نیو ایج اسلام، ایڈٹ ڈیسک
25 دسمبر، 2014
سانحہ پشاور نے پوری پاکستانی قوم کے ضمیر کے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔فوج اور سول حکومت ملک سے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے پر عزم دکھائی دیتی ہیں جو ایک خو ش آئند امر ہے۔ اس سے قبل جو فوجی حکمراں تھے وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے سے گریز کرتے رہے۔ کسی تیر بہدف علاج کی عدم موجودگی میں دہشت گردی کا مرض روز بروز بڑھتاگیا۔ پشاور اسکول میں سو سے زیادہ بچوں کے قتل کی بے شرمی سے طالبان نے نہ صرف ذمے داری لی بلکہ اس بہیمانہ قتل عام کو شرعی طور پر جائز بھی قرار دیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں ان بچوں کو طالبان کے خلاف فوجی کارروائی میں شامل ہونے کے لئے پرعزم ہونے کا الزام لگایا اور اس الزام سے ان پر بچوں کا قتل لازم ہوگیا۔ اپنے بیان میں انہوں نے معصوم کمسن بچوں کو فوجی افسروں کے نوجوان لڑکے یعنی بالغ قراردیا۔طالبان قرآن اور حدیث کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر اپنے غیراسلامی اقدامات کے جواز میں پیش کرتے رہے ہیں لہذا، بچوں کے قتل کو بھی طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کے لئے پر عزم ہونے والوں کا قتل قراردے کر انہوں نے اس قتل عام کو کار ثواب ثابت کرنے کی کوشش کی جبکہ یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ وہ کمسن بچے تھے اور طالبان سے لڑنے کے لئے میدان جنگ میں ہتھیاروں کے ساتھ نہیں تھے۔
بہرحال . یہ بات اطمینان بخش ہے کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج اور نواز شریف کی قیادت میں ملک کی سیاسی برادری طالبان کی لعنت اور مذہبی انتہا پسندی کے اژدہے کو کچلنے کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آگئے ہیں۔اس سلسلے میں کئی مثبت اقدامات پہلی بار دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی کو ختم کرنے کی سمت لئے گئے ہیں۔
پاکستان میں سزائے موت کو گزشتہ دس برسوں سے التواء میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس دوران ہزاروں سنگین جرائم کے مجرمین کسی سنگین سزا کی عدم موجودگی میں زندہ بچ گئے تھے۔ کئی کو تو طالبان نے آپریشن کرکے جیلوں سے چھڑوالیاتھا۔دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا نہ ملنے کی وجہ سے دہشت گرد تنظیموں کے حوصلے بڑھے ہوئے تھے۔جو تنظیمیں خود سزائے موت پر یقین رکھتی ہیں انہیں ملک میں ایک مؤثر عدالتی نظام نہ ہونے کی وجہ سے قید کی سزا دی جاتی تھی جبکہ وہ سنگین قتل عام کے مجرم تھے ۔ان کے ساتھ جیل انتظامیہ بھی خوف کی وجہ سے اچھا سلوک کرتی تھی ۔ اس وجہ سے ان کے لئے قید کی سزا ایک نعمت ثابت ہوتی تھی۔ پشاور سانحہ کے بعد پورے ملک کی عدلیہ اور سیاسی اقتدار نے موت کی سزا پر سے اس پابندی کو ہٹا لیا کیونکہ اسلامی نظام میں سنگین انسانی جرائم کے لئے سزائے موت کی تجویز رکھی گئی ہے۔ اس پابند ی کے ہٹتے ہی پاکستان میں دہشت گردی ، ٹارگٹ کلنگ اور مسلکی تشدد کے لئے سزائے موت دینے کا سلسلہ شرو ع ہوگیا ہے۔اب تک ایسے کئی مجرموں کو تختہ دار پر چڑھادیاگیا اور جو باقی بچے ہیں انہیں بھی امروز و فردا میں پھانسی کے پھندے سے لٹکادیا جائے گا۔ ان کے پھانسی سے ہلاک ہونے والے معصوموں کی جانیں تو لوٹائی نہیں جاسکتیں مگر قاتل کے کیفر کردار پر پہنچنے پر یک گونہ اظمنان ضرور ہوگا۔
پاکستان میں پہلی بار جس موضوع پر بحث ہوئی ہے وہ ہے مدارس کے نظام میں اصلاحات کی۔مگر جماعت اسلامی اور چند دیگر اسلامی تنظیموں نے اس تجویز پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا مشورہ یہ ہے کہ مدارس میں اصلاحات میں مدارس کی انتظامہ ہی سے مدد لی جائے۔بہرحال، پاکستان میں مدارس کے تعلیم نظام میں اصلاحات پر بحث شروع ہوچکی ہے اور اس سمت پہل سے کچھ نہ کچھ تبدیلیاں ضرور آئیں گی۔یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان میں مدارس ہی دہشت گردوں اور خود کش بمباروں کی تربیت گاہیں ہیں۔ خاص طور پر افغان ۔ پاکستان سرحد پر جو مدارس ہیں ان میں افغان مہاجرین کے بچوں کو جبراً داخل کرایا جاتا ہے اور انہیں دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ان مدارس میں مسلکی منافرت اور نظریاتی دہشت گردی کو فروغ دیا جاتاہے ۔ نتیجے میں وہاں سے فارغ طلبہ اسلام کے نام پر مذہبی انتہا پسندی اور مسلکی منافرت کو بڑھا وا دیتے ہیں اور اسے ہی حقیقی اسلام سمجھتے ہیں۔قومی ایکشن پلان کیمٹی نے جس میں ملک کی سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے نمائندے شریک ہیں میڈیا میں دہشت گردوں کے مواد اور پیغامات کی ترسیل کی پابندی کی تجویز بھی پیش کی۔ یہ بھی طے ہوا کہ کسی بھی اخبار یا چینل میں دہشت گردوں کا کوئی بھی پیغام شائع یا نشر نہیں ہوگا۔ اس سے قبل طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیمیں اپنے مخالفین خصوصاً شیعہ فرقہ کے خلاف دھمکیاں علی الاعلان شائع کرواتے تھے۔ میڈیا میں دہشت گرد تنظیموں کی تعریف کرنا بھی جرم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی۔مذہبی تنظیموں کے عسکری ونگ کو بھی غیر قانونی قرار دینے کی تجویز رکھی گئی۔ ملک میں کئی مذہبی تنظیمیں ہیں جن کے متشدد دستے ہیں ۔ ان دستوں نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔مدرسوں کے رجسٹریشن کو لازمی قرار دینے اور مدرسوں کے نصاب میں تبدیلی کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے جو پاکستان میں مذہبی اور قانونی اصلاحات کی طرف اہم قدم ہے۔
چونکہ پاکستان میں دہشت گردی براہ راست مدرسوں سے نظریاتی طور پر جڑی ہے اس لئے اس کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اور نظریاتی سظح پر جنگ شروع کی جائے۔ اس کے لئے پاکستان کے مدرسوں میں اصلاحات ناگزیر ہیں اور اس طرف مثبت پہل کردی گئی ہے جس کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے ۔ان تجاویز میں یہ تجویز بھی اہم ہے کہ کسی کو بھی عوام میں کسی مسلک یا مذہب کے خلاف کھلے عام اشتعال انگیز بیان دینے کی اجاز ت نہیں دی جانی چاہئے۔فوجی سطح پر بھی دہشت گردی سے نپٹنے کے لئے وزیر اعظم اور دیگر وزراء کے مابین اجلاس ہوئے ہیں اور اگلے کچھ دنوں میں سیاسی اور فوجی نمائندوں کے درمیاں اس سلسلے میں ٹھو س پیش رفت ہونے کی امیدہے۔
امید ہے اگلے چند روز میں پاکستان میں کچھ تاریخ ساز قدم اٹھائے جائیں گے جو مستقبل کے پر امن پاکستان کی تشکیل میں معاون ثابت ہونگے۔ امید ہے کہ سینکڑوں بچوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/historic-reforms-pakistan-anvil-/d/100679