New Age Islam
Fri Mar 24 2023, 06:38 AM

Urdu Section ( 14 Dec 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Misuse of Mosques for Politics سیاست کے لئے مساجد کا غلط استعمال: شاہی امام کا خطبہ جمعہ میں لَو جہاد پر زور

 

خصوصی نامہ نگار، نیو ایج اسلام

12 دسمبر 2014

سیاست کے لئے مساجد کا غلط استعمال اپنے عروج کو پہنچ چکا ہے۔ دہلی میں جامع مسجد سے ایک بھڑکاؤ تقریر میں، اس کے امام نےمسلمانوں کو لَو جہاد کرنے کے لیے کہا اور اسے 8 دسمبر کو آگرہ میں 200 مسلمانوں کو ہندو بنانے کی ہندوتوا طاقتوں کی کوششوں کا اور علی گڑھ میں مزید ہزاروں مسلمانوں کو ہندو بنانے کے ان کے اعلان کا ایک مناسب رد عمل قرار دیا۔

مسجد کے اندر اور مسجد کے باہر ہزاروں مسلم سامعین کی موجودگی میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ:" اسلام کی تبلیغ ہمارا دینی فریضہ ہے .... گھر گھر اسلام پہنچائیں ، انہیں  مشرف بااسلام کر وائیےاور شادیاں کیجئے ،  یہی ہے جواب ان کا  ہے"۔

41 منٹ کی اپنی سیاسی تقریر میں، جب لوگ اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھےتو اسی دوران وہ گاہے بگاہے گندی زبان کا بھی استعمال کر رہے تھے، "مسلمان اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری حیثیت کبھی قبول نہیں کریں گے اور اپنے حقوق کے لئے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے، باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے خلاف ہزاروں فسادات برپا کیے جا چکے ہیں بشمول 2002 میں گجرات فسادات کے جنہیں مسلمان کبھی نہیں بھولیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسلام تلوار سے یا جبر و تشدد سے نہیں پھیلا ہے۔ مسلمان جبرا تبدیلی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے قرآنی آیت: "لا اکراہ فی الدین " کا بھی حوالہ پیش کیا جس کا مطلب ہے یہ ہے کہ "دین میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔" انہوں نے اس آیت کا حوالہ اس بات کے ایک ثبوت کے طور پر پیش کیا کہ ہندوستان کے مسلم حکمرانوں نے کبھی بھی ہندوؤں کو اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا تھا۔ اور انہوں نے مزید کہا کہ اگر انہوں نے ایسا کیاہوتا تو ہندوستان میں ایک بھی ہندو باقی نہیں بچتا۔

گزشتہ انتخابات کے بعد سے جس سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے بی جے پی اور آر ایس ایس سے وابستہ دیگر تنظیموں کے تمام مختلف فرقہ وارانہ بیانات کا ذکر کرتے ہوئے شاہی امام نے کہاکہ ان لوگوں کو مرکزی حکومت میں کابینہ کے عہدے سے نوازا گیا ہے۔ اس تناظر میں ایک آئندہ شاہی امام کی حیثیت سے اپنے بیٹے کی رسم دستار میں وزیر اعلی نریندر مودی کو مدعو نہ کرنے کے لیے انہوں نے خود اپنی پیٹھ تھپتھپائی۔ مسجد جیسی مقدس جگہ پر جسے لوگ اپنی روحانی پناہ گاہ تصور کرتے ہیں، انہو نے انتہائی گندی زبان کا استعمال کرتے ہوئے کہا کہ جن لوگوں نے ٹیلی ویژن چینلز یادیگر مقام پر مودی کو مدعو نہ کرنے کے لیے مجھے تنقید کا نشانہ بنایا وہ یا تو خود طوائف ہیں یا اس پیشہ میں اپنی بیویوں کا استعمال کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ: "انہیں یہ معلوم نہیں ہے کہ ان کی عورتیں یا ان کی بیویاں اپنی  راتیں کہاں گزارتی ہیں!"

 امام صاحب نے ان بڑے دباؤں کا بھی ذکر کیا جوان پر نریندر مودی کو مدعو کرنے کے لیے ڈالا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے ان تمام پریشانیوں کا مقابلہ کیا اور اپنے خدام کے نعروں کے درمیان اس کے لیے خود کو مبارک بادی بھی پیش کیا، جبکہ پورا مجمع جو صرف نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے وہاں پہنچا تھا ان کے پورے ڈرامے سے بہت متاثر تھا۔

 وہاں موجود ہزاروں مسلمانوں میں سے کسی نے بھی مسجد کا غلط استعمال کرنے پر احتجاج نہیں کیا، اور کوئی بھی اس بات کی ضمانت د ے سکتا ہے کہ ایک بھی مسلم دانشور یا رہنما اس کے خلاف احتجاج نہیں کریں گے۔

انہوں نے نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتوں کو زبر دست تنقید کا نشانہ بنایا جو مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور استعمال کرتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد مسلمانوں سے پہلو تہی کر لیتے ہیں۔ اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو کی سماج وادی پارٹی کی مثال دیتے ہوئے جہاں مسلمانوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں 18-20 فی صد مسلمان اور صرف 7 فی صد ہی یادو ہیں۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں نے ہی انہیں اقتدار تک پہنچایا ہے، لیکن جب پارلیمنٹ میں جبرا تبدیلی مذہب کے مسئلے پر بحث ہو رہی تھی تو ملائم سنگھ یادو نے کہا کہ یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے، گوکہ آگرہ میں کچھ ہوا ہی نہیں، اور مسلمانوں نے اس پر کوئی احتجاج نہیں کیا۔ ہم اکھلیش یادو اور ملائم سنگھ کی اسی حکومت کے تحت یوپی کے مظفر نگر میں ہلاک ہونے والے سینکڑوں مسلمانوں کو نہیں بھولے۔ انہوں نے ان کو خبردار کیا کہ مسلمانوں کی جبرا تبدیلی مذہب یا یوپی میں مزید ظلم و بر بریت کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا، اور ان کی حمایت کے بغیر وہ واپس اقتدار میں نہیں آ سکیں گے۔

تاہم، امام صاحب نے الیکٹرانک میڈیا کی تعریف کے پل باندھ دئے ، خاص طور ٹائمز ناؤ کی انہوں نے زبردست تعریف کی جس کے اینکر ارناب گوسوامی نے 11 دسمبر کو اپنے شو میں ہندوتوا جماعتوں کے ترجمان کو منھ توڑ جواب دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے اس لیے کہ یہاں اکثریت سیکولر لوگوں کی ہے۔ صرف 31 فی صد ووٹر بھگوا اتحادیوں کے حامی ہیں۔ انہوں نے بار بار بھارت کے آئین میں اقلیتوں کو دئے جانے والے حقوق کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک ایک اور تقسیم کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ صورت حال 1947 کی صورتحال کی طرح ہوتی جا رہی ہے لیکن مسلمانوں کو ایک اور تقسیم سے اس ملک کو بچانے کے لئے کام کرنا ہو گا۔ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ مسلمانوں نے اس ملک کی آزادی کے لیے ناقابل خاموش قربانیاں پیش کی تھیں اور اب ایک اور تقسیم سے اس ملک کو بچانے کے لیے محنت کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/misuse-mosques-politics-shahi-imam/d/100456

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/misuse-mosques-politics-/d/100488




Text of Speech by Shahi Imam

عزیزان محترم!

فرقہ پرستی کی تاریخ چاہے عراق میں آئی ایس آئی ایس (داعش) سے شروع کی جائے، یا ہندوستان کی فرقہ پرست طاقتوں کی ریشہ دوانیوں سے شروع کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان ہو یا دنیا کا کوئی ملک، مسلمانوں کے مسائل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ مسلمانوں کے صبر کا امتحان کب تک لیا جائے گا۔

مسلمانوں پر الزامات لگائے جاسکتے ہیں، مسلمانوں کو ستایا جا سکتا ہے، مسلمانوں کو پکڑا جا سکتا ہے، وہ غدار دائر کئے جاسکتے ہیں، مگر ان کے حوصلوں کو، ان کے ارادوں کو اور ان کے مقصد کو حکومت رد نہیں کرسکتی۔ ان کے عزم کو، ان کے ارادوں کو ناکام نہیں کیا جا سکتا۔

آج فرقہ پرست طاقتیں مسلمانوں کی مذہبی غیرت کو للکار رہے ہیں۔  مرکز میں بر سر اقتدار BJP، RSS، VHP ، بجرنگ دل اور دیگر شر پسند تنظیموں نے مسلمانوں کی غیرت ایمانی کو للکارا ہے۔ تو جن تنظیموں نے ہماری غیرت ایمانی کو للکارا ہے وہ تمام شر پسند تنظیمیں کان کھول کر سن لیں کہ کہ اگر اسی طرح تم اپنی حرکت سے باز نہ آئے تو امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور ان تمام نقائص کی ساری ذمہ داری مرکزی حکومت کی ہوگی۔

BJP  اقتدار میں آنے کے بعد اپنے دائرے سے باہر ہو رہی ہے۔ بی جے پی حکومت بننے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قوانین سے کھلواڑ کیا جائے، ایک فرقہ کے خلاف نفرت پھیلائی جائے اور قانون کو ہاتھ میں لیکر مسلمانوں کی دل آزاری کی جائے ۔ اس طرح کوئی حکومت ملک کو ترقی کی طرف نہیں لے جا سکتی۔ قوم کی ذات پات کی بنیاد پر حکومت نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی ذات پات کی بنیاد پر فیصلے کئے جا سکتے ہیں۔ اگر مرکزی اور ریاستی سرکار فرقہ پرستی کی حوصلہ افزائی کرے گی تو یہ ملک دوبارہ تقسیم کی طرف چلا جائے گا۔

برداران عزیز! 

ٓآگرہ میں 380 لوگوں کے تبدیلئ مذہب کا نہایت ہی افسوس ناک واقعہ ایسا ہے کہ اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ مرکزی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد بجرنگ دل،RSSاور VHPاور دیگر شر پسند تنظیموں نے ملک میں نفرت پھیلانے کا کام بہت تیزی سے شروع کر دیا ہے۔  یہ باطل طاقتیں ہندوستان کو ایسا مذہبی ملک بنانا چاہتی ہیں جس میں دوسرے مذہب کے لوگوں کو سانس لینے کا حق حاصل نہ ہو۔ یہ فسطائی طاقتیں ہندوستان کو ہندو راشٹر (HINDU RASHTAR) بنانے کے خواب میں ملک کے 25 کروڑ مسلمانوں کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ یہ طاقتیں پہلے مسلمانوں کی جان ومال اور ان کی عزت وآبرو کو نشانہ بناتی تھیں، لیکن اب مرکز میں اقتدار حاصل ہونے کے بعد ان طاقتوں نے اسلام کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ آگرہ کا دردناک واقعہ اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اترپردیش کے شہر آگرہ میں ایک دردناک، خلاف قانون اور اشتعال انگیز واقعہ اس ریاستی سرکار کی موجودگی میں ہوا جو صرف اور صرف مسلمانوں کے بل بوتے پر وجود میں آئی۔ سماجوادی پارٹی یہ جواب دے کہ وہ اتنے بڑے اشتعال انگیز واقعہ پر وہ خاموش کیوں ہے؟ سماجوادی سرکار نے کل پارلیامنٹ میں یہ کہا کہ ہمارے صوبے میں کوئی گڑبڑ نہیں ہے۔ انہیں آگرہ میں کچھ نہیں دکھائی دے رہا ہے۔ پورے ملک کو پتہ ہے، میڈیا لگاتار دکھا رہا ہے، اخبارات شائع کر رہے ہیں۔

آج اس ملک میں حقیقت یہ ہے کہ ہندؤوں کی اکثریت سیکولر ہے۔ اگر یہ سیکولرزم ملک سے ختم ہو جائے تو حقیقت یہ ہے کہ ملک ٹوٹ جائے گا۔  اگر یہی رویہ اترپردیش کا سرکار کا رہا تو جہاں 18 سے 30 فیصد مسلمان رہتا ہے، جہاں ایک بڑی آبادی مسلمانوں کی رہتی ہے، اگر وہاں سرکار نے فرقہ پرستی کو ختم نہیں کیا تو یاد رکھ لیں! یہ ملک فرقہ پرستی کی آگ میں جل جائے گا۔ اور ہمیں لگتا ہے یہ ملک دوبار تقسیم کی طرف جا رہا ہے۔ جس مسلمان نے اس ملک کو جانیں دیں، قربانیاں دیں، آج لگتا ہے اس کو میدان میں آکر ملک کو تقسیم سے بچانا پڑے گا۔ لیکن اکیلا مسلمان یہ اس وقت تک نہیں کرسکتا جب تک کہ سیکولر پارٹیاں اس ملک کو تقسیم سے نہ روکے۔

 مسلمان نے کبھی نہیں چاہتا کہ یہ ملک تقسیم کی طرف جائے،  مسلمان نے کبھی نہیں چاہتا کہ یہ ملک فرقہ پرستی کی آگ میں جلے۔   مسلمان نہیں چاہتا کہ ہندوؤں سے نفرت پیدا ہو، لیکن آج یہ بی جے پی سرکار اور نام نہاد پارٹیاں یہ چاہتی ہیں کہ ملک دوبارہ تقسیم کی طرف جائے اور پھر وہی جنگل راج قائم ہو جو 1947 میں ہوا تھا اور پھر وہی جنگل راج قائم ہو جو 1957 میں ہوا تھا۔

میں اترپردیش کی سرکار سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ 25 دسمبر کو فرقہ پرست طاقتوں نے اس شرمناک واقعہ کو دہرانے کا جو اعلان کیا ہے، تو اس نے اسے روکنے کے لئے اترپردیش کی سرکار نے کیا اقدامات کئے ہیں؟  

 عزیزان محترم!

بے جی پی کے اقتدار میں آنے کے بعد کوئی دن ایسا نہیں گزرا جب کوئی ایسا منصوبہ نہ بنایا گیا ہو جس سے فرقہ پرستی کو بڑھاوا ملے۔ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھڑی کی گئیں۔  لو جہاد کا نعرہ لگا کر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یو پی  میں لو جہاد (LOVE JIHAD) کے فرضی واقعہ کا ڈھنڈھورہ پیٹا گیا اور بہار میں ایک بد زبان بی جے پی لیڈر نے، جس کو بعد میں مرکزی وزیر بنا دیا گیا، مودی کو ووٹ نہ دینے والوں کو پاکستان جانے کو کہا گیا، مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن بتایا گیا اور راجیو گاندھی کے قاتل کی عزت افزائی کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ یہ فرقہ پرست طاقتیں ملک کو کہاں لے کر جانا چاہتی ہیں؟  اگر ان فرقہ پرست طاقتوں کو لگام نہیں دی گئی تو ملک کی سلامتی وشاتنی، ہم آہنگی، بھائی چارہ، امن وسکون سب غارت ہوجائے گا۔ ہندوستان میں مسلمان صدیوں سے رہ رہے ہیں۔ صدیوں مسلم حکمرانوں نے یہاں حکومت کی۔  اگر مسلم حکمراں جبری تبدیلئ مذہب کراتے تو کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی تھی، مگر کیا ایسا ہوتا تو اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ کیا کوئی اور مذہب کا ماننے والا ہوتا؟ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں دین کے معاملے میں زور زبردستی کی ہر گز اجازت نہیں ہے: ‘‘لا إکراہ في الدین’’۔ آج اسلام کے ماننے والوں کی تعداد میں روز بہ روز اضافہ ہورہا ہے۔ کوئی بھی شخص ایمانداری کے ساتھ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کرتا ہے، ان پر غور کرتا ہے، تو اسے سیدھا راستہ اس دین فطرت میں ہی نظر آتا ہے۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ‘‘إن الدین عند اللہ الإسلام’’ (بے شک اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے)۔ مسلمان کے لئے اس کا سب سے بڑا سرمایہ اس کا مذہب ہے۔ وہ اپنی شناخت کو بچانے کے لئے اپنی جان، اپنے مال اور اپنی اولاد کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔

ہندوستانی مسلمان 65 سال سے اس آزمائش سے گزر رہا ہے۔ اور اس دوران ہزارہا بار اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اپنے ملک ومذہب اور ملت کو بچانے کا کام کیا ہے۔ فرقہ پرست کان کھول کر سن لیں! بی جے پی کی سرکار کان کھول کر سن لے! مسلمان خدا کے علاوہ کسی ذات سے نہیں ڈرتا۔ ہزارہا ستم سہنے کے بعد بھی وہ ثابت قدمی کے ساتھ کھڑا ہے ہزارہا فسادات کو سہتے ہوئے، لیکن گجرات کا فساد مسلمان کبھی نہیں بھول سکتا۔ وہ گجرات جہاں بہنوں بیواؤں کو مار دیا گیا، بھائیوں کا قتل ہوا، بھائیوں کے سامنے بہنوں کی آبرو لوٹی گئی، انسانیت کو لہولہان کیا گیا، ہزارہا بے گناہ لوگوں کا قتل گجرات کی سرزمین پر ہوا۔ کوشش یہ گئی کہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوں، کوشش یہ گئی کہ مسلمان دوبارہ اس ملک کو چھوڑ کر پاکستان چلا جائے یا اس ملک میں دب کر رہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ مسلمانوں کے حوصلے بلند ہیں۔ وہ اللہ کی طاقت کے سامنے کسی انسانی طاقت سے نہیں ڈرے گا۔ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ نریندر مودی ہزارہا انسانوں کے قتل کے مجرم ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی دستاربندی کے موقع پر نریندر مودی کو دعوت نہیں دی۔ خون سے رنگے ہوئے ہاتھوں سے میں اپنے بیٹے کی دستاربندی نہیں ہونے دے سکتا تھا۔ میرے اوپر دباؤ پڑا کہ نریندر مودی کو دعوت دی جائے، لیکن میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ میں تمام تر آزمائشوں سے گزر جاؤں گا، تمام مصیبتوں کو جھیل لوں گا، مگر میں دستاربندی کے موقع پر نریندر مودی کو مدعو نہیں کروں گا۔ مجھے ڈرانے دھمکانے کو کششیں کی گئیں۔ مگر میں نے یہ ثابت کر دیا کہ احمد بخاری نہ بی جے پی سے ڈرنے والا ہے، نہ کسی فرقہ پرست طاقت سے، احمد بخاری صرف اور صرف اللہ کی ذات سے ڈرنے والا ہے۔

ہم اس ملک میں اقلیت ضرور ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی طاقت سے دب کر رہیں۔ اگر یہ ملک دوسری قوموں کا ہے تو یہ یہاں بسنے والے 25 کروڑ مسلمانوں کا بھی ہے۔ ملک کی آزادی میں اگر دوسروں نے قربانیاں دی ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ ان سے زیادہ قربانیاں ہندستان کے  25 کروڑ مسلمانوں نے دی ہیں اس ملک کو آزاد کرانے میں۔

تم چاہتے ہو کہ مسلمان اس ملک میں دب کر رہے؟ کیوں دب کر رہیں؟ اس ملک کا آئین اور قانون ہم سب کواجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اس ملک میں رہنے کی اجازت ہے۔ ہندوستان کا آئین فرقہ پرست طاقتوں نے نہیں بنایا جسے بی جے پی جب چاہے تو بدل ڈالے۔ اس ملک کی بنیاد سیکولرزم پر رکھی گئی، اس ملک کی بنیاد فرقہ پرستی پر نہیں رکھی گئی۔ اور میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں ان فرقہ پرستوں کو اور بی جے پی کو کہ اگر ہندوستان کے آئین کو روندا گیا، اور قانون کی بالادستی نہ ہوئی، تو میں پھر کہتا ہوں کہ یہ ملک ٹوٹ جائے گا۔ ہمارا ملک تقسیم کی طرف جا رہا ہے، ہمیں اس ملک کو بچانا ہوگا۔

ہم فرقہ پرستوں کو پھر بتا دیں کہ ہم تم سے دب کر اس ملک میں نہیں رہیں گے۔ یہ مسلمان ان فرقہ پرستوں سے دب کر نہیں رہے گا۔ اس ملک کے آئین کو اور اس ملک کے قانون کو بچانے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کی بھی ہے، جنہوں نے فرقہ پرستوں کو چھوٹ دی ہے۔

عزیزان محترم!

ہم خدا کے علاوہ اس ملک میں کسی سے نہیں ڈرتے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ ہم نے ہزارہا فسادات کے زخم کھائے لیکن اس کے باوجود ثابت قدمی کے ساتھ قائم ہیں۔ ہم کو اگر سزا دی جاتی ہے تو صرف اس بات کی کہ ہم مسلمان ہیں۔ بس یہی ہمارا جرم ہے۔ ہم تمام مشکلات اور مصیبتوں کو برداشت کریں گے لیکن اپنے مذہب کو مضبوطی سے تھامے رہیں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے دم سے ہی آج سیکولرزم زندہ ہے۔ سیکولرزم قائم ہے۔ فرقہ پرستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے خلاف کوئی وار کیا گیا تو ملک کے 25 کروڑ مسلمان اس کا منھ توڑ جواب دیں گے۔ مسلمان زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے آگے آئیں۔ لیکن ایک بات میں اپنے بزرگوں اور نوجوانوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ آگرہ میں ہوئے مذہبی حملے کا اگر کوئی مسکت جواب ہم دینا چاہتے ہیں تو ایک بات کا تہیہ کرنا ہوگا۔ ایک بات ٹھاننی ہوگی کہ آج ہمیں اسلام کا پیغام گھر گھر پہنچانا ہوگا۔ مسلمانوں کے خلاف ان تمام شگوفوں کا دندان شکن جواب دینے کے لئے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ تبلیغ اسلام کی تحریک مکمل طور پر شروع کی جائے اور خاص طور پر نوجوان طبقہ سے مخلصانہ طور پر گزارش ہے کہ آپ ایک مرتبہ سچے دل سے عہد کر لیں کہ ہمیں اللہ اور اس کی رضا کے لئے مذہب اسلام کی صحیح تعلیمات سبھوں تک پہچانا ہے، کیونکہ یہ تبلیغ وتشہیر ہمارا مذہبی فریضہ اور ہمارا FUNDAMNETAL RIGHT  ہے، جو کہ کوئی مائی کا لال ہم سے نہیں چھین سکتا ہے۔

آج آگرہ میں جو کچھ ہوا، ہون کرائے گئے، طرح طرح کے منتر پڑھے گئے، مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہی نہیں۔  ہمارے یہاں تو صرف یہ ہے کہ اسلام کی تبلیغ کیجئے: اسلام میں برابری ہے، رواداری ہے، محبت ہے، اخوت کا پیغام دیا گیا، انسانیت کا پیغام دیا گیا، عورتوں کے حقوق دئے گئے۔ اسلام کی تاریخ غیر مسلموں کو بتائیے۔ اور صرف دل سے دین اسلام کو قبول کر لینا یہی کافی ہے، وہ اسلام میں داخل ہوگئے۔ باقی کسی نمائش کی ضرورت نہیں۔ کسی فارمیلٹی کی ضرورت نہیں۔ فارمیلٹی کی ضرورت تو دنیا کے کاموں کے لئے ہوتا ہے، لیکن دین میں اگر داخل ہونا ہے کسی کو تو صرف ‘‘لا إلھ إلا اللہ محمد رسول اللہ’’ پڑھ لینا کافی ہے۔ یہ مشن ہمیں پورے ہندوستان میں چلانا ہوگا اور دوسروں کو یہ بتانا ہوگا کہ اسلام کیا ہے اور یہ کیا پیغام دیتا ہے۔ اور گھر گھر اسلام پہنچائیے، کوئی قانون اور کوئی ملک کا دستور اس میں رکاوٹ نہیں بنتا ۔  اور اس کا جواب یہی ہے کہ گھر گھر اسلام پہنچاؤ، اسلام کی تبلیغ کرو۔ جو شخص اسلام میں داخل ہوجائے اس کی مدد کرنا، اور پھر ان کو کھلانا، ان سے محبت کرنا، ان سے پیار کرنا، ان کے دکھ درد میں شریک ہونا، یہ ہمارا فرض بن جاتا ہے۔ یہ اسلام کی تاریخ ہے۔ انہوں نے تو لو جہاد کا فرضی نعرہ دیا تھا، لیکن ہمارے پاس تو تاریخ ہے اسلام کی۔ مشرف بہ اسلام کروائیے اور ان سے شادیاں کیجئے'  یہی ہے ان کا جواب ۔ کیوں کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا، اسلام اخلاق سے پھیلا ہے، اسلام کردار سے پھیلا ہے۔ میں پھر یہ بات دہراتا ہوں کہ گھر گھر اسلام کا پیغام پہنچائیے، یہی اس ملک کے لئے بہت بڑا صدقہ ہوگا، یہی سنت ہے ، یہی خدا کا پیغام ہے۔ 

فرقہ پرست طاقتوں نے 25 دسمبر  2014کو علی گڑھ میں آگرہ جیسا جو تماشہ کھیلنے کا اعلان کیا ہے اس سے مسلمانوں کو نہ ہی مشتعل ہونے کی ضرورت ہے اور نہ ہی خوف زدہ ہونے کی۔البتہ مسلم قائدین، مسلم اماموں، مسلم رہنماؤں اور ملت کا درد رکھنے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اس فتنہ کی مزاحمت کے لئے متحد ہوکر اسکو روکنے کی کوشس کریں۔

ان تمام باتوں کو سامنے رکھکر ہم حکومت ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ بتائیں کہ آپ ہندوستان کو کہاں لے جانا چاہتے ہیں۔ اگر فرقہ پرست طاقتوں کو فوری طور پر لگام نہ دی گئی تو ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا جنازہ نکل سکتا ہے۔ رہے مسلمان تو مسلمان خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتا ہے۔ اور اگر پوری دنیا میں کسی کو کچھ شبہ ہو تو ہماری تاریخ پڑھیں، سامنے کئی ہزار کی تعداد مسلح ہوکر کھڑی تھی، لیکن ہم نے ان تمام کو صرف کھجور کی ٹہنیوں سے زمیں بوس کر دیا تھا۔ رہی ہندوستان کی سیولرزم کی بات، تو یہ مسلمانوں ہی کے دم سے قائم ہے۔ اگر مسلمانوں کے مذہب پر آنچ ڈالنے کی ناپاک کوشس کی گئی، تو یاد رکھیں ملک بھر کے  25کروڑ مسلمان اسکا منہ توڑ جواب دیں گے۔ اگر یو پی کی یہ ملی بھگت سماج وادی پارٹی کا اشارہ نہ ہوتا تو آگرہ میں تبدیلئ مذہب کا شرمناک حادثہ پیش نہ آتا پھر یہ مجنوں کہتے ہیں کہ سارے جہان کا درد ہمارے ہی دل میں ہے۔ اب مسلمان اس سرزمین پر کسی ظلم ونا انصافی کو برداشت نہیں کرے گا۔ میں اب اخیر میں بس دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی ہم سب کو اسلام پر قائم رکھے اور ہم سب کی زندگی اور ہمارا خاتمہ ایمان پر ہو۔

وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین!

URL for English article: https://newageislam.com/islam-politics/misuse-mosques-politics-shahi-imam/d/100456

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/misuse-mosques-politics-/d/100488


 

Loading..

Loading..