن کی صداقت کو چیلنج کیا گیا ہے۔
ماخذ: ڈان، پاکستان
نیلوفر احمد قرآن کی اسکالر
ہیں اور عصر حاضر کے موضوعات پر لکھتی ہیں۔
URL
for English article: http://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/of-aisha’s-age-at-marriage/d/6662
URL: