نیلوفر احمد (ترجمہ‑ سمیع الرحمٰن، نیو
ایج اسلام)
15مارچ، 2012
خواب روز مرہ کی زندگی کا
ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ ماہرین نفسیات نے
خوابوں کی علامتوں اور اس کے معنی کو سمجھنے کی کوشش میں مختلف نظریات کو سامنے
لائے ہیں۔ پہلا سوال جس کا ہمیں جواب دینے کی کوشش کرنی چاہیئے وہ ہے: اصل میں
خواب کیا ہے؟
سگمنڈ فرایڈ نے اپنی
کتاب، 'دی انٹرپریٹیشن آف ڈریمس ' میں
نفسی تجزیہ کا نظریہ اس تمہید پر مبنی ہے کہ دبے ہوئے جارحانہ اور جنسی
ردعمل کو ہوش مند دماغ میں علامتوں کے ذریعہ باہر نکلنے کا ایک راستہ مل جاتا ہے
اور اس طرح ایک خواب کی تکمیل ہو تی ہے۔
انہوں نے خواب اور پاگلپن کے درمیان بھی ایک تعلق قائم کیا ہے۔ ان کی اس خوابوں نظریاتی تشریح نے کافی مقبولیت
حاصل کی ۔ کارل جی جنگ، فرایڈ سے الگ
ہوگئے اور سائیکو انالیٹک سوسائٹی سے ناطہ توڑ لیا اور نفسیات پر اور زیادہ انسانی
نقطہ نظر سے غور کرنا شروع کیا۔ ان کے مطابق خواب شفا یابی کے قدرتی عمل کا ایک ایسا
حصہ ہے جو ہمارے تخیل اور روح سے رابطہ
قائم کرتا ہے۔ اور انہوں نے دیو مالا کے ذریعے خواب کے معنی کا جائزہ لیا۔
تاہم، جب ایک شخص قرآن اور حدیث پر نظر ڈالتا ہے تو
پتہ چلتا ہے کہ خواب، مسلم عقیدے کا ایک سنجیدہ حصہ ہیں۔ ایسا گمان کیا جاتا ہے کہ
نیند کے دوران روح جسم کو عارضی طور پر چھوڑ دیتی ہے اور مختلف دائروں میں گھومتی
رہتی ہے۔ جس کے تجربات خواب کی شکل میں
جسم دیکھتا اور محسوس کرتا ہے اور جو کبھی کبھی نامعلوم چیزوں کی اطلاعات آپ تک پہونچا تی ہے ۔ روح جس قدر ہ
بلند ہو گی اتنا ہی اس کے روحانی تجربے کا دائرہ اعلی ہوگا۔
سورۃ الانعام میں قرآن
فرماتا ہے کہ، "اور وہی ہے جو رات کے وقت تمہاری روحیں قبض فرما لیتا ہے اور
جو کچھ تم دن کے وقت کماتے ہو وہ جانتا ہے پھر وہ تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ
(تمہاری زندگی کی) معینّہ میعاد پوری کر دی جائے "(6:60)۔ سورۃ الزمر کہتی ہے کہ، " اللہ جانوں کو
اُن کی موت کے وقت قبض کر لیتا ہے اور اُن (جانوں) کو جنہیں موت نہیں آئی ہے اُن کی
نیند کی حالت میں، پھر اُن کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر ہو چکا ہو اور
دوسری (جانوں) کو مقرّرہ وقت تک چھوڑے رکھتا ہے"(39:42) ۔
اسلامی نظریہ کے مطابق
روح نیند کی حالت میں جسم کا ساتھ چھوڑ
جاتی ہے، لیکن اس سے اتنی قریب ہوتی ہے
کہ، ذرا سا بھی حرکت ہونے پر، یہ اس میں واپس داخل ہو جاتی ہے۔
جب خدا کسی شخص کی موت کا
حکم صادر فرماتا ہے تو روح اس میں مستقل طور پر رہتی ہے اور جس سے جسمانی موت ہو
جاتی ہے لیکن روح ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔
خوابوں کا ذکر قرآن مجید
میں کئی بار آیا رہے۔ نبی حضرت ابراہیمؑ نے خواب دیکھا جس میں ان سے کہا گیا کہ
اپنی سب سے زیادہ محبوب چیز کو قربان کر دیں۔
یہ جانتے ہوئے کہ یہ خدا
کا حکم تھا، انہوں نے نبی ہونے والے اپنے سب سے محبوب بیٹےحضرت اسمٰعیلؑ سے خواب
کے بارے میں کہا، جنہوں نے قربان ہونے کے لئے اپنی رضا مندی دے دی۔
نبی حضرت ابراہیمؑ اپنے
امتحان میں کامیاب رہے اور لڑکا ایک دنبہ سے تبدیل ہوگیا (108‑37:100)
نبی حضرت یوسفؑ نے بچپن میں
ایک خواب دیکھا: 11 ستارے، سورج اور چاند ان کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں (12:4)۔ اس
خواب کا معنی کئی دہائیوں کے بعد جب ا ٓپ
اپنے سوتیلے بھائی اور والدین سے مصر میں
ملےاس واضح ہوا۔ مصر کے بادشاہ نےاپنے
خواب کے متعلق بتایا جس میں سات دبلی گائیں سات موٹی گایوں کو نگل رہیں تھیں (44‑12:43)۔ بادشاہ نبی
حضرت یوسفؑ کے خوابوں کی تعبیر کے تحفہ سے متاثر تھا اور اس نے آپ کو خزانے کا
ذمہ دار وزیر بنا دیا۔ بادشاہ کے خواب کی تشریح اور اپنی عقل پر مبنی ان کی منصوبہ
بندی نے مصر کو قحط سے بچا لیا۔
پیغمبر محمد ﷺ نے وحی
نازل ہونے سے قبل سچے خواب دیکھنا شروع کیا (بخاری)۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا ہے کہ ان کے بعد سچے خواب کے علاوہ پیشن گوئی کے لئے کچھ بھی نہیں
بچے گا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی کہا ہے کہ خواب،
نبوت کے 46 حصوں میں سے ایک حصہ ہے (بخاری) اور "جس کسی نے بھی مجھے خواب میں دیکھا اس نےحقیقت میں مجھے دیکھا ہے، اور شیطان میری
شکل اختیار نہیں کر سکتے ہیں" (بخاری)۔ ایک سچے مسلمان کی سب سے بڑی خواہش نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی ہوتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے6 ھ
میں فتح مکہ کو خواب (48:27)میں، اسے ہونے
کے دوسال قبل دیکھا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا ہے کہ خوابوں کی تین اقسام ہیں۔ اوّل اپنے نفس یا اناسے بے معنی
خواب، دوسرا شیطان سے اور تیسرا، خدا کی طرف سے اچھی خبر کی پیشن گوئی (بخاری)۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ
وسلم اپنے امّتیوں کے خواب کو نماز فجر کے بعد سنا کرتے تھے (بخاری) اور ان کی تعبیر
بھی بتایا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے کہ خواب کے بارے میں
صرف ایسے شخص کو بتانا چاہئے جو آپ سے محبت کرتا ہے یا جو عقل مند ہو اور خوابوں کی
تعبیر بتانے کا علم رکھتا ہو (بخاری)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کے صحابہ اپنے خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت ابو بکر صدیقؓ کو
بتایا کرتے تھے (بخاری)۔ ولیوں یا سنتوں کو
بھی روحانی رہنمائی کے ساتھ ساتھ خوابوں کی تعبیر بتانے کا تحفہ بھی حاصل
تھا۔
عبدالعزیز بن عمر سے روایت
ہےکہ انہوں نے خواب میں اپنے فوت شدہ والد سے پوچھا کہ ان کے کس عمل نے انہیں سب سے زیادہ بلند (یا کار آمد) کیا۔
والد نے جواب دیا" استغفار"
)ذوقی شاہ)۔
عبد وہاب شیرانی نے امام
غزالیؒ کو ان کی موت کے بعد خواب میں دیکھا اوران سے دریافت کیا کہ، اللہ تعالی نے
ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔ امام غزالیؒ نے جواب دیا کہ پروردگار نے انہیں ان کے
لکھنے کے عمل میں صبر کی وجہ سے معاف کردیا۔ جب ایک مکھی آئی اور اس نے آپ کی قلم
سے سیاہی چوسنا شروع کردیا تو آپ تب تک انتظار کرتے تھے کہ جب تک کہ مکھی قلم سے
خود اپنی مرضی سے نہ اڑ گیٔ )ذوقی شاہ)۔
ایک عام تصور کے مطابق ایک
شخص موت کے وقت سونے کے لئے جاتا ہےمگر
اسکے برعکس، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان اس دنیا میں
سوئے ہیں اور موت کے وقت وہ جاگ جائیں گے (ابن العربی)۔ اس دنیا کی زندگی ایک خواب
کی طرح ہو سکتی ہے۔ آنے والی زندگی حقیقت ہوگی جو
ہم پر ظاہر نہیں ہے اور آخرت میں بیداری پر ظاہر ہو جائے گی۔
مصنفہ قرآن کی اسکالرہیں
اور عصر حاضر کے مسائل پر لکھتی ہیں۔
ماخذ: ڈان، کراچی
URL for English article:https://newageislam.com/islam-spiritualism/dreams-spirituality/d/6883
URL for this article:https://newageislam.com/urdu-section/dreams-spirituality-/d/6909