حسینہ حکومت کا بہتر رہائش اور روزگار کے مواقع کا بندوبست
کرنے کا منصوبہ
اہم نکات:
پھنسے ہوئے پاکستانی
بنگلہ دیش کے 13 اضلاع میں بنائے گئے پناہ گزین کیمپوں میں رہتے ہیں۔
ڈھاکہ کے جنیوا کیمپ میں
ایک لاکھ پھنسے ہوئے پاکستانی مقیم ہیں۔
صرف 5 فیصد بہاریوں کے
پاس رسمی تعلیم ہے۔
وہ غیر انسانی حالات میں
رہتے ہیں۔
-----
نیو ایج اسلام اسٹاف رائٹر
9 مارچ 2022
(Photo:
The Dawn, Pakistan)
-----
1971 سے بنگلہ دیش میں پھنسے 3 لاکھ سے زیادہ اردو بولنے والے
پاکستانیوں کے لیے بنگلہ دیش ایک دوسرا گھر بن گیا ہے کیونکہ وہ پاکستان واپس آنے
کی امید کھو چکے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے 13 اضلاع میں بنے جنیوا کیمپ کہلانے والے
گنجان کیمپوں کے چھوٹے چھوٹے کمروں میں رہتے ہیں، جو ڈھاکہ میں تقریباً ایک لاکھ
بہاریوں سے بھرا سب سے بڑا کیمپ ہے۔
ان اردو بولنے والے
پاکستانیوں کے دامن پر بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران پاکستان کا ساتھ دینے کا
بدنما داغ لگا ہوا ہے اسی وجہ سے وہ بنگلہ دیش میں غداروں کی زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں۔ درحقیقت وہ خود انہیں بنگلہ دیشی نہیں مانتے حالانکہ وہ پچھلے پچاس سال
سے اس ملک میں مقیم ہیں اور اب ان کے بیٹے اور پوتے ان کے ساتھ رہ رہے ہیں۔
1972 میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے انہیں بنگلہ دیشی شہری قرار
دیا تھا لیکن ان میں سے اکثر نے پاکستان واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن 1978 میں
حکومت پاکستان نے باضابطہ طور پر ان سے پاکستانی شہریت چھین لی۔ نتیجے کے طور پر،
وہ بنگلہ دیش اور پاکستان دونوں کے لیے ایک مہاجر بن کر رہ گئے۔
بنگلہ دیش میں، انہیں
اسکولوں اور کالجوں میں داخلہ لینے کی اجازت نہیں ہے اور اس لیے وہ جنیوا کیمپوں
میں اپنے اسکول چلاتے ہیں۔ انہیں مزدور اور ٹیکنیشن کے طور پر کام کرنا پڑتا ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت نے اپنے انتخابی مفادات کے لیے انہیں ووٹر کارڈ جاری کیے ہیں۔
جسے پاسپورٹ حاصل کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ وہ خاندان کے دیگر افراد کے
ساتھ چھوٹے چھوٹے کمروں میں انتہائی بری حالت میں زندگی گزارتے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستانی عوام
اور حکومت کا رویہ ان کے ساتھ مخالفانہ رہا ہے۔ اگرچہ حکومت پاکستان نے 1992 میں
ان کی وطن واپسی پر رضامندی ظاہر کی تھی اور کچھ بہاریوں کو واپس بھیج بھی دیا گیا
تھا لیکن سندھیوں اور پنجابیوں کی مخالفت کی وجہ سے مزید وطن واپسی روک دی گئی۔
سندھی قوم پرست تنظیم جئے سندھ نے نہ صرف وطن واپسی کی مخالفت کی بلکہ بہاری
کالونیوں اور دکانوں میں بم دھماکے بھی کیے۔ انہیں خدشہ ہے کہ سندھ میں بہاریوں کی
واپسی اور آبادکاری سے آبادی کا توازن بگڑ جائے گا۔
Biharis
in the Mohamedpour refugee camp in Dacca, Dec. 22, 1971. (AP)
-----
پاکستان کے وزیر داخلہ
نصیر اللہ بابر ان کی وطن واپسی کے خلاف تھے اور انہوں نے 1995 میں کہا تھا کہ جب
تک وہ اقتدار میں ہیں بہاری پاکستان نہیں آ سکیں گے۔
لہٰذا، حکومت پاکستان نے،
نومبر 1995 میں بنگلہ دیش کے تقریباً 300 بہاریوں کو ملک بدر کر دیا۔ لیکن بنگلہ
دیش نے بھی یہی کہا کہ ہم انہیں قبول نہیں کریں گے اور انہیں واپس پاکستان بھیج
دیں گے۔
اگرچہ مکہ مکرمہ کی ربطہ
عالم اسلامی وطن واپسی کے عمل میں شامل ہوگئی تھی لیکن وہ حکومت پاکستان کو تمام
پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو واپس لے جانے پر قائل نہیں کرسکی۔ گزشتہ 30 سالوں کے
دوران صرف دو ہزار بہاریوں کو پاکستان نے قبول کیا ہے لیکن پاکستانیوں اور سیاست
دانوں کی ان سے عمومی نفرت ان کی وطن واپسی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
1999 میں نواز شریف نے کہا تھا کہ اگرچہ ان کا ملک جنیوا کیمپوں
میں رہنے والے بہاریوں کو پاکستانی شہری نہیں سمجھتا لیکن ہم انہیں انسانی بنیادوں
پر واپس لائیں گے۔ لیکن یہ صرف ایک جملہ ثابت ہوا اور اس سمت میں کوئی ٹھوس قدم
نہیں اٹھایا گیا۔
پھنسے ہوئے بہاریوں نے
کئی بار بنگلہ دیش میں اپنی وطن واپسی میں تاخیر کے خلاف احتجاج کیا ہے اور بھوک
ہڑتالیں بھی کی ہیں لیکن دونوں حکومتوں کی طرف سے انہیں سرد مہری کا سامنا کرنا
پڑا ہے۔ وہ پاکستان کی تقسیم نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے اپنی اردو زبان اور
ثقافت کو نہیں چھوڑا حالانکہ نئی نسل بنگالی سیکھتی ہے اور بنگلہ دیشی معاشرے میں
شامل ہونا چاہتی ہے۔ ان میں سے بہت سے بنگلہ دیشی شہریت قبول کر چکے ہیں لیکن
اکثریت اب بھی پاکستان کو ہی اپنا ملک سمجھتی ہے۔
کیمپوں میں بھی سب کچھ
ٹھیک نہیں ہے۔ بعض اوقات بنگالی قوم پرست رہنما زمین پر قبضہ کرنے کے لیے ان کے
خلاف فسادات بھڑکاتے ہیں۔ بعض اوقات بنگلہ دیش کی حکومت بھی کیمپوں میں مجرمانہ
سرگرمیوں کے الزام میں کچھ پناہ گاہوں کو مسمار کر دیتی ہے۔
View
of the Bangladesh government run camp for members of the Bihari minority on March
4, 1972. (AP)
-----
بعض اوقات کیمپوں میں
بہاریوں کے گروپوں کے درمیان پرتشدد جھڑپیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ نسیم اور
اعجاز گروپ اکثر پرتشدد جھڑپوں میں ملوث نظر آتے ہیں۔
شیخ حسینہ کا حالیہ
اعلان، پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی زندگی میں بہتری کی ایک امید پیدا کرتا ہے۔ انہوں
نے کہا کہ میں انسانوں کو انسان سمجھتی ہوں اور پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو بہتر
زندگی گزارتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میری حکومت ان لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرے
گی جن کے پاس ہنر اور بہتر رہائش کا انتظام ہے جہاں وہ آرام اور وقار کے ساتھ رہ
سکیں۔
تاہم، یہ ان کے لیے کوئی
آسان کام نہیں ہے۔ اگر ان کی حکومت واقعی ان کی زندگی کو بہتر بنانا چاہتی ہے اور
بنگالی معاشرے میں ان کا انضمام چاہتی ہے تو پھنسے ہوئے بہاریوں کو پیشہ ورانہ
تربیت کے مواقع فراہم کیے جائیں اور ان کے لیے خصوصی تربیتی ادارے قائم کیے جائیں۔
ان کے لیے تمام جدید سہولیات سے لیس ہاؤسنگ کمپلیکس بنائے جائیں۔ ان کے لیے اسکول
اور کالج کھولے جائیں اور انھیں طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔
رابطہ عالم اسلامی اور او
آئی سی کا کردار اس میں نمایاں نہیں رہا۔ او آئی سی نے پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے
معاملے کو اتنی سنجیدگی سے نہیں اٹھایا جتنا وہ مسئلہ کشمیر کو اٹھاتا ہے، شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس سے اس کے
ایک فعال رکن پاکستان کو زیادہ سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
شیخ حسینہ نے بجا طور پر
کہا ہے کہ پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے لیے بہت سی تنظیموں نے فنڈز اکٹھے کیے لیکن ان
فنڈز سے کچھ خاص کام نہیں کیا گیا۔ وہ شاید پاکستان کے اردو اخبار نوائے وقت کی
طرف سے، پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے اکٹھ کیے گئے فنڈ کی طرف اشارہ
کر رہی تھیں، اور پاکستانی شہریوں سے کروڑوں روپے اکٹھے کیے جاتے ہیں لیکن اخبار
اس فنڈ کے استعمال کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں دیتا۔
شیخ حسینہ کا پھنسے ہوئے
پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ کرنے کا عزم قابل تحسین ہے لیکن ان کی
زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لانے کے لیے ان کی حکومت کو کچھ انقلابی اقدامات کرنے
ہوں گے۔ پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی نئی نسلوں کو بعض پاکستانی سیاست دانوں اور
مذہبی انتہا پسندوں کی تاریخی غلطیوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔
English
Article: As Pakistan Refuses To Take Biharis Stranded In
Bangladesh, Sheikh Hasina Plans To Improve Their Life
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism