پاکستان میں واحد قومی نصابی
پروگرام کے ساتھ مذہبی پولیسنگ کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔
اہم نکات:
1. بچوں کو کلاس میں قرآن سیکھنے اور حفظ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے
2. بچوں کو اپنے اسکولی بستوں میں قرآن لے جانا ضروری ہے
3. پرنسپلز اور اساتذہ پر اس پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا
جا رہا ہے
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
7 دسمبر 2021
پاکستان میں مذہب کو سیاسی
طاقت کے ناجائز ہونے کی نا اہلی کو چھپانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مذہب انہیں
اپنی حکومت کی ناکامی کے لیے حمایت حاصل کرنے کا آسان ترین طریقہ فراہم کرتا ہے۔ یہ
جنرل ضیاءالحق کے دور آمریت اور اب وزیراعظم عمران خان کے دور میں ہوا۔
ڈان میں پاکستانی ایٹمی سائنسدان
اور سماجی مسائل پر بکثرت تبصرہ نگار پرویز ہودبھائے کے لکھے گئے ایک مضمون کے مطابق،
پاکستان کی حکومت قومی اسکولوں کے نظام کی اسلامائزیشن کی طرف بڑھ رہی ہے۔ نئے واحد
قومی نصاب کے تحت قرآن کو حفظ کرنا اور سیکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت
ملک بھر کے اسکولوں کے طلبا بشمول نابالغ لڑکیوں اور پرائمری درجے کے لڑکوں کو قرآن
سیکھنا ہوگا اور اس مقصد کے لیے روزانہ قرآنی نسخے اسکول لانا ہوں گے۔
اگرچہ ایس این سی کے تحت نئے
پروگرام کا مقصد ملک بھر میں تعلیمی نظام میں یکسانیت لانا ہے، لیکن توجہ صرف اسکولوں
میں قرآن کی تعلیم پر مرکوز ہے۔ اسکولوں کے پرنسپل اور اساتذہ اپنی طرف سے کسی بھی
قسم کی کوتاہی کے ذمہ دار خود ہیں۔
پاکستان میں مدارس کے نظام
تعلیم میں قرآنی تعلیم سمیت اسلامی تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اور ملک میں لاکھوں
مدارس بھی ہیں۔ اس کے باوجود حکومت پاکستان نے یہ نظام متعارف کیا ہے اور اسکولوں میں
قرآن پاک کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی کوتاہی پر اساتذہ
اور پرنسپل کو بھی سزا دی جا رہی ہے۔
پاکستان میں قرآن کی بے حرمتی
کرنے والوں کے خلاف توہین رسالت کے مقدمات درج کیے جاتے ہیں۔ کچھ سال قبل ایک حافظ
قرآن کو مشتعل ہجوم نے گھر کے اندر غلطی سے قرآن مجید کو آگ میں گرانے پر قتل کر کے
جلا دیا تھا۔ درخشاں نامی ایک خاتون کو چند سال قبل کابل میں ایک بے ہنگم ہجوم نے مبینہ
طور پر قرآن کی آیات پر مشتمل کتاب طلسم کے الزام میں قتل کر دیا تھا اور اس کی لاش
کو جلا دیا تھا۔
چونکہ بچے درسی کتابوں کے
ساتھ اپنے اسکولی تھیلے میں قرآن لے کر جائیں گے، اس لیے وہ قرآن کی عزت کا خیال نہیں
رکھ سکیں گے کیونکہ وہ بیگ اپنے ساتھ رکھیں گے۔ بچے بعض اوقات تھیلے کو غلطی سے فرش
پر گرا دیں گے یا تھیلے رکھنے کے لیے مناسب جگہ نہ ملنے پر وہ تھیلے کو فرش پر رکھ
دیں گے۔ کبھی کبھی کتابیں تھیلوں سے نکل کر فرش پر گر جاتی ہیں۔
یہ عجلت میں کیوں کیا گیا
اس کی کوئی وضاحت نہیں ملتی۔ ظاہر ہے کہ اپنی حکومت کی ناکامی سے عوام کی توجہ ہٹانے
کے لیے عمران خان نے یہ نظام نافذ کیا ہے تاکہ عام مسلمان ان کی طرز حکمرانی کی خرابیوں
کو بھول جائیں۔ اس کی ایک اور وجہ تحریک لبیک پاکستان کا عروج بھی ہو سکتا ہے جس کے
ساتھ حکومت نے ایک معاہدہ کیا ہے جس کی شرائط ظاہر نہیں کی گئی ہیں۔
یہ پروگرام اسکولوں کے اساتذہ
اور پرنسپل کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات اور اسکولوں کے غیر مسلم طلباء کے خلاف بھی
مقدمات کا باعث بنے گا۔ پاکستان میں ان لوگوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج کیے
جاتے ہیں جو مخالف فرقے کے نظریے سے مطابقت نہیں رکھتے یا دوسرے فرقوں کے طرز عمل اور
عقائد پر تنقید کرتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اسکولوں کے پرنسپل اور
اساتذہ اس پروگرام کا شکار ہوں گے۔
اس پروگرام سے معصوم بچوں
میں قرآن نہ سیکھنے پر سزا کا خوف پیدا ہو گا۔ قرآن کو لے کر چلنا اور اسے سنبھال کر
رکھنا ان کے لیے ایک نفسیاتی بوجھ ہو گا اور وہ اسکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے کی
خوشی سے محروم ہو جائیں گے۔ مذہب یا مذہبی کتابوں کو بچوں میں خوف کا باعث نہ بنایا
جائے۔ لیکن بدقسمتی سے عمران خان کی حکومت نے ایسا کر دکھایا ہے۔ اگر یہ پروگرام واپس
نہ لیا گیا تو اس کے بہت دور رس سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔
-----
مطوع آرہے
ہیں
تحریر پرویز
ہود بھائے
4 دسمبر 2021
'مطوع' ایک عربی لفظ ہے جو
کبھی خوفناک سعودی مذہبی پولیس کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ تیل سے چلنے والی وہابی
حکومت کے ذریعہ وضع کردہ طرز عمل کے معیارات کو نافذ کرنے کا کام اس کے ذمہ تھا، مشرق
وسطیٰ میں جاری لبرلائزیشن نے اس کے پروں کو کاٹ دیا ہے۔ لیکن عمران خان کی قیادت میں
پاکستان کہیں اور جا رہا ہے۔ حکومت کے نئے واحد قومی نصاب (SNC) کو نافذ کرنے کے لیے
سرکاری اور نجی اسکولوں کی سخت مذہبی پولیسنگ شروع کر دی گئی ہے۔ پاکستان میں بھی مطوع
کا دور شروع ہونے والا ہے۔
'عدالتی کیس - سب سے اہم' کے طور پر نشان زدہ، مورخہ 10 نومبر 2021
کو لکھے گئے ایک خط میں، پنجاب حکومت کے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے ایک ہدایت جاری
کی کہ لاہور ہائی کورٹ سے موصول ہونے والے احکامات کے مطابق صوبے کے تمام اسکولوں کی
قرآن پڑھنے/ ناظرہ کی مہارت کی سخت جانچ کی جائے گی۔ ہر اسکول کا مشترکہ طور پر ڈسٹرکٹ
ایجوکیشن اتھارٹی کے سربراہ اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج معائنہ کریں گے۔ اسکولوں کے پرنسپلوں
اور اساتذہ کے سیل فون نمبرز کے ساتھ ساتھ کئی سو اسکولوں کی فہرست بھی دی گئی ہے جنہیں
معائنہ کے لیے متعین کیا گیا ہے۔
مولوی کی نگرانی میں قرآن
پڑھنا بشمول مصنف کے، ہر مسلم گھرانے کا ایک عام اور قدیم رواج رہا ہے۔ لیکن ایک روایت
کو نافذ کرنے کے لیے قانون نافذ کرنے والوں کو متعین کرنا نئی اور عجیب بات ہے۔ ابتدائی
رپورٹس سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے صوبے میں انتشار و افراتفری، اور بچوں، اساتذہ اور
اسکول کے پرنسپلوں میں خوف کی کیفیت دیکھی جا رہی ہے۔
رائفل بردار پولیس اہلکاروں
کے ساتھ مجسٹریٹ سات سے 12 سال کے بچوں سے پوچھ گچھ کرتے ہوئے اسکولوں پر حملہ آور
ہیں۔ ان کے اساتذہ کو کلاس روم سے باہر جانے کا حکم دیا جاتا ہے یا خاموشی سے کونے
میں کھڑے ہونے کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ کچھ معاملات ایسے بھی سامنے آئے جن میں اسکول
کے پرنسپلوں سے کہا گیا ہے کہ وہ صوبے کے مختلف حصوں میں واقع حکام کے سامنے ذاتی طور
پر حاضر ہوں۔
سزائیں دی جا رہی ہیں۔ گزشتہ
ہفتے ننکانہ صاحب کے ایک سیشن جج نے تین اسکول پرنسپلوں کے خلاف تادیبی کارروائی کی
سفارش کی ہے۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک الگ مضمون کے طور پر قرآنی تعلیم پر
ناکافی توجہ دی ہے، جو کہ ایس این سی کی ضرورت ہے۔ چارج شیٹ میں ہے کہ ان کے اسکولوں
میں ایسے طلباء موجود تھے جن کے پاس قرآن پاک کے پارے تھے جو کہ ان کے اسکولی تھیلوں
میں رکھے ہوئے تھے جو کہ سراسر غفلت ہے۔
اس کی وضاحت ضروری ہے۔ جیسا
کہ قاری کو معلوم ہوگا کہ قرآن کا کوئی نسخہ عام کتابوں کے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا۔
وزٹنگ مجسٹریٹ بچوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ اپنے بیگ میں گھر سے قرآن کے نسخے
اپنی نصابی کتابوں کے ساتھ لاتے ہیں۔ لیکن بچے اور کیا کر سکتے ہیں؟ وہ دو بیگ اٹھا
کر چلیں؟ دیہاتوں یا غریب شہری علاقوں میں موجود پرائمری اسکولوں میں بمشکل ہی بیٹھنے
کے لئے کافی کمرے اور جگہ ہیں۔ الماریاں، اگر کوئی ہیں بھی، تو کم ہیں جب کہ تالے والے
بالکل ندارد۔
مجسٹریٹس نے یہ بھی نوٹ کیا
ہے کہ کتابی تھیلے ادھر ادھر پھینکنے ہوتے ہیں یا یوں ہی فرش پر رکھے ہوتے ہیں۔ ایک
اسکول کے پرنسپل کے مطابق ان کے اسکول میں چھٹی جماعت کی کلاس میں مقدس کتاب کم از
کم چار مرتبہ حادثاتی طور پر گری ہے۔ جب کہ ان سے ہلچل مچ گئی بعد میں ہونے والی پیش
رفت معلوم نہیں ہوسکی۔ سزاؤں کی شدت - جس میں ممکنہ طور پر توہین رسالت کا جرم شامل
ہوسکتا ہے - کا مطلب یہ ہے کہ ایسے واقعات کو صرف دانستہ طور پر حریفوں کے خلاف استعمال
کیا جائے گا۔
صرف یہی معاملات نہیں ہیں
جن سے اسکول کے پرنسپل اور اساتذہ پریشان ہیں۔ روایتی طور پر احترام کا تقاضا ہے کہ
کوئی بھی قرآن کی طرف پیٹھ نہیں موڑ سکتا۔ بچوں سے بھرے کلاس روم میں کوئی کیا کرے؟
جہاں تک وضو کا تعلق ہے: زیادہ تر اسکولوں میں نہ تو مناسب بیت الخلاء ہے اور نہ ہی
صاف پانی لیکن جیسا کہ مشہور ہے، کوئی بھی قرآن پاک کو صحیح طریقے سے پاک ہوئے بغیر
ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
شناخت کو خفیہ رکھنے کی شرط
پر ایک خاتون ٹیچر نے لکھا کہ مناسب صفائی خاص طور پر خواتین کے اسکولوں کے لیے پریشانی
کا باعث ہے - اور اس سے بھی زیادہ مخلوط اسکولوں کے لیے۔ عام حکم کے مطابق کوئی لڑکی
یا استانی حیض کے دوران مقدس کتاب کو ہاتھ نہیں لگا سکتی۔ لیکن یہ موضوع اس قدر ممنوع
ہے کہ کوئی بھی اس کا ذکر طالب علم یا اعلیٰ افسران کے سامنے کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔
کیا شاید یہی وجہ تھی کہ کچھ قرآن کی استانیاں انسپکشن ٹیموں کے سامنے کلاس میں اپنی
غیر موجودگی کی وضاحت کرنے سے قاصر تھیں؟
عجیب بات یہ ہے کہ پنجاب بھر
میں ایک اسکول سے دوسرے اسکول جانے والے اسکواڈ کا مقصد قرآن کی تعلیم کے معیارات کو
جانچنا ہوتا ہے لیکن ان کے اپنے ارکان کافی ناقص ہیں۔ ایس این سی قرآن کی تعلیم کو
عربی الفاظ کی مناسب تجوید کے ساتھ دینے کی تجویز پیش کرتا ہے۔ تاہم، یہ امر علاقے
کے زیادہ تر قرآن کی تعلیم دینے والے اساتذہ کی استطاعت سے باہر ہے کیونکہ وہ عربی
میں 'قاف' اور 'عین' کا تلفظ شاذ و نادر ہی ادا کر سکتے ہیں۔
مدارس کے فارغ التحصیل اس
سے استثناء ہیں جو اپنی زندگی درست تلاوت میں مہارت حاصل کرنے میں صرف کرتے ہیں۔ لہٰذا،
اگر تجوید کی ضرورت کو پورا کرنا ہے تو منطقی طور پر ایسے ہی افراد کو باقاعدہ بطور
اساتذہ کے بحال کرنا ہوگا۔ یہ وزیر تعلیم شفقت محمود کی جانب سے کی گئی سخت تردیدوں
کے برعکس ہے، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ موجودہ اسکولی سسٹم کی مدرسہ کاری نہیں کی جا
رہی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کو اتنی جلدی
اپنے احکامات جاری کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ جائیداد کے تنازعات، چوری، دھوکہ دہی،
بچوں کے ساتھ بدسلوکی، عصمت دری اور قتل سے متعلق ایک ہزار دیگر زیر التوا شکایات پر
کیا فوری توجہ دی گئی؟ جواب ہمارے سامنے ہے: حکومت میں موجود نظریہ سازوں نے اقتدار
کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔ افغانستان کی طرح یہاں کی عوام بھی اب انہی کے
رحم و کرم پر ہے۔
یہ اس طرح نہیں ہونا چاہیے
تھا۔ یاد رہے کہ عمران خان نے ایس این سی کو ابتدائی طور پر امیر اور غریب سب کے لئے
باقاعدہ اسکول اور مدرسے کی تعلیم کے لیے یکساں مواقع فراہم کرنے کے ذریعہ کے طور پر
مشتہر کیا تھا۔ اور یہ سب سے ناقابل یقین بات ہے - تعلیم کے معیار کو بڑھانے کے بارے
میں بھی۔ تو کیا ہم ایسا دیکھنے والے ہیں کہ مجسٹریٹس مسلح گارڈز کے ساتھ اسکول کی
لیبارٹریوں اور سائنس کے پریکٹیکلز کا معائنہ کرنے آئیں گے؟ کیا وہ یہ جانچیں گے کہ
آیا لائبریریوں میں مناسب ذخیرہ ہے یا بیت الخلاء ٹھیک ٹھاک حالت میں ہیں؟ کیا یہ دستے
25 ملین اسکول نہ جانے والے بچوں کو بتائیں گے کہ اسکول اور اساتذہ کہاں ہیں؟ اور ایسا
تو ہونے سے رہا۔
ہم میں سے خوش قسمت لوگ اسکول
کے دنوں کو بے فکری اور خوشی، ہنسی اور کھیل کود سے بھرا ہوا یاد کرتے ہیں۔ دنیا کے
بیشتر حصوں میں ایسا ہی ہے، اور ہر بچے کے پاس یہی ہونا چاہیے۔ افغانستان کے بچے اتنے
خوش قسمت نہیں اور اب نئے پاکستان کے بچے بھی ایسی ہی بدقسمتی سے دوچار ہونے والے ہیں۔
بدمزاج مجسٹریٹ کا اسکولوں
پر جھپٹنا، اساتذہ اور اسکول پرنسپل کی اتھارٹی کو تباہ کرنا اور سب کے دلوں میں دہشت
ڈالنا تعلیم کے تصور کی توہین ہے۔ یہ شاید یہیں ختم نہ ہو۔ ہم کس طرح کا لباس پہنتے
ہیں، کیا بولتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں ان تمام باتوں کی نگرانی کی جانے والی ہے۔ عمران
خان کا پاکستان طالبانائزیشن کی طرف گامزن ہے۔
----
ماخذ: دی ڈاؤن ڈاٹ کام
English
Article: Religious Policing In The Name Of Learning of the
Quran in Pakistan: Pervez Hoodbhoy Predicts Saudi-Style Militant Mutawwa
Policing In the Country
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism