تشدد کے نظریے کو کچھ
علمائے کرام کی کھلی اور خفیہ حمایت حاصل ہے
اہم نکات:
1. القاعدہ امریکہ کو تباہ نہیں کر سکا
2. داعش صحیح معنوں میں اسلامی خلافت قائم نہیں کر سکی
3. طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغان شہری افغانستان سے فرار
ہو رہے ہیں
4. دہشت گرد تنظیمیں مرکزی دھارے کی انتہا پسند اسلامی تشریحات پر
پروان چڑھتی ہیں
----
نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
25 فروری 2022
(File
Photo)
------
آج مسلم دنیا کا سب بڑا
مسئلہ یہ ہے کہ اسے نظریاتی بحران کا سامنا ہے۔ اگرچہ عام طور پر ہر مسلمان یا ہر
اسلامی اسکالر اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسلام امن کا مذہب ہے، لیکن حقیقت اس کے
بالکل برعکس ہے۔ مسلم دنیا مجموعی طور پر یا تو سیاسی اختلافات کی بنیاد پر یا
مذہبی اختلافات کی بنیاد پر تشدد کی لپیٹ میں ہے۔
سیاسی یا نسلی تنازعات کے
علاوہ دورِ جدید میں مسلم معاشروں میں تشدد کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انتہا پسندی کو
مذہبی اور سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
انتہا پسندی کی تاریخ نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ملتی ہے جب مسلمانوں کے ایک گروہ نے مذہب کے
نام پر تشدد کیا تھا۔ قرآن مسلمانوں میں انتہا پسند گروہوں کی بات کرتا ہے۔
"اور بعض آدمی وہ ہیں کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تجھے
بھلی لگے اور اپنے دل کی بات پر اللہ کو گواہ لائے اور وہ سب سے بڑا جھگڑالو ہے ۔
اور جب پیٹھ پھیرے تو زمین میں فساد ڈالتا پھرے اور کھیتی اور جانیں تباہ کرے اور
اللہ فسادسے راضی نہیں۔" (البقرہ: 205)
قرآن میں ایسی بھی آیات
بھی ہیں جو مسلمانوں کے درمیان ایسے انتہا پسندوں کے بارے میں بتایاگیا ہے جو یہ
سمجھتے ہیں کہ تشدد کو اصلاح کے لیے اور اسلام کے پیغام کو پھیلانے کے لیے استعمال
کیا جا سکتا ہے حالانکہ قرآن بار بار کہتا ہے کہ تشدد کا استعمال سماجی اصلاح کے
لیے نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی خدا کے پیغام کو پھیلانے کے لیے۔ اسی طرح کی
ایک اور آیت ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایسے مسلمان بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ
تشدد کر کے وہ معاشرے میں اصلاح کی کوشش کر رہے ہیں اور ایک انصاف پسند معاشرے کے
لیے زمین تیار کر رہے ہیں لیکن قرآن انہیں فسادی یا مفسد قرار دیتا ہے۔
’’اوران سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو
سنوارنے والے ہیں ۔ سنتا ہے وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں،‘‘ (البقرہ:12)
ایک اور موقع پر قرآن
فرماتا ہے:
"اور خدا خوب جانتا ہے بگاڑنے والے کو سنوارنے والے سے"۔
(البقرہ: 220)
لہٰذا یہ بات واضح ہو
جاتی ہے کہ بعض اوقات فساد اور اصلاح کے درمیان فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے، خاص طور
پر جدید دنیا میں جہاں حالات بہت پیچیدہ ہیں اسی لیے علماء اسلام بھی بعض بنیادی
مسائل پر اختلاف کا شکار ہیں۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث
کے مطابق آخری زمانے میں دین کے معاملات میں ابہام پیدا ہو جائے گا اور بہت سے
علماء اپنے گمراہ کن خیالات سے مسلمانوں کو جہنم کی طرف لے جائیں گے۔
انتہا پسند گروہ حضرت علی
رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایک بڑے نظریاتی گروہ کے طور پر ابھرے۔ یہاں تک کہ
چوتھے صالح خلیفہ کو ان کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنا پڑی اور انہیں ختم کرنا پڑا۔
انہیں خوارج کہا جاتا تھا۔ عربی میں اس کا مطلب ہے باہر والے۔ چونکہ اس وقت تک
تکفیری نظریہ کو بنیاد نہیں ملی تھی، اس لیے انہیں کافر قرار نہیں دیا گیا اور صرف
قرآن کی اس ایک آیت کی بنیاد پر خارجی کہا گیا جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے
کہا گیا تھا کہ ان کا دین میں گروہ بنانے والوں سے کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ زیادہ تر
خارجیوں کو چوتھے خلیفہ نے ختم کر دیا تھا، لیکن کچھ بچ گئے اور انتہا پسندانہ
نظریہ کچھ عرصے تک غیر فعال رہا۔ حالانکہ حضرت علی کو خود ایک خارجی نے قتل کیا
تھا۔
(File
Photo/ Boko Haran)
------
بعد میں، خارجی نظریے نے
القاعدہ، طالبان، داعش اور ان کی شاخوں جیسے انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کو
جنم دیا۔ لیکن یہ گروہ راتوں رات نہیں ابھرے۔ ان کی بنیاد قرون وسطی کے بعض بڑے
علمائے کرام کی قرآن کی انتہا پسندانہ تشریحات اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی زندگی میں ہونے والے واقعات پر تھی۔ یہاں تک کہ کچھ جدید علمائے اسلام بھی
انتہا پسندانہ خیالات رکھتے ہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کا اپنا آزادانہ نظریہ نہیں
ہے بلکہ وہ اپنے عقائد اور نظریات کی بنیاد کچھ مرکزی دھارے کے علمائے اسلام کی
تشریحات اور تفسیروں پر رکھتے ہیں۔
مسلم دنیا میں تشدد، قتل
عام اور خانہ جنگی کے بڑے واقعات ان انتہا پسند تنظیموں نے اسلام کے تحفظ، غیر
مسلموں میں دین پھیلانے، اسلام کے دشمنوں سے لڑنے اور خلافت کے قیام کے نام پر
انجام دیے ہیں۔ القاعدہ نے مسلم ممالک میں امریکی زیادتیوں کا مقابلہ کرنے کے نام
پر دنیا کے مختلف حصوں میں 11/9 اور دیگر بم دھماکے کئے۔ طالبان نے افغانستان پر
امریکی قبضے کے خلاف لڑ کر اور شریعت کی بالادستی کے قیام کی کوششوں کی بنیاد پر
اپنا جواز حاصل کیا۔ داعش نے شام میں خلافت کے قیام کے لیے مسلم دنیا کے بعض ممتاز
علمائے کرام کی اخلاقی حمایت بھی حاصل کی تھی۔ ان تمام کارروائیوں میں غیر مسلموں
کے علاوہ بے شمار بے گناہ مسلم خواتین، بچے اور بزرگ مارے گئے لیکن ان خارجی
تنظیموں نے قرون وسطی کے چند نامور اسلامی فقہا کی آراء کا حوالہ دے کر اپنے غیر
انسانی کاروائیوں کا جواز پیش کیا۔ یہاں تک کہ موصل پر داعش کے قبضے کے دوران
شیعہ، سنی اور عیسائی خواتین کے قتل کو بھی مسلم علماء کے ایک طبقے نے کھلے عام یا
ڈھکے چھپے انداز میں حمایت کی یا اس کا دفاع کیا۔
طالبان ماضی میں پاکستان
اور افغانستان دونوں میں رہائشی کمپلیکس کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ انہوں نے پاکستان
میں سوات اور افغانستان کے کئی قصبوں میں لڑکیوں کے اسکولوں پر حملے کیے۔ ان کے
جنگجوؤں نے ملالہ پر صرف لڑکیوں کی تعلیم کی وکالت کرنے پر گولی ماری جو کہ ہر
مسلمان مردوں و عورتوں پر فرض ہے۔ انہوں نے حال ہی میں افغانستان میں ایک لڑکی کو
نقاب نہ پہننے پر سرعام گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ پاکستان میں، وہ شیعوں کو نشانہ
بناتے ہیں اور شیعہ بچوں پر یہ کہتے ہوئے حملہ کرتے ہیں کہ سانپوں سے صرف سانپ ہی
پیدا ہوں گے۔ اب بھی بہت سے اسلامی علماء خارجی نظریات پر مبنی ان غیر اسلامی
اعمال کو نظر انداز کرتے ہیں اور انہیں اسلام کے حقیقی علم بردار قرار دیتے ہیں۔
تقریباً دس سال قبل نواز
شریف حکومت نے طالبان دہشت گردی کے معاملے پر آل پارٹی کانفرنس بلائی تھی۔ ایک
اسلامی تنظیم نے اس میں حصہ لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ وہ طالبان کو
دہشت گرد تنظیم نہیں مانتے۔ حال ہی میں، ایک نام نہاد اعتدال پسند اسلامی تنظیم کے
سربراہ، ہندوستان کے ایک ممتاز اسلامی اسکالر اور استاد نے افغانستان میں طالبان کے
اقتدار میں آنے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ آزادی پسند ہیں۔
ان علمائے کرام نے طاقت
کے استعمال سے متعلق قرآنی احکامات کو نظر انداز کیا ہے۔ قرآن طاقت یا تشدد کی
اجازت صرف اس صورت میں دیتا ہے جب کسی کے ساتھ ظلم کیا جاتا ہو یا اسے کسی وجودی
خطرہ کا سامنا ہو۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو تشدد سے پرہیز کیا
جائے۔ یہ علمائے اسلام اس عقیدے میں کہ خلافت نام کی حکومت ہی عالم اسلام کے تمام
مسائل کا حل ہے ، اس قدر ڈوبے ہوئے ہیں کہ وہ خلافت کے قیام کے نام پر ہونے والے
ہر قتل و غارت، خونریزی اور فساد کو قبول کرتے ہیں۔ شام میں خانہ جنگی کے دوران
ایک عالم دین نے کہا کہ بڑے مقاصد کے حصول کے لیے چھوٹے موٹے گناہ قابل قبول ہیں۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات میں اس قول کا کوئی جواز
نہیں ہے۔ اور یہ قول کہ کہ خون خرابہ، قتل و غارت، عورتوں کی عصمت دری، ان کی
غلامی، مزارات، مساجد اور گرجا گھروں کی تباہی معمولی زیادتیاں ہیں، اعتدال پسندی
کی آڑ میں اپنے ہی خارجی نظریے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
Ayman
al-Zawahiri (left) and Osama bin Laden (right)/ Photo: TRT World
------
القاعدہ امریکہ کو تباہ
نہیں کر سکی، داعش خلافت قائم نہیں کر سکی اور طالبان صحیح معنوں میں اسلامی خلافت
یا حکومت قائم نہیں کر سکے۔ لاکھوں افغان شہری ظلم و ستم کی وجہ سے غیر مسلم ممالک
میں پناہ لے چکے ہیں۔ یقیناً یہ قرآن و سنت کا پیش کردہ قانون نہیں ہے۔
ان دہشت گرد تنظیموں نے
امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کو فوجی آپریشن کرنے اور اپنی فوجیں مسلم ممالک میں
تعینات کرنے کی اجازت دے کر مسلم دنیا کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ ان دہشت گرد
تنظیموں نے اسلام کے دشمنوں کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر مسلم ممالک کی
معیشت کو تباہ کرنے کا موقع فراہم کرکے ان کے سیاسی مفادات کو پورا کیا ہے۔
دہشت گردی اس وقت تک
پروان چڑھتی رہے گی جب تک مسلمان تشدد کے نظریے کی کسی بھی شکل میں حمایت کریں گے۔
اسلام کسی ایسی تحریک کی حمایت نہیں کرتا جو جنگل یا پہاڑوں سے چلائی جائے۔ انصاف
کی تحریک عوام کے لیے چلائی جائے، عوام ہی چلائیں اور وہ عوام کی ہی ہو۔ نبی پاک
صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سے نہیں بلکہ معاشرے کے اندر سے اور پرامن طریقے سے
اصلاح لانے کی کوشش کہ اور اس میں بے گناہوں پر طاقت کا استعمال بھی کبھی نہیں
کیا۔ جتنی جلدی مسلمان اس بات کو سمجھیں گے ان کے لیے اتنا ہی بہتر ہے۔
English
Article: Ideological Crisis in Islam: Al-Qaida, Taliban and
ISIS Have Done Islamic World Irreparable Damage
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism