نیو ایج اسلام اسٹاف
رائٹر
2 مئی 2022
ہندوستان میں ہندوؤں اور
مسلمانوں کے بیچ فرقہ وارانہ منافرت نئی نہیں ہے۔ اس کا سلسلہ برطانوی حکومت کے
ذریعہ ہندو مسلم اتحاد کو کمزور کرنے کے لئے شروع کیا گیا۔ اس کے بعد سے فرقہ
وارانہ تناؤ اور فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ تقسیم ہند نے بڑے پیمانے پر فسادات
بھڑکائے جن کا سلسلہ آزادی کے بعد بھی چلتا رہا۔
لیکن فرقہ وارانہ منافرت
اور فرقہ وارانہ فسادات کے بیچ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ بقائے بایم اور فرقہ
وارانہ ہم آہنگی کے لئے بھی انفرادی اور اجتماعی طور پر کوششیں ہوتی رہیں۔
اس کوشش میں کبھی ہندوؤں
نے تو کبھی مسلمانوں نے اپنا کردار ادا کیا۔
گذشتہ چند برسوں میں فرقہ
پرست طاقتوں نے دونوں فرقوں کے درمیاں خلیج کو وسعت دینے کی کوشش کی ہے اور دونوں
کو ایک دوسرے کا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ خاص کر مسلمانوں کو ہندؤں کا دشمن
ثابت کرنے کے لئے پروپیگنڈہ پھیلایا جارہا ہے اور انہیں پتھر باز ثابت کرنے کی
کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں نے ہر موقع پر اپنے عمل سے اچھے
شہری کے فرائض ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔اور ہندو فرقے سے صدیوں پرانے تعلقات کو
بنائے رکھنے کی کوشش کی ہے۔گاہے گاہے ایسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جن سے ہندوستان
کی فرقہ واران ہم آہنگی میں ایمان پختہ ہو جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں مغربی بنگال
کے ایک قدیم شہر رانی گنج میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔ 2018 ء میں یہاں رامنومی
کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔ اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ ایک وقتی
درار پیدا ہوگئی تھی لیکن حالیہ واقعے نے یہ ثابت کردیا کہ ہندوستان میں دونوں
فرقوں میں جذباتی رشتوں کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ انہیں دائمی طور پر توڑا نہیں
جاسکتا عارضی طور پر دونوں کے بیچ بدگمانی پیدا کی جاسکتی ہے۔
رانی گنج کے ایک مسلم شخص
شمس الدین کی جوگندر نام کے ایک ہندو شخص سے گیری دوستی تھی۔ جوگندر بہار کے کسی
شہر کا رہنے والا تھا۔ وہ گذشتہ بائیس برسوں سے بنگال کے شہر رانی گنج میں رہ رہا
تھا۔ ابتدا میں اس نے کسی کارخانے میں ملازمت کی ۔اس کارخانے کے بند ہوجانے کے بعد
اس نے ٹیوشن پڑھا کر اپنا گذارہ شروع کیا۔ اس کے پاس اپنا کوئی گھر نہیں تھا اس
لئے وہ مقامی ٹرانسپورٹ یونین کے دفتر میں ہی رہتا تھا اور ہوٹل میں کھانا کھاتا
تھا۔ اس کا اپنے گھر والوں سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا تھا۔
چند دنوں قبل جوگندر کی
موت ہوگئی۔ شمس الدین نے بہار میں اس کے گھر والوں کو خبر دی۔ لیکن اس کے گھر والوں
نے شمس الدین سے کہا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہئے اس لیے آپ لوگوں کو جو
کرنا ہئے کیجئے۔ شمس الدین کو ان کی باتوں سے مایوسی ہوئی لیکن وہ اپنے دیرینہ
دوست کو موت کے بعد لاوارث نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اس نے فصلہ کیا کہ وہ جوگندر کی
آخری رسومات اس کے وارث کی حیثیت سے ہندو رسم ورواج کے مطابق ادا کرے گا۔
لہذا اس نے چند ہندو اور
مسلم دوستوں کو اکٹھا کیا اور ہندو رسم ورواج کے مطابق اس کی ارتھی تیار کی۔ اور
شمشان گھاٹ تک اس کی ارتھی کو کاندھا دیا۔ مکھ اگنی کی رسم ادا کی اور سر
منڈوایا۔اس طرح پورے احترام کے ساتھ اس کی آخری رسومات ادا کیں۔
شمس الدین کے اس عمل سے
علاقے کے ہندوؤں کے دلوں میں شمس الدین کے لئے کافی عزت بڑھ گئی اس کے ساتھ ساتھ
مسلمانوں کی رواداری کے بھی لوگ قائل ہوگئے۔
یہ واقعہ استثنائی نوعیت
کا نہیں ہے۔ دو سال قبل کورونا مہاماری کے دوران ایسا ہی ایک واقعہ رانی گنج سی 20
کیلو میٹر دور واقع شہر آسنسول میں ہوا تھا۔ یہاں بھی ایک ہندو شخص برسوں سے ایک
مسلم فیملی کے ساتھ رہ رہا تھا۔اس کا کوئی رشتہ دار شہر میں نہیں تھا۔ وہ کافی
عرصے بیمار رہ کر چل بسا تو اس مسلم فیملی نے اس کی آخری رسومات ہندو رسم ورواج کے
مطابق ادا کی اور شمشان گھاٹ تک ارتھی کو کاندھا دیا۔
کورونا مہا ماری کے دوران
پورے ملک میں مسلمانوں نے بے خوف ہو کر کووڈ سے ہلاک ہونے والے ہندوؤں کی آخری
رسومات ادا کیں ۔ بہت سے معاملوں میں مہلوک کا کوئ وارث نہیں تھا۔ اس لئے مسلمانوں
نے ان کو لاوارث جھوڑنے کی بجائے ان کی آخری رسومات یندو رسم ورواج کے مطابق ادا
کیں۔ بہت سے معاملوں میں مہلوک کے فیملی کے لوگ تو موجود تھے مگر وہ بھی کووڈ میں
مبتلا تھے اور کوارنٹائن میں یا ہسپتال میں تھے اس لئے مہلوک کی آخری رسوم ادا
نہیں کر سکتے تھے۔ اس لئے ان کی درخواست پر پڑوس کے مسلمانوں ہمسائگی کا حق ادا
کیا اور ان کی آخری رسومات ان کے مذہبی طریقے سے ادا کیں۔ ایسے بھی لوگ تھے جو
کووڈ ہو جانے کے خوف سے مہلوک کی لاش کو لینا نہیں چاہتے تھے۔ ۔اس لئے مسلمانوں نے
بے خوف ہو کر ایسے مہلوکین کی آخری رسومات ادا کیں۔
مثال کے طور پر وارانگل
میں محبوب علی اور ان کی اہلیہ یعقوب بی بچوں اور بڑوں کے لئے ایک شیلٹر ہوم چلاتے
ہیں۔ ا شیلٹر ہوم میں ویراسوامی نام کے ایک بزرگ رہتے تھے۔ اچانک کسی بیماری میں
ان کا انتقال ہو گیا۔ چونکہ دنیا میں ان کا کوئی نہیں تھا اس لئے محبوب علی اور
یعقوب بی نے ویراسوامی کی آخری رسومات ہندو رسومات کے مطابق ادا کیں۔
گذشتہ سال لکھنؤ کے امداد
امام اور ان کے ساتھیوں نے رمضان کے دوران روزے کی حالت میں 7 ہندوؤں اور 30
مسلمانوں کی تدفین اور آخری رسومات ادا کیں۔
راجستھان کے کوٹا میں
معید انور اور معین انور دو بھائی ہندو کریمیشن گراؤنڈ کئی نسلوں سے چلاتے ہیں۔
کووڈ مہاماری کے دوران ان دونوں بھائیوں نے 800 ہندوؤں کی آخری رسومات ادا کیں جن
میں 400 کووڈ سے ہلاک ہوئے تھے۔
بھوپال میں دانش صدیقی
اور صدام قریشی نے 60 کووڈ کے شکار ہندوؤں کی آخری رسومات ہندو رسم ورواج کے مطابق
ادا کیں کیونکہ ان کے رشتہ دار کووڈ ہونے کے خوف سے ان کے قریب نہیں آنا چاہتے
تھے۔
بلال پور میں محمد منیر
نےکووڈ سے مرنے والوں کی مدد کے لئے ایک تنظیم بنائی۔ بلال پور یوتھ ویلفئیر
سوسائٹی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر 210 ہندوؤں اور 70 مسلمانوں کی آخری رسومات
ادا کیں۔
اس طرح کے سینکڑوں واقعات
ہیں جن سے مصیبت اور مہاماری کے دوران مسلمانوں کی رواداری اور مذہبی تعصب سے اوپر
اٹھ کر اپنے ہم وطنوں کی مدد کے لئے آگے آنے کی مثالیں ملتی ہیں۔
آج جبکہ ایک فرقہ پرست
طبقے کی طرف سے مسلمانوں کو فسادی, پتھر باز اور ہندوؤں کا دشمن بنا کر پیش کرنے
کی کوشش ہورہی ہے, ان مثالوں کو اہل وطن کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہئے تاکہ
برادران وطن کے دلوں میں بدگمانی کے جو بیج بوئے جارہے ہیں وہ بارآور نہ ہوسکیں۔
گاہے گاہے بازخواں ایں
قصہء پارینہ را
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism