نیو ایج اسلام ایڈٹ ڈیسک
25جنوری، 2013
اس مضمون کے مضمون نگار مولانا عصمت اللہ معاویہ ہیں جو ممنوعہ تنظیم سپاہ
صحابہ کے سابق سربراہ تھے اور فی الحال پنجابی
طالبان کے امیر یعنی پاکستانی مسلمانوں کے خود ساختہ امیرالمومنین ہٰیں۔اس تنطیم
کا موڈس اوپرانڈی یہ ہے کہ یہ لوگ امریکہ کی مخالفت کے نام پر اور امریکہ سے جنگ بقول
انکے امریکہ کے خلاف جہاد کے نام پر چندہ بٹورتے اور نوجوان مسلمانوں کی کھیپ تیار کرتے ہیں اور
اس دولت اور افرادی قوت کا استعمال پاکستان
میں اپنی سیاسی دکان چمکانے کے مقصد سے مسلکی
منافرت پھیلاتے اور معصوم مسلانوں بشمول عورتوں
اور بچوں کو خودکش حملوں میں ہلاک کرتے ہیں۔ شیعوں ، احمدیوں ، ہندوؤں ، عیسائیوں اور صوفیوں کے خلاف انہوں نے ‘جہاد’ چھیڑ رکھا ہے۔ پاکستانی حکومت کو انہوں نے کافروں کی حکومت قرار دے دیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم ، صدر اور دوسرے تمام مسلم وزراء انکی نگاہ میں کافر
ہیں۔ رہائشی علاقوں اور بازاروں میں عام مسلمانوں
کو خودکش حملوں میں ہلاک کرنا انکے نزدیک عین
اسلام اور اعلی درجے کا جہاد ہے جیساکہ انکے ساتھی العبیری نے اپنے ایک مضمون میں ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
متذکرہ مضمون کا ایک بڑا حصہ اشعار اور جذباتی نعروں اور باتوں
پر مشتمل ہے۔ اس کا دوسرا حصہ پاکستان کے سیاسی
اور معاشی حالات پر مگر مچھ کے آنسو وؤں پر مشتمل ہے اور بقیہ حصہ پاکستان میں اسلامیت اور شریعت کی مفروضہ کشمکش
پر مشتمل ہے۔
مضمون کے آغاز ہی میں وہ کہتے ہیں:‘‘ اگر ہم برُائی کی طوفان بد تمیزی
پر خاموش رہیں، اور رب کی بغاوت پر مصلحت اور چشم پوشی، زبان بندی سے کام لیتے رہیں
، تو یقیناً نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا، کہ پھر عذاب کاہمیں انتظار کرنا
ہوگا۔ اپنی دعاؤں کے مرد ود ونا مطلوب کا بھی انتظار کرنا ہوگا۔کیوں نہ اس عارضی جان
کو راہِ خدا کی نظر کردیا جائے ۔ ایسی بنیاد میں اپنا خون دے جائیں جس کی عمارت ‘‘امارت
اسلامی ’’ کہلائے ، اور نظام ‘‘نظام اسلام’’ کہلائے ۔ رب کاکلمہ بلند ہو۔ شریعت نافذ نظر آئے۔’’
مولانا کے مطابق پاکستانی
حکومت رب سے بغاوت کر رہی ہے اسلئے اس کی مخالفت
کرنا فرض ہے ۔اور اس مخالفت کا ایک ہی طریقہ ہے خودکش حملے، تشدد وزیروں ، فوجیوں
‘افسروں اور نہتے عوام کا قتل۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں اسلامی نظام قائم کرنے کے
لئے اپنے خون کی قربانی دو کیونکہ صرف اسلای
نظام ہی پاکستان کے سار ے مسائل کا حل ہے۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہے۔یہاں حدود قوانین، توہین رسالت
قانون اور احمدیہ مخا لف قانون نافذ ہے اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔پاکستان
کا صدر ، وزیر اعظم اور تمام وزراء اور افسران مسلمان ہیں مگر پھر بھی طالبانی رہنما عصمت اللہ معاویہ کے مطابق
پاکستان کی موجودہ حکومت کافروں کی حکومت ہے۔
وہ پاکستان میں لیڈروں کی
بدعنوانی، بڑھتی ہوئی غریبی، انتشار وغیرہ پر ماتم کرتے ہیں مگر اس کا صرف ایک علاج
بتاتے ہیں اور وہ ہے تشدد۔ ان کے مطابق صرف
خون خرابہ سے ہی انقلاب آ سکتا ہے۔چاہے اس خون خرابے میں بےشمار معصوم عورتیں ، بچے
، بوڑھے اور نہتے عوام ہلاک ہو جائیں۔ ان کی
اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کے پاس جذباتی نعروں کے علاوہ پاکستان کے مسائل
کے حل کے لئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں ہے۔ان کے پاس بس ایک جذباتی نعرہ ہے اسلامی
شریعت اور اسلامی نظام کا جو انکے مطابق صرف طالبان ہی دے سکتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ
نظام اسلامی نظام نہیں ہے۔
طالبان نے کبھی بھی ملک کی
تعمیر اور معاشرہ کی اصلاح کے پر امن مساعی کی حمایت نہیں کی۔ افعانستان میں بھی اسنے
جمہوری اتحاد میں شامل ہونے سے انکار کر دیا ۔ وجہ وہی بتائی کہ یہ اتحاد ی حکومت کفر کی حکومت ہے۔ پاکستا ن میں
بھی عصمت اللہ معاویہ کسی بھی پر امن تحریک
میں شمولیت سے انکار کرتے ہیں۔ اگر وہ پاکستان میں بدعنوانی، غریبی اور استحصال کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں تو طاہرالقادری
کی حمایت کیوں نہیں کی یا خود پر امن تحریک کیوں نہیں چلاتے؟
اس مضمون میں انہوں نے کہیں
بھی شیعوں ، عیسائیوں ، ہندوؤں اور دوسری اقلیتوں کے خلاف کچھ نہیں کہا ہے جبکہ کفر
کے خاتمے کے نام پر ایک طرف تو وہ پاکستانی حکومت سے بر سر پیکار ہیں تو دوسری طرف وہ شیعوں کی نسل کشی کے درپے ہیں کیونکہ انکی نگاہ میں وہ بھی کافر ہیں۔ صوفیوں کی درگاہ ہمیشہ انکے نشانے پر رہتے ہیں جن پر خود کش حملوں کے نتیجے میں بےشمار معصوم زائرین مارے جاتے ہیں۔ انکی تنطیم
طالبان نے پاکستان میں اندرونی خلفشار اور انتشار مچا رکھا ہے اور تجاہل عارفانہ سے
کام لیتے ہو ئے خود ہی کہتے ہیں کہ کون لوگ پاکستان میں انتشار پھیلا رہے ہیں۔ آج پاکستان
کے مسائل جن مسائل سے دوچار ہے ان میں زیا
دہ تر مسائل طالبان کے پیدا کر دہ ہیں۔
جناح نے پاکستان کو ہندوستان
کی ہی طرح ایک سیکولر جمہوریت بنانا چاہا تھا
مگر مذہبی لابی کے دباؤ میں پاکستان بتدریج
مذہبی فرقہ پرستی کی طرف بڑھتا چلا گیا اور پھر اس مذہبی فر قہ پرستی نے مسلکی
منافرت کو جنم دیا۔جس کی آگ میں ایک کے بعد ایک فرقہ جلتا چلا گیا۔ احمدیوں ، شیعوں،
عیسائیوں اور ہندوؤں کا جینا دوبھر ہوگیا۔اور اس تمام مذہبی منافرت کے فروغ میں طالبان
اور اسکی نظریاتی حلیف تنطیموں نے اہم کردار
ادا کیا۔ لہذا، پاکستان کی ابتدائی سیکولر وزارت میں جناح نے جن ہندو ، احمدی اور انگریز افراد کو وزارتیں اور محکمے سونپے تھے انہیں مولانا عصمت اللہ انگریزوں کا تھو پا ہوا
کہتے ہیں۔ جو کہ ایک گمراہ کن بات ہے۔پاکستان
میں جناح کو چھوڑکر کوئی ایسا لیڈر یا دانشور
نہیں تھا جو اسے ایک مضبوط قیادت مہیا کر سکتا۔ بس مولانہ عصمت اللہ معاویہ جیسے جذباتی
بھاشن دینے والے مولانا تھے جنہیں نہ سیاسی بصیرت حاصل تھی اور نہ وہ انتظامی اور معاشی امور میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ
صرف پاکستان کے سربراہوں کو اپنے مطالبات پیش کرتے تھے کہ ایسا ہونا چاہئے ، ایسا نہیں
ہونا چاہئے اور جناح کو بلیک میل کرتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ:
‘‘ پاکستان کی پہلی اقتصادی
معاشی کمیٹی کے پندرہ ارکان میں سے گیارہ امریکن مسلّط کیے گئے تھے۔’’
ظاہر ہے اس وقت پاکستان میں
اتنے ماہرین نہیں تھے کہ انہیں اقتصادی معاشی کمیٹی کا ممبر بنایا جاتا۔ اس لئے ایسا کرنا اس
وقت کی پاکستانی حکومت کی مجبوری تھی۔ اور پھر برطانوی حکومت اپنی سابق کالونی میں امریکی افسروں کو کیوں تھوپتے۔
مگر طالبانیوں اور پاکستانی حکمرانوں کو ہر چیز میں امریکہ کا بھو ت نظرآتا ہے۔
اسی طرح تقسیم کے لئے سرحدوں
کی نشاندہی کی نوبت آئی تو پاکستانی لیڈروں کے پاس نہ کوئی بلیو پرنٹ تھا اور
نہ اعداد و شمار تھے جس کی بنا پر وہ مسلم اکثریت والے علاقوں پر اپنا دعوٰی پیش کرسکتے
جبکہ وہ برسوں سے پاکستان کا مطالبہ کرتے آرہے تھے۔ اس سلسلے میں اگر تھوڑی بہت دانشمندی
کسی نے دکھائی تو وہ تھے ظفراللہ خان جو احمدی تھے اور وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے باونڈری
کمیٹی کے سامنے حاضر ہوکر اپنی بساط بھر زیادہ سے زیادہ علاقوں کو پاکستان میں شامل
کر وانے کی کوشش کی۔ مگرانکے احمدی ہونے کی وجہ سے پاکستان کے یہ مسلک پرست رہنما ان
سے احسان مندی کا اظہار نہیں کر سکے۔
ایک اور مفروضہ جو انہوں نے گھڑ رکھا ہے وہ یہ ہے کہ جمہوریت اسلام مخالف اور
کافرانہ نظام ہے اور صرف اسلامی خلافت ہی واحد طرز حکومت ہے جو اسلامی معاشرہ کے لئے
لازمی ہے اور جمہوریت کافروں کی حکومت ہے۔
وہ کہتے ہیں۔
‘‘جمہوریت اور آمریت کے اس
چوہے بلی کے کھیل میں عوام کو تماشہ بنا دیا
گیا ۔ آخر کب تک ہم آمریت اور جمہوریت
جیسے اسلام مخالف ظالم نظاموں میں گھن کی طرح پستے رہیں گے۔’’
مولانا کے نزدیک آمریت اور
جمہوریت دونوں اسلام مخالف ہیں کیونکہ انکے
علم و یقین کے مطابق جمہوریت مغرب کی پیداوار ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا جنم یونان کے ایتھنس میں ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ دنیا
کے بیشتر یوروپی اور غیر مسلم ممالک نے جمہوری
طرز حکومت کو اپنا یا ہے۔ چونکہ امریکہ اور برطانیہ میں بھی جمہوریت رائج ہے اسلئے ان کی نظر میں جمہوریت مغربی تہذیب
کی ایجاد ہے اور کافرانہ نظام ہے۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/misleading-misplaced-ideas-punjabi-taliban-part-1/d/10149