کیا دیوبندی اور بریلوی ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں
اور شیعہ اور سنی کو اکٹھا کر سکتے ہیں؟
اہم نکات:
1. اتر پردیش میں
محرم پر پابندی کے سرکلر نے ملک کی شیعہ برادری میں بڑے پیمانے پر غم و غصہ بھڑکا دیا ہے
2. اس سرکلر میں
شیعہ سنی اور یہاں تک کہ اہل حدیثوں، دیوبندیوں ، بریلویوں اور صوفیوں کے درمیان
اختلافات کے بارے میں حساس جانکاریاں دی
گئی ہیں
3. خاص طور پر
شیعہ برادری کو ڈی جی پی آفس کے جاری کردہ نوٹیفکیشن لیٹر میں استعمال ہونے والے
لفظ 'تہوار' پر اعتراض ہے کیوں کہ ان کا کہنا ہے کہ محرم ایک ’’سوگ ‘‘ کا موقعہ ہے
نہ کہ تہوار…
4. نوجوان اسلامی
اسکالرز اور خاص طور پر سنی صوفی روایت سے تعلق رکھنے والے حضرات اس فرقہ وارانہ
اختلافات سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ بھی مذہبی نقطہ نظر سے
5. ہندوستان کے
اندر مسلم برادری میں گہری فرقہ واریت کے پیش نظر، فرقہ وارانہ اتحاد کا علم بلند
کرنا ایک بروقت اور قابل تعریف کام ہے لیکن اس کا حصول جرات و حوصلہ طلب ہے۔ اسباب
و علل!
----------------
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
5 اگست 2021
یوپی پولیس نے کہا کہ کوویڈ کی نئی روک تھام حکمت
عملی کی وجہ سے محرم کے جلوسوں کی اجازت نہیں دی جائے گی (تصویر: پی ٹی آئی)
-------
کوویڈ 19 پروٹوکول کی وجہ سے اترپردیش میں اس اسلامی
مہینے محرم الحرام کے دوران تعزیہ کے جلوسوں پر کچھ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
لیکن یوپی حکومت کے اس حکم نے شیعہ برادری میں بڑے پیمانے پر ایک ہنگامہ کھڑا
کردیا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سرکلر میں شیعہ سنی اختلاف کے بارے میں کچھ
حساس جانکاریاں ہیں اور محرم کے جلوس کے حوالے سے اہل حدیثوں، دیوبندیوں، بریلویوں
اور صوفی مسلمانوں کے درمیان شدید اختلافات کا بھی ذکر ہے۔ سرکلر میں پیش کردہ
نکات اس طرح ہیں:
محرم کے دوران شیعہ برادری کے لوگ 'تبرا' پڑھتے ہیں
جس پر سنی برادری کو اعتراض ہوتا ہے ۔سنی برادری 'مدح
صحابہ [نبی ﷺ کے صحابہ کی تعریف میں خطبات]' کرتے ہیں جس پر شیعہ برادری کو اعتراض
ہے۔ شیعہ برادری کے سماج دشمن عناصر جانوروں اور پتنگوں پر ’’ تبرا ‘‘ لکھتے ہیں
اور یہ ایک سنگین تصادم کی وجہ ہو سکتا ہے۔
یہ وہ باتیں ہیں جن پر شیعہ علماء کو سخت اعتراض ہے۔
نہ صرف شیعہ بلکہ کئی سنی علماء بھی اس سرکلر پر یوپی حکومت پر گڑے ہوئے مردے
کھودنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ شیعہ علماء مثلاً مولانا کلب جواد، جنرل سکریٹری
مجلس علماء ہند، کلب سبطین نوری، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، مولانا سیف عباس،
صدر شیعہ مرکزی چاند کمیٹی وغیرہ نے یوپی کے ڈی جی پی پر شیعہ سنی تنازعات کو
بھڑکانے کا الزام لگایا ہے۔ انہوں نے ڈی جی پی آفس کے جاری کردہ نوٹیفکیشن لیٹر
میں خاص طور پر استعمال ہونے والے لفظ 'تہوار' پر اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ
محرم ایک ’سوگ‘ کا موقع ہے کوئی تہوار نہیں۔ ملک کے مختلف حصوں سے اس سرکلر کی
بھرپور مذمت کی جارہی ہے۔ آل انڈیا شیعہ سنی فرنٹ اور شیعہ پرسنل لاء بورڈ اب تک
عوامی مظاہرے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اردو روزنامہ انقلاب کے ریجنل ایڈیٹر شکیل شمسی جو
خود ایک شیعہ خاندانی پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے ایک تلخ اداریہ لکھا ہے
جس کا عنوان ہے "مسلمانان میں پھوٹ ڈالنے کی کوشش"۔ وہ لکھتے ہیں کہ
وسیم رضوی کے سنیوں اور شیعوں کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھاوا دینے میں
ناکام ہونے کے بعد اب محرم کے موقع پر یوپی پولیس کا سرکلر مسلمانوں کے درمیان وہی
اختلاف پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے محرم کے جلوسوں کے دوران یوپی میں شیعہ سنی
کشیدگی سے انکار کیا ہے سوائے لکھنؤ اور اعظم گڑھ کے مبارک پور میں رونما ہونے
والے اکا دکا واقعات کے۔ لیکن ریاستی پولیس کی جانب سے فرقہ وارانہ اختلافات کے
بارے میں بتائے جانے کے پس پشت ارادے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں یہ بتاتے ہوئے
کہ صرف شیعہ اور صوفی مسلمان ہی کیوں تعزیہ کا جلوس نکالتے ہیں جبکہ یوپی اور بہار
میں دیوبندی اور اہل حدیث اس پرانے دور کے عمل پر سخت اعتراض کرتے ہیں۔ قابل ذکر
ہے کہ 80 کی دہائی کے اوائل میں لکھنؤ کے اندر بڑے پیمانے شیعہ سنی فسادات پر ہوئے
تھے۔ لیکن بعد میں شاہ بانو کیس اور ایودھیا معاملے کے بعد دونوں برادریاں ہم
آہنگی اور اتحاد کے ساتھ رہنے لگی تھیں۔ دونوں فرقوں کے درمیان 1997 میں امن
معاہدہ ہوا تھا۔
ان برادریوں کے رہنما اور کانپور میں کل ہند جمیعت
العوام کے بینر تلے علماء اور سنی و شیعہ قاضی یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس سرکلر میں
وہ جانکاریاں کیوں درج کی گئی ہیں جو فرقہ واریت کو ہوا دیتی ہیں خاص طور پر ایسے
وقت میں جب کہ لکھنؤ اور کانپور کی مسلم قیادت مسلمانوں میں فرقہ وارانہ اتحاد کو
برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ جو واقعہ چالیس پچاس سال پہلے
ہو چکا ہے اس کے ذکر سے امن میں مزید خلل اور عوام میں اختلاف و انتشار پھیلے گا۔
اس تناظر میں یہ ذکر کرنا مناسب ہوگا کہ کس طرح سنی
صوفی روایت سے تعلق رکھنے والے کچھ جواں سال اسلامی اسکالرز اس فرقہ واریت سے
مذہبی نقطہ نظر سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایسی ہی ایک دانشورانہ کوشش الہ آباد کے صوفی مدرسہ
جامعہ عارفیہ سید سراواں سے وابستہ جواں سال عالم دین مولانا ذیشان مصباحی نے بھی
کی ہے جو تصوف پر ایک سالانہ جریدے "الاحسان" کے ایڈیٹر بھی ہیں اور حال
ہی میں جنہوں نے ایک دلچسپ کتاب تصنیف کی ہے جس کا عنوان ہے، "مسئلہ تکفیر و
متکلمین"۔ اس کتاب میں مسلمانوں کی تکفیر کے پیچیدہ اور باریک مسائل پر روشنی
ڈالی گئی ہے اور اسے خصوصی طور پر نیو ایج اسلام پر شائع کیا گیا ہے۔
لنک:
مولانا ذیشان مصباحی نے اس کتاب میں غلو فی التکفیر
کی تردید کے لئے نظریاتی بنیادیں قائم کرنے کی کوشش کی ہیں اور ہندوستانی مسلم
کمیونٹی کے لیے تباہ کن تکفیری ذہنیت سے بچنے اور خاص طور پر دیوبندیوں اور
بریلویوں جیسے سنی ذیلی فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ اتحاد کو مضبوط کرنے کا راستہ
دکھایا ہے۔ کلاسیکی اسلامی کتابوں اور امام اعظم ابو حنیفہ، علامہ ابن عابدین شامی
اور امام غزالی جیسے مستند ماہرین علوم اسلامیہ اور خاص طور پر ان کی کتاب فیصل
التفرقہ کے حوالوں سے مولانا مصباحی تکفیر پر روایتی موقف کی تائید کرتے ہیں۔ جو کہ
منطقی اور متضاد اصطلاح سے کہیں زیادہ محتاط ہے جیسا کہ حرکۃ التکفیر والمہاجرۃ
اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں اور انتہا پسند نظریہ سازوں کی تفہیم سے واضح ہے۔
موصوف اپنے اختتامی ریمارکس میں لکھتے ہیں:
’’ہاں! یہ ضرور ہے کہ کافریا non-believer کا ایک اطلاق اسلامی
مفہوم سے ماورا مطلقاً مذہبی اصطلاح کے طور پر بھی ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے کافر کا
اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو ایک خدا پر یقین نہیں رکھتے۔اس لحاظ سے دنیا کے تمام
موحدین believer اور غیر کافر ہیں” ۔
کافر کی مذکورہ بالا تعریف اس اصطلاح کی ان مختلف
گمراہ کن تشریحات سے کہیں زیادہ محفوظ اور بے ضرر ہے جو فرقہ وارانہ کشیدگی اور
فرقہ وارانہ تنازعات پیدا کرتی ہے۔ تاہم، یہ تعریف صرف ان لوگوں کو بچاتی ہے جو
توحید پر یقین رکھتے ہیں جو کہ سامی مذہب کی روایات کا جزولاینفک ہے۔ یہ روایتی
سنی علماء کا موقف ہے جسے جنوبی ایشیا میں ‘سوادِ اعظم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
لیکن ان لوگوں کے بارے میں کیا حکم ہے جو ڈی ازم کے تصور پر یقین رکھتے ہیں؟ پڑھے
لکھے مسلم نوجوان اور ترکی جیسے مسلم ممالک کی نئی نسلیں اس پر یقین کرتی ہیں۔ ڈی
ازم کا عقیدہ آخرت، جنت اور جہنم، فرشتوں اور قیامت (حشر النشر) کے عقیدے کو مسترد
کرتا ہے۔ یہ تمام باتیں روایتی سنی اور شیعہ اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ لیکن ڈی
ازم کا عقیدہ صرف ایک خالق کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ ڈی ازم کے فلسفے
کے مطابق اللہ نے اس کائنات کی تخلیق کے بعد اس مخلوق سے رشتہ منقطع کر لیا ہے اور
اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق بہت سے ترک
نوجوان ڈی ازم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس سے مولانا ذیشان مصباحی جیسے روایتی علماء
کی کتابوں کے لئے ایک فقہی چیلنج کھڑا ہوتا ہے۔ انہوں نے شاید جدت پسند اسلامی
مفکرین کی طرف اشارہ کیا ہے جو غیر مؤحدین کے لیے دروازے کھولنے کی کوشش کر رہے
ہیں جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: " الحاصل!اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اصل کے
لحاظ سے کافر یا non-believer کا اطلاق جس طرح ملحد اور atheistکے لیے درست ہے اسی طرح غیر مسلم یا non-Muslim کے لیے بھی درست ہے۔ مگر بعض متجددین زمانی مرعوبیت یا دینی
عدم تصلب کے سبب کچھ اور ہی نیا کرنے کے درپے ہیں۔
بہر حال، یہ مختصر جملے جیسا کہ اوپر مذکور ہوئے، ڈی
ازم کی طرف مائل ہونے والے ترکی کے ان مسلم نوجوانوں کے متجسس سوالات کو حل کرنے
کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ہندوستان کے مسلم معاشرے میں گہری فرقہ واریت کے پیش نظر
ایک متبادل نقطہ نظر اور تکفیر کے مسئلے پر ایک علمی بحث اور تنقیدی تجزیہ کے ساتھ
ان کی یہ کتاب ایک بہترین پیش کش ہے۔
ہندوستان کے ایک اور فعال اسلامی مذہبی دانشور
دارالعلوم دیوبند کے ممتاز عالم دین ڈاکٹر وارث مظہری کا نام بھی قابل ذکر ہے جو
بڑی محنت سے فرقہ وارانہ تقسیم کو کم کرنے، علماء برادری میں فکری بیداری پیدا
کرنے اور خاص طور پر مدارس کے اندر اصلاحات کرنے میں سرگرم عمل ہیں ہے۔ انہوں نے
ایک دلچسپ تحریر لکھی جسے نیو ایج اسلام کے اردو سیکشن میں "تکفیر مسلم کا
مظہر اس کے مضمرات" کے عنوان سے دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔ ماخذ: http://www.newageislam.com/urdu-section/takfir-and-its-implications-/d/7208
ڈاکٹر وارث مظہری نے دیوبند کے سابق علماء مثلا
مولانا حسین احمد مدنی اور ان کی کتاب نقش حیات اور مولانا رشید احمد گنگوہی اور
ان کی تصنیف انوار القلوب کا حوالہ دیا ہے جس میں تکفیر پر ان کا موقف یہ درج ہے:
اگر تکفیر کے حق میں 99 وجوہات ہوں اور اس کے خلاف میں صرف ایک تو اہل قبلہ میں سے
کسی کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔ بالکل یہی حکم امام ابو حنیفہ اور ملا علی
قاری سے بھی شرح فقہ اکبر میں منقول ہے-جو کہ اسلامی عقائد پر لکھی جانے والی قدیم
ترین کتاب اور سنی حنفی فقہی مذہب کے بانی ابو حنیفہ کی باقیات میں سے ہے۔
"اس موقف کے باوجود بعض اہم دیوبندی علماء نے اس
سلسلے میں شدید غلطیاں کیں جس کے نتیجے میں مولانا حمید الدین فراہی اور مولانا
شبلی نعمانی جیسے اہم علماء بھی تکفیر کے فتوے سے نہیں بچ سکے اور جہاں بریلوی
مکتبہ فکر کا معاملہ ہے وہ پوری دیوبندی اور اہل حدیث برادری کی کھل کر تکفیر کرتے
ہیں ۔فتاویٰ رضویہ میں یہ فتویٰ منقول ہے کہ دیوبندیوں کے کفر میں جو شک کرے وہ
بھی کافر ہے"۔
بریلویوں اور دیوبندیوں کے درمیان یا سنیوں اور شیعوں
کے درمیان فرقہ وارانہ کشیدگی ایک وسیع سطح پر محض محرم کے دوران تعزیہ کے جلوسوں
تک ہی محدود نہیں ہے۔ بلکہ ان کے درمیان اس اختلاف کی گہری نظریاتی بنیادیں ہیں جو
برصغیر ہند کے مسلمانوں کے لیے سنگین چیلنج ہیں۔
ان نظریاتی اختلافات نے 'امت اسلامیہ' کو اندر سے
بکھیر دیا ہے۔ ڈاکٹر وارث مظہری یا مولانا ذیشان مصباحی جیسے سنجیدہ علماء اور نیک
نیتی کے حامل مفکرین کے ایک گروپ نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ کسی طرح ان تنازعات کی
شدت کو کم کیا جائے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دیوبند اور بریلی کی قیادت فرقہ
وارانہ اختلاف کو ختم کرنے کے لیے کچھ ٹھوس کوششیں کرے گی؟ کیا اہل سنت کے اندر یہ
دو ذیلی گروہ شیعہ اور سنی کو اکٹھا کرنے کے انتہائی جرات مندانہ دعوے کرنے سے
پہلے ایک دوسرے کے قریب آ سکتے ہیں؟ ایک ایسے وقت میں کہ جب علماء مسلمانوں اور
غیر مسلموں، اسلام اور مغرب کے درمیان بین المذاہب مکالموں کی ضرورت کے بارے میں
اچھی اچھی باتیں کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ یہ پہلے اپنے مسائل خود حل کرنے کی
کوشش کیوں نہیں کرتے؟
----------
English Article: Row Over the Muharram Circular in UP: Showcasing Sectarian Unity Is Admirable But Too Ambitious, Too Gigantic A Task To Achieve
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muharram-circular-sectarian-unity/d/125231
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam
Women and Feminism