تصوف نے بدھ
مت سے بہت سے عقائد و معمولات مستعار لیے ہیں
اہم نکات:
1. بدھ مت نے تصوف کو بڑے پیمانے پر متاثر کیا ہے
2. حسین بن منصور، عطار اور بایزید بسطامی جیسے صوفیاء کرام نے ہندوستان
کا سفر کیا ہے۔
3. ابراہیم بن ادھم بدھ مت سے متاثر تھے۔
4. خانقاہ کی ابتدا بدھ وہاروں کے خطوط پر ہوئی۔
5. سانس پر قابو پانے، چکرا اور کمالات کے روحانی معمولات نے تصوف کو
متاثر کیا ہے۔
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
25 نومبر 2021
Courtesy:
.cilecenter.org
-----
ابن عربی نے تصوف کو ویدانتک
فلسفہ اور بدھ مت کے اصولوں پر منظم کیا۔ اس وقت تک تصوف کا مطلب پاکیزگی، تقویٰ، انسانیت
سے محبت، تشدد اور متشدد مذہبی نظریات سے پرہیز کے قرآنی احکامات پر سختی کے ساتھ عمل
کرنا تھا۔ دوسری صدی ہجری تک اسلامی تصوف کی بنیاد قرآنی اصولوں اور احادیث پر تھی
اور اس کا زور ذکر الٰہی اور باطنی تقویٰ و طہارت پر تھا۔ تاہم، تیسری صدی کے بعد اسلامی
تصوف ویدانتک فلسفہ، بدھ مت اور ناتھ پنتھ کے صوفیانہ طریقوں سے متاثر ہوا جو کہ ساتویں
یا آٹھویں صدی عیسوی کے دوران پروان چڑھا۔ اس کی وجہ ہندوستان اور افغانستان میں ہندو
ویدانتک صوفیاء اور بدھ مت کے صوفیاء کے ساتھ اسلامی صوفیاء کرام کا تعامل تھا۔ ابن
عربی کی تصوف کی کتاب فصوص الحکم کی بنیاد امرت کنڈ پر سنسکرت کی کتاب ویدانتک ادویت
واد (مونو ازم) پر تھی۔ فصوص الحکم نے صوفیائے کرام کے درمیان ادویتاواد (وحدت الوجود)
کو رواج بخشا۔ روح کی ذاتِ وحدہ لاشریک میں فنائیت کے نظریہ نے طبقہ صوفیاء کو کافی
گرویدہ کیا۔ 8ویں سے 12ویں صدی کے بہت سے صوفیاء نے ہندوستان اور افغانستان کا سفر
کیا جس میں سندھ بھی شامل ہے جو کہ اس زمانے میں بدھ مت کا مرکز تھا اور انہوں نے مزید
روحانی ترقی حاصل کرنے کے مقصد سے جسمانی ریاضت و مجاہدات کا سہارا لیا۔ حسین بن منصور
حلاج، بایزید بسطامی اور فرید الدین عطار نے ہندوستان کا سفر کیا جو بدھ مت کے صوفیانہ
معمولات سے متاثر تھے۔ حضرت جنید بغدادی بدھ مت کے صوفیانہ فلسفے سے متاثر تھے جس نے
ان کی صوفیانہ فکر میں اعتدال پیدا کیا کیونکہ بدھ مت نے مذہبی اور سماجی معمولات میں
اعتدال پسندی کی تبلیغ کی۔
قرون وسطی میں خراسان اور
ہندوستان کے خطے میں بدھ مت ہی ایک مروج مذہب تھا۔ بلخ بدھ مت کا مرکز تھا جہاں مشہور
صوفی ابراہیم بن ادھم مقیم تھے۔ انہوں نے اپنی بادشاہت ترک کر کے ایک سنیاسی کی زندگی
بسر کی تھی۔ آپ کی کہانی گوتم بدھ کی کہانی سے کافی مشابہ ہے جنہوں نے ایک شہزادے کی
زندگی ترک کر کے فقیری اختیار کر لی۔
لہذا، اسلامی تصوف نے بہت
سے معمولات کو مستعار لیا اور بدھ مت کے تصوف کی بنیاد پر صوفی اصطلاحات وضع کیں۔ مراقبہ
نامی صوفی ریاضت بھی بدھ مت کے دھیان پر مبنی ہے۔ اسلامی تصوف میں ذکر کے لیے تسبیح
کا معمول بھی بدھ مت سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔
Mahatma
Buddha
------
اسلامی تصوف میں خانقاہوں
کی روایت کی ابتدا بدھ ویہار کی بدھ مت کی روایت سے ماخوذ ہے۔ چونکہ صوفیاء قرآن کی
تلاوت اور دعاؤں کے علاوہ دن اور رات کا زیادہ تر حصہ ذکر میں مشغول رہ کر گزارتے ہیں،
اس لیے انہیں ایک ایسی جگہ کی ضرورت تھی جہاں وہ تنہائی میں بیٹھ سکیں۔ لہٰذا، تیسری
صدی ہجری سے اسلامی دنیا میں بدھ مت وہاروں کی طرز پر خانقاہیں پروان چڑھیں۔ پہلی خانقاہ
شام کے شہر راماللا میں تیسری صدی ہجری میں تعمیر کی گئی۔ خانقاہوں میں ترانہ اور سماع
کی مجالس باقاعدگی سے منعقد ہوتیں رہیں۔ خانقاہ کا رکن بننے کے اصول بھی بدھ وہار کی
طرز پر ہی وضع کئے گئے تھے۔
بدھ مت کے تصوف میں، ایک طالب
روحانیت کو سنگھا کی رکنیت کے لیے درخواست دینا پڑتی تھی۔ رکنیت ملنے کے بعد وہ وہار
میں رہ سکتے تھے۔ سنگھا کا رکن بننے اور وہار میں رہنے کے لیے طالب روحانیت کے لیے
دس احکام تھے جن کی تعمیل ان کے لئے ضروری تھی۔ دس احکام یا اقدام حسب ذیل ہیں:
بدھ خانقاہوں کی رکنیت کے لیے درخواست
دینے والے طالب روحانیت کے لیے بدھ مت کے دس احکام،
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
کسی جاندار کو نہیں ماروں گا۔
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
چوری نہیں کروں گا۔
میں ناپاکی سے بچوں گا۔
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
نشہ نہیں کروں گا۔
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
جھوٹ نہیں بولوں گا۔
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
اوقات ممنوعہ میں نہیں کھاؤں گا۔
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
رقص، گیت اور موسیقی میں ملوث نہیں رہوں گا۔
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
چوڑی اور اونچی چارپائی استعمال نہیں کروں گا۔
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
خوشبو، تیل، زیور اور مالا استعمال نہیں کروں گا۔
میں قسم کھاتا ہوں کہ میں
کسی سے سونا یا چاندی قبول نہیں کروں گا۔
طالب روحانیت کو خانقاہ میں
داخل ہونے اور رہنے کے لیے ان دس اصولوں کی پابندی کرنا پڑتی تھی۔
جسم اور کپڑوں کی صفائی۔
گھر اور مسجد میں بیٹھنا۔
وقت پر باجماعت نماز پڑھنا۔
رات کی نماز (تہجد) ادا کرنا
صبح کی استغفار۔
صبح کے وقت قرآن مجید کی تلاوت
کرنا۔
مغرب اور عشاء کی نمازوں کے
درمیان درود اور ذکر کرنا۔
ضرورت مندوں اور بوڑھوں کی
ضروریات کا خیال رکھنا۔
ایک دوسرے کا کھانا ان کی
رضامندی کے بغیر کھانے سے پرہیز کرنا۔
بغیر اطلاع کے ایک دوسرے کو
نہ چھوڑنا۔
اسلامی تصوف اور بدھ مت کے
تصوف کے درمیان مماثلت کا ایک اور نکتہ دس خوبیوں یا روحانی خصوصیات کی نشوونما ہے۔
بدھ مت میں انہیں پرمیتا (کمالات) کہا جاتا ہے۔ بدھ مت کے صوفی کو اپنے اندر ان دس
روحانی کمالات پیدا کرنا ضروری ہے۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
بدھ مت کے دس کمالات
سخاوت
اچھے آداب
تقویٰ
بدیہی حکمت (پرگیہ)
ثابت قدمی
استقامت
سچائی
برداشت
ہمدردی
مساوات
اسی طرح اسلامی طالبان روحانیت
نے بھی خود میں یہ دس روحانی خوبیاں پیدا کرنے کی کوشش کی۔
مراقبہ
خدا کا قرب
محبت
خوف
امید
ہمدردی
تعلق
مساوات
بصیرت
یقین
بدھ مت اور ہندو تنتر کے مطابق
جسم میں چھ روحانی چکرا ہوتے ہیں۔ ایک طالب روحانیت دھیرے دھیرے اسفل چکرا سے شروع
ہو کر اعلی چکرا تک ترقی حاصل کرتا ہے۔
بدھ مت میں جسم میں چھ روحانی
چکر
مولادھر چکرا
سوادھیستھان چکرا
منی پور چکرا
وشدھا چکرا
اگیا چکرا
سہسرار چکرا
مولادھر چکرا ریڑھ کی ہڈی
کی بنیاد پر واقع ہے جہاں روحانی طاقت سانپ کی طرح جکڑی ہوئی ہے۔ اسی لیے اسے کنڈالینی
شکتی (ناگ کی طاقت) کہا جاتا ہے۔ طالب روحانیت اس روحانی طاقت کو بیدار کرنے کی کوشش
کرتا ہے جو بیدار ہونے کے بعد اٹھتی ہے اور مختلف چکروں سے گزر کر سر میں سہسرر چکر
تک پہنچتی ہے۔ ہر چکر پر ایک لطیف آواز سنائی دیتی ہے۔ اس آواز کو اناہت ناد کہتے ہیں۔
اسلامی تصوف میں انہیں لطائف ستہ (چھ لطیفے) کہا جاتا ہے جو بدھ تنتر سے لیا گیا ایک
نظریہ ہے۔ یہ چھ لطیفے درج ذیل ہیں:
لطیفہ نفس (ناف سے)
لطیفہ قلب (دل سے)
لطیفہ روح (سینے سے)
لطیفہ سر (پیٹ سے)
لطیفہ خفی (پیشانی سے)
لطیفہ اخفا (سر کی کھوپڑی)
ہر مرحلے پر طالب اللہ کی
لطیف آواز سنتا ہے۔ ویدک یا ہندو تنتر میں طالب چکر کے ہر مرحلے پر اوم کی آواز سنتا
ہے۔
بدھ مت یا ہندو تنتر میں سانس
کو کنٹرول کرنے کے عمل نے اسلامی تصوف کو بھی متاثر کیا۔ بدھ مت کے پرانائم یا ہندو
تنتر کو اسلامی صوفیاء نے اخذ کیا اور اسے پاس-انفاس کہا گیا۔ اسلامی تصوف میں ریچک
اور کمبھک کو حبس دم اور حبس نفس کہا جاتا ہے۔
بدھ مت اور ویدانت خود کو
ذات وحدہ لا شریک میں فنا کرنے کی تبلیغ کرتے ہیں جو کہ انسان کو زندگی اور موت کے
چکر سے مکتی کی طرف لے جاتا ہے۔ اسلامی تصوف نے بدھ مت سے اس نظریے کو اخذ کیا۔ قرآن
پاک ذات وحدہ لاشریک میں خودی کو فنا کرنے کی تعلیم نہیں دیتا اس لیے فنا اور بقا کا
نظریہ بدھ مت اور ویدانتک نظریے سے مستعار لیا گیا ہے۔ اسلامی تصوف میں فنا اور بقا
کا نظریہ تیسری صدی ہجری کے صوفی ابو سعید خرازی نے متعارف کرایا تھا۔ لہذا، تیسری
صدی کے بعد سے اسلامی تصوف ایک الگ مذہبی فرقے کے طور پر ابھرا اور تصوف کو صوفیاء
کرام نے منظم کیا۔ انہوں نے روحانی حصول کے مراحل پر مشتمل اصول اور عقائد وضع کیے
(حال اور مقام، مرشد اور مرید کا نظام اور طریقت اور شریعت کے فلسفے پر گفتگو کی گئی)۔
بدھ مت کے اثر کی وجہ سے ہی
ترانہ اور سما اور مذہبی شاعری کی روایت اسلامی تصوف میں پروان چڑھی۔ نیپال دربار لائبریری
سے 1907 کے ایک بنگالی ادیب اور محقق ڈاکٹر ہرپرساد شاستری کی چریاگیت نامی بدھ مت
کے صوفیانہ گیت دریافت کیے گئے جس سے پتہ چلتا ہے کہ بدھ مت کے سدھوں نے ایسے صوفیانہ
گیت ترتیب دیے تھے جو آلات موسیقی سے گائے بجائے جاتے تھے۔ یہ گانے 6ٹھی اور 12ویں
صدی کے دوران لکھے گئے تھے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ رقص کے ساتھ ترانہ، قوالی
اور سما کی روایت بدھ مت کے صوفیانہ معمولات کے اثرات کی دین ہے۔
اس لیے یہ بھی کہا جا سکتا
ہے کہ صوفی شاعری کی روایت کی جڑیں بدھ مت کی صوفیانہ شاعری میں بھی ہیں۔ آٹھویں صدی
عیسوی میں پہلا عربی صوفی شاعر یحییٰ ماز رازی تھا۔ جنید بغدادی عربی صوفی شاعر بھی
تھے۔ ابراہیم غواث، حسین بن منصور حلاج اور ابن عربی نے بھی 9ویں اور 10ویں صدی عیسوی
میں صوفی شاعری کی۔ عرب صوفی شعراء سے متاثر ہو کر فارسی شعراء نے بھی صوفیانہ افکار
اور مضامین کو شاعری میں پیش کرنا شروع کر دیا۔ مغربی، جامی، شبستری، شیرازی، عطار
اور رومی ایسے صوفی شاعر ہیں جن کا زمانہ 10ویں اور 12ویں صدی عیسوی کا تھا۔ 12ویں
صدی کے بعد برصغیر پاک و ہند میں بالخصوص اور مسلم دنیا میں اسلامی تصوف کو منظم ہونے
سے قبل بدھ مت کا زوال ہوا۔
English
Article: Buddhist Mysticism Influenced Islamic Sufism in a Big
Way
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism