نیلو
فر احمد (انگریزی سے ترجمہ۔ سمیع الرحمٰن ، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام)
بہت
سے مسلمان جانوروں کے ساتھ برتائو کے معاملے
میں بے دردی بھرا رویہ اپناتے ہیں اور یہ تاثر دیتا ہے کہ شاید ان کے مذہب میں جانوروں کے متعلق کوئی سوچ
بچار نہیں کیا جاتا ہے۔
تاہم
جب ہم قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو
ہمیں حیرانی کے ساتھ ہی خوشی بھی ہوتی ہے کہ
دراصل حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ اسلام یقینا جانوروں کو اہمیت دیتا ہے اوران کی
دیکھ بھال کے طریقے کو بھی اہمیت دیتا ہے۔قرآن
میں پانچ سورتیں ایسی ہیں جن کے عنوانات جانوروں
کے ناموں پر ہیں۔
اس کے
علاوہ ، جانوروں کا ذکر پورےقرآن میں پایا
جاتا ہے۔ سورۃ النام میں کہا گیا ہے، اور زمین
میں جو چلنے پھرنے والا (حیوان) یا دو پروں
سے اڑنے والا جانور ہے ان کی بھی تم لوگوں کی طرح جماعتیں ہیں۔ .....(6:38)
خدا نےاپنی لامحدود حکمت و دانائی کے تحت سب سے شائستہ مخلوق جیسے پرندوں، شہد کی مکھیوں
اور چینٹیوں کو بھی برادری کے طور پر منظم
کیا ہے تاکہ وہ اپنے اخلاقی اور تنظیمی قوانین
سے انحراف کئے بغیر کام کر سکیں،آپس میں رابطہ رکھ سکیں اور اپنے وجود کو بر قرار رکھ سکیں۔دنیا
کی تمام مخلوق بشمول جانور بھی اپنے رب کی تعریف اور تسبیح کرتے ہیں (17:44)۔ جاندار اپنی زبان سے اور غیر جاندار اپنے
حالات کے مطابق خاموش رضامندی کے ذریعہ خدا کی تعریف کرتے ہیں۔ حضرت نوحؑ کو وحی کے
ذریعہ ہدایت دی گئی کہ وہ ایک بڑی کشتی کو
تعمیر کریں: ‘اور ایک کشتی ہمارے حکم سے ہمارے روبرو بناؤ۔ اور جو لوگ ظالم ہیں ان
کے بارے میں ہم سے کچھ نہ کہنا کیونکہ وہ ضرور غرق کردیئے جائیں گے۔’
سیلاب
سے محفوظ کئے جانے وا لوں میں مومنین کے ساتھ ساتھ ہر ایک نسل کے جانوروں کے جوڑے تھے : ‘......ہم نے
نوح کو حکم دیا کہ ہر قسم (کے جانداروں) میں
سے جوڑا ،جوڑا (یعنی) دو (دو جانور۔ ایک ایک
نر اور ایک ایک مادہ) لے لو اور جس شخص کی نسبت حکم ہوچکا ہے (کہ ہلاک ہوجائے گا) اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں
کو جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کر لو.....(11:40) ۔حقیقت یہ ہے کہ جانوروں
کو بچانے کا حکم مومنوں کو بچانے سے قبل آیا اور یہ ان جانوروں کی اہمیت کی جانب اشارہ
کرتا ہے جو اس وقت اپنے وجود کو لے کر خطرے سے دوچار تھے۔
قرآن نبی حضرت صالحؑ کی قوم ثمود کی کہانی کو بتاتا ہے جس میں ان لوگوں کے طریقوں میں اصلاح کے
لئے آپ کو بھیجا گیا تھا تاکہ ان لوگوں کو ایک خدا کی طرف بلائیں اور گزارے کے لئے جو وسائل تھے ان کا منصفانہ طور پر
تقسیم کریں۔آپ نےان نو لیڈران کے ساتھ معائدہ کیاجن کا پانی کے ذرائع پر قبضہ تھا، جسے لوگ اور وہ اونٹنیاں (جنہیں خدا کی طرف سے بطور نشانی یا معجزہ بھیجا
گیا تھا ) استعمال کرتیں۔ان لوگوں کو چراگاہوں
میں بھی لوگوں کواشتراک کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔
‘(یعنی) یہی خدا کی اونٹنی تمہارے لیے
معجزہ ہے۔ تو اسے (آزاد) چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اور تم اسے بری نیت
سے ہاتھ بھی نہ لگانا۔ ورنہ عذابِ الیم میں تمہیں پکڑ لے گا’ (7:73) لیکن ان لوگوں
نے اپنا وعدہ توڑا اونٹنی کو مار ڈالا
(7:77-78) ۔
چونکہ
پوری قوم اس سازش میں شامل تھی ، پوری قوم تباہ
ہو گئی۔ ان کی تباہی کی فوری طور پر وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے اونٹنی کو نقصان پہنچایا تھا۔
نبی
کریم ﷺنے فرمایا ہے کہ اگر سب سے چھوٹے پرندے کو اس کے حق کے بغیر ہلاک کیا گیا اور
پھینک دیا گیا تو اس عمل کو ایک جرم کے طور پرپوچھ گچھ کی جائے گی۔آپ ﷺ نے وضاحت کی
کہ اس کا حق یہ تھا کہ اسے صرف کھانے کے لیے
ضرورت کی صورت میں ذبح کیا جانا چاہئے اور یہ نہیں کہ بلا ضرورت اسے ہلاک
کیا جائے اور پھینک دیا جائے (مشکات)۔، صرف لطف کے لئے شکار کو حلال نہیں مانا جاتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے یہ بھی ہدایت فرمائی ہے کہ ذبح کے لیے
چھری تیز ہونی چاہیے تا کہ جانوروں کو زیادہ درد
نہ ہو۔ایک بار نبی کریم ﷺ نے دیکھا کہ ایک جگہ پر خیمہ لگانے کے دوران کسی نے
چینٹیوں کے پہاڑ کے قریب آگ روشن کی۔ آپ
ﷺ نے اسے فوراً بجھا دینے کا حکم دیا۔ ایک بار کسی نے ایک پرندے کے دو چھوٹے بچوں کو پکڑ لیا ان پرندوں کی ماں تکلیف کے ساتھ ان کے سر پر چکرلگانے
لگی، جب رسول اللہ ﷺ نے اس منظر کو دیکھا تو آپﷺ نے اس شخص کو انہیں آزاد کرنے کے لئے کہا (بخاری)۔
نبی کریم ﷺ نے ایک
مرتبہ ایک ایسے شخص کی کہانی بتائی
جو ایک کتے کی پیاس بجھانے کے لئے خاص طور
سے ایک چشمے کے اندر گیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا
کہ کسی جاندار مخلوق یا تمام جاندار مخلوق کے ساتھ رحم دلی کرنے والا ثواب کا مستحق
ہے (بخاری)۔آپ ﷺ نے جانوروں کو انکے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے۔آپ ﷺ نے جانوروں کی لڑائی
والے کھیل سے منع فرمایا ہے (ابو دائود)۔
نبی
کریم ﷺ نے اپنے امتیوں کو ہدایت کی ہے کہ جب
جانور ٹہل رہے ہوں تو انہیں راستے کی ہریالی کا فائدہ لینے دیں، لیکن خشک موسم میں انہیں تیزی سے چلانا چاہیے اور انکے کرب کو کم کرنے کے لئے انکے ٹہلنے کی مسافات کو بھی کم کرنا چاہیے (مسلم)۔پیغمبر ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ، جانور ون
کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے اور ان کے ساتھ رحم دلی کا برتائو کرناچاہیے۔ایک بار کسی نےحج یا عمرہ کی
نیت کر لی اور احرام باندھ لیا تو وہ احترام کی حالت میں داخل ہو جاتا ہے جس میں بعض
حلال چیزیں بھی غیر قانونی ہو جاتی ہیں (5:97)۔ ان میں سے ایک جانوروں کا قتل بھی شامل
ہے، اور اس سے قطع نظر کی کہ وہ کس قدر چھوٹا ہے۔مکہ میں کعبہ کے 50,000مربع کلو میٹر
کے دائر ے(5:95-97) میں کسی جانور کو مارنا حرام ہے۔
جانوروں
کوصرف کھانے کے لئے ذبح کرنے کی اجازت ہے اور
وہ بھی خدا سے اجازت لینے کے بعد ہی۔ خدا کا نام لے کر اور
جو طریقہ بتایا گیا ہے اسی کے مطابق جانور کو زبح کیا جانا چاہیے۔سورۃ الجاثیۃ میں
، قرآن نے قدرت کی بعض عظیم نشانیوں کا ذکر کیا ہے: ’ بےشک آسمانوں اور زمین میں ایمان
والوں کے لئے (خدا کی قدرت کی) نشانیاں ہیں۔اور
تمہاری پیدائش میں بھی۔ اور جانوروں میں بھی جن کو وہ پھیلاتا ہے یقین کرنے والوں کے
لئے نشانیاں ہیں’ (45:4)۔انسان کی تخلیق کی اہمیت جانوروں کی تخلیق کی اہمیت کو برابر
کہا گیا ہے۔اس طرح ، جانوروں کی اہمیت اوران
کے ساتھ رحم دلی بھرا برتائوپختہ ایمان کی نشانیاں ہیں۔
بشکریہ:
دی ڈان ، پاکستان
URL for English article: https://www.newageislam.com/islam-and-environment/animal-rights-in-islam/d/4549
URL: